مولانا محمدیوسف شیخوپوری
انسانی عقلیں نور نبوت اور نبوی تعلیمات کی رہنمائی کے بغیر ناقص اور معطل وبے کار ہیں۔ آنکھ کتنی ہی روشن اور بصیر کیوں نہ ہو مگر جب تک آفتاب ومہتاب کی نور انیت معین و مددگار نہ ہو تب تک بے کار ہیں۔ اسی طرح نور عقل اور نور بصیر ت سے حق وباطل اور غلط و صحیح کا فرق تب ہی نظر آسکتا ہے جب نور نبوت اور شمع ہدایت سے رہنمائی لی جائے۔ جس طرح اندھیری رات میں صرف آنکھ کی روشنی کام نہیں دیتی اسی طرح ضلالت وگمراہی کے اندھیرے میں صرف عقل کی روشنی کام نہیں دیتی بلکہ نبوت کی حقیقی روشنی کی طرف احتیاج ہوتی ہے۔ لہذا نبوی تعلیمات ونبوی رہنمائی عین رحمت ونعمت کبرٰی ہے جس پر دنیا وآخرت کی سعادت اور فلاح کادار ومدار ہے۔
حق تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ اسلام سے اس کاآغاز فرمایا اور سوالاکھ کے قریب ان مقدس ترین ہستیوں کوانسانیت کی رہنمائی اورفوزوفلاح کیلئے مبعوث فرمایا اور آخر میں اس سلسلہ کا اختتام اس ہستی پر فرمایا جو اس سلسلہ میں سب سے افضل وکامل اور عالمگیر تھی۔ جن کی تعلیمات آفاقی وعالمگیر ہیں جو انسانی زندگی کے ہرہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہرہر فرد کی رہنمائی بھی کرتیں ہیں اور نجات کی بھی ضامن ہیں۔ آپ کے مقاصد بعثت میں سب سے اہم نکتہ خلق خدا کوانسانوں کی بندگی سے ہٹا کر وحدہ لاشریک کی یکتائی وحدت کادرس دے کر اس کی بندگی وغلامی میں لانا ہے۔ انسان کوہرحال میں اپنے مالک حقیقی کی چوکھٹ پر جھکنا سکھانا ہے۔ یہ اتنا جامع امرہے کہ تمام غرضیں اس میں سمٹ کر آجاتی ہیں۔ امیری وفقیری، اسیری، آزادی، حکمرانی ،درویشی ہر حال میں اپنے مالک حقیقی سے ڈرنا اوراس کی بے آواز لاٹھی کے برسنے سے خوف رکھنا…… بالخصوص وہ شخص جس کو امارت و حکومت سونپی جائے وہ اقتدار ،تخت شاہی پر فائز ہو کر اس بات کالحاظ رکھے۔
اسلام کے پیغام میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے عزت وذلت دنیا کی طاقتوں کے پاس نہیں بلکہ کسی اورکے ہاتھ میں ہے جو چھین بھی سکتا ہے اور عطاء بھی کر سکتا ہے۔ اپنے آپ کو اقتدار کے عہدے پر بیٹھ کر تکبر و غرور کی ہوا تک سے بلکہ اس کی بدبو سے بھی محفوظ رکھنا چاہیے۔ مشہور ہے کہ اس دنیا میں چار حکمران ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ساری دنیا پرحکمرانی کی ہے جن میں سے دو (نمرودوبخت نصر) نے اقتدار حاصل کرنے پر غرور و تکبر سے کام لیا توآج ان کانام لینے کوکوئی تیار نہیں اور دو (حضرت سلیمان علیہ اسلام اور حضرت ذو القرنین) نے اقتدار پربیٹھ کر بھی مالک حقیقی کے سامنے اپنی پیشانی کو جھکایا اور خلق خداکی خدمت کے ساتھ صحیح رہنمائی فرمائی خدا نے رہتی دنیا تک ان کے ناموں کو زندہ جاوید رکھاہے اور ان کا ذکر خیر قیامت تک باقی رہے گا۔
آئیے ذرانبوت سے ایک مثال کے ذ ریعے اس بات کوذرا اور وضاحت سے سمجھ لیں رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب سلاطین عالم کی طرف خطوط کاسلسلہ جاری فرما کر انہیں اسی نکتہ پرمتوجہ فرمایا اورحقیقی بادشاہ اور شہنشاہ دوجہاں کی اطاعت وفرماں برداری کی طرف بلایا، توان میں ایک اپنے وقت کی سپرپاور ایران کے بادشاہ کسرٰی پرویز کے نام تھا۔ اس خط کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے جاں نثار وہمدم وفادار صحابی حضرت عبداﷲ بن حذافہ سہمی رضی اﷲ عنہ کے حوالے کرکے روانہ فرمایا۔ اس مکتوب مبارک میں بڑے سیدھے سادے انداز میں مختصرمگر پُراثر اور جامع ترین الفاظ تھے۔ جنہیں دیکھ کر وہ تکبر و غرور میں آگ بگولہ ہوگیا ، یہ کون ہے جس کے نام سے خط کا آغاز کیا گیاہے؟ یہ کون ہے جس کانام میرے نام سے پہلے لکھا گیا ہے؟ یہ کون ہے جومجھے اس جسارت سے اپنی اطاعت کی طرف بلاتا ہے؟ سیرت طیبہ میں ہے کہ ابھی آپ کا یہ دعوتی خط پورا پڑھا بھی نہیں گیا تھا کہ اس نے غیظ وغضب سے اس کو چاک کردیا اور ٹکڑے کر کے پھینک دیا (العیا ذ باﷲ )۔ آگ کا پجاری تکبر میں حد سے گزر گیا اور یمن میں متعین اپنے گور نر باذان کوحکم دیاجس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے سر زمین عرب سے اسے گرفتار کرکے میرے پاس لایا جائے اُ س نے اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے میرمنشی بابویہ اور فر فر ہ کوگرفتاری کے وارنٹ دیکر روانہ کیا۔ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفیر حضرات عبداﷲ بن حذافہ سہمی نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر سارا واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا’’ان یمزَّقوا کُلَّ ممزّق اے اﷲ ان آتش پر ستو ں کے اقتدار کوبھی ایسے ہی پُرزہ پُرزہ کردے‘‘۔
