شاہ بلیغ الدین رحمہ اﷲ
ارشاد ہوا…… ’’تم اﷲ کے فیصلے سے راضی ہو اور معاملہ اس کے حوالے کر کے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہو‘‘…… ۴۰ ہجری کی بات ہے کہ ایک وفد اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نواسے سیدنا حضرت حسن رضی اﷲ عنہ سے ملنے کے لیے گیا۔ وہ اس وقت کوفے میں تشریف فرما تھے۔
سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا بنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ مدینۃ النبی میں پیدا ہوے۔ صحیح بخاری کتاب البیوع میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے اور صحیح مسلم میں مناقب حسن میں لکھا ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بنو قینقاع سے لوٹ رہے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا گھر آیا تو اس کے سامنے بیٹھ گئے اور دریافت فرمایا کہ…… بچہ کہاں ہے؟ کچھ دیر میں حضرت حسن دوڑتے ہوئے آئے اورسرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اپنے سینۂ مبارک سے لگا لیا، پھر زبان مبارک سے نکلا کہ ’’اے اﷲ تو اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے (حسن) سے محبت کرے‘‘۔
جو وفد کوفے میں سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ سے ملا اس کے بارے میں اپنی کتاب مقتلِ حسین میں ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے لکھا ہے کہ اس میں سلیمان بن صرد، مسبب بن النجیہ، سعید بن عبد اﷲ کے علاوہ جندب الازدی بھی شامل تھے جنہوں نے یہ روایت سنائی۔ یہ روایت مقتل حسین کے مصنف ابو مخنف کو ابو منذر ہشام نے سنائی۔ انہوں نے محمد بن سائب کلبی سے سنی جن سے وفد میں شریک جندب الازدی کے بیٹے عبد الرحمن نے یہ تفصیل سنائی کہ سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے صلح کرلی تھی اور ابھی کوفے ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس وفد کے ارکان میں سے سلیمان بن صرد نے گفتگو شروع کی اور کہا کہ …… آپ کی جگہ میں ہوتا تو معاہدہ لکھوا کر اس پراہل مشرق اور مغرب کو گواہ بناتا کہ اس کے بعد (یعنی سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بعد) حکومت آپ کی ہوگی۔ لیکن آپ نے (یعنی حضرت حسن رضی اﷲ عنہ نے) اس شرط کے بغیر صلح کرلی۔ اس طرح آپ یعنی حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو کم ملا اور ان سے زیادہ حاصل کر لیا گیا۔
سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ نے وفد کے ارکان سے فرمایا …… میں ایسا آدمی نہیں ہوں جو معاہدہ کر کے پھر جائے اور پھر جب اﷲ نے ہم مسلمانوں کو متحد کردیا ہے اور جو ہم چاہتے تھے ہمیں عطا کردیا ہے میں اسی امر (یعنی صلح) کو نافذ کروں گا۔ پھر اپنے بہی خواہوں سے ارشاد فرمایا کہ ’’ اﷲ گواہ ہے کہ میں نے یہ صلح اس لیے کی ہے کہ تمہارے خون نہ بہیں اور تمہارے حالات بہتر ہوں۔ پس تم اﷲ کے فیصلے سے راضی رہواور معاملہ اﷲ کے حوالے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو۔‘‘
صحیح بخاری کتاب العلم باب قول النبی…… میں اور دوسری جگہ کتاب الفتن میں ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ …… یہ میرا بیٹا (یعنی حضرت حسن رضی اﷲ عنہ) جو سردار ہے اور شاید اﷲ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادے گا۔
سورۂ حجرات میں ارشاد ربانی ہے کہ …… وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما یعنی مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔
صلح وجنگ کے تاریخ اسلام میں بہت مواقع آئے لیکن یہ صلح بڑی تاریخی، بڑی یادگار اور بڑی اہم تھی۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی فرمائی اور اس صلح کو پسند فرمایا۔ اﷲ کے حکم کی تعمیل اور رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پسند کی تکمیل کا شرف سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ کو حاصل ہوا جن کی وفات ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