مجلس احرار اسلام کا نوے سالہ سفر
(رپورٹ: حکیم حافظ محمد قاسم)
تحریک آزادی ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احرار اسلام سر فہرست ہے، جس کی جرأت استقامت بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبہ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری دینی عوامی جماعت کی شدید ضرورت تھی، مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقات کے غیور اور جفاکش لوگوں کی اپنی آواز ہو جو غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے، اسی سلسلہ میں 29 دسمبر 1929 کو دریائے راوی کے کنارے لاہور میں تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے رہنماؤں امیر شریعت مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا مظہرعلی اظہر، سید محمدداوؤد غزنوی مولانا ظفرعلی خان، ماسٹر تاج الدین انصاری جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا، عوام نے مسر ت آمیز جذبات کے ساتھ اس کا پر جوش خیر مقدم کیا، بطل حریت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری قافلہ احرار کے اوّلین سالار اور حدی خواں مقرر ہوئے۔
کفن بردوش سرخ پوش مجاہد سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے بغاوت کے لیے شہادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کے لیے رواں دواں ہوئے، جبکہ مقابلہ میں انگریز سامراج اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوں کے دروازے کھول دیے گئے، پھانسی کے تختوں، مشین گنوں، لاٹھی چارج، پولیس، فوج، ڈندا فورس سے لیس ان وفا شعار مجاہدوں اور جفا کش رضا کاروں کے استقبال کے لیے موجود تھاِ، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی مرزا بشیرالدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی سازش کی تو مجلس احراراسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا، قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کے لیے نو گو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کے لیے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا، اور امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 13,12,11 رجب 1353ھ، مطابق 23,22,21 اکتوبر 1934ء بروز اتوار، سوموار، منگل، قادیان میں 3 روزہ احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماء کرام مشائخ عظام نے شرکت کی، احرار کی اس یلغار سے انگریزی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوگیا امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی تین دن کی تقریروں نے استعماری ایجنٹ قادیانیوں کی چولیں ڈھیلی کر دیں، تحریک پاکستان بڑی شد ومد سے چل رہی تھی اسی اثناء میں قادیانیوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علٰیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازع بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احراراسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھر پور جدوجہد کی۔ قیام پاکستان کے بعد مجلس احراراسلام نے حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احراراسلام عارضی طور پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو تحرک بخشنے کا فیصلہ کیا۔
1953ء میں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مر حلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازباز کرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس حراراسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت پر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لا لگا کر عاشقان ختم نبوت پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں، لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ملتان، ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع رسالت کے پروانے لہو میں نہا گئے، بقول شورش کاشمیری مرحوم بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں بظاہر اس تحریک کو کچل دیا گیا لیکن امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا، مگر تم دیکھو گے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکاہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا، چنانچہ 