تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نعت

نعت
(مع حواشی و توضیحات)
جانشینِ امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذربخاری رحمتہ اللہ علیہ ایک متبحر عالم دین، فصیح البیان خطیب، ماہر علم الانساب واسماء الرجال، محقق سیرت و تاریخ ہونے کے ساتھ ساتھ قا درالکلام شاعر بھی تھے۔ آپ نے شاعری میں مولانا عظامیؒ اور جگر مرادآبادیؒ سے اصلاح لی۔ ذیل کی طویل نعت ۷۱ ؍اشعار پر مشتمل ہے جو نعتیہ ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ان اشعار میں بعض احادیث کا مفہوم نہایت مہارت سے سمویا ہے۔ حضرت کے ایک رفیقِ فکر مولانا عبدالحق چوہان رحمتہ اللہ علیہ(سابق امیر مجلس احرار اسلام) نے ۲۱؍اشعار میں احادیث کی تخریج کر کے لطف دوبالا کر دیا ہے۔ بعض حواشی نامکمل تھے جنھیں مفتی نجم الحق اور مفتی صبیح ہمدانی نے نظرثانی کر کے احادیث اور ان کا ترجمہ بھی ساتھ نقل کردیا ہے۔ اصل مسودے کا عکس مولانا عبدالحق نے اپنے ایک عزیز مولانا فقیر اللہ (رحیم یار خان) کو عنایت فرمایا تھا، ان کے شکریے کے ساتھ اب یہ نعت تحقیق و تخریج اور حواشی کے ساتھ نذرقارئین ہے۔ (مدیر)
أعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم۔بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔نحمدہ ونصلِّيعلی رسولہ الکریم
آغازِ نعت: بر ساعتِ دو بر چہل و دو دقیقہ بہ مؤرخہ: ۱۵؍ محرّم الحرام ۱۴۰۵ھ، مطابق: ۱۱؍اکتوبر ۱۹۸۴ ء، بروز پنج شنبہ بموقع سفر از ملتان برائے قصبہ رکنی و بستی اچڑی،ضلع لورالائی۔ بلوچستان، براستہ ڈیرہ غازی خان

مولانا سید ابو معاویہ ابو ذ ربخاری ؒ
نعت
ہے کس کے بس میں لکھے جومدحت حضور کی
خلقِ عظیم جب ہے علامت حضو رکی
طاقت ہے کس قلم میں کرے وصف کو تمام
منشا خدا کا عین ہے فطرت حضور کی
فرمانِ عائشہؓ ہے کہ قرآن آپ تھے
اب اس سے بڑھ کے ہوگی کیا عظمت حضور کی
اﷲ کا کلام مجسّم ہو گر تو پھر
صورت حضور کی ہے یا سیرت حضور کی
ہر نقشہ رکھ کے علم میں اس کرد گار نے
بے مثل پھر بنائی ہے صورت حضور کی
کل انبیا صفات میں ہیں مختلف مگر
جامع ہے سب صفات میں سیرت حضور کی
کافر ہے جو نہ مانے بشرت آپ کو مگر
افضل ہے نور سے بھی حقیقت حضور کی
خلق و بشر ،تقدم و عصمت،حیات قبر
روشن ہے ان صفات سے طینت حضور کی
ہر کفر و ارتداد اور طاغوت کے لئے
لائی پیامِ موت ولادت حضور کی
جنت خمیر تھے تو پسینہ گلاب تھا
افزوں ملائکہ سے لطافت حضور کی
سورج رواں تھا آپ کے روئے منیر میں
تھی سلسبیلِ نور صباحت حضور کی
دیکھے زنانِ مصر نے یوسف تو کاٹے ہاتھ
کٹ جاتیں دیکھتیں جو ملاحت حضور کی
نظارۂ جمال تھا بس صبح و شام عشق
کچھ عائشہ سے پوچھو نزاہت حضور کی
آنکھوں میں سرخ ڈورے تو پلکیں تھیں سرمہ سا
چشمِ غزال دیکھ! کحالت حضور کی
تھے ابراہیم جِد مجِدد جو آپ کے
کامل تھی ان کے ساتھ شباہت حضور کی
حال آنکہ ’’ کسان ربعۃ‘‘ آیا ہے شان میں
پھر معجزہ ہے قد میں طوالت حضور کی
کوثر میں ہے دھلی ہوئی ہر بات آپ کی
ضرب المثل بنی ہے فصاحت حضور کی
جس سے کیا کلام وہ مفتون ہو گیا
کتنی دقیقہ رس تھی بلاغت حضور کی
ہو لفظ ایک اور معانی ہوں بے شمار
معجز نما رہی ہے خطابت حضور کی
چھوٹوں پہ رحم،قدر بڑوں کی،لحاظِ زن
حسنِ سلوک عدو سے تھی عادت حضور کی
دیکھا تھا اک نماز میں خوشہ بہشت کا
ہوتا نہ ختم کھاتی جو امت حضور کی
لیکن کفافِ عشق پر دائم تھے مطمئن
دنیا سے تھی نرالی قناعت حضور کی
خالق کو کس نے جانا بلا واسطہ کبھی
امت کو لازمی ہے وساطت حضور کی
جو بھی ملا وہ پل میں بنا ہے خدا شناس
کیسی خدا نما تھی رفاقت حضور کی
ہوتا تھا دورِوحی بھی روح القدس کے ساتھ
سنتے تھے جبرئیل تلاوت حضور کی
پاؤں پہ ورم،اشک رواں ،خاک پر جبیں
کیا عجز و انکسار تھا حالت حضور کی
عبدِ شکور بن کے نماز و نیاز میں
رہتے تھے محو یوں تھی عبادت حضور کی
سِہ روزہ فاصلہ پہ تھے مرعوب سب عدو
ناطق ہے اس پہ حشمت و ہیبت حضور کی
اﷲ کیا مقام تھا کہ وقتِ نزع بھی
واجب فرشتہ پر تھی اجازت حضور کی

صدقات اور ترکہ سے سب اہل بیت کو
رکھا الگ تو یہ تھی عدالت حضور کی
ارضِ فدک تو ’’ فے‘‘ ہی تھا جو وقف بن گئی
یہ جھوٹ ہے کہ وہ تھی وراثت حضور کی
توحید اور رسالت و ازواج اور صِحاب
بنتی ہے ان ہی تین سے ملت حضور کی
ڈیما کریسی کمیونزم اور فرنگیت
ہے ان سے پاک و صاف شریعت حضور کی
عدل و اخوت اور مساواتِ حقِ رزق
الہام آشناہے سیاست حضور کی
اسلام کا نظام ہے شورائی انتخاب
جمہوریت شکن تھی حکومت حضور کی
عورت نہیں تھی کوئی بھی شوریٰ میں منتخب
مردوں پہ انحصار عمارت حضور کی
عورت ہے شمعِ خانہ تو قوام ہیں رجال
حکمِ خدا ہے اور شریعت حضور کی
طرزِ قیادت ہے آپ کا آفاق گیر ہے
عالم کو ہے محیط اممامت حضور کی
انجیل اور زبور اور تورات موسویّ
ناسخ ہوئی ہے سب کو نبوت حضور کی
اﷲ اور رسول کو جب تک نہ ہو قبول
ملتی نہیں ہے ہوں ہی نیابت حضور کی
مانگی علی کے نام پر سہ بار جب دعا
آئی ندا نہیں یہ سفارت حضور کی
لکھا ہے میں نے فیصلہ تقدیر میں اٹل
بوبکر کو ملے گی خلافت حضور کی
عمِّ نبی زبیر ہی دادا کے تھے وصی
دراصل کی انھی نے کفالت حضور کی
ابا علی کے ٹھیک ہے کچھ خیر خواہ تھے
عبد مناف نے بھی کی خدمت حضور کی

اے کاش کلمہ پڑھتے ابو طالب آپ کا
پھر کیسا رنگ لاتی محبت حضور کی
اصحاب جانشینِ نبی تھے نبی نہ تھے
جو کچھ بنے بنا گئی صحبت حضور کی
توہین ساتھیوں کی نہ برداشت کی کبھی
بعد از خدا عظیم ہے غیرت حضور کی
ازواج و آل اور صحابہ ہیں جنتی
کام آیا دیں،نہ صرف قرابت حضو رکی
بوبکر و بوتراب ہیں سردار اولیا
جاری رہے گی ان سے ولایت حضور کی
پر نعد انبیاء کوئی معصوم اب نہیں
مانا نہ یہ تو کیا پھر عزت حضور کی
خاتم تھے اس لیے نہ کیے جا سکے شہید
مجروح ورنہ ہوتی تھی حرمت حضور کی
دشمن کے سارے وار ہی ناکام ہو گئے
اﷲ نے خود ہی کی ہے حفاظت حضور کی
توحید ہے ردائے کبریائے ذاتِ حق
یوں ہی ہے تاجِ ختم نبوت حضور کی
مانا رسول کو ہے تو مانا خدا کو ہے
طاقت خدا کی سمجھو اطاعت حضور کی
تصدیق آپ کی ہے بس تصدیقِ انبیاء
