حکیم حافظ محمد قاسم
تحریک آزادی ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کیلئے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میںلا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیںرقم کیں ان میں مجلس احراراسلام سر فہرست ہے ، جس کی جرات استقامت بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہےں ، یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے اور جاہل صوفیوں ان پڑھ عاملوں اور بد کردار گدی نشینوں کے ہتھے چڑھ کر عقل و بصیرت اور ایمان وعصمت کے گو ہر آب سے محروم ہورہے تھے ، ہندوآنہ رسوم ورواج توہمات وخرافات سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہاتھا ، بزدلی بے دینی اسلامی اخلاق وتعلیمات سے دوری مسلمانوں میں اپنے قدم جمارہی تھی ، جبکہ انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوںسے جذبہ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کیلئے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا ، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری دینی عوامی جماعت کی شدید ضرورت تھی، مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقات کے غیور اور جفاکش لوگوں کی اپنی آواز ہو جو غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے ،اسی سلسلہ میں29 دسمبر1929 کودریائے راوی کے کنارے لاہور میں تحریک آزادی ااور تحریک خلافت کے رہنماﺅں حضرت مولانا امیر شریعت سیدعطاءاللہ شاہ بخاری ، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی،مفکر احرار چودھری افضل حق ، شیخ حسام الدین ، مولانا مظہرعلی اظہر ، سید محمدداوﺅد غزنوی مولانا ظفرعلی خان ، ماسٹر تاج الدین انصاری جیسے سربکف وجان باز مجاھدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا ، عوام نے مسر ت آمیز جذبات کے ساتھ اس کا پر جوش خیر مقدم کیا ، بطل حریت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری قافلہ احرار کے اوّلین سالار اور حدی خواں مقرر ہوئے۔ کفن بردوش سرخ پوش مجاھد سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے بغاوت کیلئے شھادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کیلئے رواں دواں ہوئے ، جبکہ مقابلہ میں انگریز سامراج اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوںکے دروازے کھول دیئے گئے، پھانسی کے تختوں ، مشین گنوں ، لاٹھی چارج ، پولیس ، فوج، ڈندا فورس سے لیس ان وفا شعار مجاھدوں اور جفا کش رضا کاروںکے استقبال کیلئے موجود تھاِ ، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی مرزا بشیرالدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی سٹیٹ بنانے کی سازش کی تو مجلس احراراسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا ، قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کیلئے نو گو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کیلئے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا ،اور حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 11,12,13,رجب 1353ھ،مطابق 21,22,23, اکتوبر 1934 ءبروز اتوار ، سوموار ، منگل ، قادیان میں 3روزہ احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میںہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماءکرام مشائخ عظام نے شرکت کی،
احرار کی اس یلغار سے انگریز ی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا ، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوگیا امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی تین دن کی تقریروں نے استعماری ایجنٹ قادیانیوںکی چولیں ڈھیلی کر دیں ، تحریک پاکستان بڑی شد و مد سے چل رہی تھی اسی اثنا ءمیں قادیانیوں نے باﺅنڈری کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازعہ بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احراراسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھر پور جدوجہد کی جبکہ مسلمانوں کی جماعتوں یونینسٹ اور مسلم لیگ کی چپ نے مرزائیوں کو اس سیاسی چال چلنے کا موقع دیدیا،قیام پاکستان کے بعد مجلس احراراسلام نے حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احراراسلام عارضی طور پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی ، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو تحرک بخشنے کا فیصلہ کیا
1953 ءمیں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مر حلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازبازکرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس حراراسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت پر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5 مارچ 1953 ءکو لاہور میں مارشل لا ءلگا کر عاشقان ختم نبوت پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں،لاہور ، گجرانوالہ ، سیالکوٹ ، گجرات، ملتان ،ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع رسالت کے پروانے لہو میں نہا گئے ، بقول شورش کاشمیری مرحوم،
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
بظاہراس تحریک کو کچل دیاگیا لیکن حضرت امیر شریعت سید عطا ءاللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا ، مگر تم دیکھوگے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا ، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکاہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا ، چنانچہ 1974 ءمیں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت بھر پور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا ، جبکہ 26 اپریل 1984 ءکو صدر محمد ضیاءالحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانونا ًروک دیا گیا تحریک تحفظ ختم نبوت کے تناظر میں آج بھی مجلس احراراسلام قائد احرار حضرت پیر جی سید عطا ءالمہیمن بخاری ،جناب پروفیسر خالد شبیر احمد،جناب عبداللطیف خالد چیمہ ،جناب محمد کفیل بخاری ،جناب میاں محمد اویس، جناب سید عطاءاللہ شاہ ثالث ،جناب قار ی محمد یوسف احرار ،جناب ڈاکٹر عمرفاروق احرار اورمولانامحمد مغیرہ کی پرعزم اور بے داغ قیادت میں سرگرم عمل ہیں ، اور 29دسمبر2019 ءکو پورے نوّے برس جماعت کو بنے ہو جائیں گے، اسی دن کی مناسبت سے اتوار کو لاہور ، ملتان ، چیچہ وطنی ، ساہیوال، بوریوالا، چناب نگر ، ٹوبہ ، کراچی، گجرات ، گجرانوالہ، رحیم یار خان ، تلہ گنگ،، ڈیرہ اسماعیل خان، حاصل پور، جتوئی، اور دیگر مقامات پریوم تاسیس احرارکی پر وقار تقریبات پرچم کشائی منعقد ہوں گی جن میںقافلہ احرارکورواں دواں رکھنے کے لیے تقاریروبیانات ہوںگے اوردنیا پر واضع ہوجائے گا کہ
ہیں احرارپھرتیز گام اللہ اللہ
ہوئی تیغ حق بے نیام اللہ اللہ