1974ء میں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت بھرپور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا، جبکہ 26 اپریل 1984ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روک دیا۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کے تناظر میں آج بھی مجلس احراراسلام قائد احرار پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری، پروفیسر خالد شبیر احمد، عبداللطیف خالد چیمہ، محمد کفیل بخاری، میاں محمد اویس، سید عطاء اﷲ شاہ ثالث، قاری محمد یوسف احرار، ڈاکٹر عمرفاروق احرار اور مولانا محمد مغیرہ کی پرعزم اور بے داغ قیادت میں سرگرم عمل ہیں، اور 29 دسمبر 2019ء کو پورے نوّے برس جماعت بنے ہو گئے، اسی دن کی مناسبت سے لاہور، ملتان، چیچہ وطنی، ساہیوال، بوریوالا، چناب نگر، ٹوبہ، کراچی، گجرات، گجرانوالہ، رحیم یار خان، تلہ گنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، حاصل پور، جتوئی، اور دیگر مقامات پر یوم تاسیس احرارکی پر وقار تقریبات پرچم کشائی منعقد ہوئیں جن میں قافلہ احرار کو رواں دواں رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
زندہ ہے احرار زندہ ہے (رپورٹ: خورشید احمد)
تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت و برصغیر پاک وہند کی عظیم حریت پسند جماعت مجلسِ احرار اسلام پاکستان کا قیام 29 دسمبر 1929ء کو عمل میں لایا گیا۔ حریت پسند رہنماؤں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، چودھری افضل حق، مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا مظہر علی اظہر و دیگر نے ملک میں حکومتِ الٰہیہ کے قیام، انگریز سامراج سے آزادی اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی اور ہر فتنے کا مقابلہ کیا۔ مجلس احرار کے 90 سالہ یوم تاسیس کے سلسلہ میں مجلسِ احرارِ اسلام ضلع رحیم یار خان کے زیر اہتمام 29 دسمبر 2019 کو دن 12بجے تا نماز عصر، جرنیل احرار حافظ محمد اکبر اعوان مرحوم کے مدرسہ جامعہ دار العلوم فاروقیہ عثمان پارک رحیم یار خان میں ضلعی صدر حافظ محمد اشرف کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ بسلسلہ 90 سالہ یوم تاسیس منعقد کیا گیا۔ جس میں نبیرہ امیر شریعت مولاناسید عطاء اﷲ شاہ ثالث بخاری نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
جلسہ میں سخن سرا مقررین نے بطلِ حرّیت مجاہدِ ختم ِنبوت حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی دینی، ملی خدمات اور مجلسِ احرارِ اسلام کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ مدرسہ کو سرخ ہلالی پرچموں سے سجایا گیا تھا اور ایک خوبصورت سٹیج تیار کیا گیا تھا جس پر احرار کے پرچم اور بینر لگائے گئے تھے۔ یوم تاسیس کے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے ایک بھر پور دعوتی مہم چلائی گئی اور شہر میں بڑے بڑے پینا فلیکس اور اشتہارات لگائے گئے۔
مجلس احرارِ اسلام کے ضلعی صدر حافظ محمد اشرف، ضلعی ناظم اعلیٰ محمد عبد اﷲ حجازی، مولانا فقیر اﷲ رحمانی، مولانا کریم اﷲ ، حافظ محمد صدیق قمر، حافظ محمد زبیر کمبوہ، مولانا محمد مغیرہ رحیمی، حافظ قادر بخش احرار، حافظ محمد عاصم کمبوہ، چودھری محمد اکرام، محمد سمیر، محمد حذیفہ ودیگر احرار رہنماؤں اور کارکنوں نے مختلف مقامات کے دورے کیے اور مجلس احرارِ اسلام ودیگر جماعتوں سے وابستہ افراد کو جلسہ میں شرکت کے لیے دعوت دی۔ نبیرۂ امیرِ شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری جلسہ گاہ پہنچے تو شرکاء نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور احرار زندہ باد کے نعرے لگائے۔ معروف نعت خواں طاہر بلال چشتی نے احرار کا ترانہ اور شاعر احرار عبد الستار حنفی نے احرار پر نظمیں پیش کیں۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض مولانا محمد مغیرہ رحیمی صدیقی نے سرانجام دیے۔
مہمان خصوصی سید عطاء اﷲ بخاری ثالث نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج سے نوے سال قبل اس قافلے کی بنیاد رکھی گئی اور نوے سال گزرنے کے باوجود بھی مجلس احرار اسلام کے اس تسلسل کو ہم نے زندہ رکھا ہوا ہے اور اپنے اکابرین کے مشن کو جاری وساری رکھا ہوا ہے۔ مجلس احرار اسلام ایک کردار کا نام ہے۔
