عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل
مشرف کو خصوصی عدالت نے سزائے موت سنا دی‘ قیامت ہی برپا ہو گئی۔ آئی ایس پی آر نے سخت ردعمل دیا۔ کہا مشرف غدار نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیف اور ملک کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ میڈیا انگشت بدنداں ہے کہ کیسے دونوں جانب کا موقف سامنے لائیں۔ عدلیہ کی بھی حالت ہے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ جو وکلاء مشرف کے مقدمات میں بھاری بھاری فیسیں لے کر نمائندگی کر چکے یا سرکاری عہدوں پر رہے ہیں اپنی وفاداری میں بال کی کھال اُتار رہے ہیں۔ قوم حیرت زدہ ہے کہ مدعی حکومت اپنے حق میں فیصلے سے پریشان کیوں ہے؟ کہیں تو عدلیہ نواز شریف کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود ملک سے باہر جانے اور آصف زرداری کو ضمانت دینے پر سرخرو نظر آتی ہے اور کہیں مشرف کیخلاف فیصلہ دینے پر جانبدار ہونے کا تمغہ پاتی ہے۔سالہا سال چلنے والے مقدمہ پر اب سے پہلے ایسی نقطہ چینی دیکھنے سننے میں نہ آئی۔ شاید اس لیے کہ سب کو یقین تھا کہ فیصلہ آئے گا ہی نہیں۔!!
مشرف کی کارگل میں بنا منصوبے کے مہم جوئی کی قیمت تو ہمارے جوانوں نے ادا کی۔ ہمارے فوجی چوٹیوں پر بیٹھے آٹا گھول گھول کر پیتے رہے اور اذانیں دے دے کر موت کو گلے لگاتے رہے۔ برفانی چوٹیوں کے لیے خصوصی لباس کے بغیر، سامان رسد ناپید، تربیت کے بغیر جوانوں کو مرنے کے لیے چوٹیوں پر بھیج دیا گیا۔ بہادر ماؤں کے بیٹے بھوکے پیاسے سردی میں ٹھٹھرتے پیارے وطن کے لیے قربان ہو گئے۔ آخر وہ کسی کے بیٹے، بھائی اور باپ تھے!!کیا بطور آرمی چیف مشرف کو اُنکے لیے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے؟ پھر اس نے ملک میں مارشل لاء لگا کر عجیب و غریب منطق نکالی کہ ملک کو ایک کمپنی بنا کر اور اسکے چیف ایگزیکٹو بن گئے۔
2001ء میں اکیلے خود ہی اپنی حکومت کے دوام کے لیے امریکہ سے غیر مشروط تعاون کا اعلان کردیا۔ قوم سے جھوٹ بولا کہ مجھے دھمکی دی گئی تھی مگر کولن پاؤل نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہم نے چودہ نکات پر اس اُمید پر رعایت مانگی کہ ایک دو پر راضی کر لیں گے مگر مشرف تو بکری ہو گیا اور سب ہی مان گیا۔مشرف کہتے تھے ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘‘ واقعی وہ ڈرتے نہیں تھے مگر جب اپنی قوم کو، اپنے اصولوں کو، اپنی فوج کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے قربان کرنا ہوتا تھا۔ طالبان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا کس سے پوچھ کر؟ ملا ضعیف کی کتاب پڑھنے پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کیسے اپنے مسلمان سفارتکار بھائی کو مجرموں کی طرح اغیار کے حوالے کیا گیا۔
جامعہ حفصہ کی بچیوں کے ساتھ کیا کیا اس ظالم شخص نے؟ بطور حکمران کیا وہ اسکی بیٹیاں نہیں تھیں؟ وہ جیتی جاگتی بچیاں کیا انصاف کی مستحق نہ تھیں؟ اُن میں سے زیادہ تر کشمیر کے 2005ء کے زلزلے کی پناہ گزین تھیں۔مشرف نے اُن نہتی لڑکیوں پر فاسفورس بم پھینک کر زندہ جلا کر خاکستر کردیا۔ کون سی ایمرجنسی تھی کہ اُن کو بغیر ٹرائل کے قتل کر دیا گیا۔ اُنہیں گرفتار کرتے، مقدمہ چلاتے اور اگر گناہگار پائی جاتیں تو سزائیں دیتے۔ایسا کیوں کیا گیا کہ تقریباً پانچ ہزار بچیاں مار دی گئیں۔ مشرف کو کس نے اُنہیں جان سے مارنے کا اختیار دیا تھا۔ خود کا تو مقدمہ چلا جس کے فیصلے پر اتنا واویلا لیکن ان کو تو بغیر مقدمہ سزائے موت دے دی۔
کشمیر پر قوم کو اعتماد میں لئے بغیر ہندوستان سے سودا کر کے باڑ لگوا کر اسے عملاً تقسیم کر دیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔کتنے سو افراد کو دہشت گرد قرار دے کر مشرف نے قانونی تقاضا پورا کئے بغیر امریکہ کے حوالے کر دیئے اور انکے عوض ڈالر وصول کئے جو کہ بعد میں امریکی عدالتوں سے بیگناہ قرار پائے۔
کہا جاتا ہے مشرف نے کرپشن نہیں کی۔ کیا اپنے لوگوں کو جبری اٹھا کر بیچ دینا کرپشن نہیں؟ ججوں کو گھروں میں قید کرنا، ان سے زبردستی کے فیصلے لینا، NRO دینا، اکبر بگٹی جیسے محب وطن جس نے قائد اعظم سے تعاون کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کی کو قتل کرنا۔فوج کے بیشمار ہونہار افسران و جوانان کو امریکہ کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ پر ضائع کرنا۔ امریکی سپاہیوں کو پاکستانی فوجی افسران کے بیرکس میں رکھا گیا اور ہمارے افسران کو اُنکے تابع کر دیا گیا۔ہندوستان کیخلاف بارڈر پر جب ہماری فوج سختیاں اور مشکلات جھیل رہی تھی تو مشرف لاہور میں ”بسنت” منانے اور ناچ ناچ کر فوج کی عزت خراب کرنے میں مصروف تھے۔ اپنے فوجیوں کے ساتھ اُن کو کوئی ہمدردی نہ تھی۔
