قسط: ۴
علامہ ابن سید الناس رحمہ اﷲ تعالی مترجم : ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو اﷲ تعالیٰ کھانا کھلائیں تو اسے کھانے کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَ اَطْعِمْنَا خَیْراً مِّنْہُ۔
اور جس شخص کو اﷲ تعالیٰ دودھ پلائیں تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْہُ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا دودھ کے سوا ایسی کوئی چیز نہیں جو کھانے اور پینے کے قائم مقام ہو سکے۔ ( 1)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لباس کا بیان
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم (عام طور پر) ادنیٰ کپڑا استعمال فرماتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مرمت شدہ جوتا بھی پہن لیتے(2) اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لباس میں کسی قسم کا تکلف نہیں فرماتے تھے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پسندیدہ لباس سرخ و سفید دھاریوں والا یمنی چادر سے بنا کرتا تھا۔ (3) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم قمیض کو بھی پسند فرماتے۔ (4)
جب آپ صلی اﷲ علیہ نیا لباس زیب تن فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا اَلْبَسْتَنِیْہِ أَسْئَلُکَ خَیْرَہٗ وَ خَیْرَ مَا صُنِعَ لَہٗ وَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَ شَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ۔(5)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سبز لباس بھی پسند تھا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی کبھار ایک چادر زیب تن فرماتے، اس کو باندھ کر اس کے دونوں کونے کندھوں پر باندھ لیتے۔ (6)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کے روز سرخ چادر اوڑھتے اور عمامہ بھی باندھتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں چاندی کی بنی انگوٹھی پہنتے، کبھی کبھار بائیں ہاتھ میں بھی پہن لیتے ۔ (7) اس انگوٹھی پر محمد رسول اللّٰہ کندہ تھا۔ (8)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناگوار بو کو ناپسند فرماتے۔
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اﷲ تبار ک و تعالیٰ نے (میری) ازواج اور خوشبو کو میری پسند بنا دیا ہے۔ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی ہے۔ (9)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی کستوری کو اکیلے بھی استعمال کرتے اور کبھی عنبر عود وغیرہ کے ساتھ ملا کر۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عود اور کافور کی دھونی بھی دیتے۔ (10)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اثمد کا سرمہ لگاتے ، (11) کبھی دا ہنی آنکھ میں تین اور بائیں میں دو سلائیاں لگاتے اور کبھی کبھار روزے کی حالت میں بھی سرمہ لگاتے۔ (12)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم داڑھی اور سر میں اکثر تیل لگاتے اور ایک دن چھوڑ کر تیل لگاتے اور سرمہ لگاتے وقت طاق سلائیاں استعمال کرتے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بال بنانے، جوتا پہننے، وضو کرنے غرض ہر کام میں داہنی طرف سے ابتدا کرنا پسند فرماتے۔ (13)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم آئینہ بھی استعمال فرماتے۔
سفر میں یہ چیزیں ہمیشہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتیں:
تیل کی شیشی، سرمہ، آئینہ، کنگھا، قینچی، مسواک اور سوئی دھاگہ۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم رات کو تین مرتبہ مسواک استعمال فرماتے:
ایک مرتبہ سوتے وقت، دوسری مرتبہ تہجد کے وقت اور تیسری مرتبہ نماز فجر کے لیے۔ (14)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حجامہ بھی کرواتے تھے۔ (15)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مزاح کا بیان
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم مزاح بھی فرماتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مزاح بھی سچ بات ہی ہوتی۔ (16)
ایک مرتبہ ایک عورت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے سواری کے لیے اونٹ عنایت فرمائیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ اس نے عرض کیا: اونٹنی کا بچہ تو مجھے نہیں اٹھا سکے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: میں تو تمھیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ ہی دوں گا۔ اس نے پھر یہی کہا کہ وہ مجھے نہیں اٹھا سکے گا تو صحابہ کرام ضی اﷲ عنہم نے اسے کہا: اونٹ بھی تو اونٹنی کا ہی بچہ ہوتا ہے۔ (17)
اسی طرح ایک عورت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا خاوند بیمار ہے، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کا خواہش مند ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمھارا خاوند وہی ہے جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے؟ وہ عورت گھر لوٹی اور اپنے خاوند کی آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی تو اس نے پوچھا تمھیں کیا ہوا؟ وہ بولی مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا کہ تمھارے خاوند کی آنکھوں میں سفیدی ہے۔ تو اس نے کہا: تمھیں کیا ہوا، سفیدی تو ہر شخص کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اﷲ کے رسول دعا کیجیے کہ اﷲ مجھے جنت میں داخل فرمائے۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اُم فلاں! بوڑھی عورت تو جنت میں داخل نہیں ہو گی۔ یہ سن کر وہ عورت روتی ہوئی واپس لوٹنے لگی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بتا دو کہ وہ بوڑھی ہونے کی حالت میں نہیں بلکہ جوان ہو کر جنت میں جائے گی، کیونکہ اﷲ عز و جل فرماتے ہیں: اِنَّا أَنْشأْنَاہُنَّ اِنْشاءً ۔ فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا۔ عُرُبَا أَتْرَابًا ۔ لِأْصْحَابِ الْیَمِیْنِ ۔(18)
