مولانا محمد یوسف شیخوپوری
۱۔ عن ابی سعیدٍ الخدری عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال إنَّ من أمنِّ الناس علیّ فی صحبتہٖ ومالہٖ أبوبکر (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا انسانوں میں سب سے زیادہ جس شخص نے میرا ساتھ دیا، میری خدمت میں اور میری خوشنودی میں اپنا مال سب سے زیادہ لگایا وہ ابوبکرؓ ہیں۔
۲۔ أبو بکر صاحبی ومونسی فی الغار۔ سُدُّوا کل خوخۃ فی المسجد غیر خوخۃ أبی بکر
(مسند أبی یعلی عن ابن عباس ؓ)
ابوبکر (رضی اﷲ عنہ) میرے غار(ثور)کے رفیق اور ساتھی ہیں مسجد (نبوی) کی جانب تمام کھڑکیاں (دروازے) بند کردو سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔ اس روایت کو امام حاتم نے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں مذکور لفظ ’’سُدُّوا‘‘اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ میرے بعد خلافت کا پہلا استحقاق ابوبکر کا ہے ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کی آرزوئے خلافت کا دروازہ بند ہے۔
۳۔ قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أنت صاحبی علی الحوض وأنت صاحبی فی الغار
(ترمذی)
جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہو اور تم غار میں بھی میرے رفیق ہو۔
۴۔ أنا أول من تنشق الارض عنہ ثم أبو بکر ثم عمر (ترمذی، مستدرک حاکم)
قیامت کے دن جب تمام خلقت اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کر میدان حشر میں آئے گی تو سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی اور میں قبر سے اٹھنے والا پہلا شخص ہوں گا میرے بعد ابوبکر اور ان کے بعد عمر اٹھیں گے۔
۵۔ قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أنت عتیق اﷲ من النار فیومئذٍ سُمِّیَ عتیقاً (ترمذی ومشکوٰۃ) وقال علیہ السلام من أراد أن ینظر بنظر إلی عتیق من النَّارِ فلینظُر إلی أبی بکر (مشکوٰۃ)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر تم دوزخ کی آگ سے اﷲ کی طرف سے آزاد کردہ ہو۔ اسی دن سے ان کاایک نام عتیق(دوزخ سے آزاد شدہ) پڑگیا۔ دوسری جگہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دوزخ کی آگ سے بری اور آزاد شخص کے دیدار کی تمنا رکھتا ہے وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔
۶۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کا وہ دروازہ کھلا یا جس سے میری امت جنت میں داخل ہوگی۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یارسول اﷲ میرے دل میں یہ حسرت بھری خواہش مچل رہی ہے کہ کاش اس وقت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تو مجھے بھی جنت کادروازہ یکھنا نصیب ہوتا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’إنک یا أبا بکر أوَّل من یدخل الجنۃ من اُمتی (ابو داؤد ومشکوٰۃ) اے ابو بکر میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں آپ داخل ہوں گے۔
۷۔ قال رسول اﷲ علیہ وسلم لاینبغی لقومٍ فیھم ابوبکر ان یؤمَّھم غیرہ (ترمذی مشکوٰ ۃ)
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس قوم و جماعت میں ابوبکر موجود ہوں تو ان کے لیے موزوں نہیں کہ ان کی امامت ابو بکر کے علاوہ کوئی اور شخص کرے۔
اسی وجہ سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو نماز کا امام بنا کر ہمارے دین کا پیشوا بنا یا تو پھر ہماری دنیا کے معاملہ (یعنی خلافت) میں کون شخص آپ کو پس پشت ڈال سکتا ہے پھر جنازہ ٔسیدہ فاطمہ پر تمام حاضرین کی موجودگی میں آپ کو آگے کر کے عملاً اس کا ثبوت پیش فرمایا۔
۸۔ من أصبح منکم الیوم صائما؟ قال أبوبکر أنا۔ قال فمن تبع منکم الیوم جنازۃً؟ قال أبوبکر أنا۔ قال فمن أطعم منکم الیوم مسکیناً؟ قال أبوبکر أنا۔ قال فمن عاد منکم الیوم مریضاً؟ قال أبو بکرٍ أنا۔ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مااجتمعن فی امریٍٔ الا دخل الجنۃ۔ وفی روایۃ عن انس وجبت لک الجنۃ (مسلم۔ الصواعق المحرقہ)
حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج تم میں سے روزہ کس نے رکھا ؟حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا میں نے۔پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: آج تم میں سے کسی مسلمان بھائی کا جنازہ کس نے پڑھا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: میں نے۔ پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے استفسار فرمایا: تم میں سے آج کسی مسکین کوکھانا کس نے کھلایا؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا میں نے۔پھر فرمایا تم میں سے کس مریض کی تیمارداری کس نے کی ہے؟۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا میں نے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں یہ سب چیز یں جمع ہونگی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ کے لیے جنت واجب ہوچکی ہے۔
۹۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں پس جو شخص اہل الصلوٰ ۃ ہوگا وہ نمازیوں والے دروازے سے پکارا جائے گا۔ جو شخص اہل الجہاد ہوگا وہ مجاہدین کے مخصوص دروازے سے پکارا جائیگا۔ جوشخص روزہ داروں میں ہوگا وہ باب الریان (روزہ داروں کے مخصوص دروازہ) سے پکارا جائے گا۔ جوشخص اہل الصدقہ میں سے ہو گا وہ باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا: کیاکوئی ایسا بھی ہوگا جسے جنت کے تمام دروازں سے پکارا جائے؟فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نعم أرجوأن تکون منھم۔ جی ہاں ابو بکر مجھے امید ہے وہ شخص تم ہوگے جسے جنت کے تمام دروازں سے پکارا جائے(صحیحین)
۱۰۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم مرض الوفات میں جب خود مسجد میں تشریف نہ لاسکے تو ارشاد فرمایا: مروا أبا بکر فلیصل بالناس (بخاری مسلم ترمذی)
ابوبکر کو میری طرف سے حکم کرو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
چنانچہ آپ رضی اﷲ عنہ نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی موجودگی میں، مشہور قول کے مطابق ۱۷ سترہ نمازیں پڑھائیں ۔جبکہ اصحاب تحقیق کے ہاں۲۱؍ اکیس نمازیں پڑھائی ہیں۔ انھی میں وہ نمازبھی ہے جس میں افاقہ ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد تشریف لائے اور آ پ کے بائیں پہلو بیٹھ کر تمام لوگوں کو نماز پڑھائی۔ حضرت ابو بکر جہرسے نماز پڑھارہے تھے اس لیے حضور علیہ والسلام نے وہاں سے آگے شروع فرمایا جہاں تک حضرت ابوبکر پہنچے تھے اور محققین کے مطابق سورت فاتحہ پڑھ چکے تھے اور اگلی سورت شروع کر رکھی۔ یہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک کی آخری با جماعت نماز تھی۔ جس سے کئی مسائل اخذ ہوتے ہیں جو اہل نظر سے مخفی نہیں۔ اور انہی میں وہ نماز بھی تھی جس میں حضور علیہ السلام تشریف لائے اور جماعت میں شامل ہوئے اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ بدستور امام جماعت رہے (سیرت خلفا راشدین)