سید شہا ب الدین شاہ
تحریک پاکستان وہ تحریک تھی جسکی تائید میں بھر پور حصہ لینے والی دیگر ملحقہ مسلم ریاستیں بھی میدان میں اُتریں۔ جن میں ریاست ارکان بھی پیش پیش رہی جسکے عمائدین (اکثریتی مسلمان) قیام پاکستان کے جذبوں سے سرشار تھے۔ لیکن المیہ درالمیہ یہ رونما ہوگیا کہ نادیدہ قوتوں نے الحاق پاکستان کی دوڑ میں سے ریاست ارکان کو نکال باہر کردیا۔
یوں ریاست ارکان پربر ما کی بد ھسٹ حکومت قابض ہوگئی۔ اور آج ستر سال سے زائد مدت گزر نے کے باوجود ارکان کے روہنگیا مسلمان اپنی پوری نسل کی بربادی کا نوحہ خاموش لبوں پر سجائے بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے کے اس ریفیوجی کیمپ میں لاچار ترین زندگی نماموت سے نبردا ٓزماہیں۔ جہاں پوری قوم مقید ہے، ان کے نومولود بچے پیدائشی قیدی ہیں اوریہ وہ قیدی ہیں جنہیں بہتر علاج بہتر روزگار بہتر ذرائع آمدن اور بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کیلئے پاکستان میں موجود کشمیری وافغانی مہاجرین کی طرح ملک کے دور دراز علاقوں میں جانے یا کسی قسم کاروبار وغیرہ کوشش کی کرنے کی قطعاً اجازت نہیں بلکہ قانونا جرم ہے۔
یہ وہ قوم ہے جن کی باعفت ماؤ ں بہنوں کو ورغلا کر اغوا کرکے دوسرے ممالک میں بھیج کر مختلف قحبہ خانوں اور فحاشی کے اڈوں کی زینت بنانے کی گھناؤنی وار داتیں کی جارہی ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جن کے نا بالغ بچے کم وبیش پانچ لاکھ کی تعداد میں تاریک مستقبل کے دہا نے پر کھڑے ہیں۔ جن میں سے اسی فیصد بچے ایسی این جی اوز کے نرغے میں آچکے ہیں جو اسلام مخالف زہر یلی تعلیم دینے میں مصر وف ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو دلدل نماکچڑ میں لت پت، پینے کے صاف پانی، کھانے کے لیے مناسب کو خوراک اور رہنے کے لیے بانسوں سے بنے جھونپٹرے میں زندگی بسر کرنے تک کے لیے تر س رہی ہے۔
قارئین محترم! اس بات قطعی انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں مسلمان کئی مصائب ومشکلات سے دو چار ہیں، کشمیر، فلسطین، شام اور افغانستان جیسے ممالک کے اسلام پسند لوگوں کو گوناگوں مسائل در پیش ہیں۔ لیکن روہنگیا مسلمان جس کسمپرسی وبے چار گی کے صحرا میں مارے مارے پھر رہے ہیں اس کی مثال کرہ ارض پہ نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ UNOنے بھی روہنگیا قوم کو دنیا کی بد حال ترین قوم قرار دیا ہے۔ اس پر مستزاد وہ اطلاعات ہیں جن کے مطابق اب ان بے بس و مقہور مسلمانوں کی آخری متاع، ان کا ایمان بھی چھیننے کی کوششیں شروع کی جا چکی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق قادنی مربیوں کی ایک ٹیم اسلام کے نام پربا قاعدہ NGOکی شکل میں مہاجرین کے کیمپ میں کام شروع کر چکی ہے، جنہوں نے اپنی ارتدادی مساعی کا دائرہ درجنوں پناہ گزین خاندانوں تک وسیع کر رکھا ہے۔ منکرین ختم نبوت کا یہ گروہ تیزی کیساتھ اپنے نیٹ ورک کی توسیع میں مصروف ہے، جسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد بھی حاصل ہے۔
حضرات گرامی مختصراً ریاست ارکان بار ے چند حوالے درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ روہنگیا مسلمانوں کے بنیادی مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ میا نمار کا پرانا نام برما ہے۔ یہاں آنے والے عرب تاجروں نے اسلام متعار ف کرایا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں شاہ شجاع بنگال کا نگران تھا۔ اس نے اپنے بھائی کے خلاف بغاوت کی جونا کام ہوگئی۔بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ چٹاگانگ کے راستے سے برما کے علاقے ارکان میں روپوش ہوگیا۔ چٹاگانگ سے ارکان جانے والی ایک سٹر ک کو آج بھی شجاع روڈ کہا جاتا ہے۔
