مرتب: ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
تقدیم
مجلس احرارِ اسلام پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے آغازِ زندگی سے اب تک ہمیشہ اپنے اصول و مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر دینی و قومی فتنہ اور ملکی و سیاسی خطرہ کے وقت ملت کو بیدار کیا اور ہر آفت و مصیبت میں قوم کی حمایت و خدمت کے لیے میدانِ عمل میں سب سے پہلے قدم رکھا۔ چنانچہ بارہا اس اخلاص و ایثار کا یہ نتیجہ دیکھا گیا کہ جو لوگ سچائی کے ساتھ احرار سے اختلاف رکھتے تھے، وہ جماعت کے قول و عمل میں پوری مطابقت دیکھ کر اس کے متعلق اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے اور ذہناً قریب تر ہو گئے۔ حتیٰ کہ کئی دفعہ کام کی شدت و اہمیت اور احرار کی ہمت و جرأت دیکھ کر جماعت کے ساتھ عملی تعاون تک کے لیے آمادہ ہو گئے اور یوں احساس و اعتراف کے بعد سب سے مشکل مرحلہ یعنی ’’اعلان و امدادِ حق‘‘ کی منزل سے بھی گزر جانے کی سعادت انھیں حاصل ہو گئی۔ لیکن یہ سعادت بزروِ بازو حاصل نہیں ہوتی بلکہ محض توفیقِ الٰہی سے ہی ہدایت کے دروازے کسی خوش بخت پر کھلا کرتے ہیں۔
جماعتی تاریخ کے مختلف مراحل میں چشم دید اور برسر گزشتہ حالات کی جو نقشہ کشی ہمارے قارئین قریباً ڈیڑھ سال سے مختلف جماعتی مطبوعات میں مسلسل ملاحظہ کر رہے ہیں۔ اُس سے مذکورۂ بالا حقیقت بالکل الم نشرح ہوتی چلی آ رہی ہے۔
زیرِ نظر رُوداد میں (۱۹۴۴ء) مضافاتِ دہلی کے مشہور قصبہ ’’فرخ نگر‘‘ کی ایک بیوہ نو مسلمہ لڑکی مسماۃ نور بی بی (سابقہ ’سُرتی‘)کے اسلام قبول کرنے اور ایک مزدور پیشہ مسلمان ’’نور محمد‘‘ عرف ’’منا‘‘ کے ساتھ اس کے نکاح کا واقعہ مذکور ہے، جو قدرتی طور پر ہندوؤں کے لیے وجہِ نفرت و اشتعال بن گیا۔ انھوں نے اپنی بے شمار قسم کی معاشرتی، رفاہی، مذہبی اور سیاسی تنظیمات کے ذریعہ تار ہلایا۔ علاقہ بھر میں آ گ لگ گئی۔ فرخ نگر کے مسلمان کثرت آبادی کے نشہ میں چُور اور قوت و وسائل پر مغرور، منظم ہندؤں کی سازش اور سوچ سمجھ کر ان کے برپا کیے ہوئے فسادات کا شکار ہو کر کئی بے گناہ شہید اور بہت سے مجروح ہو گئے، مسلمان کسی بھی طرح مظلوم و شکستہ ہوں، امریکہ برطانیہ سے لے کر روس اور چین تک، تمام کفار و مشرکین اور اعداءِ اسلام کے لیے بہرحال یہ چیز خوشی کا باعث اور وجہِ سکون ہوتی ہے۔ ہندوستان کی انگریزی حکومت دوسری جنگِ عظیم کے حسبِ مطلب خاتمہ کے بعد ان دنوں تحریکِ آزادی کی شدت و وسعت اور قوت کا جائزہ لے رہی تھی اور قریباً پونے دو سال بعد دو قومی نظریہ کے مطابق اپنی نگرانی میں ملک گیر فیصلہ کن اور آخری انتخابات منعقد کرا کے انتقال اختیارات کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جس میں مسلمانوں کے ساتھ ازلی و ابدی دشمنی کی قدر مشترک کی بنا پر ملک کی دو گونہ ہندو اکثریت کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ابتدائی رپورٹ بازی ہوئی، مزید تحقیق کے بعد سازشی اور مفسد ہندو سرغنوں کے خلاف مبنی بر انصاف باضابطہ قانونی کارروائی کا جھانسا دے کر اشتعال دبا دیا گیا اور مظلوم کی چیخ و پکار ظالم کی قوت و سرکشی کے شور و غوغا میں اڑا دی گئی۔ نو مسلمہ کو ہندو اغوا کر کے لے گئے۔ اس کا پھر پتا نہ چل سکا اور اس کا غریب، کمزور اور مظلوم مسلمان خاوند مجرم اور حاکم کے غصب و جبر کو، صبر و شکر کے عنوان سے برداشت کر کے زندہ درگور ہو گیا۔ مسلم لیگ واحد نمائندگی کی مدعی جماعت تھی لیکن مصدقہ اور دستاویزی تفصیلات گواہ ہیں کہ اس کے کارپرداز محض ووٹوں کی خاطر صرف لیڈری چلاتے رہے کہ پاکستان کے حاکم تو بن گئے لیکن شہید گنج کی طرح ’’فرخ نگر‘‘ کے گنجِ شہیداں میں انصاف و داد رسی کی منتظر روحوں کی تسکین کا کوئی سامان نہ کر سکے۔ جماعتی لحاظ سے بے تعلق ہونے کے باوجود محترم ماسٹر صاحب نے قانونی اقدامات کی صحیح بنیاد بنانے کی خاطر اس واقعہ کی مفصل اور جامع رُوداد مرتب کر کے اس وقت کے ناظمِ اعلیٰ مولانا مظہر علی اظہر کے نام ارسال کی تھی۔ اداءِ فرض کی اس داستان کا خلاصہ آئندہ صفحات میں ملاحظہ کریں۔ والسلام
راقم: (جانشین امیر شریعت حضرت مولانا) فقیر سید ابو معاویہ ابوذر بخاری (رحمۃ اﷲ علیہ)
خادم و ناظمِ اعلیٰ مجلس احرار اسلام پاکستان، نزیل دفترِ مرکزیہ لاہور
دوپہر سہ شنبہ ۔۲۷؍۱؍۸۹ھ/۱۵؍ ۴؍ ۶۹ء
پیش لفظ
مجلس احرار اسلام اور مسلم لیگ کے انداز فکر میں بنیادی فرق باعث نزاع تھا، احرار کے نزدیک برطانوی سامراج مسلمانانِ عالم کے لیے تمام مصیبتوں کا باعث تھا۔ اس لیے احرار کی جدوجہد آزادی کا مرکزی نقطہ برطانوی سامراج کی مخالفت تھی۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ہندو قوم کو متعصب، تنگ نظر اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتی تھی۔ اس لیے ہندو کی تنگ نظری اور تعصب مسلم لیگ کے لیے پیش پا افتادہ مسئلہ بن گیا۔ انداز فکر کے اس بنیادی فرق کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی راہیں بھی مختلف ہو گئیں۔ رائے کے اختلاف نے جب مخالفت کی صورت اختیار کر لی تو دونوں جماعتوں کے کارکن اور رہنما ایک دوسرے کو بیگانہ وار دیکھنے لگے، اس طرح دو مسلمان جماعتوں میں حد فاصل قائم ہو گئی۔ اس کٹا چھنی کے باوجود مسلم لیگ اور احرار کے بعض سنجیدہ مزاج اور مخلص ذمہ دار کارکن اہم قومی ضرورت کے وقت آپس میں مبادلۂ خیال کر لینے اور باہمی تعاون میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مجھے خود ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ ہوا یہ کہ کچھ عرصے کے لیے مجلس احرار کی تنظیم کے سلسلے میں دہلی میرا ہیڈ کوارٹر بن گیا، مجھے دہلی میں کافی عرصہ ٹھہرنا پڑا۔ مجلس احرار کا دفتر جامع مسجد کی پشت کی جانب روز نامہ ’’پیام‘‘ کا دفتر تھا۔ سید عبدالحمید شملوی مسلم لیگ کے مخلص رہنما اور روز نامہ ’’پیام‘‘ کے مالک اور مدیر اعلیٰ تھے۔ میرا ان کا تعارف ہوا تو ہم بہت جلد ایک دوسرے کے بے تکلف دوست بن گئے۔ ہماری ان کی خوب گاڑھی چھننے لگی۔ سیاسیات پر بے تکلفی سے مذاکرہ ہوتا۔ دل صاف اور نیت نیک ہو تو بحث مباحثہ میں نزاع اور زیادہ تلخی پیدا نہیں ہوتی۔
