قسط: ۱۷
مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
مک لیگن کالج ایجی ٹیشن:
اس عرصہ میں لاہور سے خبر آئی کہ احرار نے میکلیگن کالج کے پرنسپل کا معاملہ ہاتھ میں لے لیا ہے۔ یورپین پرنسپل، حکومت کا فرد، غلاموں کے آقا کی قدر کیا جانے، سرکار دو عالم کے خلاف نازیبا کلمات زبان پر لایا۔ ہندوستان کے مسلم غلاموں کے پاس عرب کے آقا کا نام ہی تو سارا سرمایۂ حیات ہے۔ نوجوان طالب علم بھڑک اٹھے۔ امراء نے ابتدا میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔ جب پرنسپل نے معافی مانگنے سے دلیرانہ انکار کیا تو اونچے طبقے نے دم توڑ دیا۔ ساری ایجی ٹیشن احرار کے گلے ڈال کر خود تماشائی کی حیثیت اختیار کرلی۔ مسلمانوں نے احرار کی رہنمائی میں میکلیگن کالج کو گھیر لیا۔ پولیس نے سیکڑو ں مسلمانوں کو مار بھگایا اور بیسیوں کو گرفتار کرلیا۔ مولانا محمد داؤد غزنوی سابق جنرل سیکرٹری مجلس احرار ہند اور معزز دوستو ں کے ساتھ جیل دیے گئے۔ مولانا مظہر علی جو ہمارے وفد کے رئیس تھے۔ سرینگر سے لاہور آگئے تا کہ جماعت بیک وقت دو محاذوں پر نہ لڑے اور حتی المقدور یہ قضیہ بعجلت اور باعزت طریق سے حل ہوجائے، خدا کی مہربانی سے انھیں کامیابی ہوئی اور پرنسپل نے مسلمان اکابرین کے سامنے کھلے الفاظ میں معافی طلب کی، معاملہ ختم ہوگیا، تمام گرفتار رہا کردیے گئے، جو ہڑتال پر تھے کالج چلے گئے۔
دنیا انگریزی استعمار کے فریب کو جانتی ہے کہ جس کی چالوں اور ابلہ فریبیوں سے شیطان مات کھا جاتا ہے، یہ تو بھولے بھالے کشمیری تھے انگریز کے قادیانی ایجنٹوں کی چال میں آگئے۔ ہماری معروضات کو انتہا پسندوں کا ناقابلِ عمل مطالبہ سمجھ کر ترک کر دیا، اس پر حکومت کے بعض مسلمان اہلکاروں کے جواب میں ہم نے بھی ایک جماعت فراہم کرلی، جو کشمیر کی طرف سے ہمارے مطالبات کی تائید کرے اور جس کا نعرہ آئینی آزادی ہو۔ اب ہم حکومت سے بات چیت کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں تھے کیونکہ ہماری پشت پر کشمیر میں ایک جماعت تھی۔ جس نے ہماری رائے کے مطابق مطالبات پیش کردیے۔ اربابِ اقتدار سے گفتگوئے مفاہمت کا نتیجہ حسب خواہش نہیں تھا۔ ہم نے وزیراعظم اور مہاراجہ بہادر سے بات چیت کی مگر بے سود، وہ تو ایک بات بھی ماننے کے لئے آمادہ نہ تھے۔ اس لیے ہم فوراً ریاست چھوڑ کر واپس آگئے۔
سول نافرمانی:
مولانا مظہر علی سیالکوٹ کے اکیس نوجوان رضا کاروں کا جتھہ لے کر سول نافرمانی کرنے آگے بڑھے ریاست کی سرحد پر گرفتار کر لئے گئے یہ عام ہجوم کا اعلان تھا۔ پنجاب کے ہر ضلع سے نوجوان رضاکار ٹوٹ پڑے۔ سیالکوٹ کے کوچہ وبازار سرخ پوش رضاکارو ں سے گلِ احمر بن گئے۔ ریاست نے مسلمان کی قوت عمل کا اندازہ پانچ ہزار قیدیوں سے زیادہ نہ لگایا تھا۔ صرف پانچ دن میں دس ہزار مسلمان سرحد پار ہوکر گرفتار ہوا۔ ریاست کا سارا انتظام درہم برہم ہوگیا۔ حکومت ہند اور انگریزی افواج نے ریاست کا چارج لے لیا۔
