ڈاکٹر مفتی محمد نجیب قاسمی سنبھلی
اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے، جنہیں اﷲ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے:
’’اﷲ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو اﷲ کی کتاب(یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں ) میں سے چار حرمت والے ہیں۔ ‘‘(التوبہ: ۳۶)
ان چار مہینوں کی تحدید قرآن کریم میں نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور جب المرجب۔ ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیثِ نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کوا شہرِ حرم(حرمت والے مہینے ) اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد، قتل وغارت گری اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو‘ سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑاسال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے، مگر ان چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مُسلَّم رہی ہے حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔
رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے:
’’اَللَّھُمَ بَارِکْ لَناَ فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی )
’’اے اﷲ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہِ رمضان تک ہمیں پہنچا۔‘‘
لہٰذا ماہِ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعا یا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرمادیتے تھے۔ ماہِ رجب کو بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کی برکت حاصل ہوئی، جس سے ماہِ رجب کا کسی حدتک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔ البتہماہِ رجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یاکسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ہے۔ نماز و روزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے۔ البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہیں اور ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔ ماہِ رجب میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤ رخین کی آرا ء مختلف ہیں۔ البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہِ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں، البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ہے۔
واقعۂ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم :
اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق‘ مؤر خین اور اہل سیر کی آراء مختلف ہیں‘ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بار ہویں سال ۲۷ رجب کو ۵۱ سال ۵ مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علّامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوریؒ نے اپنی کتاب ’’مُہرِ نبوت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے۔اِسراء کے معنی رات کولے جانے کے ہیں۔ مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ ) سے مسجدِ اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل ’’سُبْحَا نَ الَّذِ یْ أَسْر یٰ بِعَبْدِ ہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدالْحَرَامِ اِ لَی الْمَسْجِدِ اْلأَ قْصٰی‘‘ میں کیا گیا ہے،اس کو اِسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔’’معراج‘‘ عروج‘‘سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں۔ حدیث میں ’’ عُرِ جَ بِی‘‘ یعنی ’’ مجھ کو اوپر چڑھایا گیا‘‘ کا لفظ استعمال ہواہے، اس لیے اس سفر کانام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اِسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے:
’’پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دوکمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اﷲ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔‘‘
سورۃ النجم کی آیات ۱۳۔۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں :
’’ اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے، اسی کے پاس جنت المأ ویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکر ائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پر ورد گار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔‘‘
اور یہ واقعہ احادیثِ متواتر ہ سے بھی ثابت ہے، یعنی صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔
انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر:
قرآن کریم اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں، بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزر کراتنا بڑا سفر اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کر دیا۔ اﷲ تعالیٰ جواس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کیونکہ وہ تو قادرِ مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے توارا دہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کاایک ایسا عظیم،مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کا ئنات نے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرفِ عظیم عطا فرمایا، جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
واقعۂ معراج کا مقصد:
واقعۂ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’تاکہ ہم (اﷲ تعالیٰ ) نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں‘‘۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتیٰ کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملاہے اور نہ ملے گا۔ نیز اس کے مقاصد میں اُمتِ مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں، بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فرضیت نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرور توں اور حاجتوں کو مانگتے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل :
اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیاجو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا۔ پھر اُسے زمزم کے پانی دھویاگیا، پھر اُسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتا ر سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا جو لمبا سفید رنگ کا چوپا یاتھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کر کے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام ابنیاء کرام علیم السلام نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد ’’البیت المعمور‘‘ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا، جہاں روزا نہ ستر ہزار فرشتے اﷲ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں، جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہیٰ کو اﷲ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اﷲ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کر سکے۔ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں:دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دونہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دونہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق میں اور نیل مصر میں ہے)۔
نماز کی فرضیت :
ٍٍ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم چند مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کردی گئیں، یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اﷲ کے اس حکم کوتسلیم کرتا ہوں۔اس پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندادی گئی: میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے، یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کردیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔
معراج کے موقع پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تین انعام
اس موقع پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تین انعام دئیے گئے:
۱:حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی اُمت کی فکر اور اﷲ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نمازوں کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔
۲: سورۃ البقرہ کی آخری آیات ’’آمَنَ الرَّ سُولُ‘‘ سے لے کر آخر تک عنایت فرمائی گئی۔
۳: اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمت شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یاعذاب بھگت کر چھٹکا را مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
معراج میں دیدار الٰہی :
زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم شبِ معراج میں دیدارِ خدا وندی سے مشرف ہوئے یا نہیں؟ اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی؟ البتہ ہمارے لیے اتنا مان لینا ان شاء اﷲ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔
قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا :
رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیاء کرام علیہ السلام کی امامت اور وہاں نماز پڑھانا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات اور پھر اﷲ جل شانہ کی دربار میں حاضری، جنت و دوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا، جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ: اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ: کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ: میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑگیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کیے گئے تو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے روشن فرمادیا، اُس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرماتھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے۔
سفر معراج کے بعض مشاہدات :
اس اہم وعظیم سفر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے جن میں سے بعض گناہگاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کررہا ہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔
کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے :
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ: وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں ) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں ۔(ابوداؤد)
سود خورو ں کی بد حالی:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزراجن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے(انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں، ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پٹیوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح)
کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہوجاتے تھے جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہورہا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ: یہ لوگ نماز میں کاہل کرنے والے ہیں۔
(انوارالسراج فی ذکرالا سراء والمعراج، حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہی ؒ)
زکاۃ نہ دینے والوں کی بد حالی :
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگا ہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور اونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں اور کانٹے دار وخبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں: جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ: یہ وہ لوگ ہیں جواپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
(انوارالسراج فی ذکر الا سراء والمعراج)
سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گزرا یسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے، مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السراج فی ذکرالا سراء والمعراج)
سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے؟
احادیث میں ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘اور ’’ السدرۃ المنتہیٰ ‘‘ دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ قرآن کریم میں ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ’’سدرۃ‘‘ کے معنی بیر کے ہیں اور ’’منتہیٰ ‘‘ کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہو جاتے ہیں اور جو بندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں، پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہر جاتے ہیں، پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔
وضاحت :
واقعۂ معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لیے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے ا س بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہم اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حدتک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اُمت کو بیان فرمایا۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرما اور دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرما۔ آمین
(بشکریہ ماہنامہ بینات کراچی، فروری 2020)