مولانا منظور احمد آفاقی
اک دیدۂ بیدار تھے طالوت گرامی گنجینۂ اسرار تھے طالوت گرامی
گفتار کے غازی تو بہت گزرے جہاں میں اک غازیٔ کردار تھے طالوت گرامی
رازی و غزالی و سیوطی و زبیدی فردوسی و عطار تھے طالوت گرامی
شبلی و سلیمان و ظفر خان کا پرتو اقبال کے افکار تھے طالوت گرامی
شاعر تھے، صحافی تھے، محقق تھے غضب کے پائے کے قلم کار تھے طالوت گرامی
تحریر تھی غارت گرِ الحاد و تجدد اﷲ کی تلوار تھے طالوت گرامی
ہوتا تھا کلام ان کا ’’زمیندار‘‘ کی زینت مشکورِ ’’زمیندار‘‘ تھے طالوت گرامی
اسلام کے افکار و معارف کے وہ محرم اک علم کا کہسار تھے طالوت گرامی
عالم تھے، معلم تھے، سیاست سے شغف تھا احرار کی للکار تھے طالوت گرامی
اک فرد تھے ظاہر میں فقط آپ، وگرنہ اک لشکر جرار تھے طالوت گرامی
پھیرا رخ رہوار سخن ربوہ کی جانب اک ضیغم کرار تھے طالوت گرامی
انگریز کے خود کاشتہ پودوں کی صفوں سے کیا بر سر پیکار تھے طالوت گرامی
اسلام پہ آنچ آئی، اٹھے آپ تڑپ کر باغیرت وخود دار تھے طالوت گرامی
ملت کے بہی خواہ، وہ اخلاص سراپا ہم درد تھے، غم خوار تھے طالوت گرامی
ہر مکتبۂ فکر سے رکھتے تھے مراسم حد درجہ روادار تھے طالوت گرامی
مابین حسین احمد واقبال سخن ور اک صلح کا کردار تھے طالوت گرامی
رکھتے تھے وہ احباب سے برتاؤ مثالی خوش خلق، خوش اطوار تھے طالوت گرامی
وہ آنکھ کہ تھی سرمۂ افرنگ سے روشن اس آنکھ کو درکار تھے طالوت گرامی
تعلیم کے میداں میں جوانوں کو اتارا اقوام کے معمار تھے طالوت گرامی
پھیلایا جہالت کے اندھیروں میں اجالا اک منبع انوار تھے طالوت گرامی
گنتی میں نہیں آپ کے غواص وگہر چیں اک قلزمِ ذَخَّار تھے طالوت گرامی
ہر ناقص و کامل نے بھرا کیسہ و دامن اک شاخ ثمر بار تھے طالوت گرامی
سیراب ہوئے قلب و نظر، فکر و بصیرت اک ابر گہر بار تھے طالوت گرامی
افسوس کہ ’’اپنوں‘‘ نے کوئی فیض نہ پایا گو گنج گراں بار تھے طالوت گرامی
مختار ظفر لکھتے ہیں آج ان کے سوانح اب تک نہیں تحریر ہوئے جن کے سوانح