تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ قسط: ۱۶

مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
پھانسی:
جیلوں میں یوں بھی اونچے بولنے اور راگ الاپنے کی ممانعت ہے۔ لیکن جس روز جیل میں پھانسی دی جانے والی ہو تو وہاں موت کی سی خاموشی طاری ہوتی ہے۔ موت کا خوف اور دنیا سے جانے کا غم سب کو افسردہ کر دیتا ہے۔
ایک دن خبر ملی کہ کل ملزم کو پھانسی دی جانے والی ہے۔ ہمیں جیل بھر میں گھومنے کی کھلی چھٹی تھی۔ شام کے وقت مجرم کو جا کر دیکھا، تو وہ خلاف توقع مطمئن تھا، عزیزوں سے ملاقات ہو چکی تھی۔ اب خدا سے ملنے کا انتظار تھا۔ اس کا وزن ہو چکا تھا۔ جلاد پھانسی کے رسہ کو درست کرنے میں مصروف تھا۔ دریافت پر معلوم ہوا کہ جلادی اس کا خاندانی پیشہ ہے۔ کچھ دیر میں، داروغہ اور جلاد پھانسی پانے والوں کا ذکر کرتے رہے۔ ہم تینوں کا اتفاق تھا کہ ۹۰ فیصد مجرم پھانسی کا سن کر حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ بعض چیخ و پکار کرتے ہیں۔ زیادہ غم کے گہرے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں۔ دس فیصدی ایسے ہوتے ہیں جو موت کے حکم سے بھی حوصلہ نہیں ہارتے۔ ان میں سے کچھ تو شقی القلب ہوتے ہیں۔ جن کے نامہ اعمال میں متعدد قتل لکھے ہوتے ہیں، یا ایسے بے گناہ جو پولیس کی بددیانتی یا کم فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اوّل الذکر اپنے آپ کو سزا کا مستحق سمجھتے ہیں اور آخر الذکر راضی برضا مطمئن قلب کے ساتھ تختہ دار پر چڑھتے ہیں۔
قاعدہ یہ ہے کہ سپاہی صبح سویرے مجرم کو ہوشیار کرتا ہے کہ تیرا وقت آ گیا ہے۔ اٹھ نہا دھو اور موت سے پہلے، پیدا کرنے والے کو یاد کر۔ کئی تو رات بھر سوتے نہیں، روتے ہیں۔ بعض کی پچھلی رات آنکھ لگ جاتی ہے۔ مجرم بادل نخواستہ اٹھتا ہے۔ نماز عبادت سے فارغ ہوتا ہے تو ہاتھ پشت کے پیچھے باندھ دیے جاتے ہیں۔ افسر پھانسی کا وارنٹ لیے موجود ہوتے ہیں۔ جیل کے سپاہی اردگرد ہو جاتے ہیں۔ اکثر (پھانسی پانے والے) روتے ہیں۔ کچھ دنیا سے بچھڑنے کے راگ گاتے ہیں، جانتے ہیں کہ رہائی ممکن نہیں تو بھی بہت سے سپاہیوں کے حلقہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موت بہت بھیانک صورت میں سامنے آتی ہے۔
زندہ اور تن درست کو مقتل لے جانا کتنا دردناک منظر ہے۔ صبح اٹھے تو یہ منظر پیش نظر تھا۔ مجرم ہندو تھا۔ وہ اونچے اونچے رام رام پکارتا تھا۔ عام طور پر مجرم مقتل کی طرف سہارا لے کر چلتے ہیں۔ لیکن یہ شخص بغیر سہارے کے سپاہیوں کے ساتھ ہو لیا۔ وہ پکارتا جاتا تھا’’صاحبو! بے شک پھانسی دے دو، لیکن ہوں میں بے گناہ‘‘۔ پھر رام رام پکارتا جاتا تھا پھر رک کر اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کرتا تھا۔
