حضرت مفتی عبدالرؤف سکھروی دامت برکاتہم
الحمد ﷲ ہر مسلمان کے گھر میں عموما بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور بچوں کی پیدائش پر کچھ اعمال ولادت کے وقت مستحب ہیں اور بعض اعمال ولادت کے ساتویں دن مستحب ہیں، اکثر مسلمان ان سے ناواقف ہیں، اس لیے اکثر اس موقع پر وہ دریافت کرتے رہتے ہیں اورجو دریافت نہیں کرتے، وہ ان پر عمل کرنے سے محروم رہتے ہیں، اس بنا پر ذیل میں انہیں لکھا جاتا ہے تا کہ بچہ/بچی کے پیدائش کے بعد اپنے اپنے وقت میں ان پر عمل کریں اور ان کے فضائل وبرکات حاصل کر سکیں۔ اﷲ پاک توفیق دیں،آمین۔
ولادت کے مستحب اعمال
کان میں اذان دینا:
جب بچہ پیدا ہوتو اس کو نہلادھلا کر اور کپڑے پہنا کر سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان کہہ دیں اور بائیں کان میں اقامت یعنی تکبیر کہ دیں۔(مشکوٰۃ شریف مع حاشیہ، ص 359،ج2)
تحنیک کرانا:
اگر اس وقت کوئی بزرگ قریب ہوں ، اور موقع ہوتوان سے تحنیک کرائیں، کیونکہ یہ سنت ہے۔ تحنیک یہ ہے کہ ان کی خدمت میں ایک دو کھجور پیش کریں اور وہ اپنے منہ میں اس کو چبا کر بچہ کے منہ میں ڈال دیں(اور کچھ بچہ کے تالومیں لگائیں) اور بچہ کیلئے خیرو برکت کی دعا کریں۔(مشکوٰ ۃ ج 2ص362وتکملہ فتح الملہم ص 200ص4)
(آیت الکرسی اور چارو ں قل پڑھ کر شہد پردم کر کے)تھوڑا ساشہد بچہ کو چٹانا بھی جائز ہے۔ اس سے بھی تحنیک(کی سنت ادا) ہوجاتی ہے۔(تکملۃ فتح الملہم ص 300ج4)
ولادت کے ساتویں دن مستحب اعمال
عقیقہ کرنا:
جب کسی کے ہاں لڑکا یالڑکی پید اہوتو بہتر ہے ساتویں دن اس کاعقیقہ کردیں، لڑکا ہوتو دو بکرے یا دوبکری یادو دنبے یا دوبھیڑ ذبح کردیں اور لڑکی ہوتو ایک بکرایا ایک بکری وغیرہ ذبح کردیں یاگائے میں لڑکے کے دوحصے اور لڑکی کا ایک حصہ لے لیں یاپوری گائے سے عقیقہ کرلیں سب جائز ہے۔
اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہواور وہ لڑکے کی طرف سے ایک بکرا یا ایک بکری ذبح کردے تو بھی کچھ حرج نہیں۔ (تنقیح الحامد یہ ج 2ص233)اور اگر کوئی بالکل ہی عقیقہ نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں، کیونکہ عقیقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔ (مشکوٰ ۃ ص 363ج 2وبہشتی زیورج 3ج 43)ولادت سے پہلے عقیقہ کرنا جائز نہیں اگر کوئی کرے گا تو وہ عقیقہ نہ ہوگا یہ ذبیحہ گوشت کھانے کے لیے ہوگا۔ (المجموع شرح التھذیب ج 9ص 245)
دعا عقیقہ:
جب کسی لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ کاجانور ذبح کیا جائے تو ذبح کرنے والا یہ دعا پڑھے:بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰھُمََّ لَکَ وَاِلَیکَ عَقِیقَۃً عَنْ فُلانٍ (اﷲ تعالیٰ کے نام سے اوراﷲ تعالیٰ سب سے بڑاہے،اے اﷲ یہ آپ کی رضا کے واسطے محض آپ کی بارگاہ میں فلاں کے عقیقہ کا جانو ر ذبح کرتا ہوں)۔
او ر یہ دعا کرے:
اَللّٰھُمَ ھٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ اِبْنیِ فَاِنَّ دَمَھَا بِدِمِہٖ وَلَحْمَھَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمَھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدَھَابِجِلْدِہٖ وَشَعْرَھَابِشَعْرِہٖ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا فِدَاءً لِاِبِنْی مِنَ النَّارِ(تنقیح الحامدیہ ج2ص(233
ترجمہ: یااﷲ یہ میرے بیٹے /بیٹی کا عقیقہ ہے، لہذا اس کا خون اس کے خون کے بدلے، اس کا گوشت اس کے گوشت کے بدلے، اس کی ہڈیاں اس کی ہڈیوں کے بدلے، اس کی کھال اس کی کھال کے بدلے، اس کے بال، اس کے بالوں کے بدلے میں ہیں ،یا اﷲ! اس کو میرے بیٹے /بیٹی کے بدلہ دوزخ سے آزادی کا بدلہ بنادے۔ آمین۔ (بہشتی زیور ص 43ج3)
عقیقہ کے مسائل:
جس جانور کی قربانی جائز ہے اس میں عقیقہ کرنا بھی جائز ہے جیسے اونٹ،گائے، بھینس، بکرا وغیرہ اور اونٹ، گائے میں عقیقہ کے سات حصے رکھ سکتے ہیں مثلا کسی شخص کے تین لڑکے اورایک لڑکی ہواور وہ ان سب کے عقیقہ میں ایک گائے یا ایک اونٹ ذبح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ (ہندیہ ج 5ص304) گائے،بیل وغیرہ میں کچھ حصے قربانی کے اور کچھ عقیقے کے رکھنا جائز ہے۔ (ہندیہ ج 5ص304) جس جانور کی قربانی جائز نہیں جیسے ہرن،نیل گائے وغیرہ،اس سے عقیقہ کرنا بھی جائز نہیں اور جس جانور کی قربانی کرناجائز ہے جیسے گائے،بیل اور بکرا وغیرہ اس سے عقیقہ بھی درست ہے۔(ہندیہ ج 5ص 304)
