مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
جیل کی مشہور دنیا کا مفصل حال آ چکا ہے۔ دہلی جیل کی مختصر روئیداد عرض ہے۔
پریذیڈنٹ پٹیل اور دہلی جیل:
پریذیڈنٹ پٹیل کو طبیعت پر ایسا قابو تھا کہ عام آدمی جس نے انھیں اسمبلی کی کرسی صدارت پر بیٹھے دیکھا ہو، کبھی میرے اس بیان پر یقین نہیں کر سکتا کہ وہ بغیر مذاق کیے اور کرائے نہ رہ سکتے تھے۔ صدارت کی کرسی پر وہ سر تا پا متانت اور پرائیویٹ زندگی میں بالکل ظریف تھے، جوں ہی ہم جیل کی ڈیوڑھی میں پہنچے اور بڑا دروازہ بند ہوا۔ پریذیڈنٹ پٹیل نے پنڈت مالویہ کو مخاطب کیا:
ارے بڈھے! بمبئی میں تو تو معافی مانگ کر رہا ہو گیا تھا، مگر یہ دہلی ہے۔ یہاں پوری سزا کاٹے بغیر نہ چھوٹے گا‘‘۔
پنڈت جی کچھ خفیف سے ہوئے۔ یہ بے تکلفی ہمیں بھی ناگوار گزری۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ پہلے بھی جیل یاترا کی ہے؟ میں نے کہا پہلے بھی کاٹ چکا ہوں۔ یہ سن کر مصنوعی تردد سے لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ پنڈت جی کی طرف متجسسانہ دیکھا اور کہا ’’ہوں ہوں لو بڈھے یہ تازہ مصیبت تو ہم تم پر ہی آئی۔ اچھا تمھیں معافی مانگ کر رہا ہونے کا طریقہ تو آتا ہی ہے، مجھ کو بھی بتا دینا۔ اچھا؟‘‘۔
گرفتاری کے دوسرے روز صبح اٹھے تو پٹیل صاحب نے کہا ’’چلو سب ذرا اسی بارک کے گرد گھومیں ورنہ صحت ٹھیک نہیں رہے گی‘‘۔
پریذیڈنٹ پٹیل نے پنڈت جی کو آگے کیا اور ہم سب ان کے پیچھے پیچھے چلے۔ دیکھتے ہیں کہ پٹیل پنڈت کے عین پیچھے ہو کر بایں ریش و فش شریر بچوں کے مانند طرح طرح منہ بناتے جاتے ہیں۔ اس پر کوئی بھی ہنسی ضبط نہ کر سکا۔ پنڈت جی نے پلٹ کر دیکھا اور پوچھا کہ کیا شرارت سوجھی ہے۔ لیکن پٹیل مؤدب بچے کی طرح ہمہ تن باادب ہو کر کھڑے ہو گئے، منہ بند تھا، آنکھیں شرارت سے ہنس رہی تھیں۔ ان کی اس ادبی شوخی پر سب ہنسنے لگے اور پنڈت جی حیران ہو کر کھڑے ہو گئے۔ پٹیل صاحب نے پنڈت جی کو ہلکا سا دھکا دیا۔ ’’چلو‘‘ مالویہ جی نے فرمایا ’’چلوں کیا خاک؟ بتاتے نہیں کہ پیچھے کیا شرارتیں کرتے آ رہے ہو‘‘۔
پنڈت مالویہ اچھے بزرگ ہیں، مگر معاشرتی لحاظ سے بڑے تنگ دل ہیں۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ملنا تو ایک طرف رہا، ہندوؤں سے بھی چھوت کرتے تھے۔ صرف گوڑ برہمن کے ہاتھ کی تیار کی ہوئی رسوئی کھاتے، ورنہ پھل ترکاری پر بسر کرتے۔ ان کا رسوئی خانہ الگ خیمہ میں تھا۔ پنڈت جی جب دوپہر کو چوکہ میں بیٹھ کھانا کھانے لگتے تو پٹیل بھی ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتے اور سورج کے سامنے ہو کر اپنا سایہ پنڈت جی پر ڈالتے، لاچار پٹیل کے سر کو دعائیں دے کر پنڈت جی کھانے سے دستکش ہو جاتے۔
