مولانا محمداَحمدحافظ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم!
اسلامی معاشرے میں مسجد،مدرسے اور خانقاہ کی اہمیت ہمیشہ مسلّم رہی ہے۔مساجد میں اہل ایمان پانچ وقت حاضر ہوکر اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی،عجزونیاز،زاری وشیفتگی اور والہیت کا اظہار کرتے ہیں۔مدرسہ دینی تعلیم وتعلم کا مرکز اور خانقاہ اسلامی اخلاق وکردارکی تعمیر، اورتزکیہ وتطہیر نفس کا ادارہ ہے۔ان تینوں اسلامی اداروں میں مسجد کا ادارہ سب سے اہم ہے۔اس لیے کہ تعلیم اور تزکیہ کے لیے دوسرے مقام کا سفر اختیار کیا جاسکتا ہے،لیکن نمازوں کی ادائیگی کے لیے اپنے محلے اور علاقے میں مسجد کا ہونا ضروری ہے،۔مساجد بندگی رب کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور تزکیہ وسلوک کے لیے مرکز بن سکتی ہیں،لیکن مدرسہ یا خانقاہ مسجد کا متبادل نہیں ہوسکتے۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے قبا میں مسجد تعمیر فرمائی،پھر مدینہ منورہ میں ورود مسعود کے بعد سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی فکر فرمائی؛جو مسجد نبوی زادھااﷲ شرفا وکرامۃ کہلائی۔یہ مسجد اہل ایمان کی ان تمام ضروریات کے لیے مرکز بنی جو انہیں دینی اعتبار سے پیش ہوتیں۔
مساجد اپنی نسبت کے اعتبار سے شعائراﷲ میں سے ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَاتَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدَا(سورۃ الجن)
(مسجدیں اﷲ کے لیے ہیں [سو وہاں] اﷲ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو)
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أحب البلاد الی اللّٰہ مساجدھا،وأبغض البلاد الی اللّٰہ اسواقھا(الحدیث)
(شہروں میں اﷲ کا محبوب ترین مقام وہاں کی مسجدیں ہیں، اور وہاں کا مبغوض ترین علاقہ وہاں کے بازار ہیں)
ایک دوسری حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد اور تعلیم کے تعلق سے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ غَدَا الی المسجد لایرید اِلَّا اَن یَّتَعَلَّمَ خَْیرًا اَوْ یُعَلِّمَہ، کان لہ کاَجر حاج تاما حجتہ‘‘ (الطبرانی)
(جو شخص مسجدمیں صرف خیر کی بات سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے اس کو ایک کامل الحج حاجی کے اجر جیسا ثواب ملتا ہے)
مسجد دور نبوت سے ہی اہل اسلام کے متنوع انفرادی اور اجتماعی امور کی انجام دہی کا مرکزرہی ہے۔حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک دور میں مسجد نبوی شریف میں صرف پنج وقتہ نمازیں ادا نہیں کی جاتی تھیں بلکہ یہاں تعلیم کے حلقے لگتے تھے،ذاکرین کے حلقے ہوتے تھے،تزکیہ باطن کا اہتمام ہوتا تھا،اصحاب صفہ کا یہاں مستقل قیام رہتا تھا،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بیرون سے آنے والے وفود سے ملاقاتیں فرماتے تھے،جہادوغزوات کی ترتیب یہیں قائم ہوتی تھی،امراء و عمال کا عزل ونصب یہیں ہوتا تھا،مجلس مشورہ یہیں قائم ہوتی تھی،مسلمانوں کے مقدمات کی شنوائی بھی یہیں ہوتی تھی۔اسلامی معاشرت نے جوں جوں ارتقا اختیار کیا؛بعض مصالح کے پیش نظر مدرسہ اور خانقاہ کے الگ الگ وجود قائم ہوئے؛لیکن یہ دونوں ادارے مسجد سے ہی وابستہ رہے،یعنی مسجد کے بغیر ان کا تصور کبھی نہیں رہا۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جب تک مسلمانوں میں مسجد کا ادارہ فعال رہا؛اسلامی معاشرت اور اخلاق وکردار زندہ و تابندہ رہے۔جب سے ہماری مسجدیں صرف جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں تک محدود ہوگئیں؛تعلیم وتعلم،تزکیہ وسلوک اور باہمی اجتماعی امور کو مسجد کے دائرے سے نکال دیا گیا اسلامی معاشرت دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی۔سقوط خلافت اسلامیہ کے بعد جب عالم اسلام کی مرکزیت ختم ہوگئی اور مسلم معاشرے اغیار کے زیرنگیں ہوگئے تو ایک ایساوحشت ناک دوربھی آیا کہ مسجدیں نمازیوں کو ترسنے لگیں،ہمارے معاشرے تتر بتر ہو گئے،وہ مغربی طوفان کی زد میں آکر بے دین،خدابیزاراور اہل مغرب کے طور طریقوں کے دلدادہ ہونے لگے۔
