مرتب: حافظ شمس الدین
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قالَ قالَ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: کلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشَرِ اَمْثَالِھَا اِلَی سَبْعِ مِأَۃِ ضِعْفٍ قال اﷲ تعالیٰ إلّا الصَّومُ، فَاِنَّہُ لِیْ اَنَا اُجْزیٰ بِہِ، یَدَعُ شَھْوَتَہُ وَطَعَامَہُ مِنْ اَجْلِیْ لِصَائِمٍ فَرْحَتَانِِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہِ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقآءِ رَبِّہِ۔ متفق علیہ۔
حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ آدم کی اولاد کے ہرعمل کا ثواب بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ ایک نیکی کا دس گنا ثواب، یہاں تک کہ ایک نیکی کا بعض اوقات سات سوگنا تک بڑھا کر بھی دیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ روزہ کے سوا۔ کہ بے شک وہ میرے ہی لیے رکھا جاتا ہے اور میں خود ہی اسکا بدلہ یعنی جزاء ہوں۔ روزہ دار اپنی خواہش نفسانی اور اپنا کھانا میرے لیے ہی چھوڑ تا ہے۔ روزہ دار کے لیے دوخوشیاں ہیں ایک روزہ افطار کرنے کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملاقات کرنے کے وقت۔
اﷲ تعالیٰ کے دربار میں روزہ دار کی عزت:
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال، قال رسول اﷲ صلی علیہ وسلم: لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ۔ متفق علیہ۔ حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ کہ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ خوشبو دار ہے۔
روزہ انسان کو انتہادرجہ کا شریف بنادیتا ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال، قال رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: والصیام جُنَّۃٌ، وَاِذَا کَانَ یَوْمَ صَوْمِ اَحَدِ کُمْ فَلا یَرْفُثْ ولا یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہُ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہُ فَلْیَقُلْ اِنِّی امْرُؤٌ صَائِمٌ۔ متفق علیہ
حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔ اور جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تب عورتوں سے میل جول کی باتیں نہ کرے اور نہ شور مچائے۔ پس اگر اسے کوئی گالی بھی دے یا اس سے لڑنے کے لیے آئے تو مقابلہ نہ کرے بلکہ اتنا کہہ دے: بے شک میں تو روزہ دار آدمی ہوں۔( یعنی روزہ کے سبب سے میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ اس سے بڑھ کر اور شرافت کا درجہ کونسا ہے کہ دشمن کو گالی نہ دے اور نہ اس سے لڑے اور اس سے صاف کہہ دے کہ میں اپنے روزے کی عظمت قائم رکھنے کے لیے تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔)
روزہ کی صورت میں خرابی:
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ (رواہ البخاری)
حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے جھوٹی باتیں نہیں چھوڑیں اور جھوٹ پرعمل کرنا نہیں چھوڑا تو اﷲ تعالیٰ کو ایسے شخص کی کوئی پرواہ نہیں ہے، کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے یا نہ چھوڑے۔
نقصان :
دیکھیے یا تو روزہ دار کی وہ عزت تھی کہ روزہ دار کو روزہ کی برکت کے باعث اﷲ تعالیٰ اپنی بیش بہا رحمتوں سے معمور فرما رہے تھے آسماں پر اس کا تذکرہ کیا جا رہا تھا۔ اور کہاں یہ ذلت کہ روزہ دار کا روزہ ہی قبول نہیں مزید وضاحت کے لیے دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔
پہلی مثال:
ماں کو بچہ بڑا پیارا ہوتا ہے۔ محبت کے باعث ماں بچے کا منہ چومتی ہے اور اگر کہا نہ مانے اور ضد کرے تو وہی ماں منہ پر ایسا تھپڑ مارتی ہے کہ ساری عمر بچے کو وہ تھپڑ یاد رہتا ہے۔
دوسری مثال:
بادشاہ کو نظام مملکت کے چلانے میں جو وزیر اور مشیروفاداری کا پورا حق اداء کرتے ہیں اور دست راست ہوتے ہیں، ان کے عہدے بڑھاتا ہے اور ان کی تنخواہوں اور الاؤ نسوں میں ترقی دیتا جاتا ہے اور اگر انہی میں سے کوئی باغی ہوجائے تو اُسے پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیتا ہے۔