ڈاکٹر اور مجسٹریٹ موت کے سر ٹیفکیٹ پر دستخط کر کے چلے گئے۔ موت کے منظر سے سب کے چہرے افسردہ تھے۔ جیل بھر میں سناٹا تھا۔ گورکھ پور جیل میں اسی دن علامہ حسین میر کا خط آیا، جس میں سرکاری گزٹ کی کاپی تھی، اس میں ایک مسلمان قوم پرست سیاسی لیڈر کا حکومت پنجاب کی طرف سے معافی کا اعلان تھا۔ علامہ موصوف کی لیڈر مذکور سے ان بن تھی۔ مخالف کی رسوائی میں علامہ کو مزا آتا تھا۔ خط کی زحمت انھوں نے اس لیے گوارا کی تاکہ مجھے سمجھایا جائے، جب ایسے لیڈر بھی معافی مانگ کر شرمندہ نہ ہوں، تو اس کا ضمانت دے آنا قابلِ اعتراض کیوں؟۔خط پڑھ کر علامہ کی ایک اور دل لگی یاد آ گئی اور ہنسی مجھ سے ضبط نہ ہو سکی۔ پھانسی کے منظر کے بعد بے ضابطہ ہنسی کسی کو بھلی نہ لگی، میں نے جب علامہ کا واقعہ دہرایا توماتم قہقہوں میں تبدیل ہو گیا۔ چلو کسی بے کس کی پھانسی کا غم اتنا ہی بہت ہے۔ دنیا تو ماتم کدہ ہے، کوئی اپنوں کو رونے بیٹھے تو دنیا میں کوئی کام سرانجام دینا ناممکن ہو جائے۔
جب غم گھیرے تو علامہ جیسے بے غم کا ذکر غم غلط کرنے کو کافی ہے۔ علامہ کی بیوی فوت ہو گئی تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ پنجابی رسم کے مطابق کفن پر کلمہ شریف لکھا جا رہا تھا۔ علامہ موصوف چشم گریاں کے باوجود لکھنے والے سے بولے بھئی پارسل پر کس جگہ کا پتہ لکھ رہے ہو، صفِ ماتم دیوار قہقہہ بن گئی۔ بیوی کے کفن پر پارسل کی پھبتی ہماری ہنسی کا باعث نہ تھی۔ اس کی وجہ ایک مذہبی لیڈر سے علا مہ صاحب کی منتقمانہ دل لگی تھی۔
امرتسر کے ایک مشہور مذہبی لیڈر کو علامہ صاحب کا مذہبی انہماک پسند آ گیا۔ یو پی میں ایک مذہبی مناظرہ میں اس کو بھی ہمراہ لے چلے، اپنا سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے کر علامہ صاحب کو سرونٹ میں بٹھا دیا، علامہ حسین میر نے سوچا کہ اسلام اخوت و مساوات کا نام ہے۔ یہ مذہب کا عجب علم بردار ہے، مجھے نچلے درجے میں بٹھا کر آپ اوپر کے درجے میں سفر کر رہا ہے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے غلام کو رفیق سفر کیا تھا تو باری باری اونٹ پر سواری کرتے منزل مقصود تک پہنچے تھے۔ پھر کیا تھا، علامہ کی اشتراکیت کی رگ جوش میں آئی اور مولانا کے سرمایہ دارانہ ذہن کو درست کرنے کا تہیہ کر لیا۔
جب گاڑی قطع منازل کرتی ہوئی منزل مقصود کے قریب پہنچی تو علامہ صاحب نے اونچے کلاہ پر سبز عمامہ باندھا اور عربی چغہ پہن کر لمبی داڑھی پر دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے درجہ سے اترے۔ ایک سٹیشن پہلے مولانا کے کمرے میں جا کر ان کا بستر باندھا، گاڑی اسٹیشن پر کھڑی ہوئی تو علامہ صاحب اصل مولانا کا عصا لیے ڈٹ کر دروازے پر آ جمے، استقبال کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ لوگوں نے اصل مولانا کو نہ دیکھا تھا۔ سیکنڈ کلاس میں حسین میر جیسے الفربہ اور خوامخواہ معتبر کو مفتیانہ لباس میں دیکھا تو انھوں نے نقل کو اصل سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا اور زندہ باد کہتے ، پھول برساتے علامہ حسین میر کو بڑی عزت و تکریم سے لے چلے۔ اسٹیشن کے باہر سبز پتوں سے آراستہ بگھی موجود تھی۔ حسین میر صاحب شان سے بیٹھ گئے۔ لوگ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے آرام گاہ پر لے آئے۔ اصل مولانا نے اس سارے ڈرامہ کو دیکھا، خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہے، کیا فضیحتا کرتے کہ صاحبو اصل مولانا میں ہو، یہ نہیں۔ بہرحال یہ بھی افتاں و خیزاں حسین میر کو بددائیں دیتے ہوئے آرام گاہ پر پہنچے۔ حسین میر گاؤ تکیے کے سہارے فرش پر پاؤں پسارے پان چبا رہے تھے۔ چاندنی کی طرح چمکتا اگالدان سامنے رکھا تھا۔
ان کے آنے پر علامہ حسین میر آنکھ بچا کر کھسک گئے اور سیدھے اسٹیشن پر آ کر امرتسر کی گاڑی پکڑی۔ اصل مولانا کی واپسی سے پہلے امرتسر میں بچے بچے کی زبان پر علامہ کے ہاتھوں مولانا کی درگت کا چرچا تھا۔
گاندھی ارون میثاق:
ارون صلح جو اور ہوشیار سیاست دان تھا۔ وہ تحریک آزادی کو قوت سے دبانے کی بجائے جوش کو صلح سے ٹھنڈا کرنے کے حق میں تھا۔ گاندھی ارون کی ملاقات کئی روز جاری رہی، دونوں نے کیا کیا پینترے بدلے ہوں گے۔ تاہم نتیجہ کے طور پر دونوں نے صلح کے ہاتھ بڑھائے۔ مجھے تو اعلان مفاہمت کے ایک دن بعد بحیثیت رکن مجلس عاملہ رہا کر دیا گیا۔ عظیم الشان جلسہ ہوا۔ ورکنگ کمیٹی کا ازسر نو انتخاب ہونا تھا۔ ایک معروف مسلمان کارکن ورکنگ کمیٹی کا ممبر بنائے جانے کے لیے تک و دو کر رہا تھا۔ اس کی سیرت میں ایسی کمزوریاں تھیں کہ بعض محرمان راز کے نزدیک اس کی یہ خواہش نامناسب تھی۔ میں خود ان کے بارے میں بہت زیادہ حسن ظن نہ رکھتا تھا۔ لیکن گاندھی جی پر زور دیا گیاکہ پنجاب مسلمانوں کا صوبہ ہے۔ یہاں سے کسی غیر مسلم کو ورکنگ کمیٹی کا ممبر نہ بنانا چاہیے، اور موزوں ترین شخصیت وہی معروف مسلمان کارکن ہے۔ یہ سب کچھ پس پردہ ہو رہا تھا۔ جب گاندھی جی نے اس معروف کارکن کو ورکنگ کمیٹی کا ممبر نامزد کیا تو پنڈال میں کہرام مچ گیا۔ پنجاب کے ہندو مسلمانوں نے مل کر گاندھی جی کے پاس پروٹسٹ کیا، لیکن گاندھی جی اپنے مشیروں کے باعث اس نامزدگی کے خلاف کچھ نہ کر سکے اور بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ اس شخص کے متعلق اندیشے غلط نہ تھے۔ جس کے لیے تمام کانگرس کو پچھتانا پڑا۔
