محمد مقصود کشمیری
تحصیل پریس کلب کے سیکرٹری جنرل وقاص علی چوہدری کے ہمراہ چناب نگر میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام ہر سال 12 ربیع الاول کو قادیانیوں کے مرکز ایون محمود کے سامنے ہونے والی دعوت اسلام کانفرنس میں شرکت کے لیے ہفتہ 11 ربیع الاول کی صبح ڈڈیال سے براستہ موٹر وے پنڈی بھٹیاں ہم مغرب کے وقت چینوٹ پہنچے ، تو وہاں سے ایک رکشے پر چناب نگر کی طرف روانہ ہوئے ، احرار کے سرخ پوش کارکنان کے جلوس میں شرکت وہاں کے مناظر کو دیکھنے کی خواہش اور دل میں تڑپ کافی عرصہ سے تھی ، نواسہ امیر شریعت مولانا سید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ اور دیگر احرار قائدین کی پر خلوص محبت و دعوت کے باوجود شرکت کا موقع نہیں مل سکا۔
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں قادیانیت کا فتنہ ایک ایسا فتنہ ہے جسے اسلام و اہل اسلام کے لیے بلاشبہ خطرناک، مہلک اور بدترین قرار دیا جا سکتا ہے، گزشتہ چار دہائیوں سے مجلس احرار اسلام پاکستان کے زیر اہتمام قادیانیوں کے کفر گڑھ چناب نگر (سابقہ ربوہ ) میں ہر سال 12 ربیع الاول کو تحریک ختم نبوت 1953 کے دس ہزار شہدا ء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے قائدِ احرار حضرت مولانا سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم کی زیر سرپرستی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جس میں ملک بھر سے اکابر علمائے کرام و مشائخ عظام سمیت احرار کے جانثاران کے علاوہ کارکنان ختم نبوت بھی شرکت کرتے ہیں۔ اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اسی جذبے اور شہدائے ختم نبوت کو خراج عقیدت کے سفر میں شریک ہونے کے لیے ہماراچناب نگر شہر کا یہ پہلا سفر تھا ، اس لیے عدم واقفیت کی بنا پر کانفرنس کی جگہ اورپنڈال کا علم نہیں تھا، اس سے قبل چناب نگر کے قریب مسلم کالونی میں انٹر نیشنل ختم نبوت مومومنٹ کے نائب امیر مولانا شبیر احمد عثمانی مدظلہ کے ہاں دو مرتبہ جانے کا اتفاق ہو ا تاہم احرار کے پروگرام میں پہلی مرتبہ حاضری تھی، جب ہم چناب نگر اڈے پر پہنچے تو وہاں پر جامع مسجد احرار کا مرکزی بورڈ دیکھا جس سے دل کو تسلی ہو گئی کہ ہم مرکز احرار کے قریب ہیں۔
چناب نگر، پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں دریائے چناب کے کنارے وہ چھوٹا سا شہر آباد ہے جو نہ صرف قادیانی جماعت کا عالمی مرکز ہے بلکہ دنیا بھر کے قادیانیوں کے لئے اس کرہ ارض پر محبوب ترین مقام کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس شہر کا سابقہ نام ربوہ ہے، جسے بدل کر بعد ازاں چناب نگر رکھ دیا گیا، جہاں 95 فیصد آبادی قادیانیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں قادیانیوں کا مرکزی ہیڈ کوارٹرقائم ہے اسی علاقے میں قادیانیوں نے اپنے تمام بڑے مراکز اور ریاست کے اندر اپنی الگ ریاست قائم کر رکھی ہے ، پاکستان میں قادیانی جماعت کے تمام شعبہ جات اور تمام تنظیمات کو اسی شہر سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ ہر ہر شعبے کے الگ الگ دفاتر قائم ہیں ، مردوں کی تین تنظیمیں ہیں: (1) انصاراﷲ ۔40سال سے اوپر کے مردوں کیلیے۔ (2) خدام الاحمدیہ 16سال سے 40سال تک کے مردوں کے لیے۔ (3)اطفال الاحمدیہ 15سال تک کے بچوں کے لیے۔ اسی طرح عورتوں کی ذیلی تنظیمیں (1) لجنہ اماء اﷲ 15سال سے اوپر تک کی مستورات کے لیے۔ (2)ناصرات الاحمدیہ 15 سال تک کی بچیوں کے لیے ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ 1938میں قائم کی گئی ۔لجنہ اماء اﷲ کی تنظیم 15ستمبر 1922کو اور مجلس انصاراﷲ 26جولائی 1940کو قائم کی گئی۔
