مولانا سعید الرحمن علوی رحمہ اﷲ
اﷲ اﷲ کیسے لوگ تھے جو اپنے پیدا کرنے والے کے دین کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہے اور ایسے ایسے مثالی کام کرگئے جو رہتی دنیا تک ان کو زندہ و جاوید رکھیں گے۔ہم اپنے اسلاف کی صرف قرآنی خدمات پر نظر دوڑاتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔اس صدی ہجری جسے یار لوگوں نے ایک سال پہلے ہی ختم کردیا تھا ،کے چوتھے سال یعنی یعنی ۱۳۰۴ء میں ایک صاحب کا انتقال ہوا جنہیں آج دنیا علامہ آلوسی ؒ کے نام سے یاد کرتی ہے اس بندہ خدا نے قرآن کریم کی عربی تفسیر لکھی ،نام روح المعانی ہے ،آپ حیران ہوں گے ،تیس جلد ،گویا ہر پارہ ایک جلد پر مشتمل ہے ،سینکڑوں نہیں ہزراوں نادر صفحات کا یہ مجموعہ بلامبالغہ گزشتہ تیرہ صدیوں کے علوم و معارف کا نچوڑ اور عطر ہے (اﷲ بھلا کرے ارباب مکتبہ رشیدیہ لاہور کا جنہوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر اس ذخیرہ علوم و معارف کو چھپوا دیا ورنہ اس کتاب کا یہاں حصول ایک مسئلہ تھا )۔یہ بزرگ بغداد کے رہنے والے تھے ،اور اسی قسم کے ایک بزرگ ہندی تھے نام تھا امیر علی ،بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے ڈیڑھ ہزار صفحات کے لگ بھگ پر مشتمل قاموس الکتب اردو کا پہلا حصہ تیار کرایا جو مذہبیات پر مشتمل ہے ۔اس قامو س الکتب میں حدیث ،تفسیر ،فقہ و کلام اور دوسرے علوم و معارف پر اب تک شائع شدہ کتب کی تفصیلات موجود ہیں ۔۱۶۲ نمبر انہی مولانا امیر علی کا ہے قصبہ ملیح آباد کے بسنے والے ،جہاں کے نامور شاعر جوش ہیں ،لیکن افسوس کہ جوش صاحب نے اپنی صلاحتیں اسی کوچہ میں کھپا دی۔لیکن ہمارے ممدوح سید امیر علی صاحب نے قرآن و حدیث اور فقہ کی خدمت میں زندگی گزار دی ،بقول قاموس الکتب تفسیر مواہب الرحمن مسمیٰ بہ جامع البیان ۳۰ ضخیم جلدیں ۱۹۰۲ء ،مطبع نو ل کشور لکھنؤ ۔
اﷲ کی شان ہے کہ اﷲ نے اپنے دین کی اشاعت کا کام نول کشور کے مالکان سے لیا اور ہمارے علم کے مطابق ۹ ہزار بڑے صفحات پر یہ تفسیر اس مطبع سے تین بار شائع ہوئی ۔قاموس الکتب کا تبصرہ نگار لکھتا ہے ’’اردو میں یہ جامع تفسیر ہے، عربی فارسی کی مستند تفاسیر کو سامنے رکھ کر مولانا نے قرآن شریف کے مطالب اور نکات کی یہ جامع اور مستند تشریح کی ہے‘‘۔ (جلد 1،صفحہ 19،مطبوعہ انجمن ترقی اردو ،کراچی)
ہمارے مولانا امیر علی برصغیر کی مشہور درسگاہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم رہے ۔اس عظیم و ضخیم تفسیر کے علاوہ موصوف نے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ جیسی کتاب کا ترجمہ کیا جو چھپ چکا ہے اور دستیاب ہے ۔اسی طرح فقہ حنفی کی معروف و متداول کتاب ’’ہدایہ‘‘کا ترجمہ لکھا ہے وہ بھی چھپ چکا ہے اور قرآن شریف کے بعد صحیح کتاب ’’بخاری شریف‘‘کی شرح لکھی ،بدقسمتی سے یہ ابھی تک چھپ نہ سکی اﷲ تعالیٰ انتظام فرماوے تو یہ بھی علوم و معارف کا خزانہ ہوگا۔ دریا آباد کے عبد الماجد صاحب جو بعد میں مولانا عبدالماجد کہلائے ’’سچ‘‘ کے ایڈیٹر حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے مرید اردو اور انگریزی میں تفسیر لکھنے والے انہوں نے’’ مواہب الرحمن ‘‘کی پہلی اشاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’تفسیر مواہب جس کا مثل و نظیر نہ اب تک ہوا ہے اور نہ غالباً آئندہ ہوگا ‘‘ اور انہی دریاآبادی مرحوم نے یہ بھی تبصرہ میں لکھا ’’عربی کی مشہور اور متداول تفسیروں کا عطر اس میں آگیا ہے‘‘۔
