پروفیسر خالد شبیر احمد
وزیراعظم نواز شریف کا کھٹ راگ اور لبرل ازم کا الاپ
حقائق کی روشنی میں
قیامِ پاکستان سے ہی ایک طبقہ جس کی سربراہی سیکولر دانش وَرکر رہے ہیں موجودرہا ہے، جنھیں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور محمد علی جناح کے نظریات وافکار کے خلاف عوام کو گمراہ کرنے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔خودمسلم لیگ کے اندر بھی ایسے دانش ور اور قلم کار آگھسے تھے جنھیں ۱۹۴۶ء کے انتخاب کے بعد پاکستان بنتا نظرآیا تو وہ بھاگ کر پاکستان کے حامی ہو گئے۔ اس طبقہ کی سرگرمیوں کا مرکز و محور یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں نہیں آیا۔ بلکہ اس کے قیام کے پیچھے پاک و ہند میں مسلمانوں کی معاشی بد حالی تھی جو ہندو کی معاشرتی استحصال کا شکار تھے۔ پھر یہ طبقہ اس بات پر بھی زور دیتاہے کہ نظریۂ پاکستان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور مسٹر جناح کے پیشِ نظر کسی قسم کی اسلامی ریاست کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔وہ پاکستان کو ایک سیکولر اور لبرل پاکستان بنانا چاہتے تھے۔
کچھ لوگوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اس مسئلہ کو اٹھانا چاہا تو انھیں منہ کی کھانی پڑی اور قرار دادِ مقاصد قومی اسمبلی نے منظور کر کے اسے آئین کا حصہ بنالیا۔ لیکن اس کے باوجود یہ لبرل اورسیکولر طبقہ بڑی شدت کے ساتھ اپنے غلط خیالات کا پرچار کرتا رہا۔ جنھیں جنرل مشرف کے دور میں خاصی تقویت حاصل ہوئی اور آج صورتِ حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پاکستان کے وزیرِاعظم جناب نوازشریف صاحب کو بھی لبرل اور جمہوری پاکستان کے حق میں ایک بیان داغنا پڑا،جس سے اس طبقہ کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انھوں نے نہ تو علامہ اقبال کو پڑھاہے اور نہ ہی مسٹر جناح کے ان بیانات کو دیکھا ہے جو انھوں نے پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد میں اسلام کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے دیے ہیں۔ یا پھر جانتے بوجھتے ہوئے پاکستانیوں کو گمراہ کرنے کے لیے مکروہ اور باطل نظریات کی تشہیر کے لیے کمربستہ ہیں۔یہ سیکولر طبقہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح سیکولر سٹیٹ کا تصور رکھتے تھے۔ مسلم لیگ نے کبھی بھی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی طرح اپنے نصب العین کا حصہ نہیں بنایا تھا۔
دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری تحریک کی وجہ سے معرضِ وجود میں آیا۔ اب اگر ان کی اس بات کا ہی تجزیہ کریں تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاک وہند کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں اسلام اور لاالٰہ الا للہ کے نام پر ہی ووٹ دیا تھا۔ ۴۹۸ نشستوں میں سے مسلم لیگ نے ۴۲۸نشستیں اسلام اور لاالٰہ الاللہ کے نعرہ کی وجہ سے ہی حاصل کی تھیں۔ جب کہ ۳۷۔۱۹۳۶ء کے انتخابات میں یہی مسلم لیگ تھی مسٹر جناح اس کے سربراہ تھے اور اس الیکشن میں مسلم لیگ پورے ہندوستان کے سات صوبوں میں جداگانہ انتخاب کے ذریعے ۴۹۸مسلم نشستوں میں سے صرف اور صرف ۲۲۸ نشستیں حاصل کرسکی۔ پھر کیا عوام نے اسلام کے نام پر مسلم لیگ کو ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں کامیاب نہیں کرایا؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء کا انتخاب نے ہی اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ کیا پاکستان وہند کے مسلمان مسلم لیگ کے نصب العین قیام پاکستان کے پیچھے کھڑے ہیں کہ نہیں۔ جب اس انتخاب میں یہ ثابت ہوگیاکہ پاک وہند کے مسلمان مسلم لیگ کے نصب العین قیامِ پاکستان کے ساتھ ہیں تو پھر کانگریس کے خلاف فیصلہ ہوگیا اور اس طرح پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
جہاں تک علامہ اقبال اور مسٹر جناح کے بیانات کا تعلق ہے جو انھوں نے پاکستان اور اسلامی ریاست بنانے کے حق میں دیے تو وہ تاریخ کا حصہ ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا تصور دیا اور اسے تقدیر مبرم (DESTINY )بھی قرارد یا تھا،اسی لیے انھیں مصور پاکستان کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ سیکولر دانش ور اس کھلی حقیقت سے بھی انکار ی ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ اقبال نے ایسا کوئی تصور نہیں دیا جس کی بنا پر انھیں مصور پاکستان کہاجائے۔ وہ اقبال کو (OLD DATED )گزرے ہوئے ماضی کا اقبال کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حاضر اقبال کی ضرورت ہے۔ اب آپ بتائیں کہ اس بیماری اور اس ہٹ دھرمی کا ہمارے پاس کیا علاج ہے۔ جب کہ اقبال کے ہاں تو ایسی آزادی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے جو دین کی سربلندی کا باعث نہیں ہے۔ وہ تو کہتے ہیں:
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
اب آئیے مسٹر جناح کے ان بیانات کی طرف جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے،ایسے بنایات کی تعداد سینکڑوں تک جاتی ہے۔۱۱؍جنوری ۱۹۳۸ء کو’’ گیا‘‘ ریلوے اسٹیشن صوبہ بہار پر ایک بہت بڑے عوامی اجتماع میں آپ نے تقریر کرتے ہوئے مسلم لیگ کا جھنڈالہراتے ہوئے کہا تھا ’’آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا جو اعزاز مجھے بخشا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے، آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔ بہت سے لو گ بالخصوص ہمارے ہندودوست ہمیں غلام سمجھتے ہیں،جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹتے ہیں۔حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں کہ اسلام ہمیں مکمل ضابطۂ حیات دیتا ہے، یہ نہ صرف ایک دین ہے بلکہ اس میں قوانین ، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ دراصل اس میں وہ سب کچھ ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے لے کر رات تک کی ضرورت ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو اسے ایک کا مل اصطلاح کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل، مساوات اور اخوت پر ہے۔ ۱۸؍دسمبر۱۹۴۶ء کو انھوں نے ریڈیو قاہرہ کے نمائندے سے ملاقات میں کہا تھا : ’’ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ ہند کے شمال اور مشرق میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن پر مسلم اکثریت حکومت کرے گی ہم اسے پاکستان کہتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہند کے ان دوحصوں میں دو مسلم مملکتیں قائم کریں ہم پاکستان کے منطقوں میں دوسروں کی مداخلت کے بغیر اسلام کے ورثے اور تہذیب کا تحفظ کرسکیں گے۔ باقی ماندہ ہند ہندوؤں کے زیر نگیں رہے گا اور وہ ان علاقوں میں اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق حکومت کرنے میں آزاد ہوں گے اور اپنی تہذیب اور ثقافت کے تقاضوں کو پوراکرسکیں گے، مسلمان اور ہندو، ہند کی دو بڑی قومیں ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔‘‘
فروری۱۹۴۸ء میں امریکہ کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے بانئ پاکستان نے کہا تھا: ’’مجھے اس بات کا توعلم نہیں ہے کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری ہوگا۔ جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے، آج ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جیسے کہ تیرہ سو برس پہلے ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔‘‘
یہ چند حوالے ہیں جب کہ ایسے اعلانات اور تقریروں کی تعداد سینکڑوں تک ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم کو ان تقریروں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ وہ مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں انھیں بان�ئپاکستان کی طرز سے انحراف کرنے کا حوصلہ کیسے ہوا ہے؟ شاید انھیں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے مطالعے کا موقع بھی میسر نہیں آیا۔ ظاہر ہے جو شخص مسٹر جناح کی مسند پر تشریف فرماہونے کے باوجود ان کی تقریروں کا مطالعہ نہیں کرسکا جو انھوں نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اسلام کے حق میں کی تھیں۔ وہ بھلا لبرل ازم اور سیکولرازم سے آشنائی کیسے حاصل کرسکتا ہے اور اگر ایسا ہے جیسا کہ واقعی ہے تو ایسے بیانات سے انھیں احترازکرنا چاہیے، یہ ان کے لیے، ان کی عاقبت کے لیے، مسلم لیگ، پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بھی بہتر ہو گا۔ انھیں کم ازکم اپنے ۱۹۷۳ء کے دستور کا ہی مطالعہ کرلینا چاہیے جس سے وفاداری کا انھوں نے حلف اٹھارکھا ہے۔ اس دستور میں بھی وہ سب کچھ موجود ہے جس کا ذکربانئ پاکستان نے اپنی تقریروں میں کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر اپنے دستور پر نہ تو خود عمل کرتے ہیں اور نہ ہی اس دستور کو ملک پر نافذ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، شاید اس دستور پر عمل یہ لوگ خود کشی سمجھتے ہوں اور عیش وعشرت میں پلے لوگ خود کشی کیوں کریں۔ جب کہ ان کے ملک میں بھوک سے تنگ لوگ صبح وشام خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ اسلام چاہتے ہیں لبرل ازم نہیں۔