بعینہ یہی حالت روزہ دار کی ہے۔ اگر حکم الٰہی کی تعمیل کرے تو روزہ دار کے منہ کی بو کستوری سے زیادہ بارگاہ الٰہی میں قیمتی ہے اور اگر وہی انسان رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے سوا روزے رکھنے چھوڑ دے تو پھر خواہ امیر ہویا وزیر یا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو تو گناہ کبیرہ کا مجر م قرار دیا جاتا ہے۔گناہ کبیر کا مرتکب اگر توبہ کیے بغیر دنیا سے جائے تو اس کا ٹھکانا دوزخ ہوتا ہے۔ اس فیصلہ کی تائید ملاحظہ ہو۔
اَمْ حَسِبَ الّٰذِیْنَ اجْتَرَ حُواالسَِّیَٔاتِ اَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالّٰذِیْنَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الضّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْیَاہُمْ وَ مَمَا تُہُم،سَاَءَ مَاَیَحْکُمُونَ (سورۃ الجاثیہ رکوع ۲ پارہ ۲۵۔ آیت ۲۰)
کیا گناہ کرنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم ان کو ایمان داروں نیک کام کرنے والوں کے برابر کردیں گے اُنکا جینا اور مرنا برابر ہے۔ وہ بہت ہی بُرا فیصلہ کرتے ہیں ۔
کسی نیک عمل کے قبول نہ ہونے کا دوسرا سبب:
۱۔ باطن میں خرابی کا پیدا ہونا۔
۲۔ باطن کی خرابی میں سب سے بڑا سبب اخلاص کا نہ ہونا ہے۔ ہر عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص کے شرط ہونے کی اعلانات ملاحظہ ہوں۔
(۱) اِنَّا اَنْزَلْنَا اَلیْکَ اْلکِتٰبَ بِالْحَقَّ فَاعْبُدِاللّٰہَ مُخْلِصًالَہُ الدِّیْن (سورۃ الزمر)
بے شک ہم نے یہ کتاب ٹھیک طور پر آپ کی طرف نازل کی ہے پس آپ خالص اﷲ ہی کی فرمانبرداری مد نظر رکھ کر اُسی کی عبادت کریں۔
(۲) اَلَالَلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصْ( سورۃ الزمر)
خبردار خالص فرماں برداری اﷲ ہی کے لیے ہے۔
(۳) قُلِْ انیِّ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰہ مُخْلِصًالَہ اُلدِّیْن (سورۃ الزمر)
کہہ دو مجھے حکم ہوا کہ میں اﷲ کی اس طرح عبادت کروں کہ عبادت کو اس کے لیے خاص رکھوں۔
تینوں اعلانات کا حاصل:
تینوں اعلانات کا حاصل یہ ہے کہ نیکی کا جو کام بھی کیا جائے اسکے متعلق دل میں فقط اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا مقصود ہو اور ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کے سوا دنیا بھر میں کسی انسان کی رضا ہرگز مطلوب نہ ہو اگر اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی رضا بھی دل میں مطلوب ہو تو یہی کہا جائے گا کہ اس شخص کی نیت میں شرک موجود ہے شرک کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جو کام فقط اﷲ جل شانہ ہی کے لیے ہونا چاہیے تھا اس میں کسی دوسرے کی رضا بھی شامل کرلی جائے۔ جس کام میں غیر کو بھی شریک کرلیا جائے اس کے بارہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کافرمان ملاحظہ۔
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: قالَ اللّٰہُ تَعالیٰ اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ۔ مَنْ عَمِلَ عَمَلاً اَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیْ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وُ شِرْکَہُ۔ وفی روایۃ: اَنَا مِنْہُ بَرِیءٌ۔ ہُوَ لِلَّذِیْ عَمِلَہُ۔ ( رواہ مسلم)
حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے۔ میں حصہ لینے سے سب حصہ داروں سے بڑا بے پروا ہوں۔ جس شخص نے کوئی کام کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو بھی شریک کیا میں اس کام کرنے والے کو بھی چھوڑ دیتا ہوں اور اس کام کے حصہ کو بھی چھوڑ دیتا ہوں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ میں اس سے بیزار ہوجاتا ہوں۔ اور وہ کام کرنے والا اُسی کے لیے ہوجاتا ہے جس کے لیے اس نے کام کیاتھا۔ ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ تو اس عمل کو قبول نہیں فرماتے ہاں اس دوسرے شخص کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے سوا جس شخص کا دکھلاوا کام کرنے والے کو مقصود تھا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں خلوص نیت عطاء فرمائیں۔ اور ہمارے ناقص اعمال کو محض اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائیں آمین۔