کانفرنس سے مولانا عمر فاروق عباسی، حافظ علی احمد احرار نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کے اختتام پر سید عطا ء اﷲ شاہ ثالث نے حسب روایت پرچم احرار کو لہرایا اس موقع پر قاضی شفیق الرحمن، قاضی خلیل الرحمن، مولانا غلام اکبر، قاری ظفر اقبال شریف، مولانا مشتاق ضیائی، حافظ سلطان محمد اعوان، حافظ شبیر احمد اعوان، مفتی سمیع اﷲ، میاں عبد اﷲ فاروقی، قاضی جواد الرحمن، مولانا ممتاز اشرفی، چودھری بشارت علی، سید ناصر ہاشمی، قاری عمر فاروق احرار سمیت کارکنان احرار ودیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔
مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر سید محمد کفیل بخاری کا دورہ رحیم یار خان (رپورٹ: محمد مغیرہ رحیمی)
نواسہ امیر شریعت سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری 16جنوری کو جماعتی دورہ پر ملتان سے رحیم یارخان تشریف لائے۔ 16 جنوری بروز جمعرات بعد نماز مغرب بستی قیصر چوہان میں درس قرآن کے اجتماع سے خطاب فرمایا اور بعد میں احرار کارکنان ومعززین علاقہ سے ملاقات کی۔ 17 جنوری کو جامع مسجد جامعہ قادریہ رحیم یار خان میں جمعہ کے اجتماع سے بیان فرمایااور شام تک آپ واپس ملتان تشریف لے گئے۔
آپ دوبارہ 22 جنوری کو رحیم یارخان تشریف لائے۔ 22 جنوری بروز بدھ بعد نماز مغرب بستی درخواست میں احرار کارکنان سے ملاقات کی۔23 جنوری بروز جمعرات بعد نماز فجر جامع مسجد علی المرتضی چک 72 رحیم یارخان میں درس قرآن کے اجتماع سے خطاب فرمایابعد نماز ظہر بستی خانواہ کی جامع مسجد میں درس قرآن دیا اور بعد نماز عصر بستی اسلام آباد میں احرار کارکنان سے ملاقات کی۔ بعد نماز مغرب بدلی شریف میں جام غلام سرور صاحب کے ڈیرہ پر مجلس ذکر کے بعد شرکاء سے خطاب فرمایا۔24 جنوری بروز جمعہ کو صبح 10 بجے بستی مولویان میں زیر تعمیر مرکز احرار جامع مسجد بخاری میں تشریف لائے اور دعا فرمائی اور بعد میں شہباز پور کی جامع مسجد بلال میں جمعہ کے اجتماع سے بیان فرمایا۔ بعد نماز مغرب مسجد المعمورہ صادق آباد میں کارکنان احرار سے ملاقات کی۔
25 جنوری بروز ہفتہ عباسیہ ٹاؤن رحیم یار خان میں سید ابراہیم شاہ صاحب کی رہائش گاہ پر احرار کارکنان سے ملاقات کی اور بعد نماز ظہر رحیم یار خان میں حافظ محمد ندیم صاحب کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس میں صحافیوں اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی۔بعد نماز مغرب بستی مولویان کے قریبی گاؤں بستی چاہ کھنڈو میں درس قرآن کے اجتماع سے بیان فرمایااور بعد نماز عشاء آپ ملتان تشریف لے گئے۔سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری کے رحیم یار خان کے جماعتی دورہ میں ڈاکٹر محمد آصف،مولوی یعقوب چوہان اور مولانا فقیر اﷲ رحمانی صاحب، شاہ صاحب کے رفیق سفر رہے۔
لاہور(12جنوری)ملی مجلس شرعی، جو سارے دینی مسالک کے علماء کرام کی ایک مشترکہ علمی مجلس ہے،اس کا ایک اجلاس زیر صدارت مولانا زاہد الراشدی (سیکرٹری جنرل پاکستان شریعہ کونسل) جامع مسجد خضریٰ سمن آباد لاہور میں مولانا عبدالرؤف فاروقی (جنرل سیکرٹری جمعیت علماء اسلام (س) کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اجلاس میں مولانا سید محفوظ احمد مشہدی و مولانا محمد خان لغاری (جمعیت علماء پاکستان)، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی (جماعت اہل حدیث)، مولانا ملک عبدالرؤف (متحدہ علماء کونسل)، حافظ ساجد انور (نائب قیم جماعت اسلامی)، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (جامعہ لاہور الاسلامیہ)، مولاناغضنفر عزیز (جمعیت علماء اسلام (ف)، عبداللطیف خالدچیمہ (مجلس احرار اسلام)، مولاناقاری محمد قاسم و مولانا عبدالوھاب (جامعۃ القرآن، تنظیم اسلامی)، علامہ سبطین نقوی (جامعہ المنتظر)، پروفیسر ملک محمد حسین (تحریک اصلاحِ تعلیم)، مولانا ڈاکٹر سرفراز احمد (سابق ڈائریکٹر مذہبی امور ڈی ایچ اے)، ڈاکٹر محمد امین (سیکرٹری جنرل، ملی مجلس شرعی)، ڈاکٹر عبدالماجد ندیم اور دیگر علماء کرام نے شرکت فرمائی۔