بے مثل ہے یہ ایک فضیلت حضور کی
کعبہ ہے کیسے قبلۂ حاجاتِ کائنات
مرکز ہے اہلِ عشق کا تُر بت حضور کی
عشق رسول مانگے ہے اُسوہ کی پیروی
بدعت سے کیسے ابھرے گی الفت حضور کی
جنت ہے ان کی مہر تو دوذخ ہے ان کا قہر
نازک ہے عرش سء بھی طبیعت حضور کی
یاور ہے دو جہان میں پہلے خدا کا فضل
آخر میں کام آئے گی نسبت حضور کی

محروم تھا میں جلوۂ نورِ جمال سے
اس عمر میں ہوئی ہے زیارت حضور کی
مجھ نابکار اور سراپا گناہ پر
بس کچھ نہ پوچھو کتنی تھی شفقت حضور کی
فرمایا مجھ کو آپ ہماری ہی آل ہو
سب سے بڑی سند ہے شہادت حضور کی
اک ذرۂ حقیر پر اتنا کرم کیا
پہنچا گئی کہاں پہ شرافت حضور کی
محسوس کر رہا ہوں میں فیضِ نگاہ کو
یوں ملتفت ہے چشم عنایت حضور کی
میرا نسب حسن سے نبی سے ہے متصل
آئی ہے میرے خون میں الفت حضور کی
دل میں ندامت،آنکھوں میں آنسو،زبان ہے بند
درکار ایسے میں ہے وکالت حضور کی
حافظؔ میں خوفِ موت سے کیسے ہوں بے نیاز
جب جانتا ہوں موت ہے سنت حضور کی
دنیا کے غم ہیں ہیچ غمِ آخرت کے ساتھ
ہے فکرِ موت و قبر بھی سنت حضور کی
عاصی ہوں دل شکستہ ہوں اور مستمند ہوں
یا رب نصیب کر دے شفاعت حضور کی
اے رحمتِ تمام میری ہر خطا معاف
آیا ہوں لے کے پونجی میں نسبت حضور کی

(۔۔۔۔۔۔)

والحمد للّٰہ أولاً وآخراً
والصلاۃ والسلام علی محمدٍ رسولِ اللّٰہِ وعلی أزواجِہ وأولادِہ وأصحابِہ أجمعین ظاہراً وباطناً
پایانِ اکثر و بیشتر نعت شریف در نیم روزِ یک شنبہ، بہ مؤرخہ: ۱۵؍محرّم الحرام ۱۴۰۵ھ، مطابق:۱۴؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء، وتکمیلِ ثانی قریبِ نیم شب بہ مؤرخہ۱۸؍ صفر المظفّر ۱۴۰۵ھ،۱۳؍ نومبر۱۹۸۴ء، در استقبالیہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال شہر، بموقع آمد برائے تعزیت شہداء۔ فقط فقیر ابو معاویہ
حواشی
ش:۱، مصرع اوّل:
فَاِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ
حَدٌّ فَیُعْرِبُ عَنْہُ نَاطِقٌ بِفَم

فضل وجاہ مصطفیٰ حدّے ندارد در کمال
تاتواند کرد شخصے روشن آں را بیش و کم
حد نہیں ہے کوئی حضرت کے کمال و فضل کی
ہو بیاں کس منہ سے توصیفِ شہِ خیر الاُمم

(۲)’’لَایُمْکِنِ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ‘‘
مصرع دوم: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔(القلم: ۴)
ش۳:
(۱) عن سعد بن ھشام قال قلت لعائشۃ رضی اللہ تعالی عنھا یا ام المؤمنین انبئینی عن خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت الست تقرأالقرآن قلت بلی قالت فان خلق نبی اللہ کان القرآن (شعب الایمان بیہقی، حدیث نمبر: ۱۳۵۹)
(۲) عن ابی الدرداء انہ سئلھا عن خلقہ علیہ الصلوۃوالسلام فقالت کان خلقہ القرآن یرضی برضاہ ویسخط لسخطہ۔(شفاء)
(۳) ودر عوارف المعارف گفتہ: کہ مرادِ عائشہ آنست کہ قرآن مہذِبِ اخلاق وے صلی اللہ علیہ وسلم بود۔
ترجمہ:عوارف المعارف میں فرمایا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کامطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو سنوار دیا تھا۔
ش۶:
وَکُلُّ آیٍ اٰتَی الرُّسُلُ الْکِرَامُ بِہَا
فَاِنَّمَا اتَّصَلَتْ مِنْ نُوْرِہٖ بِہِمٖ

فَاِنَّہٗ شَمْسُ فَضْلٍ ہُمْ کَوَاکِبُہَا
یَظْہَرْنَ اَنْوَارَہَا لِلنَّاسِ فِی الظُّلَمٖ

ہر چہ آوردند مجموعِ رسل از معجزات
از نورِ مصطفی آمد بایشاں لا جرم

او بود خورشیدِ فضل و دیگراں سیارگاں
روشنی سیارگاں ظاہر کنند اندر ظلم

جو رسولانِ جلیل القدر کے تھے معجزات
آپ ہی کے نور سے پایا تھا سب نے یہ کرم
آفتابِ فضل ہیں وہ، سب ستارے انبیاء
کرتے ہیں ظلمت میں ظاہر سب پہ انوارِ کرم
ش۷:
قرآنِ مجید میں ہے کہ خداوندِ قدو س کی طرف سے پیغمبر کی تصدیق نبوت کے لیے کفار کے پاس جب کوئی نشان پہنچتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم کو بھی وہی نہ ملے جو اللہ کے پیغمبروں کو مل چکا ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس بے جااور احمقانہ سوال کے جواب میں فرمایا: اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ۔یعنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا اہل ہے ۔یعنی شرفِ رسالت کا اہل ہرکس وناکس نہیں ہوسکتا بلکہ مرتبۂ رسالت ونبوت کے لیے ظرف واہلیت کا فیصلہ تمام تر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس مرتبۂ رفیعہ کا اہل ہے۔
حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کر تے ہوئے اُن لوگوں کے زعمِ باطل کی تردید کر تے ہیں جن کے نزدیک انبیاء علیہم السلام اور عام انسانوں کی فطرۃ یکساں ہے۔
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی :اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ اَیْ لَیْسَ کُلُّ اَحَدٍ اَھْلًا وَلَا صَالِحًا لِتَحَمُّلِ الرِّسَالَۃِ بِہٖ لَھَا مَحَالٌ مَخْصُوْصَۃٌ لَاتَلِیْقُ اِلَّابِھَا وَلَاتَصْلُحُ اِلَّالَھَا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِھٰذِہِ الْمَحَالِ مِنْکُمْ وَلَوْ کَانَتِ الذَّوَاتُ مُتَسَاوِیَۃً کَمَا قَالَ ھٰؤُلَاءِ لَمْ یَکُنْ فِیْ ذَالِکَ رَدٌّ عَلَیْھِمْ وَکَذَالِکَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی: وَکَذَاِلکَ فَتَنَّابَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِیَقُوْلُوْا ھٰؤُلَاءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّن بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ اَعْلَمَ بِالشَّاکِرِیْنَ ۔ اَی: ھُوَ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمَ بِمَنْ یَّشْکُرُہٗ عَلٰی نِعْمَتِہٖ فَیَخْتَصُّہٗ بِفَضْلِہٖ وَیَمُنُّ عَلَیْہِ مِمَّنْ لَایَشْکُرُہٗ فَلَیْسَ کُلُّ مَحَلٍّ یَصْلُحُ لِشُکْرِہٖ وَاحْتِمَالِ مَنَّتِہٖ وَالتَّخَصُّصُ بِکَرَامَتِہٖ فَذَوَاتُ مَا اخْتَارَہٗ وَاصْطَفَاہٗ مِنَ الْاَعْیَانِ وَالْاَمَاکِنِ وَالْاَشْخَاصِ وَغَیْرِھَا مُشْتَمِلَۃٌ عَلٰی صِفَاتٍ وَاُمُوْرٍ قَاءِمَۃٍ بِھَا لَیْسَتْ فِیْ غَیْرِھَا وَلِاَجْلِھَا اصْطَفَاھَا اللّٰہُ وَھُوَ سُبْحَانَہُ الَّذِیْ فَضَّلَھَا بِتِلْکَ الصِّفَاتِ وَخَصَّھَا بِالْاِخْتِیَارِ ۔(زادالمعاد ،ص:۹،۱۰،ج:۱)