۹ ہزار صفحات پر مشتمل اس تفسیر میں آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کیا کیا ہوگا؟بقول عبدالماجد صاحب ’’بس عطر ہے اس تمام تفسیری ذخیرے کا جو ہمارے اسلاف (اﷲ ان کی قبروں کو منور کرے)نے چھوڑا ‘‘۔نول کشور لکھنؤ سے تفسیر تین مرتبہ چھپی لیکن پاکستان میں ندارد ۔اﷲ اپنی رحمتوں سے سرفراز فرمائے ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے آپ کو داؤ پر لگا کر پاکستان میں اس تفسیر کا اہتمام کیا ۔بطو ر جملہ معترضہ عرض کردوں کہ ایسا کرنے والے وہی ــ’’مکتبہ رشیدیہ لاہور‘‘کے مالکان ہیں جنہوں نے ’’روح المعانی‘‘کو چھپوایا اور چھپوانے کے بعد اہل علم اور اس ذخیرہ کے شائقین کے لیے رعایت در ر عایت کا اہتمام کردیا ۔
ایک بات اور سنتے چلیں ۔ہزارہ ڈویژن کے دور دراز علاقے کے ایک شائق علم جناب خواص خان صاحب نے اس عظیم تفسیر کا کئی بار مطالعہ کرنے کے بعد ایک انڈکس تیار کیا جو ان کی علمی محنت کا آئینہ دار ہے ۔قریب ایک ہزارصفحات کا یہ انڈکس بھی انشاء اﷲ وہی لوگ چھپوا رہے ہیں جنہوں نے اصل تفسیر چھپوائی ۔قرآن کے طالبعلموں کے لیے بڑے پتے کی چیز ہوگی ۔
اسلاف کی قرآنی خدمات کے ضمن میں ایک اور بات عرض کردوں مولانا امیر علی کے تذکرے میں بظاہر یہ بات بے جوڑ ہوگی لیکن داستان عشق و محبت میں حدود قائم رکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے ۔
ہمارے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا اور کہاں ؟مالٹا کی اسارت میں ،واپسی پر اس کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا کیونکہ جہاز ڈانواں ڈول ہورہا تھا ۔عجب نہیں واقعہ ہے کہ اس مسودہ کی بدولت اﷲ نے سب پر رحم کیا ۔حضرت نے تفسیر کا بھی سلسلہ شروع کیا تھا لیکن البقرہ ،النساء کی تفسیر کے بعد قضاء و قدر نے مہلت نہ دی تو مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس فرض کی تکمیل کی اور خوب !اﷲ تعالیٰ نے اس خدمت کو یوں قبول فرمایا کہ مولانا مجید حسن بجنوری مالک مدینہ اخبار نے اس کو بہترین انداز سے چھپوایا ،پھر ہانگ کانگ میں چھپا حکومت افغانستان نے فارسی میں منتقل کرا کے چھپوایا ۔حضرت مولانا عزیر گل کی نو مسلم یورپین اہلیہ نے انگریزی میں منتقل کیا ۔اﷲ تعالیٰ اس کی اشاعت کی سبیل کردے ۔اب کراچی میں دو ادارے انگریزی میں منتقل کرارہے ہیں اور امید ہے کہ جلد طبع ہو کر منظر عام پر آجائیگا ۔یہاں کے مشہور ناشر قرآن تاج کمپنی نے چھاپا۔ ان کے علاوہ مکتبہ رشیدیہ لاہور نے چھاپا اور اس کی رعایت کرتے ہوئے کہ غریب لوگ زیادہ سے زیادہ حاصل کرسکیں ۔
میرے پیش نظر مولانا امیر علی ؒ کے متعلق چند سطور لکھنا تھیں ،لیکن سلسلہ زلف یار کی طرح دراز ہوتا گیا اور پھر بھی سلسلہ تین بزرگوں تک محدود رہا ۔ورنہ محض ہندوستان کی بات کی جائے تو خانوادہ ولی اﷲّٰی اور ان کے بعد ان کے روحانی فرزند مولانا عبدالحقؒ،مولانا فتح محمد جالندھری ؒ،حضرت تھانوی ؒ،امام انقلاب حضرت سندھیؒ،امام تفسیر حضرت لاہوری ؒ ،حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ ،حضرت مولانا مفتی شفیع دیوبندی ؒ اور ان کے علاوہ دوسرے اکابر و اسلاف ایک ایک کی خدمات اس قابل ہیں کہ پوری پوری کتاب ایک ایک کے لیے لکھنا پڑے گی۔
اﷲ تعالیٰ ان سب حضرات کی ارواح مقدسہ کو طمانیت بخشے اور اس کے فضل سے امید ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا ہوگا ۔بعض حضرات کی موت کے بعد ایسے آثار سامنے آئے کہ سبحان اﷲ جنہوں نے اس کی کتاب کی خدمت کی اس نے ان پر یقینا رحم کیا ہوگا۔اس کے فضل سے ایسی ہی امید وابستہ رکھنی چاہیے اور اﷲ تعالیٰ اس سلسلۃ الذہب کو اپنی روایات کو اپنانے کی توفیق دے ۔(آمین) (ہفت روزہ خدام الدین،دسمبر 1979ء)