جوں ہی خبر لگی کہ انگریز ریاست کا مدار المہام بن گیا ہے۔ تو پھر مسلمان امراء کے ولولے سرد پڑگئے، اور لابہ گری اختیار کی اور ایک اعلان کے ساتھ مسلمانوں کو سول نافرما نی سے باز رکھا۔ لیکن مجلس احرار کے لیے انگریزی جبروت کے سامنے ہتھیار ڈالنا ممکن نہ تھا۔ گورداسپور، گجرات جہلم اور راولپنڈی کی سرحدوں کی طرف سے بھی مسلمان جتھے بنا کر آگے بڑھے تین ماہ میں ۴۵ ہزار مسلمان گرفتار کیا گیا۔ پنجاب کی طویل وعریض جیلوں میں کہیں گنجائش نہ رہی،یہاں تک کہ پولیس کے آفیسر، رضاکارو ں کو رات بھر دفتر احرار میں سلاتے اور صبح لے جاتے تھے۔ سول نافرمانی کی ساری تاریخ میں کسی قوم نے اس بے جگری کا ثبوت نہیں دیا۔ بوڑھے اور بچے سب ہی قیدیوں میں شریک تھے۔ چھوٹے بچوں نے سب سے زیادہ ہمت اور صبر سے قید کاٹی۔
پنجاب گورنمنٹ مدت تک مجلس احرار سے بات چیت کرتی رہی۔ درمیان میں جمعیت العلماء کے وفدیعنی مفتی کفایت اﷲ اور مولانا احمد سعید صاحب کی وساطت سے بھی حکام ریاست اور پنجاب گورنمنٹ احرار سے صلح کی گفتگو کرتے رہے، احرار کے نزدیک کشمیر کے لئے کمپرومائز کرنا کشمیری مسلمان کے حقوق کے ساتھ غداری تھی۔ حکومت ہند ’’ما ن ٹیگو چیمسفورڈ سکیم‘‘ سے پہلے کی سکیم پر رضا مند تھی۔ جب سرکار اور احرار کا سمجھوتا نہ ہوسکا تو حکومت نے گلینسی کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا۔ مجلس احرار نے اس کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گلینسی کمیشن نے حکومتِ ہند اور احرار کے نظریات کے در میان کی راہ اختیار کی۔ مجلسِ احرار نے اپنے فیصلہ سے کم کسی بات پر رضامند ہونا قبول نہ کیا۔
کانگریس کے دوستو ں نے ہمارے اس اقدام کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھا اور ریاستوں میں جدوجہد کو ملکی مقاصد کے خلاف بتایا۔ ہمیں یقین تھا کہ ایک دن کانگریس کو ہماری تقلید کرنا پڑے گی۔ ہمسائے کو مصیبت میں دیکھ کر چپکے سے گزر جانا انتہا کی شقا وت ہے۔ بے شک ہم بھی غلامی میں پھنسے ہیں۔ لیکن والیانِ ریاست نے کمال کردیا ہے۔ ظلم وستم کو اپنا پیدائشی حق سمجھ رکھا ہے۔
ماہ رمضان :
ایجی ٹیشن زوروں پر تھی کہ رمضان کا پاک مہینہ آگیا۔ کیا دیکھا کہ مسلمانوں کا سارا جوشِ جہاد یک لخت ختم ہوگیا۔ وہ مجاہد جو سچ مچ دین پر جان دینے کے لیے آمادہ تھے ان کے سارے ولولے سرد پڑ گے۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوا کہ ساری قوم میدان محاربہ سے ہٹ کر معتکف ہوگئی ہے۔ کسی زبان پر کشمیر کا نام نہ تھا۔ رمضان اور قرآن تھا ہر کہ ومہ عبادت میں مصروف ہوگیا اس سے قطع نظر کہ اسلام میں اُس جدوجہد کا بھی کوئی ثواب ہے جو اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی کے لیے کی جائے۔ قومی عبادت کے مقابلہ میں عملی جدوجہد کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہا۔ حالانکہ قرون اولیٰ میں ایسے صحابہ گزرے ہیں جو مصروف جہاد رہنے کی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھ سکے۔
رمضان کے بعد ہم نے عبث امید کی کہ پھر جدوجہد کا میدان گرم ہوگا۔ مسلمان کچھ ایسے بیٹھے کہ عید کے بعد بھی نہ اٹھ سکے۔ فیروز پور کی مجاہد ہ بہنوں کاایک گروہ چودھر ی عبدالستار بی۔ اے کی رہنمائی میں لاہور آیا۔ تا کہ مردوں کو غیرت دلائیں انہو ں نے مختلف مقامات پر لیکچر دئیے۔ لیکن گاڑی کا رک کر چلنا مشکل ہوگیا۔ چوہدری عبدالستار کی اہلیہ جلدہی گرفتار ہوکر سزا یاب ہوئیں۔ میں کئی ماہ سے بیمار تھا۔ اس عرصہ میں کانگرس کی جبری سول نافرمانی کا آغاز ہوچکا تھا۔ کسی نے سرکار کے کان میں سچ جھوٹ کہہ دیا کہ احرار کی تحریک تو وہ بیٹھا چلارہا ہے۔ چنانچہ مجھے بھی نوٹس ملا کہ لاہور چھوڑ کر گڑھ شنکر رہو۔ میں نے ہر چند چاہا کہ مسلمان کانگرس کی تحریک ساتھ مل کرہی اٹھیں۔ مگر مسلمان ایسے بیٹھے کہ پھر اٹھنے کا نام نہ لیا۔