عقیقہ کے گوشت سے دعوت کرنا بھی جائز ہے، نیز عقیقہ یاقربانی کاگوشت ولیمہ کی دعوت میں استعمال کرنا جائز ہے۔(شامی ج 6ص326اور بہشتی زیور کاحاشیہ ج 3ص 43)
سرکے بال منڈوانا:
بچہ/بچی کی ولادت کے ساتویں دن سر کے بال منڈوادیں خواہ پہلے سرمنڈوائیں، پھر عقیقہ کریں یا پہلے عقیقہ کریں،پھر سرکے بال منڈوائیں دونوں طرح جائز ہے،البتہ یہ ہے کہ پہلے بچہ کے سر کے بال منڈوائیں پھر عقیقہ کاجانور ذبح کریں۔(حاشیہ بہشتی زیور ج3ص43)
بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا:
بچہ/بچی کے سرکے بال منڈوانے کے بعد بالوں کے وزن کے برابر سونایا چاندی خیرات کردیں(چاندی سے اس کااندازہ رقم میں تقریبا پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک ہے یہ رقم صدقہ کردیں)اور بالوں کو کسی جگہ دفن کردیں۔ (مشکوٰ ۃ ج2ص362) لڑکے اور لڑکی کاسرمنڈوانے کے بعد اگر زعفران میسر ہوتو تھوڑی سی زعفران پانی میں گھول کر روئی وغیرہ سے اس کے سرپر لگادیں اور اگر زعفران نہ ہوتو کچھ حرج نہیں کیونکہ یہ عمل بہتر ہے،ضروری نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ ج 2ص362)
ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکنے کا حکم:
اگر کوئی شخص ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو آئندہ جب کرے ساتویں دن کاخیال کرنا مستحب ہے، اس کاآسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن لڑکا یالڑکی پیدا ہو، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کردیں۔ مثلا اگربچہ جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کو عقیقہ کردیں اور اگر جمعرات کوبچہ پیدا ہوا ہے تو بدھ کوعقیقہ کردیں، اس طرح جب بھی عقیقہ کیا جائے گا وہ حساب سے ساتواں دن پڑے گا۔ (شرح التھذیب ج 9ص 245)
اگر کوئی اس کا لحاظ کیے بغیر کسی بھی دن عقیقہ کردے یابقر عید کے دن قربانی کے ساتھ عقیقہ کردے تو بھی جائز ہے۔ (ماخذ بہشتی زیور کاحاشیہ ج 3ص43)
جس شخص کاپیدائش کے بعد عقیقہ نہ ہواہو تو بعد میں اس کو اپنا عقیقہ کرنا جائز ہے،چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا۔ (شرح التھذیب ج9ص 245وتنقیح الحامدیہ ج 2ص233)
ختنہ کروانا:
اگر لڑکا پیدا ہو تو ولادت کے ساتویں دن ختنہ کرانا مستحب ہے کیونکہ ولادت کے ساتویں دن سے لڑکے کی بارہ سال عمرہونے تک ختنہ کرانے کامستحب وقت ہے، حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہما کی ولادت کے ساتویں دن ختنے کرائے تھے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتویں دن ختنے کروائے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تیرہ سال کی عمر میں ختنے کروائے تھے۔ (تکملہ فتح الملہم ج 5ص9)
بچہ کانام رکھنا:
ساتویں دن لڑکے/لڑکی کا اچھا سانام رکھ دیں،نام رکھنے میں ساتویں دن سے زیادہ تاخیر نہ کریں اور ایسا نام نہ رکھیں جس کے معنی برے ہوں یا اس میں بڑائی یابزرگی کا مفہوم نکلتا ہو، جیسے عاصی یا عاصیہ جس کے معنیٰ نافرمانی کرنے والا اور نافرمانی کرنے والی کے ہیں یا جیسے شہنشاہ اور امیر الامراء ،اس میں بڑائی پائی جاتی ہے یاجیسے برَّہ نیکو کاراس میں بزرگی پائی جاتی ہے وغیرہ۔(تکملہ فتح الملہم ج 4ص214)لڑکے/لڑکی کی ولادت کے دن نام رکھنا بھی جائز ہے۔ (تکملہ فتح الملہم ج 4ص220)لڑکے یالڑکی کانام کسی نیک اور بزرگ سے رکھوانا مستحب ہے وہ اپنی پسندسے بچہ/بچی کا کوئی نام رکھ دیں۔(تکملہ فتح الملہم ج 4ص220)
برُانام بدل دینا چاہیے:
اگر کسی لڑکے یالڑکی کے نام کے معنیٰ اچھے نہ ہوں، اُس کوبدل دینا چاہیے،حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا جیسے حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کا پہلا نام برّہ تھا جس کے معنی نیکی اور بھلائی کے ہیں جس میں اپنی بزرگی کا پہلو نکلتا ہے۔ لہذا آپ نے اس کو بدل کر زینب رکھ دیا، اسی طرح ایک شخص کانام اصرَم تھا جس کے معنی ہیں زیادہ کاٹنے اور اکتر نے والا یہ معنیٰ اچھے نہیں نہیں اس لیے آپ نے سن کر فرمایا نہیں تم زرَّ اع ہو جس کے معنی کھیتی کرنے والا ہیں ۔ (بخاری وابوداؤد)