ایک درد ناک حادثہ:
سید عبد الحمید صاحب شملوی دفتر احرار میں اکثر تشریف لے آتے تھے، مجھے بھی جب فرصت ملتی، دفتر ’’پیام‘‘ میں حاضری دیا کرتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے چند ماہ کے لیے قحط بنگال کے سلسلہ میں احرار رضاکاروں کے ہمراہ بنگال کے دورے پر جانا پڑا، واپس آیا تو پنجاب کا دورہ کرنا پڑا۔ سید بدر الدجیٰ جو کلکتہ کے مئیر (Mayor) اور مجلس احرار بنگال کے ذمہ دار رہنما تھے، میرے ہمراہ (وسطی و شمالی ہند کا) دورہ کر رہے تھے، مختلف شہروں میں جلسے ہوئے۔ بدرالدجیٰ صاحب نے بڑی کامیاب تقریریں کیں۔ مجھے انھی دنوں اس طویل سفر کی وجہ سے بخار آنے لگا۔ بدر الدجیٰ صاحب واپس کلکتہ جانا چاہتے تھے۔ اخلاق کا تقاضا تھا کہ میں انھیں الوداع کہوں، چنانچہ طے یہ ہوا کہ میں دہلی تک ان کے ہمراہ چلوں، اسی حالت میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ دہلی پہنچا تو بخار کی وجہ سے میری حالت غیر تھی۔ بدرُ الدجیٰ صاحب بھی دو روز دہلی میں ٹھہرے رہے۔ میری طبیعت سنبھلی تو وہ کلکتہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ بخار سے چھٹکارا ہو جانے کے باوجود میں کمزوری محسوس کر رہا تھا۔ سید عبد الحمید صاحب کو میری آمد کی خبر ہوئی تو وہ علی الصبح دفتر احرار میں تشریف لے آئے۔ علیک سلیک ہوئی۔ خیر خیریت دریافت کرنے پر وہ فرمانے لگے کہ میں تو آپ کے انتظار ہی میں تھا۔ یہاں ایک قریبی قصبے میں بڑا دردناک سانحہ پیش آیا۔ فرخ نگر کے مسلمانوں پر قیامت گزر گئی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ منظم سازش کے تحت وہاں کے ہندوؤں اور بیرونی ہندو غنڈوں نے روزروشن میں میں نہتے مسلمانوں کو ذبح کر ڈالا۔ سید صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور بڑی رقت سے فرمانے لگے۔ غضب تو یہ ہے کہ باہر سے کوئی مسلمان جماعت وہاں فاتحہ خوانی تک کے لیے نہیں گئی۔ اب سنا ہے کہ گاؤں پر دہشت طاری ہے۔ پولیس کا پہرہ بیٹھ گیا ہے۔ ایک کافر مجسٹریٹ نے وہاں دربار جما رکھا ہے، بچے کھچے مسلمان گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ سید صاحب آپ نے مسلم لیگ کے بڑے رہنماؤں سے رابطہ پیدا کیا ہوتا، موقع پر کارکن بھیج دیے ہوتے۔ سید صاحب نے بڑے درد انگیز لہجے میں مجھ سے فرمایا: ’’ارے بھی چھوڑو، مسلم لیگ اور احرار کے قصے، بیمار ہو کر کمزور ہو گئے ہو تو کیا ہوا۔ فرخ نگر کے لیے ضرور کچھ کیجیے، اپنے رفقاء کو بلائیے اور ہو سکے تو خود بھی ہمت کیجیے۔ آپ تو بڑے جفا کش مشہور ہیں،غرضیکہ سید عبد الحمید صاحب کے خلوص نے ہمیں فوراً موقع پر پہنچنے کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس طرح مجھے سید عبد الحمید صاحب شملوی ایڈیٹر روزنامہ ’’پیام‘‘ اور دیگر احرار کارکنوں کے ہمراہ فرخ نگر کے مقتل کا دورہ کرنا پڑا۔ دورے سے واپسی پر دہلی کے دفتر احرار میں بیٹھ کر میں نے اس دردناک واقعے کی مفصل رپورٹ مولانا مظہر علی صاحب اظہر جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام ہند کی خدمت میں روانہ کی۔ مدت گزر گئی، واقعہ حافظہ سے اُتر بھی گیا تھا کہ اچانکہ گزشتہ ماہ ایک روز سید عبد الحمید صاحب شملوی نے ٹیلی فون پر علیک سلیک کی۔ پرانی یادیں پھر تازہ ہو گئیں۔ دہلی کے شب و روز اور وہاں کی مغلیہ دور والی پرانی تہذیب کے تصور نے تڑپا دیا۔
سید صاحب چونکہ بہت مخلص مسلم لیگی تھے۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ ان دنوں وہ بے چارے پاکستان کے کسی کونے کھدرے میں زندگی کے دن گزار رہے ہوں گے۔ ورنہ یہاں تو زیادہ تر ان ’’چمچوں‘‘ کی بن آئی ہے جو چڑھتے سورج کی پرستش میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ارادہ یہ تھا کہ سید صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوتی تو ان کی مدد سے فرخ نگر کی روئیداد قلم بند کرتا۔ افسوس کہ ان سے دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی مگر قدرت کے قربان جائیے۔ اسی ہفتے عزیزی حافظ عطاء المنعم صاحب (جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ) لاہور تشریف لائے اور آتے ہی مجھے فرمانے لگے۔ ماسٹر صاحب آپ کو ایک تحفہ، ایک پرانی نادر یادگار، ایک نایاب چیز پیش کروں۔ میں نے سمجھا عمدہ قسم کی چائے لائے ہوں گے مگر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب حافظ صاحب نے پرانے خستہ اوراق پر سرخ روشنائی سے لکھی ہوئی فرخ نگر کی مکمل اور مفصل رپورٹ میرے سامنے احتیاط سے کھول کر رکھ دی۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایک روز حافظ عطاء المنعم صاحب لاہور تشریف لائے۔ دفتر مرکزیہ میں پرانی فائلوں کا مطالعہ کر رہے تھے کہ انھیں اچانک میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی فرخ نگر کی رپورٹ مل گئی۔ حافظ صاحب موصوف یہ رپورٹ اپنے ہمراہ ملتان لے گئے اور اپنے ضروری کاغذات میں رکھ کر بھول گئے، پچھلے دنوں جب موصوف ان کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے تو انھیں وہ لفافہ مل گیا، جس میں یہ رپورٹ احتیاط سے رکھی ہو ئی تھی۔ حافظ صاحب اس رپورٹ کو اب شائع کرنے پر مصر ہیں۔ انہی کے اصرار پر میں نے چند سطریں پیش لفظ یا تعارف کے طور پر لکھ دی ہیں۔
تاج الدین
رپورٹ
تحقیقاتی وفد برائے فسادات فرخ نگر ضلع گوڑ گاؤں
مقررہ
من جانب مسلمانان دہلی، زیر اہتمام مجلس احرار اسلام صوبہ دہلی
۱۔ قائد وفد ماسٹر تاج الدین، پراپیگنڈہ سیکرٹری مجلس احرار اسلام ہند
۲۔ سالار عبدالستار صاحب ،دہلی ۳۔ عبدالجبار صاحب نائب سالار اعظم، صوبہ دہلی
