تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آنحضرت صلی اللہ وسلم کے وقت جزیرۃ العرب کی مذہبی حالت

ابومعاویہ واجد علی ہاشمی
آنحضرت صلی اللہ وسلم کے وقت جزیرۃ العرب کی مذہبی حالت
آغاز دعوتِ اسلام:
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت اسلام کا آغاز فرمایا اس وقت تمام عرب آپ کا مخالف ہوگیا ایک طرف مشرک قبائل، دوسری طرف یہودی سرمایہ دار، تیسری طرف نصرانی موجود تھے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد:
یہود کی چودھراہٹ ختم ہوگئی عبداللہ بن اُبی کی سرداری پر تینوں یہودی قبائل بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قَینُقَاع جو کہ متفق ہوچکے تھے، ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے اس کی سرداری کا منصوبہ ختم ہو کر رہ گیا، جس سے اس کے دل میں اسلام کی دشمنی پیدا ہوگئی۔ یہودی شروع ہی سے اسلام کے مخالف تھے اگرچہ عیسائی کچھ نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن وہ بھی اسلام کے مخالف تھے۔ غزوۂ بدر، اُحد اور خندق میں یہودیوں اور عیسائیوں نے مشرکینِ عرب کو ورغلایا اور مسلمانوں کے مدِ مقابل لے آئے لیکن ان کو ناکامی ہوئی۔ بدر میں مسلمانوں کے غلبہ سے مغلوب ہو کر عبداللہ ابن اُبی جو کہ تاریخ میں رئیس المنافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو کہ یہودی تھا بظاہر اسلام کا غلبہ قبول کر کے مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگیا لیکن یہ منافق تھا۔ جس نے یہوداور نصاریٰ کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف سازشیں کرنا شروع کردیں۔ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود، نصاریٰ، مشرکینِ مکہ اور منافقین سے واسطہ پڑگیا تھا۔
یہود او رمشرکین کا گٹھ جوڑ:
یمن جو کہ یہود کا مضبوط مرکز تھا۔ مدینہ میں بھی یہودی تجارت پہ چھائے ہوئے تھے، معیشت پر ان کا قبضہ تھا۔ مشرکین کا پیشہ بھی تجارت تھا کاروباری لین دین کی وجہ سے ان میں قربت تھی۔ اسلام دشمنی نے ان کو اور زیادہ قریب کردیا۔ مدینہ میں آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی قبائل سے مختلف دفاعی معاہدات کیے یہود کی وعدہ خلافی کی وجہ سے ان کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کشی کی اور مدینہ اور خیبر کے مضبوط گڑھ ان کے ختم کیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہی میں عیسائیوں پر بھی لشکر کشی کی گئی، ان کے علاقے فتح کیے گئے۔ عبداللہ بن ابی منافق نے بھی مشرکین یہود ونصاریٰ سے گٹھ جو ڑ کر لیا۔ اب مسلمانوں کو یہود، نصاریٰ ، مشرکین اور منافقین کا سامنا تھا۔
منافقین:
اس طبقہ نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ جن کا اوّل سرغنہ عبداللہ بن ابی تھا، جو مرتے دم تک اسلام کا مخالف رہا اور اسلام کے خلاف ناپاک جسارتیں کرتا رہا۔
عَہدِنبوی کی دو طاقتیں (۱)فارس(ایران)، (۲)روم تھے۔ ان دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی ایرانی غالب آگئے۔ مشرکین مکہ ایرانی مجوسیوں کی طرف میلان رکھتے تھے کیونکہ مجوسی آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست ۔ اور مسلمان اہل روم کی طرف میلان رکھتے تھے کیونکہ رومی اہل کتاب تھے۔ ایرانیوں کے یہودیوں اور مشرکینِ مکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے۔ عَہدِ نبوی میں یہودیت، مجوسیت، منافقت، عیسائیت اور مشرکین کی تحریکوں نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف خفیہ یا علانیہ کردار ادا کیا۔
وصیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
یہود کی انھی اسلام دشمن اور خفیہ سازشوں کا نتیجہ تھا کہ سیدِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت جہاں اور وصیتیں فرمائیں وہاں یہ وصیت بھی فرمائی:
’’اَخْرِجُوالْیَھُوْ دَمِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ‘‘ یہود کو عرب کے جزیرہ سے باہر نکال دو۔
(بخاری، جلد: ۱،ص:۴۴۶۔ مسند احمد، ج:۹، حدیث:۶۳۶۷)
یہ وصیت ہر اس آدمی کے لیے تھی جو بارِ خلافت اٹھائے ۔ چنانچہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ فتنۂ ارتداد، منکرینِ ختم نبوت، منکرینِ زکوٰۃ اور کئی دوسرے استحصالی فتنوں میں الجھ گئے جو کہ اس وقت کی اہم ضرورت تھے۔ اس فرمان کی طرف متوجہ نہ ہوسکے بلکہ ان کو اس کا موقع ہی نہ مل سکا۔ چنانچہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں یہ وصیت پوری فرمائی۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے اسباب
پہلا سبب:
جزیرۃ العرب سے نکالے ہوئے یہ یہودی خلافتِ اسلامیہ اور اس کے باہر مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ خلیفۂ اسلام کے خلاف اپنی جِلاوطنی کا یہ انتقامی جذبہ ان کے دلوں میں سلگنے لگا اور انھوں نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ انھی میں ایک عبداللہ ابن سباء جو کہ یمن کا یہودی تھا جو اپنے خاندان اور اپنی قوم کا یہ انتقام لینے کے لیے اس تحریک کی قیادت کر رہا تھا۔
دوسرا سبب،عربوں کا عجم پر غلبہ وفوقیت:
۱۴ھ میں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سلطنتِ ایران کو زیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ نے خاندانِ کسریٰ کی قسمت کا فیصلہ کردیا، جس میں ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ایرانی مارے گئے۔ ان کی قیمتی اشیاء کسریٰ کا تخت، قالین اور انتہائی قیمتی فانوس ان کی عورتیں لونڈیاں بنا کر دربارِ خلافت میں بطورمال غنائم کے پیش کی گئیں۔ اس کے سورما رستم ،ہرمزان، فیروزان،بہمن وغیرہ تہ تیغ کیے گئے۔ ایرا ن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، فتوحات میں کچھ لوگ مسلمان ہوئے لیکن ان کی ذہنی زمین میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو سکی بلکہ ان کے ذہن اسلام کی حقانیت قبول کرنے کی بجائے اسلام کی بیخ کنی میں لگ گئے۔ وہ کلمہ پڑھ لینے کے باوجود بھی جغرافیائی قدروں پر ایمان رکھتے ہوئے کبھی بھی ایرانیوں پر عربوں کا سیاسی غلبہ برداشت نہ کرسکے۔ جلا وطن ہونے والے یہودی ایران میں موجود تھے، انھیں ایسے ہی منافق نما مسلمانوں کی ضرورت تھی، یہودیوں نے ایرانیوں کی نفسیاتی کمزوریوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور انھیں خلیفۂ وقت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خلاف اکسایا۔ ایرانی فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے پہلے ہی نالاں تھے، اس لیے ایرانی یہودیوں کے ہمنوابن گئے۔ یہود و مجوس دونوں مرکزِ خلافت کے خلاف ناپاک سازشوں کے جال بننے لگے۔