ترجمہ:اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ کون اسکی رسالت کا اہل ہے یعنی ہر کس و نا کس رسالۃ کااہل اور اس کے تحمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ رسالت کے لیے خاص ذوات ہیں کہ وہی صرف اس کے لائق ہو سکتی ہیں اور انہی ذوات میں اہلیت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے اگربالفرض تمام انسان فطری صلاحیت کے اعتبارسے برابر ہوں جس طرح کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس سے تو پھر اس آیت میں کفّار کے شبہ کا جواب نہیں بن سکتا اور اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ اس طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھاہے جس سے یہ لوگ کہیں گے کہ کیا یہی لوگ ہمارے درمیان میں سے ہیں جن پر اللہ تعالی نے اپنا فضل کیا ہے ؟کیااللہ شکر گزاروں سے خوب واقف نہیں؟! یعنی خدا ہی جانتاہے کہ کون اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرے گا اس لیے اس کوناشکروں سے جدا کرکے اپنے فضل کے ساتھ مختص کر دیتے ہیں اور اس پر اپنا احسان کرتے ہیں اس لیے ہر ذ ات اس کے شکر کرنے ،اس کے احسان کے تحمل اور اس کی خصوصی عزت افزائی کے لیے مختص ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔پس وہ ذوات کہ جن کو اللہ تعالی نے اپنے لیے اختیارفرمایاہے اور ان کو برگزیدہ فرمایا ہے خواہ وہ کوئی خاص نبی ہو یا مکان ہو یا شخص یا اس کے علاوہ ، یہ ذوات خصوصی صفات پر مشتمل ہوں گی اور ان کے ساتھ ایسے امور قائم ہوں گے جو کہ دوسروں میں موجود نہیں ہوں گے اور اپنی خصوصی صفات کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کو برگزیدہ بنایا ہے اوروہی پاک ذات ہے جس نے ان ذوات کو ان صفات کے باعث فضیلت دی ہے اور ان کو اپنی خصوصی پسند کے لیے مختص کیا ہے ۔
لیکن ہمارے ان استدلالات سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ انبیاء علیہم السلام کادرجہ عام انسانوں جیساہے بلکہ یہ ذواتِ قدسیہ انسانیت کے اس درجہ پر فائز ہیں کہ امّت کے کسی شخص کی بھی ان قدسی صفات نفوس کے ساتھ نسبت نہیں دی جاسکتی اسی تَوَھُّم کے دور کرنے کے لیے نعت کے اسی شعر کے دوسرے مصرعہ میں کہا گیا ہے : ؂
افضل ہے نور سے بھی حقیقت حضور کی
اور اسی فرقِ مراتب کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا گیا ہے :
مُحَمَّد بَشَر وَلَیْسَ کَا لْبَشَر
بَلْ ھُوَ یَاقُوْتۃٌ وَالنَّاسُ کَا لْحَجَر
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ آپ یاقوت ہیں اور باقی انسان عام پتھروں کی طرح ہیں ۔
حکیم الامۃشاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’نفوسِ قُدسِیّہ انبیاء علیہم السلام در غایتِ صفاء وعلو فطرۃ آفریدہ شدہ است ودر حکمت الٰہی ہماں صفاء و علو فطرۃ مستوجب وحی گشتہ اند ۔وریاستِ عالم بایشاں مُفَوَّض شدہ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی :اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘۔
ترجمہ: انبیاءِ علیھم السلام کے پاک نفوس انتہائی پاکیزہ اور بلند فطرۃ پیدا کیے گئے ہیں ،اسی پاکیزگی او ر فطری بلندی کے باعث حکمتِ ربانی ان کے سپردکی گئی ہے اور اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ’’اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ کون اس کی رسالت کا اہل ہے ۔‘‘(ازالۃالخفاء ،ج:۱،ص:۹)
ش۸:
حیات: بدانکہ حیاتِ انبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین متفق علیہ است میانِ علمائے امت وہیچ کس را خلاف نیست ،دراں کہ آں کامل تر وقوی تر از وجودِ حیاتِ شہداء ومقاتلین فی سبیل اللہ است کہ آں معنوی اخروی است عنداللہ، وحیاتِ انبیاء حیاتِ حسی دنیوی است۔ واحادیث واٰثار دراں واقع شدہ است ،چنانچہ مذکور گردد یکے ازاں حدیث است کہ ابو یعلی بنقلِ ثقات ازروایت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ آوردہ قال ،قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ۔ ترجمہ:جان لو کہ حیاتِ انبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین علماءِ امت کے درمیان مُتَّفَقٌعَلَیْہِ ہے، اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حیاتِ انبیاء، حیاتِ شہداء اور اللہ کے راستہ میں جہادکرنے والوں کی حیات سے کامل تر اور قوی تر ہے ۔ان کی حیات معنوی ،اخروی ہے اور حیات انبیاء حسی اور دنیوی ہے۔ اور اس مسئلہ میں احادیث و آثار واقع ہوے ہیں ،جیساکہ (کتابوں میں )مذکورہیں ۔ان میں سے ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ہے جسے حضرت ابو یعلٰی ثقہ راویوں کے واسطہ سے لائے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، نماز پڑھتے ہیں (نجم)۔
البتہ علماءِ امت میں یہ اختلاف ہے کہ حیاتِ بدن کو حلول روح مقدسہ کی وجہ سے ہے یاکہ اِشرافِ روح کے باعث ہے۔ حضرت مولانا قاسم العلوم والخیرات نانوتوی قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْزکی رائے یہ ہے کہ حلول روح کی وجہ سے ہے علامہ ابن قیم شمس الدین بن قیم رحمہ اللہ تعالی کی رائے یہ ہے کہ اِشرافِ روح علی ا لبدن کے باعث ہے ،چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ:’’اِنَّ رُوْحَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَقَرَّتْ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی مَعَ اَرْوَاحِ الْاَنْبِیَاءِ وَمع ھذا فلھا اِشراف علی البدن واشراق وتعلق بہ بحیث یرد السلام علی من سلم علیہ (زاد المعاد،ص:۴۹،ج:۲)