مالویہ جی کا ہاضمہ اکثر کمزور رہتا تھا، وہ دن میں کئی بار رفع حاجت کے لیے جاتے۔ گو کموڈ موجود تھے مگر پنڈت جی کی قدامت پسندی کے باعث دیسی طریقے کے پاخانے فوراً تیار کر دیے گئے تھے۔ جب بھی پنڈت جی حوائج ضروریہ کے لیے گڈوی اٹھائے جاتے۔ یہ (پٹیل) خالی ہاتھ پیچھے پیچھے ہو لیتے اور پاخانہ کے باہر زور زور سے کھانستے اور بڑی بے تابی سے زمین پر پاؤں مارتے۔ گویا کسی اور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے اور اندر ہی آیا چاہتا ہے۔ غرض اندر سے پنڈت جی کھانس کھانس کر اپنی موجودگی کا اعلان کر رہے ہیں اور باہر پٹیل کھڑے اور زور سے پاؤں مار کر ’’کب تک ضبط کروں میں آہ‘‘ کا اعلان بنے ہوئے ہیں۔ اور ہم سب اس ’’پاخانہ جنگی‘‘ پر ہنس رہے ہیں۔ بالآخر جب باہر کا قدم اندر کی طرف بڑھا ہی چلا آتا دیکھتے ہیں تو پنڈت جی گھبرا کر دھوتی سنبھالتے اٹھ کر باہر آتے۔ اپنے پرانے دوست کو دیکھ کر کہتے کہ ’’پٹیل تجھے کوئی لجیا نہیں آتی‘‘۔ پریذیڈنٹ پٹیل سر جھکا کر اس طرح کھڑے ہو جاتے، جس طرح نیک طبیعت بچہ اچانک قصور ہو جانے پر شرمندہ ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور زبان حال سے کہتا ہے کہ بھول ہو گئی۔ مجھے معاف کر دو۔ آئندہ کبھی ایسا نہ ہوگا۔ اور جونہی پنڈت جی پھر مشکل کشائی کے لیے جاتے تو بدستور تنگ کرنا شروع کر دیتے۔
پنڈت جی کو کھانے کے بعد قیلولہ کی عادت تھی۔ بابا پٹیل کو پنڈت جی کی یہ عادت معلوم ہو گئی۔ پنڈت جی کے کھانے کے وقت تو ارد گرد منڈلاتے رہا ہی کرتے تھے۔ اب اس تاک میں لگے رہتے کہ ادھر پنڈت جی دوپہر کو آرام کے لیے لیٹے، ادھر پردھان جی پہنچے اور آرام گاہ کا پردہ اٹھا کر اندر جھانکا اور پوچھا ’’ ارے پنڈت! اجازت ہے‘‘ اور اجازت حاصل کرنے سے پہلے ہی کرسی ، چارپائی کے قریب کھینچ کر پوچھا کہیے پنڈت جی مزاج تو اچھے ہیں؟ مالویہ جی نے با دلِ نخواستہ فرمایا ’’ہاں اچھے ہیں‘‘۔ پھر پٹیل نے کہا کہ کچھ اور سناؤ، پنڈت جی سوئیں یا سنائیں۔ پنڈت جی نے کسی قدر خشک سا جواب دیا کہ کیا سنائیں؟ پٹیل ، ارے یار کچھ ادھر ادھر کی۔ پنڈت جی: خاک ادھر ادھر کی۔ میں اس وقت سویا کرتا ہوں۔ پٹیل: تو سویا کرتے ہو؟۔ اچھا سو لو۔ یہ کہا اور باہر آ گئے اور آ کر کسی اور سے مذاق کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پھر خیال آیا کہ اب تو پنڈت جی سو گئے ہوں گے، پھر پنڈت جی سے چھیڑ چھاڑ کا دورہ ہوا اور لپک کر پنڈت جی کے خیمے میں پہنچے۔ پوچھا ’’پنڈت جی سو گئے‘‘۔ مالویہ جی نے ترش رو ہو کر پوچھا ’’کیا ہے‘‘۔ پٹیل: میں سمجھا کہ شاید سو ہی گئے۔ پنڈت جی نے پہلو بدل کر آنکھیں بند کر لیں اور بلانے پر بھی نہ بولے۔ پردھان پٹیل کو مزید شرارت سوجھی کہ پاس پڑی ہو ئی کتاب اٹھائی اور اونچے اونچے پڑھنا شروع کر دیا۔ آخر پنڈت جی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ بھلے آدمی میری جان بخشی کر و۔