فوج میں کوئی اختلاف رائے پیدا ہوتے دیکھتے تو اندھا دھند کورٹ مارشل یا نوکری سے برطرف کر دیتے۔ ’’راجہ اندر‘‘ کی طرح ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر ناچ گانے کی محفلوں میں مدہوش رہنا انکے کام تھے۔فوج جیسے معزز اور بااصول ادارے میں اس زمانے میں جو کچھ ہوا وہ لکھنے سے قلم کانپتا ہے۔ مشرف نے ہماری فوج کو کرائے کی فوج کی طرح استعمال کیا۔ ملک کے ہر قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذاتی خواہشات کے آگے پوری قوم کو داؤ پر لگا دیا۔آج بھی وہ فوج کے پیچھے چھپ کر اسے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ فوج کو اپنی انا کی خاطر عدلیہ سے ٹکرا دیا ہے۔ فوجی سادہ لوح، ایماندار اور بااصول ہوتے ہیں۔ فوجی کیلئے فوج ماں باپ کی طرح ہوتی ہے مگر انہوں نے فوج ہی کو بدنام کیا۔ انکے بعد آنے والے آرمی چیف انکی پھیلائی ہوئی بدنامی، نفرت اور کدورتوں کو کم کرنے میں کوشاں رہے۔
میں خود فوجی گھرانے سے ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میرے والد جنرل حمید گل فوج سے اور میرے خاوند پاکستان ائرفورس سے ریٹائرڈ ہیں۔ ہماری رشتہ داریاں فوجیوں میں ہیں۔ ہمارے دوست احباب فوجی ہیں۔ ہماری ہمدردیاں فوج سے ہیں۔ ہماری پہلی اور آخری محبت پاکستان اور فوج ہے۔میرے والد کی وفات پر فوج نے انکے جنازے، تدفین اور دیگر تمام معاملات کی ایسے نگرانی کی جیسے اپنے گھر والے بھی نہیں کر سکتے۔ اُنکی قبر تک انکی رجمنٹ کے افسروں نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی۔ میری مرحومہ والدہ اٹھتے بیٹھتے فوج کو دعائیں دیتی تھیں۔ یہ نہیں کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت تھی مگر فوج کے رویئے سے ہمارا حوصلہ اور مان بڑھا۔میرے والد مشرف کے کور کمانڈر اور انسٹرکٹر رہ چکے تھے۔ اختلاف رائے پر والد صاحب کا میڈیا بائیکاٹ کرایا، فوج کے کسی بھی فنکشن میں انہیں مدعو کرنے پر پابندی لگائی اور کسی بھی فوجی میس میں رہنے سے منع کردیا۔جنرل حمید گل نے کبھی اُن کیخلاف اس بات پر شکایت نہیں کی کیونکہ ادارے کو نقصان ہوتا۔ آج یہ سب کچھ اس لئے بتایا کہ مشرف کی اصلیت ادارے کو معلوم ہو۔ISIکی تاریخ پر مشرف نے کتاب لکھوائی اور کمال یہ کہ اس میں جنرل حمید گل کا ذکر ہی نہیں تھا۔ بغیر کسی جرم کے ایمرجنسی پلس کے بعد جنرل حمید گل کو اڈیالہ جیل میں ڈالا، اُنکی ادویات بند کر دیں، دل کے مریض اور 70سال کے ہونے کے باوجود سردیوں کی راتوں میں انہیں جیل کے کمرے کے باہر گنتی کے بہانے گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا تھا۔میرا کاروبار بھی مشرف صاحب کے حکم پر بند کیا گیا، یہ سب کچھ میرے والد کو بلیک میل کرنے کیلئے تھا تاکہ وہ ان کیخلاف بیان نہ دیں۔ ہاں مجھے اُن سے ذاتی پرخاش ہے! وہ میرے والد اور محبوب ترین ادارے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے۔
میں اپنی قابل صد احترام فوج سے درخواست کرتی ہوں کہ اس جال میں اپنے آپ کو مت پھنسائیں۔ مشرف اپنی سیاسی پارٹی بنا چکے اور فوج اُنکی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ آئین سے وفاداری کا حلف لیا، اس کو توڑیں گے تو کیا غدار نہ ہونگے؟عدالت کا فیصلہ فرد واحد مشرف کیخلاف ہے نہ کہ فوج کے۔ کوئی بھی قانون سے بڑھ کر نہیں۔ ایک عورت کی سفارش پر (جس پر حد لگتی تھی) نبی کریم ؐ نے فرمایا ’’تم سے پہلے کے لوگ اسلئے ہلاک ہو گئے کہ وہ کمزوروں پر تو حد قائم کرتے اور بلند مرتبہ لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اگر فاطمہؓ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ لیتا‘‘۔ صحیح بخاری 6787۔
جس طرح عام شہری کو انصاف ملتا ہے انہیں بھی بعینہ ایسے ہی ملنا چاہیے۔ اپیل کریں اور سالہا سال عدالتوں میں دھکے کھائیں۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اسکے انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ مشرف وہی کاٹیں گے جو اُنہوں نے بویا تھا یہی مکافات عمل ہے۔
(روزنامہ جنگ راولپنڈی، صفحہ 3، 23 دسمبر 2019)