شیخ عثمانی رحمہ اللہ تعالی کی رائے بھی یہی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں: فروحہ المقدسۃ صلی اللہ علیہ وسلم قد استقرت فی الرفیق الأعلی مع ارواح الأنبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَلَایَتَوَھَّمُ مِنْ ھٰذَا اِنْحِصَارُ حَیَاتِہٖ فِیْ قَبْرِہِ الشَّرِیْفِ ،فَاِنَّ لرُوْحِہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِشْرَافًاعَلَی الْبَدَنِ الْمُبَارَکِ المطیَّب وَتَعَلُّقًا بِہٖ وَبَدَنُہٗ فِیْ ضریحہ غیر مفقود، واِذا سلِّم عَلَیْہِ اَ لمُسَلِّمَ، رَدَّاللّٰہُ عَلَیْہِ رُوْحَہٗ حَتّٰی یَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلَامَ ۔کَمَا وَرَدَ فِی الْحَدِیْثِ۔(فتح الملھم،ص:۴۲۱،ج:۳)
ترجمہ: تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک رفیق اعلی میں دوسرے انبیاء علیہم الصلاۃوالسلام کی ارواح کے ساتھ مقیم ہے باوجود اس کے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک کے ساتھ تعلق ہے، اس طرح کا تعلق اور اشراق ہے کہ اگر آپ پر کوئی شخص صلاۃ وسلام کا ہدیہ پیش کرتا ہے تو آپ خود ہی اس کا جواب عنایت فرماتے ہیں ۔
تقدُّم: آپ کے علو درجہ پر بھی تقدم کا اطلاق ہوتا ہے اس اعتبار سے تقدم سے مراد تقدمِ رتبی ہو گا، اور اس حدیث کی طرف بھی اشارہ ہے جوکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ رَوْحَ مُحَمَّدٍ ۔(مدارج ،ص:۲۶۰،ج:۱)
ترجمہ: سب سے پہلے جو اللہ نے پیدا کیا وہ روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔
عِصمت: قَالَ أَءِمَّۃُالْاُصُوْلِ :اَلْأَنْبِیَاءُ عَلَیْھِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کُلُّھُمْ مَعْصُوْمُوْنَ لَا یَصْدُرُ عَنْھُمْ ذَنْبٌ وَلَوْ صَغِیْرَۃً ، سَھْوًا۔وَلَایَجُوْزُ عَلَیْھِمُ الْخَطَاءُ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی قَطْعًا۔(الیواقیت، ص:۲،ج:۲)
ترجمہ:ائمہ اصول فرماتے ہیں :انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام سب کے سب معصوم ہیں ان سے چھوٹے سے چھوٹا اوربھولے سے بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔ (نجم)
اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَمَّااصْطَفَی الْأَنْبِیَاءَ فِیْ سَابِقِ عِلْمِہٖ لِلنُّبُوَّۃِ وَاَدَاءِ الرِّسَالَۃِ وسَّمہم لِذَالِکَ فِیْ مَبَادِیْ اُمُوْرِھِمْ وَحَمَاھُمْ مِنْ مَکَاءِدِ الشَّیْطَانِ وَصَفٰی سَرَاءِرَھُمْ مِنَ الْکَدُوْرَاتِ وَشَرَحَ صُدُوْرَھُمْ بِنُوْرِہٖ وَزَیَّنَھُمْ بِالْاَخْلَاقِ الْحَمِیْدَۃِ وَطَھَّرَھُمْ عِنِ الرِّجْسِ وَالرَّزَاءِلِ۔(معارف ،ص:۳۲۵،ج:۳)
ترجمہ: بے شک جب اللہ تعالی نے اپنے علمِ سابق میں انبیاء کو نبوت اور اداءِ رسالت کے لیے چن لیاتو ان کے ابتدائی زمانے سے ہی ان میں اس کی نشانیاں پیدا کر دیں اور شیطان کی چالوں سے ان کی حفاظت کی ،اور ان کے باطن کو (دنیوی) الائشوں سے صاف کیا،اور ان کے سینوں کو اپنے نور کے طفیل کھول دیا ،اور ان کو عمدہ اخلاق سے مزین کیا،اور ہر طرح کی میل کچیل سے ان کو پاک کیا۔(نجم)
ش۱۰:
جنت خمیر: لارَیْبَ اَنَّ اَبْدَانَ الْاَنْبِیَاءِ ثُمَّ سَیِّدُالْاَنْبِیَاءِ نبتتَ عَلٰی اَجْسَادِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔کَمَاثَبَتَ فِی الْحَدِیْثِ۔ (معارف، ص:۳۲۵،ج:۳)
ترجمہ:اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء علیہم الصلاۃوالسلام کے ابدان ، پھر(خصوصا)سید الانبیاء علیہ الصلاۃ و السلام کا بدن مبارک اہلِ جنت کے جسموں پر ظاہر ہوے ۔(نجم)
پسینے کی خوشبو: (۱) قَالَ اَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَاشَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ وَلَامِسْکًاوَلَاشَیْءًااَطْیَبُ مِنْ رِیْحِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔(مسلم، ج:۲، ص:۲۵۷ بَابُ طِیْبِ رِیْحِہٖ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَلِیْنُ مِسْکِہٖ )
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ کبھی عنبر اور نہ کبھی مشک اور نہ کوئی اور شے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خشبو سے زیادہ خوشبودار سونگھی۔(نجم)
(۲)عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ دَخَلَ عَلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عِنْدَنَا عَرَقٌ وَ جَاءَ تْ اُمِّیْ بِقَارُوْرَۃٍ فَجَعَلَتْ تَسْلُتُ الْعَرَقَ فِیْھَا فَاسْتَیْقَظَ النَّبِیُّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَااُمَّ سُلَیْمٍ مَاھٰذَا الَّذِیْ تَصْنَعِیْنَ فَقَالَتْ ھٰذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُہٗ فِیْ طِیْبِنَا وَھُوَ مِنْ اَطْیَبِ الطِّیْبِ۔ (مسلم ،ج:۲،ص:۲۵۷،باب طیب عرقہ صلی اللہ علیہ وسلم والتبرک بہ )
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی الہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ ہوتاتھا،اورمیری امی ایک بوتل لائیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ نچوڑنے لگیں، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے،فرمایا :
اے ام سلیم یہ آپ کیاکررہی ہیں ؟عرض کیا یہ آپ کا پسینہ ہے جسے ہم اپنی خوشبو میں ملالیتے ہیں تو وہ سب خوشبووں سے زیادہ خوشبودار ہو جاتی ہے ۔ (نجم)
ش ۱۵:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ اَنَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عُرِضَ عَلَیَّ الْاَنْبِیَاءُ فَاِذَامُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ضُرِبَ مِنَ الرِّجَالِ کَاَنَّہٗ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَۃَ وَرَاأیْتُ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَاأیْتُ بِہٖ شِبْھًا عُرْوَۃَ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَرَاأیْتُ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَأَیْتُ بِہٖ شِبْھًا صَاحِبُکُمْ یَعْنِیْ نَفْسَہُ الْکَرِیْمَۃَ ۔(شمائلِ ترمذی ،باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
ترجمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ مجھ پر سب انبیاء علیھم السلام پیش کیے گئے (یعنی مجھے دکھائے گئے) پس حضرت موسی علیہ السلام کو میں نے دیکھا تو وہ ذرا پتلے دبلے بدن کے آدمی ہیں گویا کہ قبیلہ شنوءۃ کے لوگوں میں سے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھا توان سب لوگوں میں سے جومیری نظر میں ہیں عروہ بن مسعود ان سے زیادہ ملتے جلتے معلوم ہوے ،اور حضرت ابراھیم کو دیکھا تومیرے دیکھے ہوے لوگوں میں سے میں خود ہی ان کے ساتھ زیادہ مشابہ ہوں ۔(ترجمہ از خصائلِ نبوی)
ش۱۶:
(۱)عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ ا للّٰہُ عَنْہُ قَالَ لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِیْلِ الْمُمَغَّطِ وَلَا بِالْقَصِیْرِ الْمُتَرَدَّدِ وَکَانَ رَبْعَۃً مِّنَ الْقَوْمِ۔(شمائلِ ترمذی ،باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
ترجمہ؛حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ پست قد ،بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے ۔(خصائلِ ترمذی)
(۲)اِنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ :اِنْعَتْ لَنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صِفَۃً لَنَا ! قَالَ: کَانَ لَیْسَ بِالذَّاھِبِ طُوْلًا وَفَوْقَ الرَّبْعَۃِ اِذَا جَاءَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَھُمْ ۔(طبقات ،ص:۴۱۱،ج:۱)
ترجمہ:ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کو کہا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کیجئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا آپ بہت طویل القامت نہیں تھے درمیانہ قد کے کچھ طویل تھے البتہ جس وقت لوگون کے ساتھ ہوتے تو سب سے اوپر نظر آتے۔ (۳) ودر حدیث عائشہ آمدہ کہ چوں تنہا بودے ربعہ بودے وچوں درمیانِ قوم بود ے از ہمہ بلند و سرفراز نمودے ومنسوب بطول گرددواگر دو مرد در دو طرف وے بودے ازہر دو بلند نمودی وچوں مفارقۃ میکردندمنسوب بربعہ شدے۔ (مدارج، ص:۶۱، ج؛۱)
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیاہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہوتے تو درمیانہ قدکے ہوتے تھے اور جب قوم کے درمیان کھڑے ہوتے توسب سے بلند اور نمایاں دکھائی دیتے اور لمبے قد کی طرف منسوب ہوتے اور اگر دو مرد آپ کی دو طرف ہوتے تو آپ ہر دو سے بلند دکھائی دیتے اور جب وہ جدا ہوجاتے تو آپ درمیانے قدکی طرف منسوب ہو جاتے۔
ظاہرِ حدیث دلیل است کہ ایں از کرامتِ الٰہی بشانِ پاک حبیب خود بود صلی اللہ علیہ وسلم چہ بسیار طول فی الواقع مذموم است وچوں در پہلوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسے طویل بسیار بودے حق سبحانہ تعالٰی حبیب خود رافوق ہمہ اصحاب داشتہ تاکسے سرفراز نباشد۔(حاشیہ مدارج)
ترجمہ:ظاہرِحد یث ا س بات پر دلیل ہے کہ آپ کے اس معجزہ میں خدوندِ قدوس کی طرف سے آپ کی عزب افزائی تھی کونکہ فی الواقع زیادہ طول القامۃ ہونا معیوب ہے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طویل القامۃ شخص کے پہلو میں ہوتے تواللہ تعالی آپ کو بلند کر دیتے اور آپ سب سے بلند معلوم ہوتے تاکہ ظاہری لحاظ سے بھی آپ سے کوئی شخص بلند نہ ہوجائے۔
ش ۱۸:
جوامع الکلم کی تعریف: وَھُوَ الْقَلِیْلُ الْجَامِعُ لِکَثِیْرٍ۔(البیان والتبیین)
ترجمہ:جوامع الکلم یہ ہے کہ مختصر الفاظ میں کثیر معانی ادا ہو جائیں۔
(۱)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۔ (بخاری،باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم نصرت بالرعب مسیرۃ شھر،ج:۱، ص: ۴۱۸)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔ (یعنی مخالفین پر میرا رعب پڑ کران کو مغلوب کر دیتا ہے ۔(نجم)
(۲)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاأحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَأُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔(رواہ مسلم فی الفضائل)
ترجمہ:حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء میں چھ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے :اول یہ کہ مجھے جوامع الکلم دیے گئے اور دوسرے یہ کہ رعب سے میری مدد کی گئی (یعنی مخالفین پر میر ا رعب پڑکر ان کو مغلوب کر دیتا ہے )،تیسرے میرے لیے غنیمت کا مال حلال کر دیا گیا(بر خلاف انبیاء سابقین کے کہ مالِ غنیمت ان کے لیے حلال نہ تھا،بلکہ آسمان سے ایک آگ نازل ہوتی تھی جو تمام مال کو جلاکر خاک سیاہ کر دیتی تھی اور یہی جہاد کی مقبولیت کی علامت سمجھی جاتی تھی )،اور چوتھے میرے لیے تمام زمین نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی (بخلاف اممِ سابقہ کے کہ ان کی نماز صرف مسجدوں میں ہی ہوسکتی تھی )،اور زمین کی مٹی میرے لیے پاک کرنے والی بنادی گئی (یعنی بوقتِ ضرورت تیمم جائز کیا گیا جو کہ پہلی امتوں کے لیے جائز نہ تھا)،پانچواں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں(بخلاف انبیاءِ سابقین کے کہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف کسی خاص اقلیم میں ایک محدود زمانہ تک کے لیے مبعوث ہوتے تھے ،چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء ختم کر دیے گئے ۔(ترجمہ از ختمِ نبوۃ ،مفتی محمد شفیع صاحب)
(۳)کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصِیْحَ اللِّسَانِ بَلِیْغَ الْقَوْلِ نَاصِحَ اللَّفْظِ جَزْ لَ الْعِبَارَۃِ قَلِیْلَ التَّکَلُّفِ اُوْتِیَ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَخُصَّ بِبَدَاءِعِ الْحِکَمِ وَعُلِّمَ اَلْسِنَۃَالْعَرَبِ۔ (عظمۃِ رسول،ص:۲۷۵،بحوالہ نقوش،ص:۳۶۹،ج:۸)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصیح زبان والے، بلیغ گفتگو کرنے والے ، صاف الفاظ ادا کرنے والے،مختصر عبارت والے،بہت کم تکلف والے تھے،انہیں جوامع الکلم عطاء کیے گئے، نادر حکمتوں سے نوازا گیا،اور عرب کی زبانوں کا علم عطاء کیا گیا۔