ایک روز پنڈت جی پہلو بدل کر لیٹ گئے اور پٹیل صاحب کے شور کے باوجود نیند میں خراٹے لینے لگے۔ پریذیڈنٹ پٹیل میرے پاس آئے کہ چلو تمھیں مالویہ جی بلاتے ہیں۔ میں جلدی جلدی اٹھا اور پنڈت جی کے پاس پہنچا۔ پٹیل صاحب ساتھ ساتھ ہو لیے۔ پنڈت جی کے قریب آ کر کہنے لگے ’’آئیے آئیے تشریف رکھیے، پنڈت صاحب ذرا سو رہے ہیں۔ پنڈت جی دھڑ دھڑا کر اٹھے بیٹھے اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ فرمائیے؟ قبل اس کے کہ میں کچھ جواب دوں، پٹیل صاحب کہنے لگے جو پوچھنے کو کہتے تھے، وہ پوچھ لو نا۔
میں پٹیل صاحب کے طرز عمل سے بے حد پریشان ہوا۔ شرمندہ ہو کر پنڈت جی سے معافی مانگنا چاہتا تھا کہ پنڈت جی نے فرمایا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، جانتے ہی ہو ان کی طبیعت کو۔
پٹیل صاحب اپنی افتاد طبع سے مجبور سب کے نام بگاڑ لیا کرتے تھے۔ پٹیل صاحب نے ایک رات ایک بجے کے قریب دھیمی آواز میں مجھے جگایا کہ ارے چودھری اٹھو جلدی کرو، تمام پنکھے اندر سے نکالو۔ میں کیوں کیوں کہتا اٹھا۔ پریذیڈنت نے کہا ، کیوں کیا نہ پوچھو بس جلدی کرو۔ اس رات موسم خوش گوار تھا۔ ہوا میں قدرتی طور پر خشکی تھی، اس لیے پنکھوں کو چلانے کی کسی کو بھی ضرورت نہ تھی۔ ہم سب میدان میں چادر اوڑھ کر سوئے ہوئے تھے۔ میں پہلے تو نیند کے خمار میں لڑکھڑاتا اندر جا کر پنکھے اٹھا اٹھا کر باہر لے آیا۔ پھر مجھے پٹیل صاحب کی طبعی شرارت اور ظرافت کا خیال آیا تو اپنی عافیت بھی سوجھی کہ ایسا نہ ہو کہ سونے والوں پر کوئی فتنہ جگائیں اور میں دھرا جاؤں۔ اس لیے میں جھٹ سے چادر اوڑھ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا، لیکن احتیاط سے دیکھتا رہا کہ پٹیل صاحب کیا کارستانی کرتے ہیں۔ یک بیک پٹیل صاحب نے آٹھوں بجلی کے پنکھوں کو پنڈت جی کی طرف رخ کر کے پوری رفتار سے چھوڑ دیا اور خود میر طرح چادر اوڑھ کر جلدی سے لیٹ گئے۔ ہوا میں ایک طوفان سا آ گیا۔ پنڈت جی کی چادر اڑ کر کہیں چلی گئی۔ مالویہ جی مہاراج ہرے رام ہرے رام کرتے اٹھے۔ قہ قہ قہ کا شور کرتے پٹیل بھی اٹھے اور دوسری طرف پنڈت جی سے ہمدردی کرنے لگے۔ پنڈت جی نے جھٹ سمجھ لیا اور کہہ دیا، یہ سب اس نیک بخت داڑھی والے کی شرارت ہے۔
میرے نزدیک پریذیڈنٹ پٹیل کی ظرافت طبع اتنی قابل داد نہیں جتنا کہ پنڈت مدن موہن مالویہ جی کا بے مثال تحمل اور ان کی بردباری قابل ستائش ہے۔ غور کرو کہ رات دن بے آرام رہنے کے باوجود پنڈت جی کے ماتھے پر کبھی شکن اور طبیعت میں غصہ نہیں آتا۔ اس صبر و تحمل کا شخص ڈھونڈنے سے بمشکل ملتا ہے۔
گورکھ پور جیل:
دلکش صحبت کا عشرہ شیریں یاد چھوڑ کر چلا گیا۔ ڈاکٹر انصاری، لالہ دنی چند، سردار منگل سنگھ کو گجرات پہنچایا گیا۔ مجھے خصوصیت سے پنجاب گورنمنٹ نے اپنی جیلوں میں داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ چند روز کے بعد پنڈت مالویہ کو بنارس، پریذیڈنٹ پٹیل کو انبالہ اور مجھے گورکھپور جانے کا حکم پہنچا۔ حسب دستور پریذیڈنٹ پٹیل اور پنڈت مالویہ مجھے جیل کے دروازہ تک الواداع کہنے آئے۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس کار میں بٹھا کر مجھے شہر کے باہر دہلی ریلوے اسٹیشن لے آیا۔ پولیس کا ہر طرف پہرہ تھا۔ مجھے فرسٹ کلاس میں بٹھا کر ساتھ کے سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں ایک یورپین افسر کو نگرانی پر بٹھا دیا۔ باقی گارڈ پولیس سرونٹس کے درجہ میں سوار ہو گئی اور فرسٹ کلاس کی ساری گاڑی کے داخل ہونے والے دروازوں کو چابی لگا دی گئی ۔ میں سر شام سو گیا، نصف شب مراد آباد اٹھا، پھر لیٹ گیا۔ لکھنؤ پہنچے تو سورج طلوع ہو چکا تھا۔
یورپین افسر نے کہا کہ چائے پی لیجیے۔ میں اترا، ہم دونوں ریسٹورنٹ میں گئے۔ میں چائے پینے لگا۔ وہ چند منٹ کی غیر حاضری کی معذرت کر کے باہر چلا گیا۔ گھنٹے گزر گئے گئے، وہ واپس نہ آیا۔ گاڑی نے روانی کی سیٹی بجائی، یہ افسر مع گارد پولیس نمودار ہوئے۔ میں نے ازراہِ مذاق کہا، اگر میں بھاگ جاتا۔ اس نے کہا میں پیچھا نہ کرتا۔ اسی غفلت کے صلہ میں مجھے انعام ملتا کہ ایک بہادر کو تو میدان سے بھگا دیا۔
نماز عشاء کے قریب ہم گورکھ پور پہنچے، ریل اسٹیشن کے باہر کھڑی کر دی گئی۔ اتنے میں کئی سب انسپکٹر باوردی میرے ڈبہ کے گرد جمع ہو گئے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ہی سڑک پر کئی لاریاں کھڑی تھیں، جن پر مسلح پولیس موجود تھی۔ مجھے ایک لاری پر بٹھا دیا۔ جب پولیس سے بھری لاریاں جیل کے دروازں پر پہنچیں تو داروغہ اور سپرنٹنڈنٹ موجود تھے۔ مجھے اندر داخل کیا گیا اور جیل کا پھاٹک بند کر کے مجھے آباد دنیا سے دور کر دیا۔
ان دنوں ہندوستان کا کوئی جیل سیاسی قیدیوں سے خالی ہوگا، اس جگہ سپیشل کلاس میں تین اور قیدی تھے۔ رفیع احمد قدوائی، جو بعد میں یو پی وزارت میں شامل ہوئے۔ اسی جیل میں تھے۔ پنجابی کے لیے پوربی زبان سمجھنا کتنا مشکل ہے، جب وہاں کے اخلاقی قیدی اپنی زبان میں بات کرتے تو مجھے جیل اجنبی لوگوں کی بستی معلوم ہوتی۔ تین ماہ کے بعد پھر وہ زبان میٹھی اور دل آویز معلوم ہونے لگی۔
اکتوبر کی ایک خوشگوار رات کو ایک پہرہ دار نے چاندنی میں سر مست ہو کر گانا شروع کیا:’’پیاپیا جھڑائی گیلی جیبہا پیا نہیں ایلے‘‘ ۔ (پیا پیا کہتے زبان خشک ہو گئے لیکن پیا نہیں آئے)۔