ہمارے برصغیر کے علماء؛خصوصا علماء دیوبند پر اﷲ پاک اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوں نے جابجا مدرسے قائم کرکے اور مساجد کو آباد کرکے مسلمانوں کی دینی تعلیم وتربیت کا بیڑہ اٹھایا،آج ہمارے معاشروں میں جوتھوڑی بہت دینی رمق نظر آتی ہے یہ انہی کی بے پناہ مساعی کا نتیجہ ہے…… لیکن نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ یہ کافی نہیں۔معاشرتی طورپر کل کی بنسبت آج ہمیں زیادہ بڑے اور خطرناک چیلنج درپیش ہیں۔ہمارے مدارس…… جوہمارے لیے محفوظ قلعوں کی حیثیت رکھتے ہیں؛ باہر کی دنیا سے بہت مختلف ہیں۔ہمارے معاشرے کا نوجوان طبقہ اپنے دین کی نہ صرف یہ کہ بنیادی معلومات نہیں رکھتا بلکہ وہ مغرب کی پروردہ این جی اوز کے جال میں جکڑتاچلاجارہاہے۔ابلاغ واطلاعات کے تمام ذرائع بے دینی، فحاشی وعریانی،بے راہ روی، بد عقیدگی، فکری آوارگی کو پروان چڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں ہلکان ہورہے ہیں۔گمراہ فرقوں کو اپنی تبلیغ کے لیے کھلا اور آزاد ماحول فراہم کردیاگیاہے۔
دوسری طرف منصوبہ بند طریقے سے دینی اداروں کے کردار کو محدود سے محدود تر کرنے کی کوششیں جاری ہیں،اس کی تفصیل کا موقع نہیں؛لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مساجد کے وسیع اور فطری مقام کی بحالی اشد ضرورت ہے۔ الحمدﷲ اب بھی بڑی تعداد میں مسلمان مساجد کارخ کرتے ہیں،نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن چوں کہ اکثر مساجد میں دروس قرآن وحدیث،اور ضروری فقہی مسائل کی تعلیم اہتمام نہیں اس لیے بیشتر نمازی ضروریات دین سے واقف نہیں ہوتے۔ انہیں طہارت اور نماز کے مسائل معلوم نہیں ہوتے، دینی عقائد سے آگاہی نہیں ہوتی، سنت اور بدعت، جائز و ناجائز، حلال وحرام میں فرق معلوم نہیں ہوتا۔ اگرچہ تبلیغی جماعت کی محنت کافی بار آور ہے، اس کے باوجود مساجد کے ائمہ وخطباء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہیں اﷲ پاک نے منبر اور محراب کی صورت میں ایک پاکیزہ، صاف ستھرا اور محترم مقام عطا فرمایا ہے، وہ اگر چاہیں تواپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خالصتاً لوجہ اﷲ معاشرے کی اسلامی تشکیل کے لیے بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔آپ دیکھیں گے کہ جن مساجد کے ائمہ وخطباء نے اپنے طور پر مساجد میں درس قرآن،درس حدیث او ردینی مسائل کی تعلیم کا سلسلہ شروع کررکھا ہے؛اُن مساجد کے نمازی مسجداور نماز کے آداب ومسائل کی رعایت میں منفرد نظرآتے ہیں،جن مساجد میں اس کا اہتمام نہیں،وہاں کے نمازیوں میں ایک طرح کا تجاہل اور تساہل نظر آئے گا۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ فروعی مسائل میں الجھے بغیر اپنی اپنی مساجد میں درس قرآن،درس حدیث، دینی مسائل کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے۔اس کے لیے کسی لمبے چوڑے اہتمام کی بھی ضرورت نہیں،ترتیب حسب ذیل ہوسکتی ہے:
٭…… روزانہ پانچ وقتہ نمازوں میں سے کسی ایک نمازکے بعدصرف دس منٹ کے لیے قرآن مجید کا ترجمہ بیان کردیاجائے۔
٭……کسی ایک نماز کے بعد پانچ منٹ کے وقت میں ایک حدیث اور اس کی مختصر تشریح بیان کر دی جائے۔
٭…… ہرنماز کے بعددعا سے پہلے ترتیب سے صرف ایک دینی مسئلہ بیان کردیاجائے۔
٭…… ہفتے میں ایک دن عمومی درس قرآن کا اہتمام ہو۔
اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ نمازیوں کی راحت کا مکمل خیال رکھا جائے،انہیں جبراً نہ بٹھایاجائے،وقت زیادہ نہ لیاجائے،دقیق علمی مباحث کو بیان نہ کیا جائے،خیر الکلام ما قلَّ ودلَّ(بہترین کلام وہ ہے جو کم ہو مگر معنی مکمل بیان کر دے) کے مصداق کم الفاظ اور مناسب وقت میں بات مکمل کرلی جائے۔ان شاء اﷲ آپ اس ترتیب سے چلیں گے تو تھوڑے ہی عرصے میں اپنے ماحول میں مثبت تبدیلی محسوس کریں گے۔ اﷲ تعالی ہم سب کا حامی وناصر ہو… آمین