(۴)حضرت ابو بکر نے آپ سے ایک دفعہ سوال کیا : لَقَدْ طُفْتُ فِی الْعَرَبِ وَسَمِعْتُ فُصَحَاءَ ھُمْ فَمَاسَمِعْتُ اَفْصَحَ مِنْکَ فَمَنْ اَدَّبَکَ؟ قَالَ اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاأحْسَنَ تَاأدِیْبِیْ۔
(یعنی عرب میں گھوما ،ان کے فصحاء کو سنا ،میں نے آپ سے زیادہ فصیح گفتگو کرنے والا کسی کو نہیں سنا،کس نے آپ کو ادب سکھایا؟ فرمایا:مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور میرا ادب اچھا ہو گیا۔)(ص:۳۴۵)
(۵)وَکَلَامُہُ الْفَصِیَحُ لَایُجَارِیْ فِیْ فَصَاحَتِہٖ وَلَایُبَارِیْ فِیْ بَلَاغَتِہٖ وَالَّذِیْ ھَوَ النِّھَایَۃُفِی الْبَیَانِ وَاالْغَایَۃُ فِی الْبُرْھَانِ الْمُشْتَمِلُ عَلٰی جَوَامِعِ الْکَلِمِ وَبَدَاءِعِ الْحَکَمِ الْمُتَضَمَّنُ بِقَلِیْلِ الْمَبَانِیْ کَثِیْرًامِّنَ الْمَعَانِیْ۔(نقوش ،ص:۵۴۹،ج؛۸)
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ: اُوْتِیَ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ وَخُصَّ بِبَدَاءِعِ الْحِکَمِ وَعُلِّمَ اَلْسِنَۃَالْعَرَبِ کُلَّھَا۔(ص؛۴۴)
ترجمہ:آپ علیہ السلام کو جوامع الکلم عطاء کیے گئے اور نادر حکمتوں سے خاص کیا گیااور عرب کی تما م زبانوں کا علم دیا گیا۔(نجم)
ش۲۱:
قَالُوْایَا رَسُوْلَ اللّٰہِ رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلْتَ شَیْءًافِیْ مَقَامِکَ ھٰذَا ثُمَّ رَأَیْنَاکَ کَفَفْتَ ؟فَقَالَ :اِنِّیْ رَأَیْتُ الْجَنَّۃَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْھَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ أَخَذْتُہٗ لَأَکَلْتُمْ مِنْہٗ مَابَقِیَتِ الدُّنْیَا۔(مسلم،ج:۱، ص:۲۹۸،کتاب الکسوف)
ترجمہ:صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اسی جگہ پر کسی چیز کے پکڑنے کا ارادہ فرمایا اور پھر آپ رک گئے ؟آپ نے فرمایا کہ میں نے یہاں جنت دیکھی اور میں نے ایک خوشہ انگور پکڑنے کا ارادہ کیا اور اگر میں خوشہ انگور پکڑ لیتا تو جب تک دنیا رہتی تم اس سے کھاتے رہتے ۔
ش۲۲:
(۱)عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَاقَالَتْ مَاشَبِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ شَعِیْرٍ یَوْمَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ حَتّٰی قُبِضَ۔(ترمذی ،باب ماجاء فی معیشۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واھلہ ،ج:۱،ص:۵۱۰،مکتبہ :رحمانیہ ،لاہور)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تما م عمر میں کبھی جو کی روٹی سے بھی دودن پیٹ نہیں بھرا ۔
(۲) عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ عَرَضَ عَلَیَّ رَبِیِّ لِیَجْعَلَ لِیْ بَطْحَاءَ مَکَّۃَ ذَھَبًا قُلْتُ لَا یَا رَبِّ وَلٰکِنْ اَشْبَعُ یَوْمًا وَاَجُوْعُ یَوْمًا أَوْ قَالَ ثَلَاثًا أَوْ نَحْوِ ھٰذَا فَاِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ اِلَیْکَ وَذَکَرْتُکَ فَاِذَا شَبِعْتُ شَکَرْتُکَ وَحَمِدْتُّکَ۔(ترمذی ،باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ ،ج:۱،ص:۵۰۹،مکتبہ:رحمانیہ ،لاہور)
ترجمہ:حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے رب نے مجھ پریہ پیش کیاکہ وادی بطحاءِ مکہ کے پہاڑمیرے لیے سونا بنادے ۔میں نے عرض کیا کہ اے میرے رب اس طرح نہ ہو بلکہ یہ ہوکہ ایک دن پیٹ بھر لوں اورایک دن بھوکا رہوں،یا تین دن فرمائے ، یااسی طرح( کچھ فرمایا) ۔جس وقت بھوکا رہوں گا تو آپ کے سامنے اپنے عجز کا اظہارکروں گا اور آپ کی یاد میں مشغول رہوں گا،اور جس وقت کھانا کھاؤں گاتو آپ کاشکر وحمد کروں گا۔ (نجم)
(۳)عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ اٰٰلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا۔[کفایۃ من غیر اسراف]۔(ترمذی۔باب ماجاء فی معیشۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واھلہ۔ج:۱،ص:۵۱۱)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے اللہ آل محمد کا رزق بقدرِکفایت کردے۔(نجم)
ش۲۶،۲۷:
عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْتَفَخَتْ قَدَمَاہُ فَقِیْلَ لَہٗ أَتَتَکَلَّفُ ھٰذَا وَقَدْ غَفَرَاللّٰہُ لَکَ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ (شمائلِ ترمذی،باب ماجاء فی عبادۃرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
ترجمہ:حضرت مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر لمبی نفلیں پڑھتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک ورم کر گئے تھے ،صحابہ نے عرض کیا کہ آپ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں حالانکہ حق تعا لٰی جل شانہ نے آپ کے اول و آخر سب گناہ بخش دیے ہیں؟ حضور نے ارشاد فرمایا (کہ حق جل شانہ نے مجھ پر اتنا انعام فرمایاہے )تو کیا میں اس کا شکر ادانہ کروں!(ترجمہ از خصائلِ نبوی)
ش۲۸:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ اَحَدٌ قَبْلِیْ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ ۔(بخاری ،کتاب التیمم ،ج:۱،ص:۴۸)
ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ میری مدد کی گئی ہے رعب کے ساتھ ایک مہینہ کی مسافت تک۔(نجم)
ش۲۹:
ثُمَّ اسْتَأْذَنَ مَلَکُ الْمَوْتِ فَقَالَ جِبْرِیْلُ یَااَحْمَدُ !ھٰذَا مَلَکُ الْمَوْتِ یَسْتَأْذِنُ عَلَیْکَ وَلَمْ یَسْتَأْذِنْ عَلٰی آدمی کان قبلک وَلَا یَسْتَأْذِنُ عَلٰی آدَمِیٍّ بَعْدَکَ قَالَ: اِءْذَنْ ،فَدَخَلَ مَلَکُ الْمَوْتِ فَوَقَفَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یَا اَحْمَدُ! اِنَّ اللّٰہَ اَرْسَلَنِیْ اِلَیْکَ وَاَمَرَنِیْ اَنْ اُطِیْعَکَ فِیْ کُلِّ کُلِّ مَاتَأْمُرُنِیْہِ ۔ اِنْ اَمَرْتَنِیْ اَنْ اَقْبِضَ نَفْسَکَ قَبَضْتُھَا وَاِنْ اَمَرْتَنِیْ اَنْ اَتْرُکَھَا تَرَکْتُھَا۔ قَالَ وَتَفْعَلُ یَامَلَکَ الْمَوْتِ۔ قَالَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ اَنْ اُطِیْعَکَ فِیْ کُلِّ مَا اَمَرْتَنِیْ ۔فَقَالَ جِبْرِیْلُ :اِنَّ اللّٰہَ قَدِ اشْتَاقَ اِلَیْکَ ۔قَالَ: فَاقْضِ یَا مَلَکَ الْمَوْتِ لِمَااُمِرْتَ بِہٖ۔ (طبقات ابن سعد ،ج:۲،ص۲۵۹)