سوتے سوتے میں جاگ گیا۔ جاگا تو قلب پر ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ میری طبیعت اس طرح لہرانے لگی ، گویا سبزہ زاروں پر نسیم چل رہی ہو۔ بڑی دیر تک وہ راگ کو لوٹا لوٹا کر گاتا رہا۔ آواز نے میرے جسم کے ساز کو سوز سے بھر دیا۔ جب پہرہ دَل بدل گیا تو سرور کا امڈا ہوا دریا بتدریج اترنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں بے جان مٹی کی طرح پڑ گیا۔ ساز و سرود سے اسلام کو نفرت کیوں ہے، شاید اس لیے کہ رات اور ساز خمار آور ہیں۔ جس طرح نشے کے بعد انسان بے جان سا ہو جاتا ہے۔ لگ بھگ یہی محفل سرود کے ختم ہونے پر قلب کی کیفیت ہوتی ہے۔
وہ نشے جو ہرن ہو جائیں سپاہی قوم کے پروگرام کے منافی ہیں۔ لیکن مسلمان تو اب سپاہیانہ خصائل سے محروم ہو گئے ہیں، انھوں نے غلامی پر قناعت کر لی ہے، اب راگ اور رنگ سے لطف اندوز کیوں نہ ہوں۔ راگ دل کو نرم اور رقیق کرتا ہے، سپاہی کا دل قوی اور سخت ہونا چاہیے۔ جب مسلمان سپاہی قوم نہ رہی تو غلامی میں راگ کو مباح قرار دے لینا چاہیے۔ تاکہ سیاسی سربلندی حاصل نہ ہو…… نہ سہی، دل تو راگ اور رنگ سے لذت اندوز رہے۔
مردوں کے لیے اسلام نے ریشم زیب تن کرنا، سونا چاندی استعمال کرنا حرام قرار دیا ہے۔ یہ چیزیں عورت کا سنگھار ہیں۔ اسلحہ اور سامانِ جنگ مرد کا زیور ہیں۔ اسلام کے نزدیک بدنصیب ہیں وہ جو تلوار رکھ کر ساز پکڑ لیں، ہتھیار چلانے کے بجائے راگ الاپیں۔ میں نے غلام قوم میں آنکھیں کھولیں، اس ملک میں اسلام کا حکم جاری نہیں، اس لیے راگ کا شیدائی ہوں، اکثر اسی کی کیفیتوں میں کھویا رہتا ہوں، جیل کے یبوست زا ماحول میں راگ نہ ہو تو زندگی کے دن کیسے کٹیں، اس لیے قیدیوں سے یہی فرمائش رہتی کہ کچھ سنا دو، سننا اور سر دھننا میرا پروگرام تھا۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد خیال آیا کہ محمد شاہ رنگیلے کی روح مجھ میں حلول کر آئی۔ راگ کی رنگین وادیوں سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کرنی چاہیے۔ چنانچہ یورپی گورنمنٹ کی اجازت سے کتاب ’’زندگی‘‘ لکھنا شروع کی، جب لکھتے لکھتے تھک جاتا، تو کسی سے محبت کے میٹھے راگ کی فرمائش کرتا۔ محنت کے بعد معصوم سا گیت دل کو نہال کر دیتا۔
کتاب پر رات دن کی محنت آخر رنگ لائی۔ کم خوابی، بے خوابی میں بدل گئی، ہر رات شب ہجراں ہو گئی اور میں عاشق دل گیر کی طرح کروٹیں بدل کر شام سے صبح کر دیتا، نیند کی نعمت سے محروم ہو کر معلوم ہوا کہ یہ خدا کا کتنا بڑا کرم ہے۔ سکھ کی نیند سونے والا آنکھوں میں کالی رات کاٹنے والے دکھیا کے درد کی کہانی کیا جانے۔