مخلوط انتخاب کا تصور جو نہرو روپورٹ کی اساس و بنیاد تھی۔ مسلمانوں میں بھی زیادہ مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ تاہم ڈاکٹر انصاری نے ۱۹۳۱ء میں اپنی فرید پور والی تقریر میں پنجاب کے سکھوں کی خوشنودی کے لیے اقلیت کے لیے وہی مراعات تسلیم کرنے کا اقرار کیا جو دوسرے صوبوں میں نہرو رپورٹ کے ذریعہ دی گئی تھی۔ یعنی بر بنائے آبادی نشستوں کے تعین کے علاوہ پنجاب میں ہر جگہ دوسری نشست پر بھی قسمت آزمائی کرنے کے مجاز ٹھہرائے گئے تھے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں اتنی اقلیت میں ہیں کہ اس قسم کی رعایت انہیں اکثریت نہیں دلا سکتی۔ لیکن پنجاب میں دو تین نشستوں کی کمی بیشی اکثریت کو فنا کر سکتی ہے۔ میں نے ڈاکٹر انصاری کی توجہ اس طرف دلائی۔ انھیں بتایا گیا کہ میں سر فضل حسین کے ایما پر اکسا رہا ہوں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ میرے اور سر فضل حسین کے درمیان سیاسی اختلاف تا عمر قائم رہے۔
ڈاکٹر انصاری کی نئی تجویز کے باوجود سکھ راضی نہ ہوئے، کیونکہ وہ مخلوط انتخاب سے بے حد خائف تھے اور اسے اپنی علیحدہ ہستی کے منافی سمجھتے تھے، یہی حال پنجاب کے ہندوؤں کا تھا۔
جب مخلوط انتخاب کے متعلق تینوں قوموں کی پوزیشن یہ ہو تو صرف پنجاب کا مسلمان ہی واویلا کیوں کرتا رہا۔ اس لیے ہم نے مناسب خیال کیا کہ نہرو رپورٹ سے پہلے جو صورت حال تھی، اسی میں تناسب و ترقی کی خواہش کا اظہار کیا جائے۔ علیحدہ انتخاب کی بنا کو حسب سابق قائم رکھا جائے اور پنجاب و بنگال کی اسلامی اکثریت کے راستے کو صاف کیا جائے۔
چنانچہ مجلس احرار کے پہلے سالانہ اجلاس کے موقع پر علیحدہ انتخاب پاس کر کے اعلان کر دیا گیا کہ اگر اب ہندو سکھ نہرو رپورٹ کی اساس و بنیاد کو قبولیت کر لیں تو ہم پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہیں۔
میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں، نہرو رپورٹ کی بنا پر مخلوط انتخاب پنجاب کی سیاسیات کا حل ہندو اور سکھ کے لیے کئی برس تک قابل قبول نہ ہوا، حکومت موجود ایوارڈ دینے پر مجبور ہو گئی۔ اس کمیونل ایوارڈ کے اعلان کے بعد بھی سر فضل حسین نے جگندر سنگھ کے ساتھ مل کر مخلوط انتخاب کی بنا پر ایک نیا فارمولہ تیار کیا، لیکن اس کی بھی ہندو اور سکھوں کی طرف سے شدید مخالف ہوئی اور فضل حسین، جگندر سنگھ فارمولہ پیدا ہوتے ہی مر گیا۔
کانگرس ہائی کمانڈ سے مجلس احرار کا ابتدا میں یہی اختلاف تھا کہ کانگرس ہم سے باوجود نہرو رپورٹ کے دریا برد کرنے کے مخلوط انتخاب کی حمایت کی توقع رکھتی ہے، اور ہمیں یہ شکایت تھی کہ اس نے جو نہرو روپورٹ کے خلاف کام کرنے تھے وہ کیے، بلکہ بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مخالف کی حوصلہ افزائی کی اور یہی لوگ کانگرس کے دست و بازو تھے۔ علاوہ بریں ڈاکٹر انصاری مرحوم کی پیش کردہ پنجاب کے مسلمانوں کے لیے خود کشی نما فرید پور والی تجویز کے بعد بھی آواز بلند نہ کرنا سرمایہ سے محروم مسلمانوں سے غداری تھی۔ انھی دنوں جواہر لعل کی سوانح حیات ’’میری کہانی‘‘ شائع ہوئے۔ تو معلوم ہوا کہ انھیں یہ بتایا گیا ہے کہ احرار اس لیے کانگرس سے ناراض ہیں کہ ان کا آدمی کانگرس کی ورکنگ کمیٹی میں نہیں لیا گیا۔ حالانکہ یہ بہتان عظیم ہے۔ کراچی کانگرس کے بعد ہم کانگرس کے عہدہ دار تھے۔ ہماری کانگرس سے علیحدگی نہیں، بلکہ اختلاف ڈاکٹر انصاری مرحوم کی وہ سکیم تھی جس میں سکھوں کو اپنی تعداد کے لحاظ سے اسمبلی میں نشستیں معین کرانے کے علاوہ جس سیٹ پر چاہیں مقابلہ کے لیے کھڑے ہونے کا حق دیا گیا تھا۔
حق یہ ہے کہ احرار کے موجودہ لیڈروں نے کانگرس ورکنگ کمیٹی میں شامل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان میں قابلیت اور قربانی کا جوہر کم تھا۔ بلکہ اس لیے کہ کانگرس کمیٹی میں خالص اور مخلص غریب پارٹی کا نباہ مشکل ہے۔ کانگرس ورکنگ کمیٹی میں شمولیت ہاتھی والوں کی دوستی ہے۔ اس وقت تک کانگرس خالص سرمایہ داروں اور سرمایہ دار سوشلسٹوں کی جولانگاہ ہے، لیکن باوجود اس کے احرار کو کانگرس سے ہمدردی ہے۔ اس لیے کہ ملک کی آزادی کی آواز وہاں بلند ہوتی ہے، ورنہ احرار اور کانگرس میں بہت ذہنی اختلاف ہے۔
ارون گاندھی سمجھوتہ نے غلام ہندستان کی حیثیت کو اونچا کر دیا، ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے غلام رکھنے کے متمنی انگریز آئی سی ایس افسر بھڑک اٹھے اور اسی دن ہندوستان کے سیاسین کو نیچا دکھانے کی فکر میں لگ گئے۔ سمجھوتہ کی علانیہ خلاف ورزی ہوتی رہی، لارڈ ارون کے چلے جانے پر لارڈو لنگڈن کو حکومت تو کھل کھیلی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ دست اندازی کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔ لیکن کانگرس کے لیڈروں کی ذہنیت خالص ہندوستانی تھی۔ وہ ایک مدت تو فتح کے نشہ میں سرشار رہے، جب اندھوں کو ہندوستان کی فضا میں تشدد کی برچھیاں تیرتی نظر آئیں تب بھی کسی نے آنکھیں نہ کھولیں۔
تحریک آزادی کشمیر
۱۹۳۱ء کے موسم گرما میں کشمیر کی غلام در غلام قوم کے نالہ و فریاد نے پنجاب کی بظاہر پرسکون فضا میں تلاطم سا برپا کر دیا، کشمیر جنت نظیر کی عام آبادی سیاسی اور اقتصادی طور پر پامال ہو کر دوزخ نشان ہو چکی تھی۔ کردگار نے دنیا بھر میں اس سے بہتر کوئی خطہ پیدا نہیں کیا۔ ہر طرف باغ و بہار، جھیل اور جوئبار، ٹھنڈے سائے اور اشجار ثمر وار نظر آتے ہیں، جیسے باغبان فطرت نے اپنے کمال کے اظہارکے لیے اس سر زمین کو منتخب کر لیا ہے۔ ہر پہاڑ، بساط گل، ہر آبشار نور کی ندی اور ہر گوشہ کنج نشاط ہے۔ جی چاہتا ہے کہ یہیں حسن و عشق کی دنیا بسا کے بیٹھ جائیں۔ کشمیر حسن و نغمہ اور شعر و جوانی کی وادی ہے۔ ذرہ ذرہ فطرت مسکراتی ہے۔ افق کشمیر کے رنگا رنگ جلوے، دوشیزگان بہار کی مسکراہٹیں معلوم ہوتے ہیں۔ اور قوس و قزح کی ہفت رنگی جھالر پر گمان ہوتا ہے کہ آسمانی شاعر کی محبوبہ آنچل سنبھالے جا رہی ہے۔
