علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالی مترجم : ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد کا بیان:
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی اولاد میں حضرت قاسم ہیں اور انہی کے نام پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی کنیت ہے۔ پھر حضرت عبداﷲ اور انہی کا نام طیب اور طاہر ہے۔ اور بعض نے کہا کہ انہی کا نام طیب ہے۔ طاہر ان کے علاوہ ہیں۔ بیٹیوں میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ اُمّ کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہن ہیں۔
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت سے قبل بچپن میں ہی وفات پا گئے۔ آپ صلی اﷲ علییہ وسلم کی صاحبزادیوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور مشرف باسلام ہوئیں۔ اور یہ سب اولاد سیدہ خدیجہ رضی ﷲ عنہا کے بطن سے ہوئی۔
مدینہ منورہ میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اﷲ عنہا کے بطن سے تھے، وہ سات دن کی عمر میں وفات پا گئے۔ ایک روایت کے مطابق ان کی عمر 7ماہ تھی، دوسری روایت کے مطابق انھوں نے 18ماہ عمر پائی۔ (1)
سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کے علاوہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی فوت ہوئی۔ اور سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے 6ماہ بعد فوت ہوئیں۔
سیدہ زینب رضی ﷲ عنہا، حضرت ابوالعاص بن الربیع بن عبد شمس رضی ﷲ عنہ (2) کے نکاح میں تھیں۔ آپ کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام علی تھا (3)، وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام اُمامہ تھا۔ (4) حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان سے نکاح کیا۔ ان کی شہادت کے بعد یہ المغیرہ بن نوفل بن الحارث بن عبدالمطلب کے نکاح میں آئیں، ان سے ایک بیٹا ہوا جس کا نام یحییٰ تھا۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا، حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں تھیں، آپ کے بطن سے حسن، حسین اور محسن رضی ﷲ عنہم پیدا ہوئے، محسن بچپن میں ہی فوت گئے۔ اور بیٹیوں میں رقیہ، زینب اور اُم کلثوم رضی ﷲ عنہن پیدا ہوئی۔ رقیہ رضی ﷲ عنہا بلوغت سے پہلے ہی فوت ہو گئیں۔ زینب رضی ﷲ عنہا، عبداﷲ بن جعفر رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں، ان سے ایک بیٹا ہوا، جس کا نام علی تھا، پھر ان کی وفات ہو گئی۔ اُم کلثوم رضی ﷲ عنہا، حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں، ان سے ایک بیٹا ہوا، جس کا نام زید تھا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عون بن جعفر رضی اﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی محمد (5) کے نکاح میں آئیں، پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی عبداﷲ کے نکاح میں آئیں۔
اور حضرت رقیہ رضی ﷲ عنہا، حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں اور ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام عبدﷲ تھا۔ (6) حضرت رقیہ رضی ﷲ عنہا کی وفات اس دن ہوئی جب حضرت زید بن حارثہ رضی ﷲ عنہ غزوہ بدر کی کامیابی کی خبر لے کر مدینہ منورہ آئے۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کا نکاح ان کی بہن حضرت ام کلثوم رضی ﷲ عنہا سے ہوا۔ انھوں نے شعبان 9ھ میں وفات پائی۔ اور وہ (حضرت ام کلثوم رضی ﷲ عنہا) اس سے پہلے عتیبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں اور حضرت رقیہ رضی ﷲ عنہا، عتبہ بن ابی لہب کے نکاح میں تھیں۔
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے چچاؤں اور پھوپھیوں کا بیان
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گیارہ چچا تھے:
الحارث، قثم، الزبیر، حضرت حمزہ رضی ﷲ عنہ، حضرت عباس رضی ﷲ عنہ، ابو طالب، ان کا نام عبد مناف ہے، ابو لہب، اس کا نام عبدالعزیٰ ہے، عبدالکعبہ، حجل، اس کا نام المغیرہ ہے، ضرار اور الغیداق ہیں۔
جبکہ 6پھوپھیاں ہیں:
حضرت صفیہ رضی ﷲ عنہا، عاتکہ، ارویٰ، اُمیمہ، برہ اور اُم حکیم البیضاء تھیں۔
ان میں حضرت حمزہ، حضرت عباس اور حضرت صفیہ رضی ﷲ عنہم مشرف باسلام ہوئیں۔
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے غلاموں اور باندیوں کا بیان
آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے غلام:
حضرت زید بن حارثہ رضی ﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔
اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی ﷲ عنہ
حضرت ثوبان بن بُجدد رضی اﷲ عنہ (7)
حضرت ابو کبشہ سلیم رضی ﷲ عنہ، یہ بدری (صحابی) ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما دیا تھا۔ جس دن حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ عنہ خلیفہ بنے ، اس دن انھوں نے وفات پائی۔ (8)
حضرت انسہ رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد کر دیا تھا۔ (9)
حضرت شقران، ان کا نام صالح تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اپنے والد کے ترکہ سے پایا۔ اور ایک روایت ہے کہ ان کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ سے خریدا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد کر دیا تھا۔
حضرت رباح نوبی رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد کر دیا تھا۔ (10)
حضرت یسار نوبی رضی اﷲ عنہ، ان کو قبیلہ عرینہ والوں نے شہید کر دیا تھا۔ (11)
حضرت ابو رافع اسلم رضی اﷲ عنہ، انہیں حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ جب انھوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کے اسلام کی خوشخبری سنائی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان کی شادی اپنی باندی سلمیٰ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ کرا دی۔ ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام عبید اﷲ تھا۔ یہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا کاتب تھا۔ (12)
حضرت ابو مویہبہ رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔ (13)
حضرت فضالہ رضی اﷲ عنہ، یہ شام میں فوت ہوئے۔ (14)
حضرت رافع مولیٰ سعید بن العاص رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد کر دیا تھا۔ (15)
حضرت مدعم رضی اﷲ عنہ، حضرت رفاعہ جذامی رضی اﷲ عنہ نے انھیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کیا۔یہ وادی القریٰ میں شہید ہوئے۔ ( 16)
حضرت کرکرہ نوبی رضی اﷲ عنہ، انہیں ہوزہ بن علی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں آزاد فرما دیا۔ (17)
حضرت زید رضی اﷲ عنہ، یہ حضرت بلال بن یسار بن زید کے دادا تھے۔ (18) حضرت عبید رضی اﷲ عنہ۔ (19) حضرت طہمان رضی اﷲ عنہ۔ (20) حضرت مابور قبطی رضی اﷲ عنہ، یہ غلام (حاکم مصر) مقوقس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہدیہ کیا تھا۔ (21) حضرت واقد رضی اﷲ عنہ۔ (22) حضرت ابو واقد رضی اﷲ عنہ۔ (23) حضرت ہشام رضی اﷲ عنہ۔ (24) حضرت ابو ضمرہ رضی اﷲ عنہ، یہ مال غنیمت میں آئے تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر دیا تھا۔ (25) حضرت حنین رضی اﷲ عنہ۔ (26) حضرت ابو عشیب رضی اﷲ عنہ، ان کا نام احمر تھا۔ (27) حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ۔ (28) حضرت سفینہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، یہ (اُمّ المؤمنین) حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے غلام تھے، انھوں نے ان کو اس شرط پر آزاد کیا کہ وہ ساری زندگی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہیں گے۔ تو انھوں نے عرض کیا کہ اگر آپ شرط نہ بھی لگاتیں میں نے پھر بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہونا تھا۔ ان کا نام رباح تھا، ایک قول کے مطابق ان کا نام مہران تھا۔ (29) حضرت ابو ہند رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد فرما دیا تھا۔ (30) حضرت انجشہ الحادی (حدی خواں) رضی اﷲ عنہ ۔ (31) حضرت ابو لبابہ رضی اﷲ عنہ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی آزاد فرما دیا تھا۔ (32)
بعض سیرت نگاروں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلاموں کی تعداد اس کے علاوہ بھی بیان کی ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی باندیاں:
حضرت سلمیٰ اُم رافع رضی اﷲ عنہا۔ (33) حضرت (ام ایمن) برکہ رضی اﷲ عنہا، انھوں نے آپ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گود میں کھلایا ہے، یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے والد ماجد کی جانب سے ورثہ میں ملیں۔ (34) حضرت ماریہ رضی اﷲ عنہا۔ (35) حضرت ریحانہ رضی اﷲ عنہا، یہ غزوہ بنو قریظہ میں قیدی بنیں۔ (36) حضرت میمونہ بنت سعد رضی اﷲ عنہا۔ (37) حضرت خضرہ رضی اﷲ عنہا۔ ( 38) اور حضرت رضویٰ رضی اﷲ عنہا۔ (39)
آزدا مردوں میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خدام کا بیان:
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ۔ حضرت ہند (40) اور اسماء رضی اﷲ عنہما (41)۔ ( پسرانِ حارثہ)
حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمیون رضی اﷲ عنہ (42) حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ
حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ (43) حضرت بلال رضی اﷲ عنہ
حضرت سعد رضی اﷲ عنہ حضرت نجاشی کے بھتیجے حضرت ذو مخمر رضی اﷲ عنہ ( 44)
حضرت بکیر بن شداخ اللیثی رضی اﷲ عنہ (45) اور حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ
غزوات میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہرہ داروں کا بیان:
حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ، غزوہ بدر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔
حضرت ذکوان بن عبد قیس رضی اﷲ عنہ (46) اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اﷲ عنہ (47) نے غزوہ اُحد میں پہرہ کے فرائض سرانجام دیے۔
حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ، غزوہ خندق میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے محافظ بنے۔
حضرت عباد بن بشر(48) ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہم غزوہ خیبر میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے محافظ تھے۔ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے غزوہ وادی القریٰ میں پہرہ کی سعادت حاصل کی۔ جب آیت مبارکہ: وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ الْنَّاس(49) نازل ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہرہ داری ترک فرما دی۔
حواشی: (۱) فاضل مصنف نے اپنی کتاب عیون الاثر 381/2پر لکھا ہے کہ ان کی عمر سولہ ماہ تھی۔ (۲) اُسد الغابہ، ابن الاثیر: 23-24/5 (۳) ایضاً، 306/3 (۴) ایضاً، 217-18/5 (۵) ایضاً، 16-62/3 (۶)ایضاً، 39/3 (۷) ایضاً، 284-286/1 (۸) ایضاً، 371-155/1 (۹) ایضاً، 154-155/1 (۱۰) ایضاً، 431/2 (۱۱) ایضاً، 356/4 (۱۲) ایضاً، 91/1 (۱۳) ایضاً، 112/ (۱۴) ایضاً، 459/3 (۱۵) الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر العسقلانی، 570-571/1 (۱۶) اُسد الغابہ، ابن الاثیر، 98-99/4 (۱۷) الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن الحجر العسقلانی، 1685/3 (۱۸) اُسد الغابہ، ابن الاثیر، 244/2 (۱۹) ایضاً، 183/3 (۲۰) ایضاً، 500/2 (۲۱) ایضاً، 5/4(۲۲) ایضاً، ،303/4 (۲۳) ایضاً، ،125/5 (۲۴) ایضاً، 283/4 (۲۵) ایضاً، 16/5 (کتاب میں ابو ضمرہ ہے جبکہ اُسد الغابہ میں ابو ضمیرہ ہے) (۲۶) ایضاً، 66/2 (۲۷) ایضاً، 63/1( کتاب میں ابو عشیب ہے جبکہ اُسد الغابہ میں ابو عسیب ہے) (۲۸) ایضاً، 36/5 (۲۹) ایضاً، 343-344/2 (۳۰) الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر العسقلانی، 2396/4 (۳۱) حضرت انجشہ رضی اﷲ عنہ بہت خوبصورت آواز کے حامل تھے، یہ اونٹوں کے حدی خواں تھے، اسی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ ’’الحادی‘‘ ہے۔ حجۃ الوداع میں انھوں نے ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کی سواریوں کے لیے حدی خوانی کی تو اونٹ تیز تیز چلنے لگے، جس پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے انجشہ (سواریوں کو) آہستہ چلاؤ، کمزور مخلوق یعنی عورتوں پر نرمی کرو۔‘‘ مسند الامام احمد بن حنبل، 107/3۔اُسد الغابہ، ابن الاثیر، 142/1 (۳۲) اُسد الغابہ، ابن الاثیر، 83/5 (۳۳) ایضاً، 311/5(۳۴) ایضاً، 227/5 (۳۵) ایضاً، 394/5 (۳۶) ایضاً، 290/5 (۳۷) ایضاً، 402/5 (۳۸) ایضاً، 265/5 (۳۹) ایضاً، 283/5 (۴۰) ایضاً، 293/4 (۴۱) ایضاً، 92/1 (۴۲) ایضاً، 183/2 (۴۳) ایضاً، 260/3 (۴۴) ایضاً، 153/2 (۴۵) ایضاً، 234-235/1 (کتاب میں بکیر بن شداخ ہے، جبکہ اُسد الغابہ میں بکر بن شداخ ہے۔) (۴۶) ایضاً، 145/2 (۴۷) ایضاً، 83-85/2 (۴۸) ایضاً، 534/2 (۴۹) المائدہ: 67