بے خوابی کے بعد ایک اور آفت آئی کہ طبیعت پر خوف سا طاری ہونے لگا۔ میں نے زندگی میں بہت سے درد کرب دیکھے ہیں باوجود اس کے مہینوں نہیں برسوں ہی صبر و شکر میں گزار دیے۔ لیکن ایسا حال کبھی نہ ہوا…… زندگی میں، مَیں نے کسی کام کو دشوار نہیں سمجھا، اب خود زندگی دشوار ہو گئی۔ رات تو انگاروں پر لوٹتے کٹتی، صبح امید لے کر اٹھتا۔ لیکن سورج سیاہ سی چادر میں لپٹا ہوا نظر آتا۔ جیل خانہ یوں بھی اداس منظر پیش کرتا ہے۔ مجھے ہر قیدی پہلے سے ہزار گنا آزردہ اور غمگین معلوم ہوتا تھا۔ نگاہ کا قصور نہ تھا، بلکہ طبیعت میں قصور تھا کہ نورِ سحر سوادِ شام دکھائی دیتا۔ دل بغیر وجہ کے بیٹھا جاتا تھا۔ بیرونی خوف ہوتا تو مقابلہ کرتا۔ جو خوف بغیر وجہ خوف موجود ہونے کے دل سے اٹھے اس کا مقابلہ کیا کیا جائے۔میں اپنی حالت پر کبھی خود ہنسنے لگتا تھا۔ لیکن یہ ہنسی انتہائے مصیبت کے وقت اپنی بے بسی کا مظاہرہ کرتی تھی۔
دس برس کا عرصہ ہوا کہ ایک معزز شخص سخت اضطراب کے عالم میں میرے پاس آیا، ہر چند وہ تندرست تھا لیکن کہتا تھا کہ میرا دل اندر ہی اندر ڈوبا جا رہا ہے۔ میں اس کی کہانی سن کر ہنس دیا۔ بالکل آج میری وہی حالت ہو گئی تھی۔ پہلے تو میں شماتتِ ہمسایہ کے خیال سے کسی سے بات نہ کی۔ آخر ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا کہ یہ بیماری کثرت غم کے باعث ہو جاتی ہے۔ غم کی کوئی بات نہ تھی۔ تاہم وہم کا شکار تھا۔ مجھے ان دنوں یہ بھی خیال آتا تھا کہ دوزخ کا عذاب میرے اس حال سے زیادہ درد ناک نہ ہو گا۔ شاید دوزخ کسی مقام میں محدود نہیں، وہ اپنے اندر کا خیال ہے۔ گناہگاروں پر ایسی ہی کوئی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ وہ اپنے وہم میں مبتلا ہو کر عذاب میں محصور ہو جائیں گے۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ کئی دن میری یہی کیفیت رہی۔ زندانِ جیل کی وسعت مجھے تنگ نظر آتی تھی۔ وہاں میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میں پر لگا کر جیل کے باہر ہو جانا چاہتا تھا، اچانک خبر آ گئی کہ گاندھی اروِن صلح ہو گئی۔ میں چونکہ کانگریس کی مجلس عاملہ کے ممبر کی حیثیت میں سزا یاب تھا، اس لیے مجھے شام کو رہا کر دیا گیا۔
سپرنٹنڈنٹ جیل مجھے فرسٹ کلاس کا ٹکٹ دے کر گاڑی میں خود سوار کرانے آیا۔ مقصد یہ تھا کہ میں شہر میں نہ اتروں۔ جیل کے باہر آتے ہی میری طبیعت بالکل بحال ہو گئی۔ میری یہ درد ناک حالت دو وجوہات کے باعث تھی۔ ایک تو کثرت کار اور دوسرے نظر بندی کے باعث ایک ہی منظر کا پیش نظر رہنا۔ جگہ کی تبدیلی اور اچانک دماغی کام چھوڑنے سے طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی۔ اب بھی جب طبیعت میں ذرا ایسی کیفیت کی ابتدا ہوتی ہے تو دماغی کام چھوڑ کر دوسرے شہر چلا جاتا ہوں۔ طبیعت میں خوشگوار انقلاب پیدا ہو جاتا ہے۔ راگ ہر حال میں علاج غم رہا ہے۔ جیل کے ان دنوں میں اچھے راگ سے طبیعت میں قدرے سکون پیدا ہو جاتا تھا۔ اب تو بالکل چشتی بن گیا ہوں، کثرت کار اور انواع و اقسام کے افکار کا بذریعہ موسیقی علاج کراتا ہوں۔ (جاری ہے)