مولانا محمد عاشق الٰہی بلند شہریؒ
بہت سے لوگوں کو اولاد کی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں، اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے، بچوں کے لیے پیٹ کی روٹی اور تن کے کپڑوں کا تو انتظام کر دیتے ہیں، لیکن ان کی باطنی پرورش، یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے، انھیں پتا نہیں کہ تربیت کیا چیز ہے اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں؟ اس عظیم غفلت میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو خود تو نمازی ہیں اور کچھ اخلاق و آداب سے بھی واقف ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے ان کے پاس گویا وقت نہیں، حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لیے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا؟
بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں، مصلح بھی ہیں اور مرشد بھی ہیں، دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ، کبھی وہاں تقریر، کبھی کوئی رسالہ لکھا، کبھی کوئی کتاب تالیف کی، لیکن اولاد کی اصلاح سے بالکل غافل ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے، اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس بارہ سال ہو جاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں توجہ تو ہے، لیکن وہ اولاد کو حقیقی علم سے بالکل محروم رکھتے ہیں، یعنی اولاد کو ’’اسلام‘‘ نہیں سکھاتے، بیس بیس سال کی اولاد ہو جاتی ہے، کلمہ تک یاد نہیں ہوتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں، نہ اس کے فرائض، نہ واجبات ، نہ اسلام کے عقائد پہچانیں، نہ دین کو جانیں، اس قسم کے لوگ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو یورپ کے طور طریق سب کچھ سکھاتے ہیں، کوٹ، پتلون پہننا بتاتے ہیں، اپنے ہاتھ سے ان کے گلوں میں ٹائی باندھتے ہیں، ناچ رنگ کے طریقے سمجھاتے ہیں، عورتیں شادی بیاہ کی رسمیں بتاتی ہیں، شرکیہ باتوں کی تعلیم دیتی ہیں اور اس طرح سے ماں باپ دونوں مل کر بچوں کا خون کر دیتے ہیں اور طرہ یہ کہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ اور بچی ماڈرن ہیں، ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کی آخرت برباد ہو گئی، اعمال بد کے خوگر ہو گئے، اسلام سے جاہل رہ گئے۔
دو حدیثوں کا ترجمہ پڑھیے:
۱۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے بچوں کو ادب سکھائے تو بلاشبہ یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ ترمذی)
۲۔ حضرت عمر بن سعید رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرور عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی ایسی بخشش نہیں دی، جو اچھے ادب سے بڑھ کر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
’’ادب‘‘ بہت جامع کلمہ ہے، انسانی زندگی کے طور طریقے کو ’’ادب‘‘ کہا جاتا ہے، زندگی گزارنے میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں آتے ہیں، بندہ اﷲ جل شانہٗ کے بارے میں جو عقائد رکھنے پر مامور ہے اور اﷲ کے احکام پر چلنے کا جو ذمہ دار بنایا گیا ہے، یہ وہ آداب ہیں جو بندے کو اﷲ کے اور اپنے درمیان صحیح تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہیں، فرائض و واجبات، سنن و مستحبات وہ امور ہیں جن کے انجام دینے سے حقوق اﷲ کی ادائیگی ہوتی ہے، مخلوق کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہوتے ہیں، ان میں احکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے، جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں، ان میں بھی واجبات اور مستحبات ہیں اور ان کی تفصیل و تشریح بھی شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام میں وارد ہوئی ہے، یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعث راحت و رحمت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ لفظ ’’ادب‘‘ کی جامعیت حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے، یہ جو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اچھے ادب سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی بخشش نہیں دی‘‘ اس میں پورے دین کی تعلیم آ جاتی ہے، کیونکہ دین اسلام اچھے ادب کی مکمل تشریح ہے، بہت سے لوگ لفظ ادب کے معروف معنی مراد لے کر اس کا رواجی مطلب لے لیتے ہیں اور انھوں نے اٹھنے بیٹھنے کے طریقوں تک ہی ادب کا انحصار سمجھ رکھا ہے۔