ترجمہ: اس کے بعد ملک الموت نے اجازت مانگی ،جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے احمد !یہ فرشتہ اجل اجازت چاہتا ہے، آپ سے پہلے بھی اس نے کسی سے اجازت نہیں مانگی اور بعد میں بھی کسی سے اجازت نہیں لے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو آنے کی اجازت دیدو اس کے بعد ملک الموت داخل ہوا اور آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالی نے مجھے آپ کے پاس بھیجاہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں ،اگر آپ فرمائیں تو میں آپ کی روح قبض کروں اور اگر آپ فرمادیں تو چھوڑدوں ۔آپ نے فرمایا اے ملک الموت تو اپنا کام کر۔ فرشتے نے کہامجھے حکم ہواہے کہ جو آپ حکم فرمائیں میں اس کو پورا کروں ،حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالی آپ سے ملاقات چاہتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ملک الموت جو تجھے حکم ہواہے وہ کر۔
ش۳۶:
اسماء اصحاب الشوریٰ : طلحہ ،الزبیر، عبدا لرحمن ، سعد بن ابی وقاص ، سعید بن زید۔
ش۴۲،۴۳:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ لَمَّا عُرِجَ بِیْ سَءَلْتُ رَبِّیْ اَنْ یَّجْعَلَ الْخَلِیْفَۃَ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ فَقَالَتِ الْمَلَاءِکَۃُ یَا مُحَمَّدُ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَایَشَاءُ ، اَلْخَلِیْفَۃُ مِنْ بَعْدِکَ اَبُوْبَکْرٍ۔ (ازالۃ الخفاء ،ص:۳۰،ج؛۱)
ترجمہ؛حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج عطاء ہوئی تو میں نے اپنے رب سے در خواست کی کہ میرے بعد خلیفہ علی بن طالب کو بنائیں ،فرشتوں نے جواب میں کہا اے محمد!اللہ وہی کرتے ہیں جو چاہتے ہیں ،آپ کے بعد خلیفہ ابوبکر ہوں گے۔
ش۴۴:
اسمائے ازواج عبد المطلب:
۱۔فَاطِمَۃُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ عَاءِذ
۲۔نُبَیْلَۃُ بِنْتُ اُھَیْبٍ
۳۔ھَالَۃُ بِنْتُ اُھَیْبٍ
۴۔صَفِیَّۃُ بِنْتُ جُنَیْدَبٍ
۵۔لُبْنٰی بِنْتُ ھَاجِرٍ
۶۔مُمَنَّعَۃُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ
اولاد عبد المطلب:
عبداللہ ،والزبیر،و عبد مناف وھو ابو طالب۔
وَکَانَ الزُّبِیْرُ اَحَدَ حُکَّامِ قُرَیْشٍ ،وَھُوَ اَسَنُّ مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ وَمِنْ اَبِیْ طَالِبٍ ،وَاُمُّ حَکِیْمِ الْبَیْضَاءُ تَوْأَمَۃُ عَبْدِ اللّٰہِ ۔وَعَامِکَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَبَرَّۃُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأُمَیْمَۃُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَرْوٰی بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَاُمُّ ھٰؤُلَاءِ جَمِیْعًا فَاطِمَۃُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ عَاءِذِ بْنِ عَمْرَانَ۔
وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَاُمُّہٗ نُتَیْلَۃُ بِنْتُ جَنَابِ بْنِ کُلَیْبٍ۔
وَحَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ اَسَدُاللّٰہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہٖ وَالْمُقَوِّمُ وَیُکْنٰی اَبَابَکْرٍ،وَحَجْلٌ وَاسْمُہُ الْمُغِیْرَۃُ وَصَفِیَّۃُوَاُمُّ ھٰؤُلَاءِ ھَالَۃُ بِنْتُ اُھَیْبٍ ۔
وَالْحَارِثُ بِنْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَبِہٖ کَانَ یُکْنٰی وَھُوَ اَکْبَرُ وَلَدِہٖ ،وَتُشَمْ بِنْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ،ھَلَکَ صَغِیْرًا، وَصَفِیَّۃُ بِنْتُ جُنَیْدَبٍ وَاُمُّھُمَاْْصَفِیَّۃُ بِنْتُ جُنَیْدَب۔
عُبْدُ الْعُزَّی بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَھُوَ اَبُوْ لَھَبٍ وَاُمَّہٗ لُبْنٰی بِنْتُ ھَاجِرٍ
وَالْغَیْدَاقُ وَاسْمُہٗ نَوْفَلُ ،اُمُّہٗ مُمَنَّعَۃُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ مَالِکٍ۔(انساب القریش،ص:۸۷،۸۸،۸۹،۹۰)
ترجمہ: اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ قریش کے حاکم تھے ،وہ عبداللہ اور ابوطالب سے بڑے تھے،اور ام حکیم البَیضاء ، عبد اللہ کی ہم بطن تھی ،اور عامکہ بنت عبد المطلب، اور بَرَّہ بنت عبد المطلب، اور اُمَیْمَہ بنت عبدالمطلب، اور اَرْوٰی بنت عبدالمطلب ،اِن سب کی ماں فاطمہ بنت عمرو بن عائذ بن عمران ہیں۔
اور عباس بن عبدالمطلب ،اور ان کی ماں کانام نُتَیْلَہ بنت جناب بن کلیب ہے ۔
اورحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب،اللہ اور اس کے رسول کے شیر ،اور مقوّم،جن کی کنیت ابو بکر تھی ،اور حجل،جن کا نام مغیرہ تھا،اور صفیہ۔ ان سب کی ماں کی نام ہالہ بنت اہیب ہے ۔
اور حارث بن عبد المطلب ،اور اسی نام پرابو طالب کی کنیت تھی اور یہ ان کے بڑے بیٹے تھے،اور تُشَم بن عبد المطلب،یہ بچپن میں فوت ہو گئے تھے، ان دونوں کی مان کا نام صفیہ بنت جنیدب ہے ۔
عبد العزّٰی بن عبد المطلب ،یہی ابو لہب ہے ،اس کی ماں کا نام لُبْنٰی بنت ہاجر ہے ۔
اور غیداق ،اور اس کا نام نوفل ہے،اور اس کی ماں کانام مُمَنَّعَہ بنت عمرو بن مالک ہے۔(نجم)
وَعَبْدُاللّٰہِ اَبَا رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَیْرُ وَکَانَ شَاعِرًا شَرِیْفًا وَاِلَیْہِ اَوْصٰی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ۔ (طبقات، ص:۹۳،ج:۱)
ترجمہ:اور عبد اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تھے اور عبد المطلب نے حضرت زبیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی بنایا تھا جو شریف النفس شاعر تھے ۔(نجم)
قبائل حلف الفضول: بَنُوْ ھَاشِمْ ،بَنُو الْمُطَّلِبِ ،اَحْلَافُھُمْ ، بَنُوْ زُھْرَہ ، بَنُوْ تَمِیْمٍ ،