ایک ہزار اڑتیس مربع کلومیٹر کے دائرے پر محیط اس شہر کے مالکانہ حقوق جماعت احمدیہ کے پاس ہیں، وہ جب چاہے کسی کو گھر سے باہر کر سکتی ہے، یہاں جائیداد کی لین دین صرف جماعت احمدیہ سے ہی کی جا سکتی ہے، یہ شہر اس حساب سے عجیب ہے کہ یہاں کے مکین اپنے مکانوں میں رہنے کے باوجود انہیں اپنے گھروں کی شکل نہیں دے سکتے۔ یہاں کے مکینوں کو یہ خوف بھی ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ اگر مسلمان ہوئے تو نکال باہر کئے جائیں گے۔ چار دیواری اور چھت سے محروم ہو جائیں گے ، حالت یہ ہے کہ ملبہ مکان والے کا ہے اور زمین انجمن تحریک جدید کی ملکیت ہے۔جس شخص کے متعلق ذرا شبہ یا شکایت ملتی ہے اس سے زبر دستی مکان خالی کرا لیا جاتا ہے یا اس کا سوشل بائیکاٹ کر کے اس پر ربوہ کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔آج اگر حکومت ربوہ کے مکینوں کو ان کے مکانوں کے مالکانہ حقوق دے دے تو رائل فیملی کے شہزادوں کے ستائے اور دکھیا ربوہ کے آدھے لوگ مرزائیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ معاملہ ایک دو گھروں کا نہیں، ایک دو محلوں کا بھی نہیں، پورے شہر کا ہے اور یہی نہیں، جماعت احمدیہ نے یہاں اپنا نظام انصاف اور عدالتیں تک قائم کر رکھی ہیں۔ کوئی بھی قادیانی شخص پولیس کچہری میں نہیں جا سکتا۔ یہاں مقدمے سنے جاتے ہیں، تاریخیں پڑتی ہیں اور سزائیں بھی دی جاتی ہیں، جن پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے،یہاں کوئی ان کی مرضی کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا، تمام داخلی راستوں پر ان کے پہرے ہیں۔ خدام احمدیہ کے ماتحت نظارت امور عامہ کے لڑکے چناب نگر کی سیکورٹی کو کنٹرول کرتے ہیں ، ہر طرف سیکورٹی کیمرے لگائے ہوئے ہیں جہاں چناب نگر میں ہونے والی تمام نقل و حرکت کو مانیٹر کیا جاتا ہے ۔
مسجد احرار چناب نگر کے اس کفر گڑھ کے ساتھ متصل مضافاتی علاقہ میں واقع ہے ، قائدِ تحریک ختم نبوت بطلِ حرّیت امیر شریعت مولاناسید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒ کی جماعت مجلس احرار اسلام پاکستان اس علاقہ میں ایک بڑا کمپلیکس بنا رہی ہے، جس کی خوبصورت جامع مسجد بڑی حد تک تکمیل کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈسپنسری کا بھی افتتاح کر دیا گیا ہے،ہم عشاء کے قریب جب مرکز احرار کے مین گیٹ پر پہنچے تو سرخ قمیص پہنے ایک نوجوان جو سیکورٹی پر مامور تھا اسے اپنا تعارف کراتے ہوئے مرکز کے ناظم مولانا مغیرہ صاحب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایک اور سرخ قمیص والے نوجوان کا بتایا کہ ان سے ملیں ، جب ان کے قریب پہنچا تو وہ مولانا تنویر الحسن تھے جنہوں نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور بڑے گرم جوشی سے استقبال کرتے ہوئے مہمان خانے میں لے گئے ، مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد مولانا تنویر الحسن ہمیں طعام گاہ پر ساتھ لے کر جانے لگے تو باہر آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے احرار کارکن محترم ظہیر فاضل بھائی جو راولاکوٹ سے ہر سال اس کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں ان سے ملاقات ہو گئی ، چنانچہ ہم تینوں نے کھانا کھایا اور نماز عشاء کی تیار ی میں مصروف ہو گئے۔