مسلمان کے اس حال کو دیکھ کر جان کانپ گئی۔ روزے تو عذر کی بنا پر چھوڑ کر پھر رکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن جدوجہد اور جہاد سے ایک لمحہ غافل ہو کر قومیں ہمیشہ کے لیے مغلوب اور بعض اوقات تہِ تیغ ہوجاتی ہیں۔ میدان محاربہ میں ادنیٰ سی لغزش قوموں کی قسمت بدل دیتی ہے۔ قوم جو جہادِ زندگی کو دیگر عبادات سے افضل تصور نہ کرے وہ زمانے میں سربلند نہیں رہ سکتی۔ اس لیے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جہادمیں چار متصل نمازیں قضا ہوگئیں۔ لیکن جہاد سے ایک لمحہ غافل نہ ہوئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ خداعذر قبول کرلیتا ہے اور عفو کردیتا ہے۔ لیکن آمادۂ قتال قو میں کسی کو نہیں بخشتیں ۔ کاش میری قوم قرونِ اولیٰ کے حقیقی اسلام کی طرف رجوع کرے اور سمجھ لے کہ جہاد سے افضل کوئی عبادت نہیں۔ قول پر عمل کو ترجیح ہے۔ غرض یہ باعظمت تحریک رمضان شریف کی نذر ہوگئی۔ برسو ں کے بعد مسلمان قربانی کے عظیم مظاہرہ کی ابتداء کر کے رہ گئے۔ آخرکار مجھے بھی دھر لیاگیا اور ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔
ملتان جیل :
کچھ دن سنٹرل جیل لاہور میں رہا۔ پھر مجھے ملتان نئی جیل میں بھجو ادیا گیا۔ وہا ں مولانا مظہر علی اظہر، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا احمد علی، مولانا عبدالرحمن، شیخ حسام الدین پہلے سے نظر بند تھے۔ جمعیت العلماء کے راہنما مولانا احمد سعید،مولانا مفتی کفایت اﷲ، مولانا نور الدین بہاری اور مولانا
حافظ عبدالحلیم بھی اسی جیل میں جلوہ افروز تھے۔ علم وعرفان کی بارش کے ساتھ ساتھ پھکڑ بازی کا بھی کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ نیکی اور بدی برابر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جیل کے روشوں پر گھومتی ہیں!
یہاں فطرت انسانی کے دونو ں پہلوپورے طور پر نمایاں تھے۔ جیل کی مختصر دنیا میں چھوٹے چھوٹے جھگڑے اکثر خوب طول کھینچ لیتے تھے۔ غلامی کی طرح جیل کی نظر بندی بھی تنگ دلی سکھاتی ہے اور اعلیٰ مقاصد کو نظر انداز کرکے ادنیٰ اغراض کی طرف مائل کردیتی ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے دیکھنا،دل خوش کن نظارہ نہیں مگر یہ کھیل جیل میں عام ہے۔
انہی ایام میں فصل گل گزر چکی تھی لیکن پت جھڑکا موسم ابھی نہ آیا تھا۔ میں ایک روز صبح کے وقت جیل کے باغیچہ میں پژ مردہ پھولوں کی گری ہوئی پتیوں کو افسردہ دل ہو کر دیکھ رہاتھا اور میرا اطمینا ن علم کی بے یقینیوں نے لوٹ لیا تھاکہ یک بیک میں نے محسوس کیا میرے د ل کے باغ میں بہار آگئی ہے اور جھکڑ کی بجائے نسیمِ صبح چلنے لگی ہے۔ اعلیٰ خیالات چشمۂ حقانی سے نکل کر نرم روپانی کی طرح بہنے لگے ہیں۔ قلبِ حزیں مسرتو ں سے بھر گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ حقیقتِ منتظر دل کے دروازوں کے اندر آیا ہی چاہتی ہے۔ میں خدا سے کیسا راضی ہوگیا…… نہ مجھے کبھی ایسا تصور ہوا تھا نہ کوئی ایسا تصور کرسکتا ہے۔ یوں معلوم ہوا کہ مدت کے بچھڑے محبوب کے آنے کی اچانک خبر پاکر میں استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں۔ اور چاہتا ہو ں کہ اس کے آتے ہی فراق کی غمگین مگر محبت بھری داستان سناؤں۔اسلوب ایسا اختیار کروں کہ جدائی کی تلخی زبان کی حلاوت میں گم ہو کرا س شیریں آم کا مزہ دے جائے جس میں قدرت نے ہلکی ہلکی ترشی اس لئے ملائی ہو کہ دل مانگتا رہ جائے۔
شدت احساس نے قوت گویائی کو کم کردیا اور قلبِ جاری نے میری زبان بند کردی۔ اس سے فرصت پاؤں تو اور طرف نگاہ اٹھاؤں۔ محبت تنہائی میں آسودہ رہتی ہے۔ میری کم سخنی اور گوشہ نشینی سے دوستوں نے سمجھا کہ مرزا غلام احمد کی طرح مذہب کا نیا جال بن کر امت مسلمہ کو پھانسنے کی تیاریوں میں مصروف ہوں ۔ سپاہی سے فریب کی توقع سوء ظن ہے۔ میں نے قوم کو مذہبی طور سے نہیں سیاسی طور سے مظلوم پایا ہے۔ میں ان زنجیروں کو کاٹنے میں مصروف ہوں جن میں وطن عزیز اور دنیائے اسلام جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کیفیت قلب شاید میری اس سعی کا انعام ہے جو زندگی کے نامساعد حالات کے باوجود کر رہا ہوں۔ محبت سے ناآشنا نہیں جانتا کہ محبوب خوشی کے عالم میں گھونگٹ کھول کر کبھی ایک جھلک دیکھ لیتا ہے۔ اس کانور قلب پر کیفیتِ طور پیدا کرتا ہے۔ جہاں حضرت موسیٰ بے ہوش ہوجائیں وہاں میں دنیاسے بے خبر ہوگیا تو کیاہوا۔ طور کا تکرار نہ سہی،ادنیٰ کیفیت ہی سہی۔ گھونگٹ سارا کھلانہ سہی ایک کنارہ ہی سہی، یہ بھی تو دیکھومیں موسیٰ نہیں۔ شاید قدرت باندازۂ مینا محبت تقسیم کرتی ہے۔ میری اتنی ہی بساط تھی کہ میں اسی میں راضی ہوں۔
غرض جذب وعشق نے ایک معیّن صورت اختیار کرنا چاہی۔ کہ سردلبر کو کس کہانی میں بیان کروں۔ کس سلمیٰ اور لیلیٰ کو ڈھونڈوں۔ کہ محبت بانگِ بے ہنگامہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ میٹھا راگ بنے تا کہ سن کر کوئی اثرپذیر ہو۔ طبعی رجحان اس شخص کی تعریف کی طرف تھا جس کے قول وفعل سے دنیا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا اور جس کا قول وعمل جسم اور جان دونوں کے لیے بہترین پروگرام پیش کرتے ہیں۔ لیکن جس کو ماننے کے باوجود اِس زمانہ میں اُس کی قوم دوسروں کی رہنمائی کی محتاج ہوگئی۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ دنیا اُس کی رہنمائی قبول کرے۔
طبیعت کے رجحان اور دوستوں کے ایماء پر میں نے ہندو ستانی خیال کو حجازی لے میں گانا شروع کردیا اور ملتان جیل میں بیٹھ کر نواحِ عرب کے ناقہ سوار کی تعریف میں قلم اٹھایا۔ آنسوؤں کی روانی میں طبیعت کی کہانی کو ’’محبوبِ خدا‘‘ کے نام سے شروع کیا اس کتا ب میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گونا گوں کمالات کی طرف صرف اشارہ کرنے ہی کی فرصت ملی تھی کہ جیل کے ایامِ آخر آگئے۔ پھر کش مکشِ حیات نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔
صوفی تجھے قلب پر ضربات لگانے کی مہلت ہوگی۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تو جہاد میں نماز قضا ہو گئی۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عشق کی دنیا کو آباد کروں۔ لیکن عیسیٰ(علیہ السلام) کی بھیڑیں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی کھیتی کو چرگئیں۔ شیطان بازار میں ننگا ہو کر ناچنے لگا۔ مسلمان کی عافیت کوشی نے مرکزِ اسلام کو خطرہ میں ڈال رکھا ہے۔ فرض کوچھو ڑ کر محبت کے مزے لوٹاکروں۔ نہیں مسلمان کی شان یہ نہیں۔ صوفی! محبت کی رنگین وادی میں رہ کر نعرہ حق کی فرصتیں کہاں۔ فرض کے صحرائے خشک کا راستہ اختیار کرکے فرہاد کی طرح کو ہکنی کی ضرورت ہے۔ دنیا کی حسین وادیوں میں کھو جانے کے لئے مسلمان پیدا نہیں ہوا۔ اسے جان جو کھوں میں ڈالنے کا حکم ہے۔ خشک فرض کے صحرا کو عبور کرتے ہوئے رنگین محبت کا متبسم نخلستان آجائے توگھڑی دوگھڑی سستالو لیکن فرض پر محبت کو ترجیح دینے کا حق کہاں ہے۔ جب خدا میدان جہاد میں کھڑا پکارے اور بندہ گوشے میں سکون ڈھونڈے۔ یہ مذہب سے مذاق ہے اور روحانیت سے فریب ہے۔
جیل سے نکل کر میں پھر سیاست کے خشک میدان میں داخل ہوگیا۔ یہاں محبت کی کہانی بھولنے لگی۔ فرض میں کسررہ گئی تھی وہ پوری ہوجائے تو شاید اور قرب نصیب ہو۔ اے صوفی برحق! دروازے پر محض صدا دینے سے تو وہ دروازہ کھول کر سامنے نہیں آتا۔ رونمائی کے لئے کوئی نقد جان لائے تو وہ رخِ انور سے پردہ ہٹائے۔ تو نے محض قول پسند کیا۔ میں نے عمل قبول کیا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ حال کو دیکھتا ہے قال کو نہیں پوچھتا ۔
ملتان جیل کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ بلبلِ اسیر قفس کی تیلیوں سے سرٹکرا کر بچھڑے چمن کے درد بھرے راگ جس سوز سے گاتی ہے، اسی سوزوساز سے محبانِ قوم و ملک پابندِ بلا ہوکر جیل کے خشک اور غمگین ماحول میں غم غلط کرنے کے لیے مدھم سروں میں فراق کے گیت گاتے ہیں۔ لیکن غم غلط کرنے کی یہ غیر معین صورت ہے۔
آپ بیتی سے اکتا کر جگ بیتی سننے کو سب کاجی چاہا، فیصلہ ہوا کہ شاعری پر ستم ڈھایا جائے۔ قرار پایا کہ مجھے میرِ مشاعرہ بنایا جائے۔ شاخِ کہنہ سے میوۂ نورس کتنا غنیمت ہے۔ مفتی کفایت اﷲ صاحب نے کم، مگر مولانا احمد سعید نے کمال کردیا ۔ الفاظ کا پیراہن شاہدِ خیال کو پہنایا۔ عشق کا جامہ چاک کرکے اسے گلی کو چوں میں پھرایا۔ شریعت مآب مولانا کی حجاب ماب شخصیت کے سایہ میں حسن وعشق کے جذبات بے محابا رقص شروع کیا۔ حافظ عبدالحلیم کی رنگین نوائی لکھنوی قسم کی شاعری کے دوش بدوش جاری تھی۔ مولانا مظہر علی اظہرؔ مرثیہ کی رنگ میں غزلیں پڑھتے تھے لیکن کہتے خوب تھے۔ ایک انقلابی نوجوان ساتھی اپنے ان ساتھیوں کی تعریف میں جو وطن عزیز کی آزادی کی خاطر جان قربان کرچکے تھے۔ ایسی نظمیں لکھتے تھے کہ ہر مصرعہ نوکِ سناں ہوجاتا تھا۔ میکش صاحب روئی سے شراب چوس کر کثرتِ خیال میں الجھی ہوئی غزلیں کہتے اور نو آموز دوست بھی طرح مصرعہ پر طبع آزمائی کر کے شگفتہ طبیعت لوگو ں سے داد لیتے۔ جہاں مولانا احمد سعید، حافظ عبدالحلیم اور مفتی صاحب شاعری کریں اور مولانا داؤد غزنوی، مولانا حبیب الرحمن، مولانا احمد سعید، عطاء اﷲ شاہ داد دینے والے ہوں۔ اس مشاعرہ کی اہمیت کا کیا کہنا! وہاں متانت کو شوخی نے پچھاڑ رکھا تھا۔ جذبات علم سے کئی قدم آگے آگے چلتے تھے۔ (جاری ہے)