مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
نہرو رپورٹ:
ہندوستان ہر چند غلام تھا، لیکن چند آزاد منش لوگ سنٹرل اسمبلی میں جا پہنچے تھے۔ ان کی قوت بیان اور فکر آزاد کے مقابلہ میں انگریز افسر چوکڑی بھول گئے۔ عمل کی قوتوں سے محروم ہو کر قوم یوں بھی باتونی ہو جاتی ہے۔ خوش بیان انگریز اسمبلی کے ہندوستانی ممبروں کے مقابلہ میں عجمی معلوم ہوتا تھا۔ انگریز عمال دلائل میں شکست اٹھا اٹھا کر بہت زچ تھے۔ ہندوستان کی قوت فکر و دلائل کی دھاک چار دانگ عالم میں بیٹھ گئی۔ پریزیڈنٹ پٹیل نے ہمیشہ اپنی کمزرور اور غلام قوم کے مقاصد کو پیش رکھا، اسمبلی میں ان کے نت نئے فیصلے انگریز کے لیے سوہانِ روح تھے۔ سرکاری حلقوں میں ان پر جانب داری کا الزام لگایا جتا تھا، لیکن آئین عالم سے ان کی وسیع واقفیت کے سبب کوئی علانیہ حرف گیری کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ ان کے ہر رولنگ میں، جو وہ سرکاری پارٹی کے خلاف دیتے تھے، وزن ہوتا تھا۔ ان کے دلائل ٹھوس تھے، اس لیے حکام ٹک ٹک دیکھتے تھے مگر دم نہ مارتے۔
ہندوستان کا مطالبۂ آزادی بتدریج یقینی صورت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔ حکومت انگلیشیہ کے ذمہ دار لوگوں کے پاس ہندوستان کے غلام رکھنے کے لیے پیچیدہ دلائل پیدا کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ وزیر ہند نے اعلان کیا کہ ہندوستان ایک قوم نہیں، ہندوستان مختلف قوموں کا مجموعہ ہے۔ ہاں اگر ہندوستانی کسی آئین پر متفق ہو جائیں، تو کام آسان ہو سکتا ہے۔ انگریزی تدبیر کا یہ تیر ایسا نشانہ پر بیٹھا کہ ہندوستانیوں کی سٹی گم ہو گئی۔ وہ متفقہ آئین بنانے بیٹھ گئے۔
اس وقت ہندوستانی مسلمان عام طور پر متحد تھے، البتہ سرکاری دفاتر کے ہندو مسلمان بلی کتے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن متفقہ آئین پیش کرنے کی کوششوں میں یہ نہ سوچا کہ انگریزی حکومت کی موجودگی میں یہ ہمارے بس کا روگ نہیں، بہرحال سعیٔ نیک کی گئی۔ لکھنؤ میں آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ ہندوستان بھر میں پنجاب کو یہ شرف حاصل رہا کہ اسے بجا طور پر السٹر کا نام دیا جائے۔ ۱۹۲۰ء سے ہندو مسلم سر پھٹول اور بم چخ پنجابیوں کا معمول تھا۔ ہر سیاسی فتنہ یہاں سے سر اٹھاتا اور تمام ہندوستان میں پھیل جاتا تھا۔ اس میں مسلمان تنہا ذمہ دار نہ تھے۔ ہندو اور سکھ بھی یہاں برابر کی تعداد میں بستے ہیں، اقتصادی اور معاشرتی طر پر بے حد تنگ نظر ہیں اور یوں بھی پنجابی نسبتاً جنگ جو ہیں ……اگرچہ جنگ جوئی کی یہ سپرٹ ہمیشہ اغیار کے لیے مفید رہی…… اس لیے باتوں سے گزر کر لاتوں پر آ جانا، پھر لٹھم لٹھا شروع ہو جانا پنجابی سپرٹ کے عین مطابق ہے۔ پنجاب میں آئے دن کی تھکا فضیحتی کے باعث ہندوستان کی نیک روحیں دل تنگ تھیں۔ اگرچہ قصور وار ہندو بھی تھے، لیکن پروپیگنڈا کے وسیع ذرائع کے مالک ہونے کا باعث حرف گیری سے محفوظ تھے۔ الزام محض مسلمان پر تھا کہ صلح کی ہر تحریک کا یہی انتھک مخالف ہے۔