اسی دوران مہمان خانے میں ایک بزرگ تشریف لائے تو ساتھ والے دوست نے بتایا کہ یہ بزرگ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر حضرت پیر حافظ ناصر الدین خاکوانی مدظلہ ہیں ،حضرت کا نام تو کافی عرصہ سے سن رکھا تھا لیکن آج پہلی مرتبہ شرف ملاقات اور دیدار ہوا ، کچھ دیر نشست کے بعد نماز عشاء مولانا پیر ناصر الدین خاکوانی صاحب کی امامت میں ادا کی اور پھر مسجد کے ہال میں منعقدہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہوگئے ، کانفرنس کے اختتام پر مجلس احرار اسلام کے نائب امیر نواسۂ امیر شریعت سید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ مہمان خانے میں تشریف لائے اور کافی دیر تک مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ،سید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ انتہائی عاجز و انکساری کے پیکر اور ملنسار شخصیت ہیں ، اس سے قبل بھی راقم کی کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہوتی رہی ، تاہم اس مرتبہ میرے ہمراہ نوجوان صحافی دوست وقاص چوہدری ساتھ تھے ، جو پہلی مرتبہ اس طرح کی مجالس اور کانفرنس میں شریک ہوئے ، پھر اکابرین احرار کی شفقت بھری ملاقات اور دوستانہ ماحول نے کام کرنے کے لیے مزید حوصلہ بڑھایا۔ مولاناسید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ سے آزاد کشمیر میں قادیانیوں کی سرگرمیوں اور تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کی کارگزاری پر بھی مشاور ت وتبادلہ خیال ہوتا رہا ، شاہ جی مدظلہ نے چناب نگر کی صورتحال ، ایوان محمود کے سامنے جلوس ، نو مسلمین کے حوالے سے مفید مشورے اور معلومات سے راہنمائی بھی کی ، ملک بھر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا ہمیں بتایا گیا کہ حضرت پیر جی مولانا سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ بھی علالت اور بیماری کے باوجود ملتان سے ایمبولینس پر لیٹ کر پہنچ چکے ہیں ، صبح پرچم کشائی کی تقریب اور پھر جلوس میں شریک ہوں گے۔
دوسرے دن فجر کی نماز کے بعد باہر پنڈال کا جائزہ لینے ہم نے ارد گرد کا چکر لگایا ، رات گئے سیکڑوں نئے مہمان دور دراز سے تشریف لا چکے تھے ، اور جنگل میں منگل کا سماں تھا ، مہمانوں کے کھانے اور ناشتے کا وسیع انتظام کیا گیا تھا، مرکز کی جانب سے اجتماعی کھانے کے انتظامات کے باوجود کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر سٹال بھی لگا رکھے تھے ، سات بجے تک کافی تعداد میں کارکنان ختم نبوت پہنچ چکے تھے ، ہم دونوں ساتھی پھر نواسہ امیر شریعت سید محمد کفیل شاہ بخاری مدظلہ کے پاس ان کی قیام گاہ میں چلے گئے ان سے گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا ، شاہ جی مدظلہ نے اپنے ساتھ دسترخوان پر ناشتہ کرایا، قائدین احرار سمیت دیگر ختم نبوت کی جماعتوں کے اکابرین کے ساتھ آزادکشمیر میں تحریک تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے سوشل میڈیا اور ٹیلی فونک رابطوں کا سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہے ، تاہم بالمشافہ ملاقات کا موقع کسی تقریب میں ہی میسر آتا ہے ، مجلس احرار اسلام کے دیگر قائدین عبداللطیف چیمہ صاحب ، ڈاکٹر عمر فاروق احرار صاحب ، میاں اویس احرار سے بھی اسی کانفرنس میں شرف ملاقات نصیب ہوئی ، اس دوران پرچم کشائی کی تقریب کے لیے تیاریاں مکمل ہو چکی۔
