تحریک آزادی کا ایک خونی اور تاریخ احرار کا ایک سنگین باب! (قسط:۱)
اثر خامہ : حضرت امام سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
پیش لفظ
۱۔ افواہ میں سچی بات کی تعیین اور ہنگاموں میں سے صیح واقعہ کی تلاش آسان کام نہیں پھر جب معاملہ گھر دکان یا کسی ادارہ کانہ ہو بلکہ قومی تحریکات سے متعلق ہو جائے تو مسئلہ اور کٹھن ہو جاتا ہے۔
۵۔ ربع (۱/۴) صدی بعد جبکہ قسمت سے یہ وقت آیا ہے کہ ماضی کے حقائق کو تعمیر مستقبل کے لیے مشعل راہ بنانے کے لیے تحریک آزادی کے ابواب کے ایک ایک ورق اورایک ایک سطر کو محفوظ کرلیا جائے۔ کیونکہ تقسیم ملک کے بعد مقتدر مخالفین نے دور فرنگی سے بھی بڑھ چڑھ کر مسلسل علمی، تحریری اور اشاعتی خیانت کا وطیرہ قومی مزاج کے طورپر اپنا رکھا ہے۔ پونے دو سو سال کے عرصہ میں جان لڑانے والے علماء حق اور مجاہدین حریت کے سوانح حیات کو ملکی تاریخ سے یکسر محو کرنے کی نا پاک سعی عروج پر ہے۔ تاریخِ آزادی میں مکمل تحریف کر کے خوشامدیوں، رجعت پسندوں، معاونین فرنگ، منافقین، غداران اسلام اور اعدائے وطن کو ہر اعزاز کا مستحق گر دانا جارہا ہے۔ اور قومی جہاد کا پورا مال غنیمت او ر شیریں ثمر انہی کے دامن کار کردگی میں سجانے کی کمینگی کا پوری بے حیائی اور دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا جارہا ہے تو اس اندوہ ناک اور تشویش انگیز صورت حال کے تحت فرض ہوگیا ہے کہ ایسی ہر سیاسی غنڈ اگردی اور علمی قزاقی کا حساب ٹھیک ٹھیک چکایا جائے۔ ظالم ومظلوم دونوں کی سیرت کے اوراق پوری احتیاط وثقاہت، دیانت واعتدال او رجامعیت و وضاحت کے ساتھ نمایاں کر کے برسوں کی بھولی بھٹکی اور فریب خوردہ قوم کو بالعموم اور بے خبر نئی نسل کو خصوصاً ایک مرتبہ پھر صدق وافتر اور اخلاص ودغا بازی کا فرق سمجھا دیا جائے ۔اور تحریف وخیانت کی یلغار میں بھی حق وباطل کے امتیاز کی میزان ہاتھ میں دے دی جائے۔ سو الحمداﷲ کہ زیر نظر کتا بچہ جوسندھ کی شہید گنج یعنی مسجد منزل گاہ سکھر کی تاریخ اور اس کیلئے چلائی گئی تحریک کے متعلق اُس وقت کی مجلس احرار اسلام سکھر (سندھ) کے صدر ناظم اعلیٰ کے برسرگز شتہ اور چشم دیدہ حالات وکوائف پر مشتمل ہے۔ محض روایات وحکایات کا کوئی افسانوی مجموعہ نہیں بلکہ ایک مختصر مگر جامع ومثبت مبنی بر حقائق بصیرت افروز و پر ازانکشافات تاریخی وثیقہ اور دستاویزی معلومات کے ذخیرہ کے طور پر حاضر خدمت کیا جارہا ہے۔ راقم کو تحریری موادبہم پہنچانے والے راوی اس تحریک میں جماعتی روح ورواں او رذمہ دار نہ حیثیت کے مالک شخص بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں۔ اس روایت سمیت اور بہت سی سیاسی داستانوں کے امین ہیں اور اس نایاب مضمون کی تیاری میں بھر پور مدد دینے پر ہمارے دلی تشکر اور دعاء خیر کے مستحق ہیں۔ گویا اُن کا وجود ہر مخالف و منکر اور خائن ومحرف کیلئے ایک جاگتا جاگتا جواب اور مستقل تحدی و چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ سوال و جواب، ترمیم واضافہ اور تنقید وتر دید کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے اگر کوئی بھی غلط بات اُٹھائی گئی تو انشاء اﷲ بازاری واخباری مضامین کے علی الرغم پوری دیانت، قوت ستدلال واقعاتی شہاوت وتطبیق اور قانونی کارروائیوں کے دفتر و دستادیز ثبوت کی مکمل تائید کے ساتھ برمحل اور دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ احباب ورفقا دل لگا کے مطالعہ واستفادہ کریں۔ تربیتی نصاب کے طور پر عام کار کنوں کو پڑھائیں سمجھائیں، تمام نو وارد و معانین اور جماعت سے کسی بھی درجہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو بڑی احتیاط اور تحمل کے ساتھ اصل حقائق ذہن نشین کرائیں۔ اختلاف رکھنے والے اصحاب سے مخلصانہ التماس ہے کہ وہ بھی ذرا غیر جانب داری، یک سُوئی اور اطمینان کے ساتھ بغور مطالعہ کریں۔ نفع سے تو مٹی بھی خالی نہیں انشاء اﷲ تعالیٰ وہ تحقیق و وجدانِ حق کی دولت سے دیر سویر ضرور مالامال ہوں گے۔ اور کوئی مغا لطہ پیش آنے پر ہر قسم کی تاریخ رہنمائی یا تعاقب کیلئے ہمیں مستعد پائیں گے۔
ہادی مطلق سے التجا ہے کہ وہ ہم سب کو ضد، تعصب، عناد، حمیت جاہلیہ، دل ودماغ کی کجی، عدم توازن، تحریف وخیانت و حق تلفی جیسے تمام مہلک امراض سے شفاء ونجات بخشیں۔ نیک وبد میں امتیاز اور راہ حق وصواب اختیار کرنے کی توفیق ارزانی رکھیں اور استقامت وحسن خاتمہ کی نعمت سے سرفراز فرمائیں۔ آمین ثم آمین!
میں نہیں چاہتا کہ اس المیہ کی تفصیل اور آپ کے درمیان مزید حائل رہوں۔ ایک تحریک کانقشہ دکھا کر میں نے دوسری تحریک کے ساتھ واقعات ونتائج میں دونوں کی باہمی مشا بہت اور مماثلت کی خاکہ کشی کافرض ادا کیا ہے اور تاریخ آزادی کا ایک اہم اور خطرناک باب سمجھنے کیلئے فہم صحیح اور عاد لانہ فیصلہ کی راہ کافی حد تک ہموار کردی ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ میں مقدمہ میں ہی اس تحریک پر مزید گفتگو کر کے اُس کے مطالعہ کے مفادو مقصد کو بے وزن بناؤں۔ قارئین اور اس داستان کے درمیان سے ہٹ رہاہوں لیجیے یہ کتاب اور آپ ہیں (ہمیں میداں ،ہمیں چوگاں ، ہمیں گو۔)
قائد احرار حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابو ذربخاری(رحمۃ اﷲ علیہ)
(تحریر:۱۹۶۷ء)
(جاری ہے)