پروفیسر ملک محمد حسین نے مجلس کو بریف کیا کہ مرکزی وزارت تعلیم نے حال ہی میں اس یکساں نصابِ تعلیم کے مسودہ کی پہلی قسط برائے پرائمری جماعتیں مشتہر کردی ہے جس کا تحریک انصاف عرصے سے اعلان کرتی آرہی تھی اور یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اس نصاب کی تدوین میں امریکی اور یورپی تنظیمیں پوری طرح سرگرم عمل ہیں اور تدوین کرنے والے پاکستانی ’’ماہرین تعلیم‘‘ (؟) نے اس نصاب کو اسلام اور نظریہ پاکستان کی بجائے ہیومنزم اور سیکولرازم کی نظریاتی اساس پر مدون کیا ہے۔ نصاب سازوں نے ایک کتابچہ ’تعلیم اقدار‘ (Values Education) کے نام سے مرتب کیا ہے جو مغربی اقدار پر مبنی ہیاور ان مغربی اقدار ہی کو سارے نصاب میں سمویا گیاہے۔ پہلی اور دوسری جماعت میں اسلامیات کی تدویس غائب کردی گئی ہے اور باقی جماعتوں میں اس کا نصاب بہت کمزور ہے۔ نیز اردو، انگریزی، معلوماتِ عامہ اور دوسرے مضامین میں اسلام کی بجائے مغربی فکروتہذیب ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ پرائمری کا نصاب بنایا گیا ہے، اس طرح کا مڈل اور پھر ثانوی اور اعلیٰ ثانوی کے لیے بھی بنایا جائے گا (جسے اہل مدارس ثانویہ عامہ وخاصہ کہتے ہیں)اور یوں یہ نصاب دینی مدارس کو اور ان کے قائم کردہ سکولوں کو بھی قبول کرنا پڑے گا اور ان کے طالب علموں کو بھی پڑھنا پڑے گا۔ اس صورتِ حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نصاب مرتب کرنے والی کمیٹیوں میں دینی مدارس کے نمائندوں اور علماء کرام کو کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ علماء کرام نے اس جدید نصاب کی تفصیلات معلوم ہونے کے بعد اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور نصابی کمیٹیوں میں دینی مدارس اور علماء کے نمائندوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہو نے مجوزہ نصاب کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا تاکہ اس نصاب کو مسترد کردیا جائے اور حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی بنیاد پر اس نصاب پر مکمل نظر ثانی کرے اور اس کی اصلاح کرے۔ علماء کرام نے مطالبہ کیا کہ علماء اور عوام کے اندر اس نصاب کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے کے لیے تحریک اصلاحِ تعلیم کی مرتب کردہ رپورٹ اور علماء کرام کی رائے کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے، اس نصاب کے خلاف قرار دادیں پاس کرکے وزارت تعلیم کو بھجوائی جائیں، سیمینارز رکھے جائیں، کانفرنسیں منعقد کی جائیں اور حکومت کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کی دینی جماعتیں اور عوام کسی غیر اسلامی نصاب کو قبول نہیں کریں گے۔ مجلس نے پروفیسر ملک محمد حسین، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، مولانا غضنفر عزیز اور ڈاکٹر محمد امین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تاکہ حکومتی نصاب کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرے اور اس حوالے سے صحیح اسلامی تعلیمات پر مبنی ایک متبادل نصابی خاکہ پیش کرے تاکہ وہ متعلقہ حکومتی اداروں اور عوامی حلقوں کو پیش کیا جاسکے۔ مجلس میں دینی مدارس کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ علماء کرام نے اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ مدارس کی رجسٹریشن میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں اور بنکوں میں ان کو اکاؤنٹس کھولنے کی سہولت نہیں دی جارہی تاکہ حیلے بہانے مدارس کو بند کردیا جائے۔ نیز مدارس پر موجودہ مغرب زدہ جدید تعلیمی نظام کو زبردستی ٹھونسا جارہا ہے۔ علماء کرام نے مطالبہ کیا کہ مدارس کو عزت اور آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ صورتِ حال کی اصلاح کے لیے مجلس نے مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدالرؤف فاروقی، حافظ ساجد انور اور مولانا غضنفر عزیز پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو مدارس کے حالات پر غور کرنے کے بعد ایک وفد کی صورت میں سارے وفاقوں کے ذمہ داروں سے ملاقات کرے گی تاکہ دینی مدارس کے مسائل حل کرنے کے لیے موثر جدوجہد کی جاسکے۔ مولانا عبدالرؤف ملک صاحب کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