تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نور العیون فی تلخیص سیرۃ الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم قسط: ۶

علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ مترجم: ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
حضرت عمرو بن امیہ رضی اﷲ عنہ، آپ شاہِ حبشہ نجاشی کے پاس آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط مبارک لے کر گئے(۱) ۔ نجاشی کا نام اصحمہ تھا، یعنی عطیہ (۲)۔ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک خط کو سر آنکھوں پر رکھا، تخت سے اترے اور اسلام قبول کر لیا۔ وہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں فوت ہوئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی(۳) ۔
حضرت دحیہ بن خلیفہ الکلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، آپ قیصر شاہ روم کی طرف گئے، (۴) اس کا نام ہرقل تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احوال معلوم کرنے پر اسے یقین ہو گیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سچے نبی ہیں۔ اس نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا لیکن رومی سرداروں نے اس کی موافقت نہ کی، جس پر وہ اپنی حکومت جانے کے ڈر سے قبولِ اسلام سے محروم رہا۔ (۵)
حضرت عبداﷲ بن حذافہ السہمی رضی اﷲ عنہ، آپ شاہِ فارس کسریٰ ملعون کی طرف گئے، (۶) اس بدبخت نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط مبارک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔‘‘ (۷)
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اﷲ عنہ، آپ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیغام لے کر (شاہِ مصر) مقوقس کی طرف گئے۔ (۸) وہ اسلام لانے کے قریب ہوا (لیکن مسلمان نہ ہوا)۔ اس نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے دو باندیاں حضرت ماریہ اور شیرین رضی اﷲ عنہما اور دلدل نامی سفید خچر ہدیہ کیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ خز کے پیس کپڑے اور ہزار دینار بھی ہدیہ میں بھیجے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ، آپ عمان کے شاہان: جیفر اور عبد، پسران الجلندیٰ کے پاس گئے، وہ دونوں بھائی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ انھوں نے صدقات کی وصولی اور عہدۂ قضا حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کو سونپ دیا۔ وہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے تک وہیں رہے۔
حضرت سلیط بن عمرو العامری رضی اﷲ عنہ، آپ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط لے کر والی یمامہ ہوذہ بن علی کی طرف گئے۔ (۹) اس نے ان کا اکرام کیا اور نبی اکرم صلی اﷲ کے خط مبارک کے جواب میں لکھا: ’’کیا ہی اچھی ہے وہ چیز جس کی طرف آپ بلاتے ہیں۔ میں اپنی قوم کا خطیب اور شاعر ہوں، آپ کچھ اختیار میرے سپرد کر دیجیے۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس درخواست کو رد فرما دیا اور ہوذہ نے اسلام قبول نہ کیا۔
حضرت شجاع بن وہب الاسدی رضی اﷲ عنہ، یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط مبارک لے کر بلقاء کے حاکم الحارث بن ابی شمر الغسانی کے پاس ملک شام گئے۔ (۱۰) اس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خط مبارک کو پھینک دیا اور کہا کہ میں ان سے مقابلہ کے لیے جاتا ہوں۔ لیکن شاہ روم قیصر نے اس کو روک دیا۔
حضرت المہاجر بن ابی امیہ المخزومی رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط مبارک لے کر شاہ یمن الحارث الحمیری کی طرف گئے۔ (۱۱)
حضرت العلاء بن الحضرمی رضی اﷲ عنہ، شاہ بحرین المنذر بن ساویٰ (۱۲)کی طرف نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیغام لے کر گئے، انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (۱۳)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ الاشعری اور حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہما کو یمن کی طرف بھیجا، ان حضرت کی تبلیغ کی برکت سے اہل یمن اور ان کے بادشاہ کسی جنگ و جدل کے بغیر ہی مسلمان ہو گئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کُتّاب (کاتبوں) کا بیان:
ان حضرات کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتبوں میں شمولیت کا شرف حاصل ہوا۔