مغنی اپنے پر اثر نغموں کو اس نکہت آگیں ،نزہت آفرین اور حسین وادی میں اس طرح گائے کہ جانور پر جادو کر دے، حسن و نغمہ ترکیب جمیل کا نام ہی جادو ہے۔ مگر وہ محض رنگ و بو میں لپٹی ہوئی وادی کو نہ دیکھے بلکہ اس کے مظلوم مکینوں کی دکھ بھری داستان کو بھی سنے۔ شاعر شراب وشعر کی دنیا پر اچٹتی نظر ڈال کر خوش نہ ہو بلکہ خداداد قابلیتوں سے وادی کشمیر کے خوش مناظر میں فاقہ کش انسانوں کی واماندہ صورتوں کو دیکھ کر ایک ایسا درد بھرا شعر کہے جو سینوں میں آ گ لگا دے۔ مغنی اس خلد نما دنیا میں اولاد آدم کو دیکھے جو جانوروں کی طرح ڈرے اور گھبرائے ہوئے گزرتے ہیں۔ پھر ان کی بے کسی کو اداس سی لہروں میں اس سوز سے بیان کرے کہ ہر سننے والے کا کلیجہ منہ کو آ جائے۔
اس دور انقلاب میں کشمیر کے پامال لوگوں کے دل میں بھی آزادی کی اونچی سانس لینے کا جذبہ پرورش پانے لگا۔ عجز و انکسار کے سارے تقاضوں کو پورا کرنے کے باوجود حسن سلوک کی التجاؤں کا جواب گولی کی باڑ سے دیا گیا۔ ہر چند ہم خود غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے لیکن دنیا کی مظلوم ترین آبادی پر ظلم کی انتہا دیکھ کر جگر خون ہو گیا۔ ہندوستان کا ہر باشندہ سیاسی ذلت اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے لحاظ سے مستحق رحم ہے۔ لیکن کشمیر کے لوگوں کی حالت ہم غلاموں کے لیے بھی رحم کی مستحق تھی۔ احرار ابھی جیلوں سے رہا ہو کر آئے تھے۔ کسی اور جھگڑے میں مبتلا ہونا طبیعت پر بوجھ تھا لیکن کشمیر کے درد مندوں کی صداؤں نے اہل دل لوگوں پر نیند حرام کر دی، بغیر قربانی کے ملکوں کو فتح کرنے والا مسلمان امراء کا گروہ بھی شملہ میں جمع ہوا۔ ریزولیوشن پاس کر کے حکام ریاست کو بھیجا کہ ہم تحقیقات کے لیے آ رہے ہیں۔ جواب ملا کہ حدود ریاست میں قدم رکھا تو دھر لیے جاؤ گے۔ بس اچھل کود کر رہ گئے۔ اب ان امراء کے اسلام نے کفر کی پناہ ڈھونڈی۔ قادیان کے متنبی کے بیٹے کو اپنا سردار بنا لیا۔ تاکہ حکومت انگریزی مرزائیت کے خود کاشتہ پودے کا سایہ ان پر دراز دیکھے تو حمایت پر آمادہ ہو جائے گی۔ یا کم از کم ان کی سرگرمیوں کے متعلق شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔
بیٹے نے جھوٹی پیش گوئیوں کا جو ورثہ باپ سے پایا تھا۔ اسے پمفلٹوں کی صورت میں کشمیر کے اندر تقسیم کرنا شروع کیا۔ مسلمانوں سے روپیہ جمع کر کے اس خطہ میں اپنے عقائد پھیلانے کا بہترین موقع سمجھا۔ عام مسلمانوں کے چندے سے قادیانی مبلغ سارے کشمیر میں پھیلا دیے۔ کشمیر میں اور ہندوستان کے باہر پروپیگنڈا کیا گیا کہ تمام ہندوستان کے علماء نے قادیان کے رنگیلے خلیفہ کو اپنا امام اور پیشوا بنا کر قادیان کا جھوٹا مذہب اختیار کر لیا۔ انگریز کی خوشنودی مسلمان امراء اور قادیانی مرزا کا مشترکہ مذہب ہے۔ وہ خداوندان لندن کے ازلی نیاز مند کو صدارت سے الگ کر کے انگریز کی خوشنودی کی جنت سے محروم نہ ہونا چاہتے تھے۔ مرزا بشیر الدین محمود کی کشمیر کمیٹی ۴ ماہ ریزولیوشن پاس کرتی رہی۔ مرزا کی اپیلیں حکام ریاست پر اثر نہ ڈال سکیں۔ ان کا جبر بڑھتا گیا۔
غلامی غیر فطری چیز ہے۔ اس پر قناعت قومیں تب کرتی ہیں، جب تشدد سے آزادی کی روح کچل دی جائے، ہر جبر پر صدیوں کے صبر کے بعد جب کشمیری غریبوں نے ملحقہ انگریزی علاقوں کی دیکھا دیکھی صرف اظہار خیال کا موقع چاہا تو سر کچل کر رکھ دیا گیا، بیرونی دنیا پر کشمیر کے راستے بند کر کے حکام ریاست نے چاہا کہ انھیں ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ پھر برسوں تک کوئی چون چرا نہ کر سکے۔
ہماری آئندہ نسلیں شاید ان دنوں کے کشمیریوں کی حالت زار کا تصور نہ کر سکیں گی، جس نے آج بھی کشمیری آبادی کو نہیں دیکھا۔ وہ تصور نہیں کر سکتا کہ دنیا کی بہترین قوم کو کس طرح بدتر از حیوان بنا دیا گیا۔ پختہ فن ادیب اور شاعر بھی ان کی بے زبانی اور زبوں حالی کا کما حقہ نقشہ نہیں کھینچ سکتا۔ تمام دوستوں کا خیال تھا کہ ہر چند ہم ابھی جیلوں سے آئے ہیں، لیکن اگر اس دور انقلاب میں اپنے قریب کی آبادی کو یوں حالات کشمیر کی دریافت کے لیے ایک وفد جائے، جب کشمیر کمیٹی جو خان بہادروں اور سرکار انگریز کے منظور نظر لوگوں پر مشتمل تھی، کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا تو ہمارے وفد کو جو جواب ملنا تھا وہ ظاہر تھا۔ لیکن ہم نے درخواست کے ساتھ والنٹیروں کا مظاہرہ بھی مناسب خیال کیا تاکہ سرکاری بہادروں اور غریب مجاہدوں میں امتیاز رہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں احرار کو بھی کشمیر کمیٹی کے دودھ پینے والے مجنوں سمجھ لیا گیا اور ریاست میں داخلہ کی اجازت کے لیے حکام آمادہ نہ ہوئے۔
روانگی:
احرار وفد اﷲ کا نام لے کر کرایہ کا انتظام کیے بغیر ایمان پلے باندھ کر سیالکوٹ روانہ ہوا، چودھری اﷲ بخش گنائی کو جماعت کی مالی حالت کا علم تھا۔ زیور لے آئے کہ محض مالی موانعات وفد کی واپسی کا باعث نہ ہوں، لیکن گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے دوستوں کی دریا دلی نے اس امداد سے بے نیاز کر دیا۔ کچھ عرصہ تو حکام تعجب سے دریافت کرتے رہے کہ احرار کون ہوتے ہیں، ان دنوں ہمارا محض نام تھا، کوئی واقعہ اور تاریخ نام کے ساتھ وابستہ نہ تھی، اس لیے ریاست کے ذمہ دار افسر ہمارے سیالکوٹ پہنچنے سے پہلے شہر آ پہنچے کے دیکھیں احرار کیا بلا ہیں۔