ارکان ریاست کے حکمران ساندہ ٹھودھا مانے شاہ شجاع سے وعدہ کیا کہ وہ اسے مکہ مکرمہ جانے کے لیے بحری جہازفراہم کریگا۔ لیکن اس نے اپنا وعدہ توڑ دیا اور شاہ شجاع کو لوٹ لیا۔ بعد ازاں اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فوج بھیج کر چٹا گانگ پر قبضہ کر لیا جو ارکان ریاست کا حصہ تھا، یوں چٹا گانگ کے راستے سے مغلوں اور بنگالیوں کی ارکان میں آمد ورفت شروع ہوگئی۔ 1857ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف آزادی کی مسلح جد و جہد کی ناکامی کے بعد آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگوں میں نظر بند کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے برما کو برٹش انڈیا کا حصہ بنا دیا او ر بڑی تعداد میں انڈینز کو برما میں لا کر بسایا گیا جنہیں برٹش انڈینز کہا جاتا تھا۔ 1937ء میں بر ما کو برٹش انڈیا سے علیحدہ کردیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے برما پر قبضہ کرلیا تو مقامی بد ھسٹوں نے جاپان کا ساتھ دیا۔ برطانوی فوج نے ارکان کے مسلمانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور انہوں نے جاپانی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ برطانوی حکومت نے ارکان کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے علاقے کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا جائے گا لیکن در حقیقت ان مسلمانوں کو جاپانی فوج کا راستہ روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ارکان کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ سے رابطہ قائم کیا اور شمالی ارکان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 1947ء میں ارکان مسلم لیگ کا ایک وفد محمد علی جناح سے ملا اور درخواست کی کہ ارکان کو پاکستان میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ارکان اور چٹاگانگ کے لوگوں کی زبان اور رہن سہن میں زیادہ فرق نہیں، لیکن بانی ٔ پاکستان نے ان کے ساتھ جھوٹا وعدہ نہ کیا۔ 1948ء میں برما کو بھی آزادی مل گئی۔ ارکان میں مسلمانو ں کے ایک گروپ نے اپنی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کردیا۔ جسکے باعث پاکستان اور برما میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ برما کی حکومت نے الزام لگا یا کہ ارکان کے باغی مسلمانوں نے چٹاگانگ میں اپنے تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ یہ مزاحمت کئی سال جاری رہی جو 1962ء میں برما میں فوجی حکومت قائم ہونے کے بعد ختم ہوئی۔ 1971ء میں بنگلہ دیش حکومت قائم ہونے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کا پاکستان سے رابطہ ختم ہوگیا۔ 1982میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ برما کی حکومت نے ان کی شہریت منسوخ کردی۔ سرکاری نوکریوں سے بھی نکال دیا اور تعلیمی اداروں کے دروازے بھی ان پر بند کر دئیے گئے۔ روہنگیا مسلمانوں نے برما سے بھاگنا شروع کردیا۔ تقریباً دو لاکھ مہاجرین پاکستان آگئے۔ 2012ء سے 2016ء کے عرصے میں روہنگیا مسلمانوں پر زیادہ سختی کی گئی توان کی یہ ہجرتیں بنگلہ دیش ، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا سمیت متعدد ممالک تک پھیل گئیں۔ روہنگیا کی اکثریتی تعداد مہاجربن چکی ہے۔ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ پاکستان میں یہ تأثر ہے کہ برما پرچین کے ذریعے دبا وڈالا جاسکتا ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ کشمیر سے مختلف ہے مگر فلسطین سے قدرے مماثلت رکھتا ہے۔ اہل کشمیر کو بھارت اپنا شہری بنانا چاہتا ہے اور وہ اس پر آمادہ نہیں اہل فلسطین کا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں اپنے ہی گھر سے بے د خل کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز آباد کاریوں پر اقوام متحدہ کی بہت سی قراد ادیں موجود ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کا بھی یہ مسئلہ ہے کہ انہیں اپنی ہی زمین پر اجنبی بنا دیا گیا۔ یہ عالمی قوتوں کی ذمہ داری تھی کہ بیسویں صدی کے اس المناک مسئلے پر تو جہ کرتیں جو ان کا اپنا تشکیل کردہ تھا، اور اقوام متحدہ کا فورم لوگوں کے حقوق کا دفاع کرتا،مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ مذکورہ المیے کے حوالے سے ان قوتوں کی بے حسی دور جدید کا بڑا اخلاقی المیہ ہے۔ یہ بات شک وشبہے سے بالاتر ہے کہ برما میں انسانی حقوق کی پامالی نہ صرف جاری ساری ہے بلکہ جاری رہنے کا امکان ہے، یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اقوام متحدہ وہاں 2007ء سے 2017ء تک ہونے والے دہشت ناک واقعات (جواب بھی جاری ہیں) کی روک تھام میں کامیاب کیوں نہیں رہا۔ بالخصوص رخائن اسٹیٹ جس ہولناک انسانی المیے سے دو چار ہے اس کی روک تھام کا عمل احتجاجی بیانات اور مذمتی قرارداوں تک ہی محدود ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ آئندہ ایسا عمل برداشت نہیں کیاجائیگا ۔ افسوس ناک امریہ ہے کہ اگلی بار پھر دنیا کے کسی اور گوشے میں اس سے بھی زیادہ سنگین واقعات جنم لے لیتے ہیں اور اقوام متحدہ کچھ بھی نہیں کرپاتی۔
