ابوطلحہ عثمان
کیا ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔؟
کون سی خوبی ہے جو بحیثیت مجموعی مسلمان قوم میں آج موجود ہے۔ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، رشوت کھاتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، وعدہ خلافی دھڑلّے سے کرتے ہیں، دوسروں کی جیب کاٹنے کے بیسیوں طریقے نہایت دلیری سے اختیار کر رکھے ہیں۔ڈاکے ڈالتے ہیں، کوئی ذراسی مزاحمت کرے تو گولی اس کے سینے میں اتار دیتے ہیں۔ راہزنی کرتے ہیں، مسافروں کی جیبیں خالی کروالیتے ہیں، مگر ہیں مسلمان۔ غریب اور متوسط آدمی سے سائیکل، موٹرسائیکل چھینتے ہیں اور کاریں چھینتے ہیں، پھر ان کو کہیں دور جا کر بیچ آتے ہیں یا چھینی گئی کاروں کے ذریعے ڈاکے ڈالتے اور قتلِ عام کرتے ہیں مگر ہیں مسلمان۔ وزیر مشیر بن کر قوم کو لوٹتے ہیں اور ذرا آگے قدم بڑھائیں تو دبئی، سویٹزرلینڈ،یورپ اور امریکہ کے بنکوں میں لوٹ کا مال جمع کرواتے ہیں مگر ہیں خدام المسلمین۔ روٹی کپڑا اور مکان کا پرفریب فرعونی نعرہ لگاتے ہیں، عام مسلمان سمجھتا ہے یہ چیزیں مجھے ملیں گی مگر وہ تو یہی چیزیں جن کے پاس پہلے تھیں ان سے بھی چھین لیتے ہیں اور یہ سب دھوکے باز، عیار مسلمان ہی کہلاتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر لاکھوں کلمہ گو بھائیوں کو یہودی دہشت گردوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں مگر ہیں مسلمان۔ ہاں لاکھوں کروڑوں ڈالروں کا ایک سیلابِ بلاخیز ان کے گھروں میں خوش رنگ طوفان لے آتا ہے اگر کوئی نیک نصیب انسان جج یا بااختیار افسر ان پر گرفت کرے تو N.R.O کا پروانہ ماتھے پر سجالیتے ہیں ، جب کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخزومی قریشی شریف زادی کو استثنا نہیں دیتے اس کا ہاتھ کٹ جاتا ہے۔ مگر کلمہ کے نام پر بننے والے ملک کے سید زادے او راس کے حوالی، موالی، سرمایہ دار اور زردار مستثنیٰ قرار پاتے ہیں اور ہیں سب جدی پشتی مسلمان!
کلمہ لاالٰہَ اِلّااللّٰہ کے دعوے دار و!تمہارا رخ تو مکہ کی طرف تھا، تمہاری آواز کی گونج تو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ کی طرف تھی۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اپنے یوٹرن کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے صراطِ مستقیم پر رواں ہوجاؤ۔ قرآن پاک میں سود، رشوت، حرام مال، جھوٹ، فریب، چوری، بدکاری جیسی صفات کو یہود و نصاریٰ کی صفات قراردیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’منافق کی تین علامات ہیں، بولے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے، جھگڑا ہوجائے تو گالیاں دے۔ جس کسی میں ان میں سے ایک علامت ہے اس میں نفاق کی ایک علامت ہے اور جس کسی میںیہ تینوں علامات ہیں وہ پکا منافق ہے۔‘‘ (الحدیث)
سوچئے! آپ میں تو ان علامات میں سے کوئی علامت نہیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ صرف مسلمان نہیں پکے مسلمان بن جائیں۔ آنجہانی گاندھی کانگریس حکومت کے وزیروں سے کہہ رہا تھا ’’میں رام چندر اور کرشنا کا حوالہ نہیں دے سکتا وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیں، میں ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا نام بطور مثالی نمونہ کے پیش کرتا ہوں وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے پر انھوں نے فقیروں والی زندگی گزاری‘‘ ( اخبار ہریجن ۲۷ جولائی۱۹۳۷ء) اے مسلمان! اے محمدی ہونے کے دعویدارو! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے کچھ کر لو، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نقوشِ قدم کو اپنی حرزجان بنالو۔ پھر تم اور تمہاری نسلیں دنیا پر چھا جائیں گی۔ تم ہی حاکم ہوگے اور دنیا محکوم۔ وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (القرآن)