خلافت فاروقی رضی اللہ عنہ میں فتنہ کے اثرات:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمدہ پالیسی نے اس فتنہ کے آتشیں لاوے کو باہر نہ نکلنے دیا جس کے نتیجے میں ایران کے مجوسیوں اور یہودیوں نے ایک سازش تیار کی، ابولؤلؤ فیروز مجوسی کے ذریعہ سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا۔ ایران کا نومسلم منافق (ہرمزان) اس قتل میں ملوث تھا، یوں خلیفۂ راشد، مرادِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مصلیٰ رسول پہ خنجروں کے وار کر کے شہید کر دیا۔ قاتل نے خود کشی کر لی، خلافت کایہ مہتاب غروب ہوگیا، جب قاتل کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے کہا کہ:’’ الحمداللہ میرے قتل میں کوئی مسلمان ملوث نہیں۔‘‘
یہود و مجوس کی سازش کے نتیجہ میں آپ یکم محرم ۲۴ھ کو شہید ہوگئے۔
خلافتِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں فتنہ کے برگ وبار:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے بعد اس خفیہ تحریک کی قیادت یمن کے یہودی عبداللہ ابن سبا کے ہاتھ میں آتی ہے اور یہ اپنی سازشوں کو پوری خلافتِ اسلامیہ میں سے تین چار شہروں کو فہ ، بصرہ اور مصر میں پھیلاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ خلافت کی مسند پر آتے ہیں، آپ فطرتاً نرم خو اور سلیم الطبع تھے، جس سے منافقین اور اشرار نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ آپ کی خلافت کے آخری سالوں میں عبداللہ ابن سبا اور اس کے حامی اور سفیروں نے ہرجگہ دورے کر کے خلیفۂ اسلام اور ان کے گورنروں کے خلاف زہراگلا۔ امن وامان کی فضا کو تہہ و بالا کیا، مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے محبت اہل بیت کا نعرہ لگایا۔
جب امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان کے رب کی طرف سے بلاوا آگیا تو فتنوں کی بندش کا دروازہ ٹوٹ گیا جس کا ٹوٹنا اپنے وقت پر مقدر تھا اور منافقین کی سازش کامیاب ہوگئی، اور فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ قاتل نے خود بھی فوراً جہنم میں چھلانگ لگادی۔ سازش کیا تھی؟ اس سع�ئلاحاصل میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنا وقت ضائع نہ کیا تقدیر کو بہر حال نافذ ہونا تھا سو نافذ ہوگئی او رتاجِ خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سر پر سجادیا گیا۔جو شرم و حیا، علم و حلم میں بے مثال تھے۔ عفوودر گزر، تقویٰ، توکل، صبروتحمل، جو دوسخا میں بے مثال تھے۔ لاکھوں افرادِ اُمت کے دل جن کی محبت میں دھڑ کتے تھے، جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ساری اُمتّ خوش تھی۔ خلافت میں جس نے تیسرا نمبر پایا اور دمِ واپسیں پر نب�ئاُمی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں کو نباہتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے اخلاقِ کریمانہ ،دریادلی اور صفتِ عفو و شفقت ہی سے منافقین نے غلط فائدہ اٹھایا، خراسان اور شمال و مشرق کے علاقے جنگی صورتحال سے گرم تھے اور وہاں لوگوں کو ایسی شر یرانہ چالبازیوں کا ذوق نہ تھا۔ شام حمص اور اردن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیرِ انتظام تھے، اہلِ روم سے بھی جنگ جاری تھی، حرمین شریفین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھاری تعداد موجود تھی اس لیے یہاں شریرانہ چالبازیوں کو موقع نہ مل سکا۔ تین شہر ایسے تھے جہاں پرامن زندگی جو بن پر تھی، ان شہروں کے اصل باشندے عجم تھے۔ عراق ، مصر کی فتح کے بعد یہاں عرب بھی آباد ہوئے، یہ شہر مصر، کوفہ اور بصرہ تھے۔ ان تین شہروں کے پرامن ماحول میں منافقین اپنی شریرانہ حرکتوں کا بیج بونے اور اپنی فتنہ پرداز کارروائیوں کو پروان چڑھانے اور اپنے گروپ فعال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان تین شہروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عاملین حسبِ ذیل ہیں۔ کوفہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص، ان کے بعد ولید بن عقبہ ، ان کے بعد سعید بن العاص اور پھر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم۔
