سجاد ضیغم
ایک عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے خور ردبینی جاندار کرونا وائرس نے پوری دنیا کو خوف وخطرے میں مبتلا کر کے اپنے گھیرے میں جکڑا ہوا ہے۔ کرۂ ارض پر زندگی تھم سی گئی ہے۔ کاروبار، ادار ے، مہمات کیا انسان کا چلنا پھرنا اور ضروری امور کو نمٹانا بھی مسدود ومحال ہوگیا ہے۔ انسان کی بے پناہ مادی ترقی اور سائنس وٹیکنالوجی میں اوجِ کمال کے باجود کرونا وائرس نے انسان کو بے بس وبے کس بنایا ہوا ہے۔
گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگوں، یورپ کی ۱۹۲۹ء کی شدید معاشی کساد بازاری اور دیگر انقلابات عالم سے کرونا کے خطرات کو زیادہ سنگین اور خوفناک قرار دیا جارہا ہے۔ اس نے انسانیت کی بقاء کو معرض خطر کر دیا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات سے زندگی اور زمین کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں ۔ہر جگہ اور ہر ملک میں کرونا کے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں گویا۔
قضا کا جبر شکستہ پروں پہ آپہنچا
عذابِ دربدری بے گھروں پہ آپہنچا
ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آپہنچا
ان حالات میں کہ بڑی معاشی طاقتیں اور دنیا میں صحت کا بہترین نظام رکھنے والے ممالک کورنا کے سامنے ڈھیر ہوچکے ہیں۔ امریکہ ہویا یورپ یہ ترقی یافتہ ممالک سے قابو نہیں ہورہا ۔ پوری دنیا کا نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے۔ یورپ کے ایوانوں میں گونجتی اذانیں، چین وامریکہ میں ہونے والی دعائیہ تقریبات اور دیگر ممالک میں خالق کائنات، مالک ارض وسماو ات کے حضور بلند ہونے والی مناجات، انسانی زندگی اور اس کی بقا کو لاحق خدشات وخطرات کاثبوت اور زندگی کی ناپائیداری وبے ثباتی کا اظہار ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
تاریخ عالم کے صفحات اس امر کی دلالت کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی مختلف ادوار میں انسانوں کو مختلف وباؤں بیماریوں اور تباہ کاریوں کا سامنا رہا مگر موجودہ دور اور ماضی کی ان وباؤں کا فرق یہ ہے کہ اب انسان نے اپنی ساری امیدیں سائنسی ترقی سے ہی وابستہ کر رکھی تھیں اس لیے حسرت ویا سیت کے گہرے سایوں نے انسان کو اپنے شکنجے میں کساہوا ہے دنیا بھر میں خوف وبے یقینی کی فضا طاری ہے۔
اس وقت کرونا وائرس کے حوالے سے دنیا میں تین بڑی سازشی تھیوریز گردش کر رہی ہیں۔ ایک میں اسرائیل پر، دوسری میں امریکہ وبرطانیہ پر اور تیسری میں چین پر کرونا وائرس کے جینوم کو لیبارٹری میں تیار کرکے دنیا بھر میں پھیلانے کا الزام ہے ۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ خوب کیا ہے، زشت کیا ہے، اس جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے!