خلفائے اربعہ (حضرت ابوبکر صدیق، عمر بن الخطاب، عثمان غنی اور علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم)
حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ عنہ (۱۴)
حضرت عبداﷲ بن الارقم رضی اﷲ عنہ (۱۵)
حضرت اُبی بن کعب رضی اﷲ عنہ (۱۶)
حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اﷲ عنہ (۱۷)
حضرت خالد بن سعید رضی اﷲ عنہ (۱۸)
حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اﷲ عنہ (۱۹)
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ (۲۰)
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ (۲۱)
اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ عنہ (۲۲)
مجرموں کی سزائے موت پر عمل در آمد کرنے والوں کا بیان:
حضرت علی المرتـضیٰ رضی اﷲ عنہ
حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ (۲۳)
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ (۲۴)
حضرت عاصم بن ثابت بن ابی الاقلح رضی اﷲ عنہ (۲۵)
اور حضرت مقداد رضی اﷲ عنہ (۲۶)
یہ حضرات نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور مجرموں کی گردنیں مارا کرتے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے برگزیدہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کا بیان:
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نجباء صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی، حضرت حمزہ، حضرت جعفر، حضرت ابوذر، حضرت المقداد، حضرت سلمان، حضرت حذیفہ، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عمار اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہم شامل ہیں۔
عشرہ مبشرہ کا بیان:
وہ دس صحابہ رضی اﷲ عنہم جن کو دنیا میں جنت کی بشارت ملی، وہ یہ ہیں:
خلفاءِ اربعہ (حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت عثمان ذی النورین، حضرت علی)، الزبیر بن العوام، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمن بن عوف، طلحہ بن عبید اﷲ، سعید بن ابو زید، ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اﷲ عنہم۔ (۲۷)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سواریوں اور جانوروں کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس دس گھوڑے تھے (ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں) وہ یہ ہیں:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک گھوڑا’’السکب‘‘‘ ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد میں اس پر سواری فرمائی۔ اس گھوڑے کی پیشانی سفید تھی۔ اس کی تین ٹانگیں سفید اور دائیں ٹانگ بدن کے ہم رنگ تھی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’المرتجز‘‘ ہے، یہ وہی گھوڑا ہے جس کے لیے حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اﷲ عنہ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں شہادت دی تھی (۲۸)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’لزاز‘‘ ہے، یہ گھوڑا مقوقس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’اللحیف‘‘ ہے۔ یہ گھوڑا حضرت ربیعہ بن ابی البراء (۲۹) رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدیہ کیا تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’الظرب‘‘ ہے۔ (۳۰) یہ گھوڑا فروہ الجذامی رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ (۳۱)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’الورد‘‘ ہے۔ یہ گھوڑا حضرت تمیم الداری رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدیہ کیا تھا۔ (۳۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کانام ’’الضرس‘‘ اور ایک گھوڑے کا نام ’’ملاوح‘‘ ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’سبحہ‘‘ ہے۔ اس نے ایک مقابلہ میں سبقت حاصل کی تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک گھوڑے کا نام ’’البحر‘‘ ہے۔ یہ گھوڑا آپ صلی اﷲ علیہ نے یمن کے تاجروں سے خریدا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر سوار ہو کر ۳ بار گھڑ دوڑ میں سبقت حاصل کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے منہ پر پھیرا اور فرمایا:
’’یہ تو دریا کے پانی جیسا سبک رفتار ہے‘‘۔ (۳۳)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تین خچر تھے:
ایک کا نام ’’الدلدل‘‘ ہے، یہ وہ خچر ہے جو مقوقس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا۔ اسلام میں یہ پہلا خچر ہے جس پر سواری کی گئی۔
ایک کا نام ’’فضہ‘‘ ہے، یہ وہ خچر ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدیہ کیا تھا۔
ایک خچر کا نام ’’الایلیہ‘‘ ہے، یہ خچر شاہ ایلہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ’’یعفور‘‘ نامی ایک گدھا بھی تھا۔
ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہو کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کوئی گائے یا بھینس رہی ہو۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی غابہ (۳۴) نامی مقام پر دودھ دینے والی بیس اونٹنیاں تھیں۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہ نے بنی عقیل کے جانوروں میں سے ایک اونٹنی ہدیتاً آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجی تھی۔ (۳۵)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک ’’قصواء‘‘ نامی اونٹنی بھی تھی، یہ وہ اونٹنی ہے جس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی۔ اس اونٹنی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ نزول وحی کے وقت صرف یہی ایک اونٹنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اٹھا سکتی تھی۔
ایک قول کے مطابق مذکورہ اونٹنی ’’العضباء‘‘ تھی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک اونٹنی کا نام ’’الجدعاء‘‘ ہے، یہ وہی اونٹنی ہے جو مقابلہ میں پیچھے رہ گئی تھی۔ یہ بات مسلمانوں کو ناگوار گزری تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک اﷲ پر یہ حق ہے کہ دنیا میں جس چیز کو بلند فرماتے ہیں، اسے نیچا بھی کرتے ہیں‘‘۔ (۳۶)
ایک قول یہ بھی ہے کہ پیچھے رہ جانے والی اونٹنی کوئی اور تھی۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سو کے قریب بھیڑ بکریاں تھیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک ’’غیثہ‘‘ نامی بکری تھی، جس کا دودھ صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے مختص تھا۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک سفید مرغ تھا۔
حواشی
(۱)۔ المصباح المضی فی کُتّاب النبی الاُمی صلی اﷲ علیہ وسلم، ابن حدیدہ الانصاری، ص:۱۴۳، ۱۴۴(۲)۔ عربی زبان میں اصحمہ کا مطلب عطیہ ہے۔(۳)۔صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۲۴۵، صحیح مسلم ، حدیث نمبر ۹۵۱، سنن ابی داؤد، حدیث نمبر ۳۲۰۴ (۴)۔المصباح المضی ، ابن حدیدہ الانصاری، ص: ۱۳۱ ،۱۳۲(۵)۔صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۷۷۳ (۶)۔ المصباح المضی ، ابن حدیدہ الانصاری، ص: ۱۳۷ ،۱۳۸(۷)۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر ۶۴ (۸)۔ المصباح المضی، ابن حدیدہ الانصاری، ص: ۱۲۶، ۱۲۷ (۹)۔ ایضاً ص: ۱۳۳ (۱۰)۔ ایضاً ص: ۱۳۳، ۱۳۴ (۱۱)۔ ایضاً ص: ۱۵۶(۱۲)۔ اُسد الغابہ ، ابن الاثیر: ۱۹۴/۴(۱۳)۔المصباح المضی، ابن حدیدہ الانصاری، ص:۱۴۲(۱۴)۔ ایضاً، ص: ۸۷، ۸۸(۱۵)۔ ایضاً، ص: ۸۹(۱۶)۔ ایضاً، ص: ۴۴، ۴۵(۱۷)۔ ایضاً، ص: ۵۰، ۵۱(۱۸)۔ ایضاً، ص: ۵۸(۱۹)۔ ایضاً، ص: ۵۳(۲۰)۔ ایضاً، ص: ۶۰، ۶۱ (۲۱)۔ ایضاً، ص: ۱۰۶۔۱۱۵(۲۲)۔ ایضاً، ص: ۶۸،۶۹(۲۳)۔ اُسد الغابہ، ابن الاثیر: ۲۰۹/۲۔۲۱۲ (۲۴)۔ ایضاً، ۸۳/۴،۸۴ (۲۵)۔ ایضاً، ۵۰۶/۲، ۵۰۷(۲۶)۔ ایضاً، ۱۸۴/۴ (۲۷)۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر ۳۷۴۷ (۲۸)۔ اُسد الغابہ، ابن الاثیر: ۱۱۹/۲۔ ۲۰ (۲۹)۔ الاصابہ ، ابن حجر العسقلانی، ۵۷۷/۱۔ ۵۷۸ (۳۰)۔ کتاب ترکۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم والسبل التی وجہہا فیہا، حماد بن اسحاق بن اسماعیل کے ص نمبر ۷ ۹ پر اس گھوڑے کا نام ’’الطرب‘‘ ذکر کیا گیا ہے۔ (۳۱)۔ اُسد الغابہ، ابن الاثیر: ۲۴۷/۱۔ ۲۴۸ (۳۲)۔ ایضاً ۳۳)۔ صحیح بخاری، حدیث نمبر ۲۸۲۰، صحیح مسلم، حدیث نمبر ۳۲۰۷، سنن ترمذی، حدیث نمبر ۱۶۸۵ (۳۴)۔ غابہ: عوالی مدینہ کا ایک مقام جو اُحد پہاڑ کی پشت پر واقع ہے۔ (۳۵)۔ اُسد الغابہ، ابن الاثیر: ۲۹۹/۲۔ ۳۰۱ (۳۶)۔ صحیح بخاری، حدیث: ۲۸۷۲، سنن دار قطنی، حدیث: ۴۷۸۲

تصحیح
’’نقیب ختم نبوت‘‘ کے گزشتہ ماہ (مارچ) کے شمارے میں صفحہ نمبر 16 پر سطر نمبر 13 کی عبارت کو اس طرح ’’آپ رضی اﷲ عنہا کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا‘‘ پڑھا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.