صدقہ و خیرات اگرچہ فی نفسہٖ بہت بڑی عبادت ہے (اگر اﷲ کی رضا کے لیے ہو)، لیکن اس کا مرتبہ اپنی اولاد کی اصلاح پر توجہ دینے سے زیادہ نہیں ہے، بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جنہیں اﷲ جل شانہ نے مال دیا ہے، وہ اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اولاد کی طرف سے پوری غفلت برتتے ہیں، مسکین آ رہے ہیں، گھر پر کھا رہے ہیں، غریبوں کی روٹی بندھی ہوئی ہے، مدارس اور مسجدوں میں چندہ جا رہا ہے، لیکن اولاد بے ادب، بے دین بلکہ بد دین بنتی چلی جا رہی ہے، وہ صدقہ و خیرات کرنے پر خوش ہیں اور خوش ہونا بھی چاہیے، لیکن اس سے بڑھ کر عمل جو ہے، جس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، وہ اپنی اولاد کو ادب سکھانا ہے یعنی اﷲ کے راستہ پر ڈالنا، اس کے لیے فکر مند ہونا لازمی امر ہے، اس غفلت سے نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔
ماں باپ کا فریضہ ہے کہ بچوں کو دین سکھائیں اور دین کو سب سے زیادہ اہمیت دیں، کیونکہ دین ہی آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کام دینے والا ہے، بہت سے لوگ بچوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں، مگر ان کی یہ محبت صرف دنیاوی آرام و راحت تک محدود رہتی ہے، ان کی اصل ضرورت یعنی آخرت کی نجات اور موت کے بعد کے آرام و راحت کی طرف توجہ نہیں کرتے، حلال مال جائز طریقے پر کھلانا، پلانا اور پہنانا اچھی بات ہے، لیکن انسان کی سب سے بڑی ضرورت آخرت کا آرام و سکون ہے۔
بچوں کی خوشی کے لیے ان کو غیر ضروری لباس پہناتے ہیں، ان کے لیے تصویریں، مورتیاں خرید کر لاتے ہیں اور اپنے گھروں کو ان کی وجہ سے رحمت کے فرشتوں سے محروم رکھتے ہیں، ان کی جائز و ناجائز ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اور شوقیہ زیب و زینت اور فیشن پر اچھی خاصی رقمیں خرچ کرتے ہیں، لیکن ان کو دین پر ڈالنے کی فکر نہیں کرتے، یہ بچوں کے ساتھ بہت بڑی دشمنی ہے، اگر دین نہیں ہے تو آخرت تباہ ہو گی۔ اپنی اولاد کے سب سے بڑے محسن وہ ماں باپ ہیں جو اپنی اولاد کو دینی علم پڑھاتے ہیں اور دینی اعمال پر ڈالتے ہیں، یہ علم نہ صرف اولاد کے لیے بلکہ خود ان کے والدین کے لیے بھی قبر میں اور آخرت میں نفع مند ہو گا۔
ایک بزرگ کا ارشاد ہے: ’’لوگ سو رہے ہیں، جب موت آئے گی تو بیدار ہوں گے‘‘۔ آخرت سے بے فکری کی زندگی گزارنے میں انسان کا نفس خوش رہتا ہے اور یہی حال بال بچوں اور دوسرے متعلقین کا ہے، اگر انھیں آخرت کی باتیں نہ بتاؤ اور کھلائے پلائے جاؤ۔ دنیا کا نفع پہنچائے جاؤ تو ہشاش بشاش رہتے ہیں اور اس تغافل کو باعث نقصان نہیں سمجھتے، لیکن جب آنکھیں بند ہوں گی اور قبر کی گود میں جائیں گے اور موت کے بعد کے حالات دیکھیں گے تو حیرانی سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، عالم آخرت کی ضرورتیں اور حاجتیں جب سامنے ہوں گی تو غفلت پر رنج ہو گا اور حسرت ہو گی کہ کاش! آج کے دن کے لیے خود بھی عمل کرتے اور اولاد کو بھی یہاں کی کامیابی کی راہ پر ڈالتے، مگر اس وقت حسرت بے فائدہ ہو گی۔
لوگوں کا یہ حال ہے کہ بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی اسکول اور کالج کی نذر کر دیتے ہیں یا محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں، انھیں نماز، روزہ سکھانے اور بتانے اور دینی فرائض سمجھانے اور ان پر عمل کرانے کی فکر نہیں کرتے، شادیاں ہو جاتی ہیں، باپ دادا بن جاتے ہیں، لیکن بہت سوں کو کلمہ طیبہ بھی صحیح یاد نہیں ہوتا، نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے؟ اس سے بھی واقف نہیں ہوتے، ستر اَسّی سال کے بوڑھوں کو دیکھا گیا ہے کہ دین کی موٹی موٹی باتیں بھی نہیں جانتے۔ فاعتبروا یا اولالی الابصار!