حبیب الرحمن بٹالوی
جب بھی گرتے ہیں آنکھوں سے ہمارے آنسو
صفحۂ قرطاس پہ ہم اُن کو بچھا دیتے ہیں
’’بیٹی! میں تمہارا قصور وار ہوں۔ مجھے کیا پتا تھا۔ تو ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ میں تو تجھے پیدا ہوتے ہی سڑک پر پھینک آیاتھا۔ بیٹی! مجھے معاف کر دینا۔بیٹی! مجھے معاف کردینا۔‘‘
ادھیڑ عمر کی ایک خاتون۔ اپنی مجبوریو ں کی ماری ہوئی۔ کسی گھر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آیا کرتی۔ خاموشی سے اپنا کام کرتی اور چلی جاتی۔ تعلیم اور تعلم سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرتی۔ بہت کم بولتی۔ ایک دن بچوں کی ماں بضد ہوگئی۔ اُسے کہنے لگی۔ بہن! آپ خاموش رہتی ہیں۔ کیا بات ہے؟ گھر میں خیریت ہے؟ کیا آپ کی شادی ہوچکی ہے؟ کتنے بچے ہیں۔ اُ س کے اصرار پر ٹیچر نے جو اپنی بپتا سنائی۔ وہ اُسی کے الفاظ میں پیش کی جارہی ہے۔
میری پیدائش سے پہلے میر ی دو بہنیں تھیں۔ میرے والد میری ماں سے کہتے اگر اب بھی بیٹی آئی تو میں اُس کا گلا گھونٹ دوں گا۔ حالانکہ بیٹا، بیٹی ماں کے بس میں نہیں ہے۔ ہاں! اولاد ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے۔ کہ بچے خدا کے باغ کے پھول ہیں ۔ اُن کی وجہ سے رحمت، برکت ہوتی ہے۔ وہ گھر ویرانہ لگتا ہے جس میں بچے نہ ہوں اور یہ تو اﷲ تعالیٰ کی دین ہے جو چاہے کسی کو دے وہ خود کہتا ہے میں جس کو چاہتا ہوں، بیٹے ہی بیٹے دیتا ہوں۔ بعض کو بیٹیاں ہی بیٹیاں بعض کو ملاجلا کے دیتا ہوں۔ اور بعض کی کو کھ بانجھ کر دیتا ہوں کچھ بھی نہیں دیتا۔ وہ بے نیاز ہے ۔ بے پروا ہے جو چاہے کرے۔
اِکناں نوںْ کجھ نہ دیوے
اک نوںْ اِک دِتا اووی گیا مر
حافظ! صاحب نوُں کون آکھے
اِنج نئیں تے اِنج کر!
پھر ہوا یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے تیسری بھی بیٹی عطا کی۔ مجھے بھیج دیا۔ میرے ابا اکثر ماں سے لڑتے رہتے۔ غصے کا اظہار کرتے میں اسے ماردوں گا۔ اس کا گلا گھونٹ دوں گا۔ میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا ! ماں چاہ غم میں سسکیاں بھرتی اﷲ سے رجوع کرتی۔ ابا کو سمجھاتی مگر ابا پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک رات ابا نے امی کی نظر بچا کر مجھے اٹھایا اور دور ویرانے میں پھینک آئے۔ رات گزرگئی ابا کے مطابق وہ صبح سویرے دیکھنے گئے۔ آخر انسان تھے کوئی پتھر تو نہیں تھے۔ ادھر ماں اسے برابر کوسنے دے رہی تھی، ہلکان ہورہی تھی۔ جاکے دیکھا تو میں صحیح سلامت انگوٹھا چوس رہی تھی، ابا گھر اٹھا لائے۔ رات کو جہالت نے پھر زور مارا۔ بیٹی کو اٹھایا اور ویرانے میں چھوڑ آیا صبح جاکر دیکھا پھر صحیح سلامت ۔ جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے، ابا کے ضمیر نے ملامت کی وجدان نے کہا کوئی بات ضرور ہے۔ چھٹی حس بولی میں لاکھ کوشش کروں اﷲ تعالیٰ نے اسے زندہ رکھناہے کسی گاڑی نے اسے نہیں کچلا، کتے بلی نے نہیں کھایا، کسی راہ گیرکاپاؤں اِس پر نہیں آیا ضرور اس کے پیچھے اﷲ تعالیٰ کی کوئی حکمت کا ر فرماہے۔ اُسے سمجھ آگئی۔ مجھے گھر لے آیا بیوی کی گود میں ڈال دیا۔میں پلی بڑھی، پروان چڑھی، تعلیم حاصل کی۔ مجھے ایک سکول میں ملازمت مل گئی۔ میرے بعد اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تین بھائی عطا کیے۔گھر کے زیادہ تر اخراجات میرے اوپر تھے۔ میرے بھائی بہن تعلیم حاصل کرتے رہے۔ زندگی میں آگے بڑھتے رہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے ’’بیٹی بڑی ہوجائے تو ماں باپ کو فکر لاحق ہوجاتا ہے کہ اب یہ گھر سے رخصت ہو جائے گی۔ اور جب بیٹا بڑا ہو جاتا ہے۔ تو ماں باپ کو یہ فکر لاحق ہوجاتا ہے کہ اب یہ ہمیں گھر سے نکال دے گا۔ بہنیں اپنے اپنے وقت پر اپنے سسرال رخصت ہوتی گئیں۔ بھائیوں کی جب شادی ہوتی گئی۔ تب تب وہ اڑنچھو ہوتے گئے۔ ماں باپ کو چھوڑ تے گئے کہ
تین بیٹے پال سکتا ہے خوشی سے ایک باپ
اُن کی خاطر ہر جفا سہنے کو وہ تیار ہے!
ایک بوڑھے باپ کی خدمت اگر کرنی پڑے
سارے بیٹوں کے لیے یہ مرحلہ دشوار ہے
میر ی ملازمت ہی گھر کی ضروریات پوری کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اس لیے والدین نے سوچا کہ اس کی بہنوں کے بعد اس کی بھی شادی کر دیں گے۔ مگر اب میری عمر ہاتھ سے نکلی جارہی تھی۔ میں کماتی رہی اپنے بھائیوں کو کھلاتی رہی اپنی جوانی کا رنگ روغن اُن پر لگاتی رہی اب میرے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے۔ گھر کے لیے محنت مزدوری کرنا میری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ماں باپ بوڑھے ہو چکے ہیں میں اُن کی ضرورت بن چکی ہوں بہن بھائیوں نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس کی بھی شادی ہونی چاہیے اور:
کون ہوتا ہے شریکِ غمِ ہستی اے دوست!
ڈال بھی سُوکھے ہوئے پَات گرا دیتی ہے
ماں باپ کہتے ہیں۔ اب تو بھی شادی کر لے مگر اُن کے چہرے کی جھریاں میرا راستہ روک لیتی ہیں۔ کہتی ہوں اگر میں بھی انہیں چھوڑ کر چلی جاؤں تو اس بڑھاپے میں کون اِن کا سہارا بنے گا؟ اس لیے میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ میں اب اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی جیوں گی۔ انہی کے ساتھ مروں گی اُنہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔
میرے اباّاب بھی کبھی کبھار میری حالت دیکھ کر میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ روتے ہوئے کہتے ہیں ـ: ’’بیٹی! میں تمہارا قصور وار ہوں۔ مجھے کیا پتا تھا۔ تو ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ میں تو تجھے پیدا ہوتے ہی سڑک پر پھینک آیا تھا۔ بیٹی مجھے معاف کردینا بیٹی مجھے معاف کر دینا!‘‘