لکھنؤ آل پارٹیز کانفرنس، منعقدہ ۱۹۲۸ء میں فضا بہت بہتر تھی۔ اتحاد خیال نے اتحاد عمل کی خوشگوار امیدوں میں اضافہ کر دیا۔ لیکن پنڈت موتی لعل اور مولانا شوکت علی کی باتوں باتوں میں چل گئی لیڈری کی جنگ نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔ ساری باتیں خوش اسلوبی سے طے ہوتی چلی آئیں، دوست دشمن کو خیال تھا کہ صلح کا جہاز پنجاب کی چٹان سے ٹکرا کر غرق ہو گا۔ لیکن مولانا شوکت علی بھی اسی امید پر بیٹھے تھے کہ زیر بحث نہرو رپورٹ کے اوراق پنجاب کے مسئلہ پر پراگندہ ہوں گے۔ اب تک کسی شدید اصولی اختلاف کا اظہار نہ ہوا تھا، لیکن مولانا شوکت علی اندر ہی اندر پنجابی نمائندوں پر زور ڈال رہے تھے کہ نہرو رپورٹ کو مسترد کر دو۔
میں نے نہر رپورٹ کو پورے طور پر پڑھا نہ تھا۔ کچھ دن مطالعہ کرنے میں صرف کیے۔ مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر کچلو، ڈاکٹر عالم اور دوسرے دوست مصر تھے کہ بلا بحث رپورٹ کو قبول کر لو۔ لیکن میں رپورٹ کے خاکہ کو Unitary طریق حکومت کی تشکیل سمجھتا تھا اور خواہش یہ تھی کہ ہندوستان کا آئین فیڈرل ہو، تاکہ اس وسیع ملک کے صوبے قدرتی رجحانات کے مطابق ترقی کریں اور مرکزی حکومت کی کم از کم مداخلت ہو۔
یہ بات اس کے مجوز پنڈت جواہر لعل کو منظور نہ تھی۔ مسلمان لیڈر عام طور پر اس امتیاز کو سمجھتے نہ تھے۔ انھوں نے ابتدا میں اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور میری ترمیم پر سوائے پنجاب پارٹی کے اور وہ بھی دوستانہ تعلقات کی بنا پر فیڈرل طرز حکومت کے لیے کسی نے ووٹ نہ دیا۔ مجھے تعجب ہوا کہ چند ماہ کے اندر مسلمانوں نے اس کو موت اور زندگی کا مسئلہ بنا لیا، حالانکہ نہرو رپورٹ کی بحث کے وقت تمام مسلمان نمائندے میری تجویز اور خیال کے مخالف تھے۔
سب سے آخر میں پنجاب کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ نہرو رپورٹ کی اساس و بنیاد مخلوط انتخاب پر تھی۔ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو سرمایہ سے محروم اقلیت سمجھ کر مالا مال ہندو اکثریت سے مخلوط انتخاب کی بنا پر خائف تھے، تمام ہندو مسلمان کی نظر پنجاب کے مسئلہ پر لگی تھی۔
ہم جانتے تھے کہ ہندوؤں اور سکھوں کو بھی مخلوط انتخاب سے وہی اندیشے تھے، جو مسلمانوں کو ہیں، لیکن وہ بظاہر مطمئن تھے کہ مسلمان اسے نامنظور کر کے ان کی آرزو پوری کریں گے۔ لیکن ہم نے اس مجلس میں جہاں ہندوستان کے چوٹی کے سارے لیڈر جمع ہیں، ہندو اور سکھوں سے پوچھا کہ آپ کو نہرو روپورٹ کا مجوزہ پنجابی آئین منظور ہے؟ انھوں نے نہایت گرمجوشی سے منظوری کا اعلان کیا۔ انھیں سو فیصدی خیال تھا کہ مسلم نمائندوں کی طرف سے دوسرا فقرہ یہ ہو گا کہ ہم مسلمانوں کو یہ منظور نہیں، مگر ہم نے ’’منظور ہے‘‘ کہہ کر ایوان میں بم گرا دیا۔
ایک منٹ کے بغیر سکھوں کے اندھے لیڈر گیانی شیر سنگھ نے اٹھ کر کہا کہ صاحب، ہماری پوزیشن آکورڈ (Awkward) ہو گئی ہے۔ پنجاب کی سیاست سے بے خبر ہندوستان کے اولو العزم لیڈر حیران ہوئے کہ سکھوں کو کیا ہو گیا کہ قول کیا کیا تھا، اب باتیں کیا کرنے لگے ہیں۔ انھوں نے ہر چند منایا، سکھ نہ مانے۔ انھیں مخلوط انتخاب قبول کر کے مسلم راج قابوس بن کر ڈراتا تھا۔ پنجاب کے ہندوؤں اور اس کے پریس نے سکھوں کی پیٹھ ٹھونکی۔