کیسی پاک ذات ہے جس نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اخلاق حسنہ سے خاص فرمایا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کا بیان
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی شادی سیدہ خدیجہ بنت خُوَیلد رضی اﷲ عنہا سے ہوئی۔ (19) ان کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دوسرا نکاح سیدہ سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبد ود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لؤی سے ہوا۔ (20) وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت میں کبر سنی کو پہنچیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں الگ کرنے کا ارادہ فرمایا تو انھوں نے اپنی باری کا دن سید عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو ہبہ کر دیا اور عرض کیا کہ اب مجھے مرد کی کوئی حاجت نہیں، میری خواہش یہ ہے کہ قیامت کے روز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ کی حیثیت سے اٹھائی جاؤں۔ (21)
اس کے بعد عائشہ بنت ابی بکر بن عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرۃ ہیں۔ (22) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ہجرت سے دو برس قبل نکاح فرمایا۔ ایک قول کے مطابق یہ نکاح ہجرت سے تین برس قبل ہوا اور اس وقت سیدہ کی عمر 6یا 7برس کی تھی اور 9 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں آپ رضی اﷲ عنہا کی رخصتی ہوئی۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے، تب ان کی عمر 18برس تھی اور آپ رضی اﷲ عنہ نے 58ھ میں وفات پائی۔ اور بعض نے آپ کا سن وفات اس کے علاوہ بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی اور زوجہ ایسی نہیں جو کنواری نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی ہو۔ آپ رضی اﷲ عنہا کی کنیت اُم عبداﷲ ہے۔
پھر حفصہ بنت عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن ریاح بن عبداﷲ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب سے نکاح ہوا۔ (23) روایت کی گئی ہے کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں طلاق دی تو جبریل علیہ السلام آئے اور عرض کیا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپ حفصہ رضی اﷲ عنہا سے رجوع کر لیں، وہ بہت روزے رکھنے والی اور شب بیدار ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ رجوع حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی دلداری کے لیے تھا۔
اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف سے نکاح کیا۔(24) یہ اس وقت حبشہ میں تھیں، نجاشی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے چار سو دینار مہر ادا کیا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ آپ کے ولی نکاح تھے اور ایک روایت میں ہے کہ خالد بن سعید بن العاص رضی اﷲ عنہ ان کے ولی تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہا کی وفات 44ھ میں ہوئی۔
پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ بن المغیرہ بن عبداﷲ بن عمر بن مخزوم سے نکاح فرمایا۔ (25) ان کی وفات 62ھ میں ہوئی۔ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سب سے آخر میں آپ رضی اﷲ عنہا نے وفات پائی۔
ایک روایت کے مطابق ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سب سے آخر میں فوت ہونے والی سیدہ میمونہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش بن رئاب من یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ سے نکاح فرمایا۔ ( 26) یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی امیمہ کی بیٹی تھیں۔ ان کی وفات 20ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ (حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد) ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سب سے پہلے ان کی وفات ہوئی۔ اور (اسلام میں) ان کی پہلی تھی جسے (پردہ کی غرض سے) ڈھانپا گیا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ جویریہ بن الحارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائذ بن مالک بن المصطلق سے نکاح فرمایا۔ (27) جو غزوہ بنی المصطلق میں قیدی بنیں۔ مال غنیمت کی تقسیم کے دوران یہ حضرت ثابت بن قیس شماس رضی اﷲ عنہ (28) کے حصہ میں آئیں۔ انھوں نے ان کے ساتھ مکاتبت کر لی تو یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور یہ گندمی رنگت کی تھیں، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ بہتر نہیں کہ تمھارا زر مکاتبت ادا کر کے میں تمھارے ساتھ شادی کر لوں؟ تو انھوں نے یہ بات قبول کر لی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مطلوبہ رقم ادا کر کے ان سے نکاح فرما لیا۔ (29) انھوں نے 56ھ میں وفات پائی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ بنت حیی ابن اخطب بن سعنۃ بن ثعلبہ بن عبید بن کعب بن الخزرج سے نکاح فرمایا۔ (30) یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں۔ غزوہ خیبر میں قیدی بنیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں آزاد فرما کر نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ان کا حق مہر تھی۔ (31) انھوں نے 50ھ میں وفات پائی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ بنت الحارت بن حزم بن بجیر بن الہرم بن رویبہ بن عبداﷲ بن ہلال بن عامر سے بھی نکاح فرمایا۔ (32) یہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی خالہ تھیں۔ یہ آخری زوجہ مطہرہ ہیں، جن سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا۔ یہ سن 51ھ میں فوت ہوئیں۔ اور ایک قول کے مطابق ان کی وفات 66ھ میں ہوئی۔ اگر یہ قول ثابت ہو جائے تو پھر لازم ہے کہ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سب سے آخر میں یہ فوت ہوئیں۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کے علاوہ یہ ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن ہیں، جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماتے وقت حیات تھیں۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُم المساکین زینب بن خزیمہ سے سن 3ھ میں نکاح فرمایا۔ یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد صرف دو یا تین ماہ حیات رہیں۔ (33)
ان عورتوں کا بیان جن کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیغام نکاح بھیجا یا نکاح ہوا لیکن رخصتی کی نوبت نہیں، جنھوں نے خود کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا اور جنھوں نے حق اختیار استعمال کیا
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ضحاک سے بھی نکاح فرمایا۔ جب آیت تخییر (34) نازل ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے بھی اختیار دیا تو اس نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر دنیا کو ترجیح دی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ اس واقعہ کے بعد اس کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ اونٹ کی مینگنیاں چنتی اور کہتی: میں بدبخت ہوں جس نے دنیا کو اختیار کیا۔ (35)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ عنہ کی بہن اساف سے بھی نکاح فرمایا۔ (36)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خولہ بنت الہذیل رضی اﷲ عنہا سے بھی نکاح فرمایا۔ (37) بعض ان کے والد کا نام حکیم کہتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے خود کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا۔
اور یہ بھی کہا گیا کہ خود کو ہب کرنے والی ام شریک رضی اﷲ عنہا ہیں۔ ( 38)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسماء بنت کعب الجونیہ رضی اﷲ عنہا سے بھی نکاح فرمایا۔ (39)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمرہ بنت یزید بن الجون الکلابیہ رضی اﷲ عنہا سے بھی نکاح فرمایا لیکن انھیں رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی۔ (40)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ غفار کی ایک عورت سے بھی نکاح فرمایا لیکن اس کے وجود پر سفید داغ دیکھا تو اس کو اس کے میکہ روانہ کر دیا۔ (41)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک تمیمی عورت (42) سے نکاح فرمایا، جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو اس نے کہا، میں آپ سے اﷲ کی پناہ مانگتی ہوں، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اﷲ کی پناہ مانگتا ہے تو اﷲ اس کو روک دیتے ہیں، اس لیے تو اپنے میکے چلی جا۔(43)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عالیہ بنت ظبیان رضی اﷲ عنہا سے بھی نکاح فرمایا لیکن جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں طلاق دے دی۔ (44)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (اسماء) بنت ا لصلت رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمایا لیکن وہ رخصتی سے قبل ہی فوت ہو گئیں۔ (45)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ملیکہ اللیثیہ سے بھی نکاح کیا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ہبی لی نفسک ،اس نے کہا: وہل تہب الملکۃ نفسہا للسوقۃ ؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ (46)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ مرہ کی ایک عورت سے نکاح ک لیے اس کے والد کو پیغام بھیجا تو اس نے کہا کہ اسے تو برص کی بیماری ہے، حالانکہ اسے برص نہیں تھی۔ جب وہ شخص اپنی بیٹی کے پاس لوٹا تو وہ برص کی مریضہ بن چکی تھی۔ (47)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک عورت کے والد کو نکاح کا پیغام دیا تو وہ اپنی بیٹی کے اوصاف بیان کرنے لگا، بہت سے وصف بیان کر نے کے بعد اس نے کہا کہ مزید یہ کہ وہ کبھی بیمار نہیں ہوئی، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (کبھی بیمار نہ ہونا) اﷲ کے نزدیک یہ کوئی اچھائی تو نہیں۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔
صحیح ترین قول کے مطابق نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن کے لیے 500, 500درہم مہر تھا ما سوائے حضرت صفیہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے۔ (حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا کا مہر، ان کی آزادی تھا اور حضرت اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا کا مہر چار سو دینار تھا۔ ) (جاری ہے)
حواشی:
(1) سنن ترمذی، حدیث نمبر 3455۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3730۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3322۔ مسند الامام احمد بن حنبل: 225/1۔
(2) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3348۔
(3) صحیح بخاری، حدیث نمبر 5812۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر2079۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4060
(4) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1762۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4025۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3575۔ اخلاق النبی صلی اﷲ علیہ وسلم و آدابہ، ابی الشیخ، حدیث نمبر 234
(5) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1767۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4020
(6) صحیح بخاری، حدیث نمبر 354۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر517۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 339۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3763، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر1049
(7) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1742۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4236۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3647۔ سنن نسائی، حدیث نمبر 5214۔
(8) صحیح بخاری، حدیث نمبر65۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 2092۔ سنن نسائی، حدیث نمبر 5206
(9) مسند الامام احمد بن حنبل: 128/3۔ اخلاق النبی صلی اﷲ علیہ وسلم وآدابہ، ابی الشیخ، حدیث نمبر 226
(10) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2254
(11) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1757 (12) سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2378۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر1678
(13) صحیح بخاری، حدیث نمبر 168۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 608۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 401۔
(14) المنتخب من مسند عبد بن حمید، حدیث نمبر 219۔
(15) صحیح بخاری، حدیث نمبر 2280، صحیح مسلم، حدیث نمبر 1577، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1862
(16) سنن ترمذی، حدیث نمبر 1990۔
(17) طبقات ابن سعد : 381-383/4۔ابن سعد کے مطابق مذکورہ خاتون حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا تھیں، جبکہ سنن ترمذی، حدیث نمبر 1991۔ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4998 میں یہ واقعہ کسی مرد (انَّ رَجُلًا……) کے حوالہ سے مذکور ہے۔
(18) الشمائل المحمدیہ، الامام الترمذی، حدیث نمبر 241۔
(19) کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی، ص 35-57۔
(20) ایضاً، ص 173-180۔
(21) صحیح بخاری، حدیث نمبر 5212۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1436۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1972۔
(22) کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ، محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی، ص 77-87۔
(23) ایضاً، ص 137-144۔ (24) ایضاً، ص 161-170۔
(25) ایضاً، ص 147-154۔ (26) ایضاً،ص 181-190۔
(27) ایضاً، ص 207-211۔ (28) اُسد الغابہ، ابن الاثیر: 263-65/1۔
(29) سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3931۔
(30) کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی، ص 213-227۔
(31) صحیح بخاری، حدیث نمبر 4200۔
(32) کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی، ص 197-205۔
(33) ایضاً، ص: 193-195۔
(34) (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الْدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَ أُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا) ۔ الاحزاب: 28۔
(35) اُسد الغابہ، ابن الاثیر، 370/5۔
(36) ایضاً، 321/5 میں ان کا نام شراف بنت خلیفہ رضی اﷲ عنہا آیا ہے۔
(37) ایضاً، -274/5 (38) ایضاً، 274/5۔
(39) کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی، ص 236-237۔
(40) ایضاً، ص 238۔ (41) ایضاً، ص: 255۔
( 42) اُسد الغابہ، 222/5کے مطابق اس کا نام اُمیمہ بنت شراحیل ہے۔
(43) صحیح بخاری، حدیث نمبر 5254، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2050۔
(44) اُسد الغابہ، ابن الاثیر 341, 342/5۔
(45) ایضاً، 211, 212/5۔
(46) طبقات ابن سعد (حصہ ہشتم): 340/4۔
(47) اس کا نام جمرہ بنت الحارث تھا۔ (کتاب ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، محمد بن یوسف الصالحی، ص 263)