مرکز احرار میں مجلس احرار اسلام میں شامل ختم نبوت کے پروانے سرخ رنگ کی قمیض یا کرتا پہنے ہوئے پنڈال اور دیگر تیاروں میں مصروف تھے ، سرخ رنگ لہو اور قربانی کی علامت ہے اور یہ قمیض یا کرتا پہن کر وہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ختم نبوت کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں، قائدین احرار سرخ لباس پہن کر سٹیج پر جلوہ گر ہو رہے تھے اور دوسری جانب سینکڑوں رضا کار احرار سرخ وردی میں ملبوس ہو کر سیکورٹی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے،پرچم کشائی کی ا س تقریب میں احرار کی مرکزی قیادت نے خطاب کیا اور کارکنوں نے اس عہدکی تجدید کی کہ وہ اسلام ، وطن اور عقید ختم نبوت کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔ اسی دوران وہیل چیئر پر وہاں ایک سفید ریش بزرگ سرخ کرتا پہنے تشریف لائے ، جن کے آتے ہی احراری رضا کاروں نے ایک حصار بنا لیا ، یہ بزرگ سید عطا المہیمن شاہ بخاری تھے، یہ سید عطا اﷲ شاہ بخاری کے سب سے چھوٹے صاحبزادے اور مجلس احرار اسلام کے مرکزی امیر ہیں، جنہیں سب احترام سے پیر جی کہتے ہیں۔ پیر جی سے ملنے کے لئے ارادت مندوں میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ مصافحہ کیا جائے تاہم ان کی بیماری اور ضعف کی وجہ سے رضاکاروں نے اپیل کی کہ کوئی بھی آگے نہ بڑھے ، اس کے بعد حضرت پیر جی کی موجودگی میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے سرخ ہلالی پرچم کی تقریب پرچم کشائی بھی ہوئی، جس میں سرخ پوش احرار رضا کاروں نے پاکستان اور احرار کے پرچم کو سلامی دی۔
پرچم کشائی کے بعد کا نفرنس کی آخری نشست کی صدارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا صاحبزادہ عزیز احمد دامت برکاتہم (خانقاہ سراجیہ )نے فرمائی ،مولانا اسماعیل شجاع آبادی رہنما عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مولانا تنویر الحسن ، مولانا شبیر احمد عثمانی نائب امیر انٹر نیشنل ختم نبوت مومومنٹ ، عبداللطیف چیمہ ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام، معروف صحافی وکالم نگار سیف اﷲ خالد ، سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ، رہنماؤں اور مبلغین ختم نبوت نے واشگاف الفاظ میں ان حقائق کا اظہار کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے قوانین کی عمل داری کویقینی بنائیں اور لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو ان کی آئینی وقانونی حیثیت میں رہنے کا پابندکریں ، کانفرنس میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت کے علاوہ عقیدہ توحید، عظمت صحابہ، اہل بیت اور حیات عیسی علیہ السلام، سیدنا مہدی علیہ الرضوان، اصلاح معاشرہ اور استحکام پاکستان کے موضوعات پر بھی خطابات ہوتے رہے ،شہدائے ختم نبوت اور سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے جرات مندانہ کردار کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور تحریک ختم نبوت میں شامل تمام مکاتب فکر کے علما کا تذکرہ خیر بھی ہوتا رہا،کانفرنس کی مکمل کارروائی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی نشر ہوتی رہی۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں فرزندانِ اسلام ، مجاہدین ختم نبوت اور سرخ پوشانِ احرار نے فقید المثال دعوتی جلوس نکالا۔ شرکائے جلوس محمد ہمارے بڑی شان والے ،ختم نبوت زندہ باد، پاکستان زندہ باد، فرما گئے یہ ہادی لانبی بعدی ، جیسے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے ،درود شریف اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھے تو عجیب سماں بند ھ گیا ، ،طویل جلوس کے شرکا نے مجلس احرار اسلام کے سرخ ہلالی پرچم اٹھا رکھے تھے، تا حد نگاہ عاشقان رسول کا جلوس مکمل نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور اسی طرح چلتے چلتے چناب نگر میں داخل ہو گیا، گلیوں میں پولیس اہلکار کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے اسلحے کے ساتھ چوکنا کھڑے تھے اور ان کے پیچھے ذرا فاصلے پر قادیانی نوجوان ٹولیوں کی صورت میں موجود تھے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ یہ نوجوان عام شہری نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ کے تربیت یافتہ کارکنان ہیں جو اس وقت مشکل ترین ڈیوٹی پر تھے ، جلوس کے راستے پر سوائے پولیس اہلکاروں کے اور کوئی نہ تھا ، آس پاس گھروں کی چھتوں اور بالکونیوں سے چناب نگر کے مکین جلوس دیکھ رہے تھے اور اپنے فونوں سے تصاویر بنا رہے تھے۔ اسی طرح جلوس آگے چلتے ہوئے چناب نگر کے مین بازار کے عین وسط میں پہنچ گیا اور پھر قادیانیت کے مرکزی دفتر قصرِ محمود کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ یہاں نعروں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، لیکن اس شدت میں کہیں بھی گالم گلوچ نہیں تھی، سب سے زیادہ تاجدارِ ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ ہی بلند ہوتا، جس کا جواب کچھ ایسے جوشیلے انداز میں دیا جاتا کہ رگوں میں لہو دوڑ اٹھتا ، دعوتی جلوس میں ہزاروں افراد کی پرجوش شرکت کے باوجود شہر میں امن وامان کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔جلوس مکمل طور پر پر امن رہا ،سرکاری انتظامیہ اور پولیس نے سیکورٹی کے سخت انتظامات کررکھے تھے، جب کہ احرار سیکورٹی کے رضاکاروں نے کوئی اشتعال انگیز نعرہ نہیں لگنے دیا۔
ایوان محمود کے سامنے قائد احرارحضرت پیرجی سید عطا المہیمن بخاری ،عبداللطیف خالد چیمہ ،سید محمد کفیل بخاری، مولانا محمد مغیرہ اور ڈاکٹر شاہدمحمود کاشمیری نے قادیانیوں کو دعوتِ اسلام کا فریضہ دہرایا ، رہنماؤں نے کہا کہ قادیانی ہماری درخواست پر اپنے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی کے حالاتِ زندگی اوران کی کتب کا مطالعہ کریں تو ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قادیانیت اسلام کی ضد ہے ، نواسہ امیر شریعت سید کفیل شاہ بخاری نے قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد اور پوری قادیانی جماعت کو اِسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قادیانیو! ہم تو تمہارے خیرخواہ اور ہمدرد بن کر یہاں آئے ہیں ۔تاکہ تم سلامتی کی راہ پر آجا اور مرزا قادیانی کے دھوکے اور گمراہی سے نکل کر جنابِ محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈھیر ہوجا ،کیونکہ یہ راستہ جنت کی طرف جاتا ہے، جلوس کے اختتام پر چناب نگر اڈہ پر نماز عصر ادا کی گئی اور ممبر پنچاب اسمبلی مولانا محمد الیاس چینوٹی نے اختتامی دعا کرائی جس کے بعد شرکاء اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہو گئے ۔