درحقیقت روہنگیا مسلمان برما کی آبادی کا قلیل حصہ ہیں۔ جور خائن اسٹیٹ میں محدودہیں۔ 1982میں برما میں نئے قوانین کے نفاذ کے بعد روہنگیا مسلمانوں سے شہریت بھی چھین لی۔ اُنہیں سٹیزن شپ سے محر وم کر کے ’’سٹیٹ لیس‘‘ بے ریاست و بے وطن کردیا گیا، ان سے نقل و حمل کا حق بھی چھین لیاگیا، انہیں صحت وتعلیم جیسی سہولتوں سے محر وم کرکے سماجی خدمات تک رسائی روک دی گئی، اکثر جگہوں میں ان پر ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ 2014ء میں ہونے والی مردم شماری میں روہنگیا مسلمانوں کو شمار ہی نہیں کیاگیا۔اسی لیے 2015 ء کے انتخابات میں انہیں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کردیا۔ انہیں شادی کے لیے حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ جس کے بغیر وہ شادی بھی نہیں کر سکتے۔
روہنگیا مسلمانوں کو مناسب کھانا پینا تک دستیاب نہیں۔ انسانی درندوں کے ظلم کی آندھیوں کی زد پرانکی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی طاقت امریکہ نے انسانی حقوق کی پامالی کے نام پر کئی ممالک کے خلاف محاذ آرائی کی، لیکن میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم پر خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مغرب نے ہمیشہ اسلامی شناخت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اس بات میں بھی کوئی شک وشبے کی گنجائش نہیں ہے کہ بلوائی امریکہ کی شہ پر ہی مسلمانوں کو اپنی جارحیت اور بربریت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ کیا اگر یہی ظلم وستم برما میں یہودو ہنود پر ڈھایا جارہا ہوتا تو امریکہ خاموشی کامظا ہرہ کرتا؟ کیا صرف اظہار مذمت سے حالات کو کنٹرول میں کیا جاسکے گا۔
سولہو یں صدی سے آباد روہنگیا مسلمان جن کی کئی نسلیں یہیں پروان چڑھی ہیں انہیں شہریت سے محروم رکھنا کھلی زیادتی ہے۔ خطے میں قیام امن کیلئے برما میں انسانیت سوز اور ظالمانہ قوانین کو ختم کرکے شہریت کے حقوق کو بحال کرنا ہوگا۔ یہاں ضرورت اب اس امرکی ہے کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے برما کوسلامتی کونسل کے ذریعے مجبور کرے کہ وہ روہنگیا کی نسل کشی سے باز آئے۔روہنگیا مسلمانوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اسلامی ممالک کو بھی چاہیے کہ ان کے تحفظ اور حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے خاموشی توڑتے ہوئے ایک مؤثر اور فعال کردار ادا کریں۔
اقوام متحدہ کی عموماً اور برما کے تمام پڑوسی ممالک کی خصوصاً یہ اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ روہنگیا مہاجرین کو پناہ گزین کے طورپر قبول کریں۔ انہیں عزت کے ساتھ رہنے سہنے، تعلیم ،کاروبار اور علاج معالجہ کی بھر پور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنا کوئی درست اقدام نہیں۔ نصف صدی قبل 4ملین آبادی قتل عام اور دباؤ کی پالیسوں سے تقر یباً ایک تہائی تک رہ گئی ہے۔ برمی فوج کی جارحیت کے شکار روہنگیامسلمان اپنے ہی ملک میں پناہ کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ جن کے اس وقت پانچ لاکھ آٹھ سے بارہ سال تک کے بچے بچیاں تاریک مستقبل کاشکار ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں مختلف NGOتعلیم وخوراک نام لے کر اپنے اسباب و وسائل کے ذخائر کی مدد سے انہیں اسلام کا باغی بنانے پر مصر وف عمل ہیں۔
علماء کرام اور اعاظم مشائخ کے اعتماد یافتہ اور مستند ادارے خالد بن ولیدٹرسٹ، ارکان کے بینر تلے کم وبیش تریسٹھ ہزار بچے زیر کفالت ہیں جنکی اسلامی ودنیاوی تعلیم خوراک وغیرہ کا انتظام کرنے میں یہ ٹرسٹ کوشاں ہے۔
قارئین محترم! ماہ رمضان میں روہنگیا مہاجرین کے ریفیوجی کیمپس میں ہمیشہ کی طرح اس سال بھی مہاجرین کی سحری وافطاری کے وسیع انتظام کی تیاری شروع ہے۔ لہٰذا صاحب خیر حضرات کے لیے موقع ہے کہ وہ اس عظیم کار خیر کا حصہ بنیں۔ ٹرسٹ کے صدر مولانا عبدالقدوس برمی کے ساتھ اس نمبر پہ رابطہ کیا جا سکتا ہے: 0336-7048241