جب وہ دونوں قاصدآئے تو آقاعلیہ السلام اپنے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں آفتاب و مہتاب بن کر رونق افروز تھے۔ وہ نبوت کے خداداور عب وہیبت سے کانپنے لگے اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ آپ نے ان کی شکل وصورت کوپسند نہیں فرمایا اورطبع مبارک مکدّر ہو گئی (چونکہ وہ ایرانی طرز عمل پر داڑھی منڈائے مونچھوں کو متکبرانہ انداز سے بل دیے ہوئے تھے) آپ نے فرمایا ایسی شکل کیوں بنارکھی ہے؟ انہوں نے کہا ہمارے رب(کسرٰی ) نے ہمیں ایسی تعلیم دی ہے آپ نے فرمایا ’’میرے رب نے تومجھے داڑھی بڑھانے اورمونچھیں تر شوانے کا حکم دیا ہے‘‘ اوراُن سے فرمایا ان اﷲ وعَدَنی ان یُقتل کسری فی یوم کذاوکذا من شھر کذا‘‘(ابن کثیر ۔حلبیہ) ایک روایت میں یوں ہے کہ ’’تمہیں جلدی معلوم ہوجائے گا تمہارے بادشاہ کو خود اس کے بیٹے شیرویہ نے ہی قتل کر ڈالا ہے‘‘ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے واپسی پران کو ایک مطلا پٹکہ جو آ پ کو سلطان مصر کی طرف سے ہدیہ آیا تھا مر حمت فرمایا۔ انہو ں نے واپسی آکر جب یمن کے ایرانی باذان کوساری تفصیل سنائی تواس نے کہا اگر یہ خبر سچی ہے تو وہ واقعی اﷲ کا سچانبی ہوگا۔
ادھر پرویز کے بیٹے شیرویہ کاپیغام باذان کے نام پہنچ گیا کہ اب میں سریر آرائے سلطنت ہوں پرویز کو اس کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے قتل کردیا گیا ہے۔ باذان کے دل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت گھر کر چکی تھی وہ حاضر خدمت ہوکر مشر ف بہ اسلام ہوگیا۔دوسری طرف مورـخین نے لکھا شیر ویہ اپنے باپ کے شاہی دواخانہ میں داخل ہوا اور ایک شیشی ( جس میں زہرتھا) مردانہ طاقت کی دواسمجھ کر پی گیا جو اس کی موت کا سبب بن گئی۔ یوں اس کی بیٹی اقتدار کی مالک بنی مگر وہ بھی زیادہ مدت تک حکومت نہ کر سکی۔ الغرض کسرٰی پرویز کے بعد تخت فارس پرکسی حکمران کو اطمینان نصیب نہ ہوا اور اقتدار پرغرور کرنے والوں کاسورج جلدہی غروب ہوگیا۔ ۱۴ھ میں سیدنا فاروق اعظم کی خلافت میں اس کے خزانوں کے مالک مسلمان بنے۔
عبرت اور درس کے لیے بے شمار واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے جب بھی کسی نے اقتدار پر متمکن ہو کر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائے اوروحی و تعلیمات ِنبوت سے دست بردار ہوا تکبر و غرور کے راستے کا راہی بنا تو تاریکیوں میں گرا ہے۔ وطن عزیز ملک پاکستان جو کہ خدا کی بڑی نعمت ہے، موجودہ حالت بڑی تیزی سے دن بدن عجیب تر ہورہے ہیں۔ موجودہ حکمرانو ں کو ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے خدا کی وحی اور تعلیماتِ نبوت کے مراکز دینی مدارس کو مٹانے والوں کا کیا حشر ہو رہا ہے؟خلق خدا پرظلم کرنے سے، دین کے مراکز کے بارے منفی رویوں سے، مظلوم مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرنے سے، خلقتِ خدا کے نقصان پر مبنی پالیسیاں بنانے سے، بالخصوص رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے دشمنوں ،مرزائیوں قادیانیوں کونواز نے سے، خداوندانِ یورپ کو خوش کرنے سے، غیر مسلموں کے ساتھ بے حمیتی کے تعلقات رکھنے سے جن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ان کو کبھی سوچیں۔ رب کی بے آواز لاٹھی جب برسے گی توجائے پناہ نہ ملے گی آج کاحکمران نمرود، شدّاد اور کسریٰ سے زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ان کو بے نام ونشاں کرنے والا رب انھی طاقتوں کے ساتھ سلامت ہے اور رہے گا، اسے زوال و فنا نہیں ہے۔ اقتدار پر بیٹھ کر تکبر و غرور کانشہ سوچنے کی صلاحیت پر پردہ نہ ڈال دے۔ عقل کی طاقت کو وحی کے روشنی سے مستنیر کیجیے اور جس مقدس کلمے پروطن عزیز کو حاصل کیا گیا ہے اس کے نفاذ کو یقینی بنائیے۔