محمد فیاض عادلؔ فاروقی
مکہ بھی منوّر ہے، طَیبہ بھی مُعطّر ہے
اک حسن کا منظر ہے، اک عشقِ سراسر ہے
یثرب کے شبستاں پر قربان اجالے ہیں
جو کیف وہاں پر ہے وہ کیف کہاں پر ہے؟
طَیبہ کے فقیروں میں، تُو مجھ کو بھی لکھ یا رب
یہ فقر کی دولت ہی سب مال ہے، سب زر ہے
کہتے رہیں مجھ کو سب دیوانہ و مستانہ
یہ شوق کی مستی ہی ہر ہوش سے بڑھ کر ہے
دنیا میں کہیں ڈھونڈیں، قیمت ہی نہیں اِس کی
یہ عشق کا گوہر وہ انمول سا گوہر ہے
عادلؔ تری رحمت کی امید پہ ہے نازاں
مالک! تری رحمت کا کوئی بھی نہ ہمسر ہے