ہماری آمد پر دو ہزار سرخ پوش والنٹیروں نے سرخ پھریرے اڑاتے ہوئے بینڈ باجے کے ساتھ جلوس نکالا تو ریاست کے افسران نے خیال کیا کہ احرار کے وفد کو ریاست میں داخل ہونے سے منع کرنا جھگڑا مول لینا ہے۔ ہمیں بہشت میں داخلی کی اجازت ہو گئی۔ ہم لطف اندوز ہونے کے لیے نہ چلے تھے بلکہ جنت میں جہنم کا سماں دیکھنے چلے تھے۔ بہتے پانی کے کنارے سایہ دار درختوں کے نیچے چیتھڑوں میں لپٹے اور غربت میں پلے کشمیری ہر طرف نگاہوں کو زخمی کرتے تھے۔ ہر خوش پوش سیاح سے وہ آہوان صحرا کی طرح ڈر کر بھاگ جاتے اور محبت سے بلاؤ تو سہمے سہمے آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سرکار دربار کے سپاہی پیادے جس گاؤں میں آتے ہیں، گاؤں کے گاؤں بیگار میں پکڑ کر لے جاتے ہیں، ہر باہر سے آنے والا سیاح ان لوگوں کی روایتی بزدلی سے آگاہ ہو کر راہ چلتے بھی انھیں ڈراتا دھمکاتا ہے۔ غیر ہمدرد حکومت جو خوفناک تباہی کر سکتی ہے، وہ کشمیر کی عام آبادی اور خصوصاً مسلمان رعایا کے حال سے ظاہر ہے۔
انگریزی حکومت کے پروردہ ہندوستانی، انگریز سے زیادہ استعمار پرست اور آزادی کے مخالف ہوتے ہیں۔ حکام ریاست نے ہمیں داخلہ کی اجازت دے دی۔ سری نگر میں سرکاری ہاؤس بوٹ اور خورد و نوش کا اعلیٰ انتظام کر دیا۔ ساتھ ہی اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مخالفانہ پروپیگنڈا میں روپیہ پانی کی طرح بہانا شروع کر دیا۔ مشہور ہوا کہ غریب احراری ریاست کے سنہری جال میں پھنس گئے، غریب کی قوت ایمانی پر کوئی کتنے دن یقین کرے، امراء تو قدرتی طور پر تحریک آزادی سے الگ ہوتے ہیں۔ غریب کشمیریوں نے بھی شک کرنا شروع کر دیا لیکن ہم حالات سے نہیں گھبرائے، بلکہ ریاست کو بہتر مشورہ دیتے رہے اور بہتر مشورہ یہی تھا کہ شیخ عبداﷲ اور دوسرے کشمیری زعماء سے صلح کی بات چیت کرے۔
انگریزی حکومت ریاست میں ایک حد تک ایجی ٹیشن کی متحمل رہی لیکن اسے یہ صورت بھی منظور نہ تھی کہ کشمیر آزادی کا مطالبہ پیش کر دے۔ چنانچہ ریاست کے ساتھ انگریز ہمدردی پورے طور پر شامل تھی۔ مردود کشمیر کمیٹی کو بھی سری نگر آنے کی دعوت دی گئی تاکہ احرار کے خلاف محاذ قائم کیا جائے اور کشمیر کے زعماء کو ایسے مطالبہ سے باز رکھا جائے۔ جس کا نتیجہ کسی وقت آئینی آزادی ہو، کشمیر کے حقیقی دشمنوں کی خواہش یہ تھی کہ زعما ء کشمیر سے ایسا مطالبہ پیش کرایا جائے جو معمولی اصلاحات کا ہو اور زیادہ تر ملازمتوں کے جھگڑے پر ختم ہو جائے۔ ہم نے زعمائے کشمیر سے گزارشوں کے تمام اسلوب یہ سمجھانے میں برت کر دیکھے کہ یہ ملازمتوں کا حصول آئین کے تابع ہوتا ہے، جو لوگ آئین پر قابض ہو جائیں، ملازمتوں کے حل کے وہی مختار ہوتے ہیں، تحریکوں کا بار بار کامیابی سے اٹھنا بہت مشکل ہے۔ اب جب تحریک اٹھی ہے تو مطمع نظر بلند رکھ کر قومی عزم کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.