بصرہ میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، ان کے بعد عبداللہ بن عامررضی اللہ عنہ۔ مصر میں حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ۔ خلافتِ عثمانی کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں ان عاملین کے خلاف ان شہروں کے عوام میں سے کسی ایک فرد کی کوئی ایک شکایت بھی تاریخ کی کتابوں میں دستیاب نہیں ہے، لیکن فتنہ پردازوں کا گروہِ اشرار شور مچا رہا ہے کہ بیت المال اپنے رشتہ داروں میں لُٹا دیا گیا، سرکاری عہدے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیے، نو عمر اور ناتجربہ کاررشتہ داروں کو عہدوں پر فائز کردیا گیا،کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو عہدوں سے برطرف کردیا گیا، یہ شور آج پندرہویں صدی بعد بھی اسی طرح سنا اور سنایا جارہا ہے ۔ جس طرح آج سے پندرہ صدی پہلے فتنہ بازوں کے گروہِ اشرار نے شور مچامچا کر لوگوں کو سنایا تھا ۔ لیکن حقائق کی دنیامیں عملاً ان گھناؤنے الزامات میں سے کسی ایک الزام کا بھی قطعاً کوئی وجود نہیں ہے۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفۂ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی تھی کہ اس فتنہ کا مقابلہ صبر سے کرنا ہوگا۔
مصر سبائی تحریک کا مرکز:
یہ سبائی خفیہ تحریک کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ لیکن کوفہ میں اس کے اثرات کم نہ تھے۔ اشتر نخعی ابن الحنکہ ، جندب صعصہ، کمیل، عمیر بن ضابی اس تحریک کے سرپرست تھے۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ گورنر کوفہ ان پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کی شکایت لے کر ایک وفد خلیفہ کے پاس جا پہنچا، کبھی کوئی شکایت اور کبھی کوئی، بالآخر ان کو معزول کر واکر دم لیا۔
بصرہ میں فتنہ کی ابتدا:
بصرہ میں خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ گورنر تھے ۔ خلافتِ فاروقی کے آخری ایام میں وہاں ایک جماعت ان کی مخالف ہوگئی اور وہ ان کی شکایت دربارِ خلافت میں پہنچاتی رہتی ،لیکن فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حسنِ تدبر سے ان کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ خلافتِ عثمانی میں ان لوگوں نے شدت سے ان کی معزولی کا مطالبہ کیا چنانچہ ان کو معزول کر کے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو گورنر بصرہ بنادیا گیا۔
ایک روز گورنر کو پتہ چلا کہ ایک آدمی آیا ہے اور خلافتِ اسلامیہ کے خلاف لوگوں کو ابھارتا ہے، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ عبداللہ ابن سباء ہے جویمن سے آیا ہوا نومسلم ہے۔ اس نووارد کو گورنر بصرہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ یہاں نہیں رہ سکتے پھر یہ بصرہ سے کوفہ چلاگیا اور اسے مرکز بنا کر ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگیا،اسے کوفہ میں فضاساز گا رنظر آئی۔ کوفہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بسایا گیا تھا او رمجاہدین کی یہ ایک چھاؤنی کی شکل اختیار کر گیا، فتوحاتِ فاروقی میں بہت سے علاقوں کے نومسلم موجود تھے جنھوں نے کوفہ میں ہی رہائش اختیار کر لی۔ کوفہ کے لوگ راسخ العقیدہ نہ تھے، ابھی اسلام کی عظمت ان پر پوری طرں ان کے دلوں میں نہ سما سکی، کلمہ پڑھ لینے کے باوجود یہ لوگ وطن پرستی، لسانیت اور قومیت پرستی کے دلدادہ تھے۔ عبداللہ ابن سبا منافق کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی جو اسے میسر یہاں آگئے لہٰذا کوفہ، بصرہ اور مصر سے اس نے اپنی خفیہ زمینی تحریک کا آغاز کیا اور بالآخر شہادتِ عثمان، شہادتِ فاروق اعظم، جنگِ جمل، جنگِ صفین، جنگِ نہروان اور حادثۂ کربلا اسی سازش کے طور پر رونما ہوئے۔ان تمام حادثات و سانحات میں ابن سباء یہودی کی سازش ہی کارفرما نظر آتی ہے۔
عبداللہ ابن سباء کی حکمتِ عملی:
عبداللہ ابن سباء یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا،اس کی ماں حبشن تھی۔ ۳۵؍ہجری کے قریب یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک باقاعدہ اور منظم تحریک بنانے میں کامیاب ہوا۔ عبداللہ ابن سباء اور اس کے حامیوں کی کوششوں سے مفسدین کی جماعت ملک میں تیزی سے پھیل گئی۔ ہر علاقہ کے مفسدین کا نقطۂ نظر الگ الگ تھا۔ اہلِ کوفہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ پر نگاہ جمائے ہوئے تھے، اہلِ بصرہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو پسند کرتے تھے، اہلِ مصر سیدنا علی المرتضیٰ کے ساتھ امیدیں باندھے ہوئے تھے اور عراق کے لوگوں کی ایک جماعت قریش کے تمام افراد سے بغض و عداوت رکھتی تھی۔ عبداللہ ابن سبانے اپنی حکمتِ عملی سے کام لے کر سب کو مخالفتِ عثمان رضی اللہ عنہ میں متحد کردیا او رسب ایک ہی نعرہ لگانے لگے کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کی معزولی چاہتے ہیں۔
ان تمام مختلف خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر ابن سباء متحد کرنے میں کیونکر کامیاب ہوا اور اس کی کامیابی کے کیا اسباب تھے اب اس کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
ابنِ سباء کی کامیابی کے اسباب:
یہودی: ابنِ سبا کی تحریک کے وقت اسلام کے خلاف مشرکین، یہودی، عیسائی اور منافقین کی تحریکیں کام کررہی تھیں۔ اس لیے ابنِ سباء کو زیادہ محنت نہ کرنا پڑی اسے ایسے افراد بکثرت مل گئے جس کی اسے ضرورت تھی۔ ان تمام تحریکوں میں جو کہ اسلام دشمنی میں ایک دوسرے کی معاون تھیں، مختلف لوگوں کو اسلام کے خلاف متحد کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہ خود یمن کا یہودی تھا، مدینہ اور خیبر سے یہود کی جزیزۃ العرب سے جلاوطنی کا انتقام نے اسے منافقت کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کیا تاکہ وہ مسلمانوں سے اپنی قوم یہود کی جِلاوطنی کا انتقام لے سکے او رکسی نہ کسی طرح جزیرہ عرب میںیہودی سکونت اختیار کرسکیں۔
مجوسیت: اس تحریک کی کامیابی کا دوسرا بڑا سبب مجوسیت تھی۔ اہلِ فارس (ایران) کے مجوسی وہ بھی اہلِ عرب کے غلبہ کو نہ برداشت کر سکے اور اسلام کے دشمن ہوگئے۔ بظاہر کلمہ بھی پڑھ لیا لیکن قومیت اور لسانیت کی لعنت سے نہ نکل سکے اور ابنِ سباء کی تحریک کا آسانی سے حصہ بن گئے، اس طرح ایرانی بھی خلافتِ اسلامیہ کے دشمن بن گئے۔
عام عرب قبائل: عام عرب قبائل میں مشرکین اور عیسائی شامل تھے،یہ بھی اسلام کے سخت دشمن بن گئے اور یہ تمام قبائل بھی آسانی سے اسلام دشمنی کی وجہ سے ابنِ سباء کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ یوں حالات کی موافقت کی وجہ سے زمین ان فتنوں کی زرخیزی کے لیے ساز گار بنتی گئی اور اس کی تحریک بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.