۴۔ حافظ عبدالوحید صاحب سالار، دہلی ۵۔ حافظ محمد حنیف صاحب سالار، دہلی
۶۔ جناب سید عبد الحمید صاحب شملوی، ایڈیٹر روزنامہ ’’پیام‘‘
۷۔ بابو بشیر احمد صاحب، پارچہ فروش چوک جامع مسجد رکن مجلس احرار اسلام، صوبہ دہلی
۸۔ عبدالرشید رضاکار، دہلی ۹۔ محمد احمد رضاکار، دہلی
یہ رپورٹ کسی شاعرانہ مبالغہ آمیزی یا کسی ذاتی جذبۂ انتقام کے تحت نہیں لکھی گئی بلکہ اس میں وہ حقائق درج ہیں جن کا فرخ نگر کے فساد سے تعلق ہے اور جو موقع پر پہنچ کر عینی شاہدوں، معززین قصبہ اور مقامی باشندوں خصوصاً بیوپاریان قصبہ کے بیانات سے اخذ کیے گئے ہیں۔ وفد نے اپنی رپورٹ مرتب کرنے میں اور غلط بیانیوں سے بچنے کے لیے جو بسا اوقات ایسے مواقع پر کی جاتی ہیں اور حالات کو رنگ آمیزیوں سے پیش کرنے سے محفوظ رہنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ تمام بیانات خانۂ خدا یعنی مسجد خرم پور دروازہ میں بیٹھ کر لیے گئے اور قلم بند کیے گئے۔ بیانات دینے والوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ ان کا یہ بیان خانۂ خدا میں اس لیے قلم بند کیا جا رہا ہے کہ کوئی شخص حالات کو غلط بیانیوں سے مخلوط نہ کرے اور جتنا جسے معلوم ہے، صرف اسی قدر بیان دے۔ شہادتیں عینی ہونی چاہئیں، سماعی نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان جس کے دل میں درہ برابر نورِ ایمان ہو، وہ اس صورت میں ہرگز رنگ آمیزی اور مبالغہ کے ساتھ واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کر سکتا۔ پھر ایک مسلمان جس نے چند ہی دن قبل مظالم کا وہ درد ناک نظارہ دیکھا اور بھگتا ہو کہ جس کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوں، کس طرح خانۂ خدا میں غلط بیان دے سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں پورا یقین ہے کہ جو بیانات ہمیں دیے گئے ہیں، وہ حادثات اور مظالم کی سچی تصویر ہیں۔ اور جو اسباب فسادات بیان کیے گئے ہیں وہی درحقیقت بناء فساد ہو سکتے ہیں، سُرتی کے قبولِ اسلام کا واقعہ تو صرف آڑ بنایا گیا ہے اور اسی طرح ایک قریشی مسلمان کے عالمِ نشہ میں گالیاں دینے کا افسانہ بھی گھڑا گیا ہے۔ تاکہ فساد کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی جا سکے، حالانکہ واقعات و شواہد اس کے صریح منافی ہیں جیسا کہ تفصیلاتِ ذیل سے ظاہر ہے۔
فرخ نگر کے ہولناک واقعات کے سننے اور سمجھنے اور ۲۴؍ جولائی کے روز قیامتِ صغریٰ کی تفصیلات تک پہنچنے سے قبل ضروری ہے کہ فرخ نگر کی تاریخی حیثیت، اس کے محلِ وقوع اور یہاں کے ہندو مسلمان باشندوں کے تعلقاتِ قدیم اور دونوں کی اقتصادی، تجارتی اور سیاسی حالت پر روشنی ڈال دی جائے تاکہ حالات وضاحت کے ساتھ سامنے آ جائیں۔
فرخ نگر کی تاریخی حیثیت:
فرخ نگر آج سے تقریباً ۲۵۰ برس قبل شہنشاہ دہلی فرخ سیر کے عہد سلطنت میں نواب دیر خاں صاحب ساکن خرم پور نے آباد کیاتھا۔ نواب دلیر خاں کو بارگاہ خسروی سے ’’فوجدار خاں‘‘ کا خطاب بھی تھا۔ چنانچہ آج تک فرخ نگر کے حصار کے دہلی دروازہ پر جو اچھی حالت میں ہے اور جس کی فصیل بھی اچھی حالت میں ہے ’’قلعہ فوجدار خاں‘‘ کا کتبہ تاریخ ہند کے تین صد سال قبل کے عہدِ عدل و انصاف کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ قلعہ کے تین دروازہ ہیں، جن میں دہلی دروازہ کے بعد خرم پور دروازہ مشہو ر ہے جو ۱۸۵۷ء کی تاریخی روایات کا بھی حامل ہے۔ کیونکہ فتح دہلی کے بعد برطانوی افواج نے اس راستہ سے قلعہ پر گولہ باری کر کے قلعہ فوجدار خاں پر قبضہ کیا تھا۔ جب کہ سلطنت مغلیہ کے آخری تاج دار دہلی شہنشاہ ابو ظفر محمد بہادر شاہ کی حمایت کے جرم میں نواب صاحب فرخ نگر گرفتاری کے بعد تختۂ دار پر چڑھائے گئے تھے۔ ریاست فرخ نگر بحق سرکار برطانیہ ضبط ہو گئی اور ایک وفادار کو اس کا کچھ حصہ بہ شکلِ جاگیر منتقل کیا گیا۔ یہ جاگیرداری اب تک قائم ہے مگر اندرونِ قلعہ آبادی میں نہیں بلکہ بیرونِ قلعہ اراضیات و دیہات اس میں شامل ہیں۔ اور علاء الدین حیدر حاں صاحب موجودہ جاگیردار، جو ایک کمزور طبیعت انسان ہیں، بقید حیات ہیں۔ اگر یہ جاگیر دار صاحب اپنا منصب پہچانتے تو مسلمانوں کی وہ درگت نہ بنتی جو مقامی اور ان کی سازش سے نواحی ہندوؤں نے بنائی، جس میں کم و بیش انہی جاگیردار صاحب کے ……ہندو جاٹ امیر سَیْنی وغیرہ…… مزارعین بھی شامل ہیں۔
فرخ نگر کا محلِ وقوع:
فرخ نگر ضلع گوڑ گاؤں کا ایک قصبہ ہے، جوگوڑ گاؤں سے جانب شمال مغرب آباد ہے۔ زمین ریتلی اور پانی شور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں گرمی شدت کی پڑتی ہے۔ آبِ خنک بھی کم میسر آتا ہے مگر بیرونِ حصار چند کنوئیں آب شیریں کے بھی ہیں۔ جہاں سے سقہ اور کہار مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے پینے کا پانی لاتے ہیں۔ اندرونِ حصار کے کنوئیں کھاری ہیں۔ جن کا پانی پینے کے علاوہ دیگر ضروریات میں کام آتا ہے۔ موجودہ حملہ میں بھی پانی کی اس نوعیت کا کافی اثر پڑا۔ تمام محصور مسلمانوں کو بارہ گھنٹے تک آبِ شیریں کا ایک قطرہ نہ ملا، جبکہ حملہ آور جو حصار کے باہر سے آ رہے تھے وہ سب آبِ شیریں سے متمتع ہوتے تھے۔ گویا ایک دوسری کربلا کا نمونہ تھا کہ یزیدی گروہ آب سرد و شیریں سے متمتع ہو رہا تھا اور حسینی اس سے محروم، مگر جامِ شہادت سے سرشار، فرخ نگر کے نواح میں تقریباً یک صد دیہات آباد ہیں گو ان میں سے اکثر کے نام تو اسلامی ہیں مگر ان دیہات میں مسلمانوں کے گھر دو یا تین یا چار سے زیادہ نہیں۔ گویا آٹے میں نمک کا بھی دسواں حصہ۔ ان دیہات میں سے چند کے نام یہ ہیں اور یہی وہ دیہات ہیں جہاں کہ ہندوؤں نے کسی نہ کسی پہلو فرخ نگر کے مسلمانوں کے خلاف حملہ یا اعانتِ اشتعال انگیزی یا مالی اعانت سے کام لیا۔ ان دیہات میں سے چند کے نام یہ ہیں۔
جانب شرق: سلطان پور:
جو گوڑ گاؤں سے فرخ نگر جانے والی سڑک پر گڑھی ہر سرو جنکشن سے تقریباً چار کوس پر واقع ہے۔ فرخ نگر جانے والی ریل بھی یہاں ٹھہرتی ہے۔ فرخ نگر یہاں سے تین کوس ہے، یہاں اسٹیشن وغیرہ کچھ نہیں۔ ایک ہندو کانٹے والا سرخ جھنڈی لے کر وقت آمد و روانگی ریل آجاتا ہے۔ یہی یہاں کا اسٹیشن ماسٹر ہے، یہی بکنگ کلرک، یہی سب کچھ ہے۔ اس گاؤں میں مسلمانوں کے صرف تین یا چار گھر ہیں۔ باقی سب ہندو جاٹ اور اہیر ہیں۔ یہاں کا ذیلدار بھی ہندو ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے نوابی نو مسلمہ (سُرتی) کو جسے بنائے فساد بتایا جاتا ہے، تقریباً صبح سات بجے روزِ روشن میں مُسمّٰی جَھنّی اور اس کے ساتھی ہندوؤں نے جو فرخ نگر سے اس کے ساتھ ہی اسی ٹرین میں سوار ہوئے تھے، زبردستی اس کے خاوند مَنَّا سے چھین کر اغوا کیااور اسے ذیلدار کے پاس لے گئے اور پھر وہاں سے غائب کر دیا۔ فرخ نگر میں اور خود سلطان پور میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہاں کے ہندوؤں نے فرخ نگر کی چڑھائی اور حملہ میں خاص طور پر حصہ لیا۔ اس سمت تقریباً پچیس (۲۵) گاؤں آباد ہیں، جنھوں نے حملہ میں خاص طور پر شرکت کی۔
جانب شمال:
مبارک پور، اسماعیل پور، فتح پور، سوڈا کھیڑا۔ ماڑسہ وغیرہ وغیرہ پینتیس گاؤں آباد ہیں۔
مبارک پور:
وہ گاؤں ہے جہاں ۲۳ اور ۲۴ ؍ کی درمیانی شب کو پچیس (۲۵) دیہات نے جمع ہو کر فرخ نگر پر حملہ کا مشورہ کیا۔ ان دیہات میں گؤ رکھشا کے نام پر امداد کے لیے فرخ نگر کے مفسد مہاجنوں نے خطوط بھجوائے تھے۔ یہی وہ دیہات ہیں جو سب سے پہلے فرخ نگر پر چڑھ آئے تھے، جنھیں جب وہ گؤ شالہ کے پاس فرخ نگر میں داخل ہونے کے لیے پہنچے تو انھیں ایک صاحب حیثیت ہندو اور کچھ پولیس افسران نے سمجھا بجھا کر واپس کیا۔
جانب غرب:
یعقوب پور، دوٹا۔ کھیڑہ، خرم پور، کالاسہ، گوگانہ، ماسٹری وغیرہ گاؤں آباد ہیں، جنھوں نے حملہ میں حصہ لیا۔
خرم پور:
ان دیہات میں خرم پور بھی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ عہد شاہ جہانی سے جب کہ شاہ جہان ولی عہد کی حیثیت سے شہزادہ خرم کہلاتے تھے، اسی کے نام پر فرخ نگر کا تاریخی دروازہ خرم پور گیٹ موسوم ہے۔
جانب جنوب:
فاضل پور، تاج نگر، جونہاداس، ……جمال پور، سید پور، محمود پور، سیوازہ وغیرہ آباد ہیں۔ ان دیہات میں بسنے والوں نے حملہ میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ خرم پور دروازہ پر انھی نے مورچہ لگا رکھا تھا۔ بعد میں مشرقی و شمالی و غربی حملہ آوروں نے مشترکہ طور پر مدد دے کر مسلمانوں پر عصر کے وقت یلغار کی اور اس یلغار کے بعد ہی محلہ بیوپاریاں اور نوہٹہ محلہ میں حملہ آور گھس گئے اور قتل و غارت گری، لوٹ اور آتش زدگی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
آبادیٔ فرخ نگر:
فرخ نگر کی کل آبادی تقریباً ۵ ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب مسلمان ہیں۔ جن میں مغل، بلوچ، پٹھان، اور قریشی برادری قابلِ ذکر ہے۔ قریشی برادری میں مویشیوں کی تجارت کا کام ہے، جن کا مال کلکتہ وغیرہ جاتا ہے اور اوسط طبقہ کپڑے کی تجارت بیرون فرخ نگر اور ادنیٰ طبقہ مزدوری وغیرہ، پلے داری، بِہلی چلانا اور گاڑی بانی وغیرہ اندرونِ شہر کرتا ہے۔ قریشی برادری میں شیخ رحمت اﷲ سب سے بڑے جاندار اور متمول تاجر ہیں۔ وہی ان کے سربراہ شخص ہیں۔ چنانچہ انہی کی حویلی کو خاص طور پر لوٹا گیا اور مسجد خرم پورہ محلہ یعنی مسجد قریشیاں ہی کی بے حرمتی کی گئی اور قریشیوں ہی کے مکانات کو نقصان پہنچایا گیا اور دو کو نذرِ آتش کیا گیا۔ قصبہ کے دیگر معز ز مسلمانوں میں امام وحید الدین امام مسجد جامع، جنھیں قتل کے لیے بلوائی تلاش کرتے پھرے، حکیم خان محمد خان صاحب قریبی عزیز نواب صاحب چھتاری وزیر اعظم حیدر آباد، عبدالحمید صاحب نمبر دار اور رحیم الدین صاحب تاجر پارچہ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ مسلمانوں کی اقتصادی حالت نہایت نازک اور کمزور ہے۔ تمام قصبہ میں ایک مسلمان پرچُونیا ہے۔ بساطیوں کی تین دکانیں ہیں، تین دکانیں پان چھالیہ کی ہیں۔ غرضیکہ چند گھروں کے علاوہ باقیوں کا حال ’’جو دے گا تن کو ،وہی دے گا کفن کو‘‘ کے مصداق ہے۔ تاہم گرد و نواح کے تمام دیہات میں فرخ نگر ہی مسلمانوں کا مرکز دینی و سیاسی و عددی سمجھا جاتا ہے اور بیرونی دیہات کے پسماندہ مسلمان فرخ نگر ہی سے آس لگائے رکھتے تھے جو خود بتیس (۳۲) دانتوں میں زبان کی حیثیت سے ہے۔ چنانچہ اسی مرکزی حیثیت کو فنا کرنے کے لیے فرخ نگر ہی پر حملہ کیا گیا تاکہ مہا سبھائی ذہنیت کا مشن پورا ہو جائے اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا جائے۔
ہندو:
ہندوؤں میں مہاجن، راجپوت، جاٹ، اہیر، سینی، کھاتی، مالی، جٹئے، مانی، دھانک، چمار وغیرہ بیسیوں ذاتیں آباد ہیں۔ جن میں مہاجنوں کے ہاتھ میں بوجہ سودی لین دین تجارت،منڈی، فرخ نگر کے نواح کے دیہات میں بسنے والے ہندو مسلمانوں کی نکیل ہیں۔ منڈی، اناج، تھوک فروشی، پارچہ و کریانہ ہاتھ میں ہے۔ سودی لین دین کے سبب دولت ان کی لونڈی ہے مگر بِسویداری و جاگیرداری مسلمانوں کی ہونے کے سبب ہندو سرمایہ و سازش سے مسلمانوں کو کچلنے کے بہانہ تلاش کر رہا تھا۔ چنانچہ من جملہ اور باتوں کے ’’سُرتی‘‘ کے اسلام لانے کو بھی ایک بہانہ بنا کر ۲۴؍ جولائی کا حادثہ خونیں سامنے لایا گیا۔
ہندوؤں میں صاحبِ اقتدار ہستیاں:
لکھی بنیا سراؤگی مودی مہاراجہ صاحب سردھی، رام چندر بنیا سراؤگی سکنہ میواڑی، ڈاکٹر رام چند (ہندوؤں کا شہنشاہِ سیاست)، ہیرا مہاجن، جانکی مہاجن، رامیشور مہاجن، چھٹن لال مہاجن، دینا مہاجن، منشی رام مہاجن، خوشیا مہاجن، یہ لوگ متمول ہیں اور رُلیا برہمن، ہیرا مالی، جھامیا مالی، جانی مالی، سوتر مالی، سوبھا رام مالی، ہرسُہائے دفعدار، چوکیدار مُولا مالی، جھَنّی برہمن، گردھاری اہیر، جمن اہیر، لِیلا جاٹ۔ اپنے اقتدار اور مفسدہ پردازی میں نمایاں ہستیاں ہیں۔ اسی قصبہ میں چودھری رسال ایک مرنجاں مرنج اور معزز شخص ہے۔
(جاری ہے)