جب کہ ہم دونوں ساتھی اپنے مشفق مہربان اور دیرینہ دوست مولانا شبیر احمد عثمانی (جامعہ عثمانیہ مسلم کالونی چناب نگر کے مہتمم اور نائب امیر انٹر نیشنل ختم نبوت مومومنٹ) کی پر خلوص دعوت اور محبت پر ان کے گھر مسلم کالونی پہنچے تو نماز مغرب کا وقت قریب تھا ، مولانا شبیر احمد عثمانی مدظلہ سے کافی عرصے سے شناسائی ہے اور گاہے بگاہے فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے ، راقم کی دعوت پر کئی مرتبہ آزاد کشمیر کے علاقہ کوٹلی ، مظفرآباد ، باغ تشریف لا چکے ہیں ، نماز مغرب قریبی مرکز جامعہ عربیہ میں ادا کرنے کے بعد جب گیٹ سے باہر نکلے تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی مبلغ مولانا اسماعیل شجاع آبادی مدظلہ سے ملاقات ہوئی ، ان کے ساتھ مہمان خانے میں پہنچے ، تعارف پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ، جامعہ عربیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چناب نگر میں بڑا دینی وعلمی ادارہ ہے جہاں سینکڑوں بچے دورہ حدیث اور تخصص تک تعلیم حاصل کرتے ہیں ، بلا شبہ کفر کے گڑھ میں اتنا بڑا دینی ادارہ اہل اسلام کے لیے خوشی کا باعث ہے ، مولانا شجاع آبادی سے تقریبا بارہ برس پہلے ملاقات ہوئی تھی، اس وقت ان کی عمر و صحت کافی حد تک بہتر تھی ،اب نظر کی کمزوری کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کے آثار بھی شروع ہو چکے ہیں تاہم پھر بھی دن رات عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری اور پہرے داری کے لیے سفر میں ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر نشست کے بعد ہم دوبارہ مولانا شبیر عثمانی کے گھر آگئے ، رات دیر تک مختلف امور پر گفتگو جاری رہی، مولاناقاری شبیر عثمانی صاحب کے بیٹے بھی اپنے والد کے شانہ بشانہ ختم نبوت کے کام میں شریک ہیں، ماہنامہ صدائے ختم نبوت کی اشاعت اور اس کی تیاری کا سارا کام حافظ سلمان عثمانی سر انجام دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ قومی اخبارات روزنامہ نوائے وقت ، اوصاف اور روزنامہ اسلام میں بھی اپنی صحافتی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں ۔
رات مسلم کالونی میں مولانا شبیر عثمانی مدظلہ کے ہاں گزارنے کے بعد دوسری صبح فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کیا اور ہم چناب نگر سے سات بجے والی گاڑی سے پنڈی واپسی کے لیے تیار ہو گئے ، واپسی پراپنے صحافی بھائی ودوست مولانا سلمان عثمانی اپنی گاڑی پر ہمیں چناب نگر اڈے پر چھوڑنے آئے تو انہوں نے راستے میں قادیانیوں کے سکولز اور دیگر مراکز کا تعارف کرایا ، ہر طرف سیکورٹی کیمرے اور جگہ جگہ سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاکس گلیوں میں رکھے ہوئے تھے ، چناب نگر اڈے پر پہنچ کر سامنے دو قبرستان بھی دکھائے ایک طرف عام سادہ قبرستان اور دوسری جانب درختوں اور چار دیواری ، سیکورٹی حصار میں دوسرا قبرستان جسے قادیانی بہشتی مقبرہ کہتے ہیں۔ اس قبرستان میں صرف اسی قادیانی کو دفن کیا جاتا ہے جو اپنے مال کا خاص حصہ قادیانی جماعت کو وقف کرتا ہے ، قادیانیوں کے نزدیک اصل بہشتی مقبرہ قادیان میں ہے یہاں پر مردے کو امانت کے طور پر دفن کرتے ہیں تاکہ جب بھی اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو یہ مردے قادیان کے قبرستان میں دفن کر دئیے جائیں، قادیانیوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ اکھنڈ بھارت بن جائے تاکہ ان کی رسائی بھارت کے قصبہ قادیان ضلع گورداسپور تک ہو جائے۔ یاد رہے کہ قادیان کی زیارت کو قادیانی ظلی حج قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ اس طرح ہمارا دو دن کا مختصر سفر اختتام پذیر ہوا اور ہم واپس براستہ پنڈی اور ڈڈیال اس عزم کے ساتھ پہنچے کہ ان شا ء اﷲ ساری زندگی تحفظ ناموس رسالت کی چوکیداری سر انجام دیں گے۔