وَکَانَ سَبَبُ ھٰذَا الْحَلْفِ أَنَّ الزُّبِیْرَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَدْعَانَ وَرُؤَسَاءَ ھٰذِہِ الْقَبَاءِلِ اِجْتَمَعُوْا فَاحْتَلَفُوْاَنْ لَّا یَدْعُوْا اَحَدًا یَظْلِمُ بِمَکَّۃَ اَحَدًا اِلَّا نَصَرُوْا الْمَظْلُوْمَ عَلَی الظَّالِمِ وَاَخَذُوْا لَہٗ بِحَقِّہٖ۔ (المحبَّرص:۱۶۷)للعلامہ الاخباری النَسَّابَہ ابی جعفر محمد بن حبیب ابن اُمیہ بن عمر والھاشمی البغدادی)
ترجمہ: اس معاھدہ (یعنی حلف الفضول) کا سبب یہ تھا کہ زبیر بن عبد المطلب اور عبداللہ بن جدعان اور ان قبائل کے سردار ایک مکان میں جمع ہوے اور انہوں نے معاھدہ کیا کہ مکہ میں کسی شخص کو اس طرح آزاد نہ چھوڑیں گے کہ وہ کسی پر ظلم کرے مگر مظلوم کی امداد کریں گے اور ظالم سے مظلوم کا حق دلوائیں گے ۔
ش۴۶:
(۱) روایت کردہ است از ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہ می گفت سوگند بخداے کہ فرستادہ است ترا بحق کہ اسلام ابو طالب خنک روشن کنندہ تر ست چشم مرا از اسلام وے یعنی ابو قحافہ کہ پدر من است زیراکہ خنک کنندہ است چشم ترا۔(مدارج ،ص:۲۹۷،ج:۱)
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کرتے تھے: اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا! بے شک اگر ابو طالب اسلام قبول کر لیتے تو میری آنکھوں کو ان کی یعنی میرے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کے اسلام سے زیادہ ٹھنڈک و روشنی ملتی، کیونکہ وہ آپ کی آنکھوں کی(زیادہ) ٹھنڈک کا سبب ہوتا۔(نجم)
(۲)اَنَّ اَبَاطَالِبٍ لَمَّاحَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَہٗ اَبُوْجَھْلٍ فَقَالَ: اَیْ عَمِّ ! قَلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أُحَاجُّ لَکَ بِھَاعِنْدَ اللّٰہِ۔ فَقَالَ اَبُوْجَھْلٍ وَعَبْدُاللّٰہِ ابْنُ اُمَیَّۃَ یَا اَبَا طَالِبٍ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ یَزْ اِلَّا یُکَلِّمَاہُ حَتّٰی قَالَ اٰخِرَ شَیْءٍ یُکَلِّمُھُمْ بِہٖ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ۔فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَالَمْ اُنْہَ عَنْکَ فَنَزَلَتْْ: ما کان للنبی الذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی القربیٰ من بعد ما تبیَّن لہم انَّہم اصحاب الجحیم۔ ونزلت: اِنَّک لا تہدی من احببت۔ (بخاری ج:۱ ص: ۵۴۸)
ترجمہ:جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے جبکہ اس کے پاس ابو جہل بھی تھا،فرمایااے میرے چچا !صرف ایک کلمہ لاالٰہ الا اللہ پڑھ لو میں آپ کے لیے اللہ تعالی کے ہاں گواہی دوں گا ۔ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا اے ابو طالب!عبدالمطلب کے دین سے پیٹھ پھیر رہے ہو اور یہ دونوں مسلسل یہ بات دہر اتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے ان سے جو اٰخر ی بات کی وہ یہ تھی کہ عبد المطلب کے دین پر ہوں ۔جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں آپ کے لیے اس وقت تک استغفار کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہیں دیا جاتا‘‘ ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لائق نہیں نبی کو اور مسلمانون کو کہ بخشش چاہیں مشرکوں کی اور اگرچہ وہ ہوں قرابت والے، جب کہ کھل چکا ان پر کہ وہ ہیں دوزخ والے (التوبہ: آیت: ۱۱۳، ترجمہ شیخ الہند) اور یہ آیت نازل ہوئی: تو راہ پر نہیں لاتا جس کو چاہے (القصص: آیت: ۵۶،ترجمہ شیخ الہند)۔
ش۴۷:
وَمَنْ ذَھَبَ اِلٰی اَنَّ النُّبَوَّۃ مُکْتَسَبَۃٌ لَاتَنْقَطِعُ، أَوْ اِلٰی أَنَّ الْوَلِیَّ أَفْضَلُ مِنَ النَّبِیِّ فَھُوَ زِنْدِیْقٌ یَجِبُ قَتْلُہٗ۔(بحر المحیط،ص:۲۳۶،ج:۷)
ترجمہ:جس شخص کا مذھب یہ ہو کہ نبوت کسبی شے ہے ،ختم نہیں ہوئی (بلکہ جاری ہے)، یا یہ مذھب رکھتا ہو کہ ولی نبی سے افضل ہے تو وہ زندیق ہے اس کا قتل کرنا واجب ہے ۔(نجم)
ش ۵۳:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاقَالَ ۔قَاتَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَحَارِبَ خَصفۃفَجَاءَ رَجُلٌحَتّٰی قَامَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسَّیْفِ فَقَالَ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ؟فَقَالَ:اَللّٰہُ۔فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہٖ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ السَّیْفَ فَقَالَ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ؟قَالَ کُنْ خَیْرَ اٰخِذ، قال اَتشہد اَن لَّا اِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ؟ قَالَ:لَا۔غَیْرَ اَنِّیْ لَااُقَاتِلُکَ وَلَا اَکُوْنُ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُوْنَکَ ،فَخَلّٰی سَبِیْلَہٗ ۔فَجَاءَ اَصْحَابُہٗ فَقَالَ جِءْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ۔
ترجمہ:روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محارب خصفہ کے مقام پر بنو غطفان سے جنگ کر نے کی غرض سے فروکش تھے (کفار مسلمانوں کی بے خبری سے موقع کی گھات میں تھے) کہ ایک کافر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تلوار کھینچ کر کھڑا ہوگیا (حضور اس وقت ایک درخت کے نیچے آرام فرماتھے) وہ کہنے لگا آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار پکڑی اور فرمایا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ وہ کہنے لگا: (آپ تلوار کو) زیادہ بہتر طریقے سے پکڑنے والے بن جائیے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ وہ کہنے لگا: نہیں، لیکن میں آپ سے جنگ نہ کروں گا نہ آپ سے جنگ کا ارادہ رکھنے والی قوم کا ساتھ دوں گا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا راستہ چھوڑ دیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا: میں بہترین انسان کی طرف سے تمھارے پاس آیا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.