بنت ِحافظ محمدطارق
خلیفہ سوم ،امیرالمومنین سید نا حضرت عثمان ذوالنورین سلام اﷲ ورضوانہ:
وہ معاشرہ جس کی رگ رگ میں برائیوں کا زہراُترا ہوا ہو،جہالت اپنی پوری قوت کے ساتھ حکمرانی کررہی ہو، گمراہی اور ظلمت شب کی تاریکی کی طرح چھا چکی ہو،ایسے سماج میں آباد لوگوں کی زندگیوں میں برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اندھیروں سے اکثر اندھیرے ہی جنم لیتے ہیں، جہالت کی گود میں پلنے والے جاہلانہ عادتیں ہی اپنا لیتے ہیں۔ برائیوں کے ماحول میں لوگ برائیاں ہی کرتے ہیں۔
برائیوں سے بھرپور معاشرہ میں کسی شخص کا پاکیزہ رہنا ایک اَنہونی بات ہے۔ لیکن وہ تھے اس انہونی کا نشان، اندھیروں میں چمکتے ستاروں کی طرح، بروں میں ایک اچھے انسان۔ اُن کی فطرت میں حیا تھی، پاکیزگی تھی۔ وہ اُس معاشرے میں ایک ایماندار تاجر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ایمانداری ایک ایسا وصف ہے جو کاروبار کے ساتھ ساتھ شخصیت کو بھی چار چاند لگا دیتی ہے۔ اُن کا شمار دولت مند تاجروں میں ہونے لگا۔ مزے کی بات تو دیکھئے اُن کی دولت سے اُن کے قدم بھٹکے نہیں، ڈگمگائے نہیں۔ وہ اپنی دولت نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے رہے۔ اُن میں سخاوت کی خوبی، ایمان کی دولت سے مالامال ہونے سے بہت پہلے سے نمایاں تھی، لیکن ایمان لانے کے بعد اُن کی سخاوت دو چند ہوگئی۔ ہر مشکل وقت میں انہوں نے اپنا مال پیش کیا۔ جنگوں کی تیاری میں انہوں نے ہمیشہ سب سے بڑھ کر حصہ لیا۔ انہیں اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہاں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اُن سے قلبی وروحانی تعلق تو تھا ہی، اس کے ساتھ ساتھ ایسا رشتہ بھی تھاجس کی بناپر انہیں ذوالنورین کہا گیا۔
امارت کا منصب سنبھالا تو سلطنت کی حدیں اور وسیع ہوگئیں۔ انہوں نے پہلی بار بحری بیڑہ تیار کروایا جس کی بنا پر وہ بحیرۂ روم کی زبردست بحری طاقت بن گئے۔ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے انہوں نے بے شمار اقدامات کیے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں حکومت مضبوط ہوئی، ملک میں خوشحالی آئی اور ترقی کے راستے کھلے۔ جب ان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا تو محض اپنی شفقت اور صبر کی بنیاد پر باغیوں کی سخت گوشمالی نہ کی، ہر طرح کی مفاہمتی کوشش، مصالحت اورمصلحت کے باوجود یہ فتنہ دب نہ پایا تو بالآخر اُن کی شہادت کا سانحہ پیش آگیا۔ وہ چاہتے تو فوج کو اپنی حفاظت کے لیے طلب کر سکتے تھے، لیکن محض اپنی ذات کے لیے انہوں نے کسی کو بھی خون بہانے سے منع کردیا۔ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔
سیدناعثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے چند خوبصورت اقوال ملاحظہ فرمائیں:
٭……اُس نے اﷲکا حق نہیں جانا جس نے لوگوں کا حق نہیں جانا۔ ٭……حقیر سے حقیر پیشہ اختیار کرنا ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔ ٭……گناہ کسی نہ کسی صورت میں دل کو بے قرار رکھتا ہے۔ ٭……اپنے رب کے سوا کس سے امید نہ رکھو۔ ٭……سب سے بُرا آدمی وہ ہے جو لوگوں کی برائیاں کرتا پھرے۔ ٭……غریب کا ایک روپیہ خیرات کرنا، مال دار کے ایک لاکھ روپے خیرات کرنے سے بہتر ہے۔…… اﷲ تعالیٰ اُن کی لحد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔
خلیفۂ چہارم امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ سلام اﷲ ورضوانہ:
وہ کم سن تھے لیکن شعور رکھتے تھے۔ اس عمر میں بھی انہیں اچھے اور برے کے بارے میں فرق معلوم تھا۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ تھی کہ ان کی پرورش ایسے ہاتھ کر رہے تھے، جو سب سے زیادہ بابرکت تھے۔ وہ انہی کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک ایک پل گزار رہے تھے۔ جب پورا خطہ ہدایت کی کرنوں سے جگمگا اُٹھا تو انہیں بچوں میں سب سے پہلے اس روشنی سے فیضیاب ہونے کا موقع ملا۔ روشنی کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ سارے چھپے ہوئے پہلوؤں اور گوشوں کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ ہدایت کی روشنی نے ان کی ذات کو بچپن ہی میں اس طرح منور کردیا کہ ان کی سیرت اورکردار پر صرف اورصرف حق اورسچائی کا غلبہ ہوگیا۔
ان کی زندگی علم وفضل کا مرقع بن گئی۔تربیت کرنے والے مقدس ہاتھوں نے انہیں علم کاسمندر بنا دیا اور علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ حکمت و دانائی ان کی ہر اِک اِک بات سے جھلکتی تھی۔ مشکل معاملات میں رہنمائی کے لیے لوگ ان ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ان کے دانش مندانہ فیصلے اکثر لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے تھے۔ تاریخ کی کتابیں بھی اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔
لیکن علم و فضل میں یہ مقام پانے کے ساتھ ساتھ وہ دوسری خوبیوں میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ انہیں تلوار چلانے میں مہارت تھی، نیزہ بازی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا۔ فن کشتی میں بھی خوب نام کمایا، میدان جنگ میں ان کی بہادری نمایاں ہوتی تھی۔ اسی بہادری کی بناء پر انہیں اپنے مادری نام ’’الحیدرہ‘‘ (شیر) پر ناز تھا۔
امارت کی ذمہ داری نے بھی ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ وہ سادہ مزاج تھے۔ فقر و درویشی میں زندگی گزارتے تھے۔ وہ شان و شوکت سے گریز کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ عدل و انصاف سے کام لیا۔ دوسروں کے ساتھ بھی اور اپنے ساتھ بھی۔ انہوں نے اپنی پوری عمر کسی نہ کسی انداز میں دین کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔ اپنی کوششوں سے انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو دین کے دائرے میں داخل کیا۔ علم و دانش کی یہ تصویر کون تھے؟
یہ دامادِ رسول، حسنین کریمین ؓ کے والد ماجد سیدنا علی ’’رضی اﷲ عنہ ورضی عنہ‘‘ کے خدو خال ہیں۔