اس وقت مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر کرونا کے حوالے سے معلومات کا انبار سامنے آیا ہوا ہے۔ ہر لمحہ کرونا کی خبریں، حفاظتی تدابیر کے شعور کی اطلاعات اور اس حوالے سے عالمی وملکی صورت حال کے بارے میں تبصروں، تجزیوں، تحقیقاتی رپورٹوں اور بے بنیاد افواہوں کی بھر مارہے۔ ہر تیسرا بندہ جسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ وائرس کیا ہوتا ہے اور یہ اپنا لائف سائیکل کس طرح مکمل کرتا ہے؟ وہ بھی کرونا کے بارے میں معلومات کا اظہار کرتا پھر تا ہے۔ بقول افتخار عارف:
امید وبیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذراسی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ ودشت و دریا میں
اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
مسلمان ہونے کے ناتے، اور خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ہونے کے ناتے، ہمیں زندگی و موت اور امور جہاں بینی وجہاں بانی کے مسائل میں امریکہ ویورپ کی اندھی نقالی کی بجائے اپنے گھروں کو پلٹ کر دیکھتے ہوئے قرآن حکیم اور سیرت طیبہ سے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔
انگریز کی ڈیڑھ سو سالہ غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم مغرب سے آنے والی ہر بات، جس پر مسٹر ڈیوڈ، مسٹر ر چرڈ، مسٹررابرٹ کانام لکھا ہوا ہے اسے استثناء کے اعلیٰ درجے پر رکھتے ہیں اورالعیا ذ باﷲ کچھ مسلمان توا پنی جہالت کی بدولت اسے عملی طور پر قرآن وسنت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ حالانکہ ہماری ان سے صرف سوچ اپروچ کا فرق نہیں بلکہ طرز زندگی، منہج ومقصود زندگی میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے بقول میر
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
یہ خوف وہر اس پھیلانے یا دہشت ز دہ ہونے کا وقت نہیں۔ ہمیں اس وباء کا علم وشعور اور ایمان و ایقان سے مقابلہ کرنا ہے۔
دنیا بھر کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق کرونا وائرس سے شرح اموت ۲سے ۳فیصد ہے یعنی متاثر ہونے والے ۱۰۰مریضوں میں سے ۹۷مکمل صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ یوں اسے قدرت کا معجزہ قرار دیں یا امت محمد یہ پر خاص رحم وکرم کہ۹۷فیصد متاثرہ مریض بغیرکسی کرونا ویکسین کے مکمل صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کی ریکوری یاصحت یابی کے پیچھے کونسی طبی وجوہ یا میڈیکل ریزننگ ہے اس کا جواب طبی ماہرین کی آراء کے مطابق قوت مدافعت یا امیونٹی ہے۔ قوت مدافعت کو بہتر رکھنے کے لیے آپ کو اینٹی جن اور اینٹی باڈیز کی خالص بیالوجیکل اصطلاحات کی باریکیوں اور گہرائیوں میں لے جانے کی بجائے سردست اتنی گزارش ہے کہ اچھی غذا اور اچھے ماحول سے آپ اپنی قوت مدافعت بہتر رکھیں۔ پریشان ہونے، ٹینشن یا ڈپر یشن کا شکار ہونے سے قوت مدافعت کے کمزرو ہونے اور آپ کے مختلف بیماریوں کا ترنوالہ بننے کے امکات بڑھ جاتے ہیں۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کرونا سے بچاؤ کے لیے مستند ماہرین کی آراء کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ اپنی قوت مدافعت کسی صورت کم نہ ہونے دیں۔ خوفزدہ ہونے کی بجائے علم وتدبر، روشنی و آگہی سے اس وباء کا مقابلہ کریں۔ اسلامی تعلیمات کو حرز جاں بنائیں ۔مغربی سائنس آپ کو آج ہاتھ باربار دھونے کی تلقین کررہی ہے۔ اسلام نے تو روز اول سے طہارت و صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔
گردوپیش کی خبروں سے اعصاب وقویٰ کو مضمحل کرنے کی بجائے حریم دل میں اسلام کے آفاقی اصولوں کے چراغ روشن کرکے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ معاشرے کے محروم، بے نوا وبے کس اور ان حالات میں کاروبار زندگی سے معطل لوگوں کی مدد کر کے و با کے دنوں میں خدمت خلق سے نصرت خداوندی حاصل کریں۔
لعنت کرنا برا عمل
’’حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک لعنت کرنے والے نہ گواہ ہوں گے، نہ شفاعت کرنے والے ہوں گے قیامت کے دن۔‘‘ (صحیح مسلم )
بد گمانی سے بچنا چاہیے
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بد گمانی سے بچو اس لیے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)