عبد الکریم قمر
۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں مجلس احرار اسلام کا قیام عمل میں آیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ۱۹۳۱ء میں ہی مجلس احرار کو تحریک کشمیر کا معرکہ پیش آگیا۔ ٖجب کشمیر میں ڈوگرہ حکمرانوں کی طرف سے مسلمان رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرائے جانے لگے تو ہندوستان کے مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ خصوصاً پنجاب کے مسلمان تو تڑپ اٹھے۔ اس پر احرار رہنما چوہدری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی پوری توجہ کشمیر کے حالات پر مرکوز کر دی اور دوسرے احرار رہنماؤں کو بھی اس طرف متوجہ کیا۔ چناچہ مولانا مظہر علی اظہرؒ اور ماسٹر تاج الدین انصاری ؒنے چوہدری افضل حقؒ کی رہنمائی میں تحریک کشمیر میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ پورے ہندوستان سے عموماً اور پنجاب سے خصوصاً جس طرح احرار رضاکاروں نے کشمیر کا رخ کیا اور پچاس ہزار سے زائد کارکنان نے گرفتاریاں پیش کر کے ریاستی حکومت کے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس پر ڈوگرہ حکمرانوں کو ہندوستان کے انگریز حکمرانوں سے مدد مانگنا پڑی اور انہیں مفتی ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ رحمہ اﷲ سمیت دیگر مسلمان اکابر سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ احرار رہنماؤں کو بات چیت پر آمادہ کریں۔
تحریک کشمیرنے ڈوگرہ حکمرانوں کی طرف سے مسلمان رعایا پر روا رکھے جا نے والے مظالم سے ہندوستان کے تمام لوگوں کو باخبر کیا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں جہاں کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کمی آئی وہاں اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مرزائی پوپ مرزا بشیر الدین محمود جو کشمیر کمیٹی کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی گھناؤنی سازش کر رہا تھا وہ مکروہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا اور کشمیری مسلمان قادیانیت کی گود میں جانے سے بچ گئے۔
تحریک کشمیر کے زمانہ سے ہی مجلس احرار اسلام کا کشمیری قیادت سے رابطہ تھا جو ہمیشہ قائم رہا۔ پاکستان بننے کے بعد سردار عبد القیوم خان مرحوم آزاد کشمیر میں صف اول کے رہنما تھے ۵،۶ مارچ ۱۹۷۰ء کو مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام احرار پارک، باغ بیرون دہلی دروازہ لاہور میں منعقد ہونے والی عظیم الشان ختمِ نبوت کانفرنس میں جہاں دوسرے ملکی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دی گئی وہیں سردار عبد القیوم خان کو بھی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اس کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خطاب بھی فرمایا۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو آزاد کشمیر میں صدارتی انتخاب ہوا جس میں سردار عبد القیوم خان بھاری اکثریت سے جیت کر آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔
مجلس احرار اسلام کی طرف سے آزاد کشمیر کا صدر منتخب ہونے پر سردار عبد القیوم خان کو مجلس احرار کے مرکزی دفتر بالمقابل مسجد شاہ محمد غوث لاہور میں ۲۴ جنوری ۱۹۷۱ء بروز اتوار کو شاندار استقبالیہ دیا گیا۔
جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ ہر ماہ مرکزی دفتر میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ اس دن بھی حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ کا درس قرآن تھا جو صبح ۹ ؍بجے شروع ہوا اور ۱۱؍ بجے ختم ہوا۔ اسی دوران سردار عبد القیوم خانؒ کی گاڑی دفتر کے نیچے پہنچی۔ سردار صاحب سیڑھیاں چڑھ کر دفتر تشریف لائے تو مجلس احرارِ اسلام کے صدر مولانا عبید اﷲ احرارؒ، ناظم اعلیٰ حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ، ناظمِ نشریات چوہدری ثناء اﷲ بھٹہؒ، حاجی برکت علیؒ، دیگر رہنماؤں اور مجھ سمیت متعدد کارکنوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور ان کے گلے میں ہار ڈالے گئے۔ ان کو دفتر کے بغلی کمرہ میں بٹھایا گیا اور پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس میں مجلس احرار کی کشمیر میں ۱۹۳۱ء میں برپا کردہ تحریک کی یادوں کو تازہ کیا اور سردار عبد القیوم خان کو آزاد کشمیر کا صدر منتخب ہونے پر اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے مبارک باد دی۔ علاوہ ازیں جہادِ کشمیر کی حمایت کرتے ہوئے دس ہزار سرخ پوش احرار رضا کاروں کے تعاون کی پیش کش کی۔
سردار عبد القیوم خان نے جوابی تقریر میں تحریک کشمیر میں مجلس احرار اسلام کے بھر پور کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور کشمیر کی تازہ صورت حال اور مستقبل کے لیے اٹھائے جانے والے اپنے اقدامات کا ذکر کیا۔ تحفظ ختم نبوت کے کام میں اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انھوں نے حضرت سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ کے تعاون کی پیش کش اور اپنے شاندار استقبال پر احرار رہنماؤں اور کارکنان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس کے بعد سردار عبد القیوم خان کی چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ تواضع کی گئی اور نماز ظہر سے قبل یہ یاد گار تقریب اختتام کو پہنچی۔