بہرحال سکھوں کے پروٹسٹ کے باوجود نہرو رپورٹ منظور سمجھی گئی، لیکن مولانا شوکت علی نے مولانا محمد علی کو بھی گانٹھا، جمعیت العلماء کے لیڈر بھی نہرو رپورٹ کے مخالف ہو گئے۔ ادھر ان مسلمان اکابر نے نہرو رپورٹ کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کیا، ادھر پنجاب کے سکھوں اور ہندوؤں نے آواز اٹھائی، پنڈت مالویہ اور مہاتما گاندھی نے سکھوں کی حمایت میں یہاں تک کہہ دیا کہ سکھوں کے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔
پنجاب کے مسلمان نہرو رپورٹ کی مخالفت میں بفضل خدا کسی سے کم نہ رہے، انھوں نے ہمارے جلسہ عام میں پتھراؤ کیا۔ اتنی گالیاں دیں کہ توبہ بھلی، سٹیج پر جو بیٹھا تھا، لہو لہان ہو گیا۔ میں تقریر کرتا ہوا زخمی ہوا، میری کنپٹی کے اوپر اس زور سے پتھر لگا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ گیا اور اندھیرے میں تارے نظر آنے لگے، حضرت مولانا ظفر علی خان اٹھ اٹھ کر کہتے تھے کہ لو مجھے مارو، کسی دل جلے نے تاک کر سینہ پر پتھر مارا، مولانا کو لگا، یا نہیں، لیکن انھوں نے پروپیگنڈہ کی تمام جزئیات کو مدنظر رکھ کر دہائی دی کہ مار دیا، ساتھی ہی صاحبزادہ بلند اختر کو پکار کر کہا، میاں اختر ذرا اینٹ گرم کر کے لانا، اینٹ گرم کر کے لا دی گئی، مولانا بآواز بلند ’’سی سی‘‘ کرتے سینگ دیتے لگے۔ اس رات بڑی مشکل سے جان بچی، سو لاکھوں پائے۔
صبح مخالف اخباروں نے رات کے واقعہ کو خوب اچھالا۔ مولانا کی سیمابی طبیعت کو اس ہڑبونگ کے بعد بھی قرار نہ آیا۔ غازی عبدالرحمن کو ساتھ لے کر دہلی جا براجے، وہاں ڈاکٹر انصاری بھی لوگوں کے نرغے میں آ گئے، کوئی خیرات کام آ گئی، ورنہ خیریت کی کوئی امید نہ تھی۔ مولانا اور غازی صاحب وہاں سے چلے اور میرٹھ پہنچے، وہاں بھی وہی حادثہ پیش آیا، پولیس کی امداد سے جوں توں کر کے سٹیشن پر آ گئے۔ جب مولانا نے سہارن پور کا ارادہ کیا تو غازی صاحب نے عذر کیا کہ مولانا بال بچے دار ہوں، زندگی کا فی الحال بیمہ نہیں کرایا۔ مجھ پر اور میرے بال بچوں پر رحم فرمائیں، مجھے واپس جانے کی اجازت دیں۔
غرض نہرو رپورٹ نہ ہندو اور سکھوں میں قبول تھی نہ مسلمانوں میں، لیکن مسلمان اپنی بے وقوفی سے ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار رہتے ہیں۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی نے جمعیت العلماء کے لیڈروں سے مل کر مسلم کانفرنس کے نام سے نیا محاذ قائم کیا۔
1930ء :
موسم بدلتا ہے تو طبیعت خود بخود گدگداتی ہے۔ ۱۹۲۹ء عجب ہیجان خیز تھا۔ عوام تو خیر، خواص کے دلوں میں نئی امنگیں کروٹیں لے رہی تھیں، لیڈر حکومت سے الجھنے کے مواقع تلاش کرتے تھے، لارڈ ارون نے ملک کی خواہشِ انقلاب کو بھانپا، چاہا کہ صلح کی طرح ڈال کر اس ابال پر ٹھنڈے چھینٹے ڈالے، پریزیڈنٹ پٹیل کی وساطت سے پنڈت موتی لعل اور گاندھی جی سے ملاقات ہوئی، لارڈ ارون دونوں کو مطمئن نہ کر سکے۔ یہ ملاپ ٹکر بن گیا، اس گفتگو کی ناکامی پر دونوں لیڈروں نے ہنگامہ کو عزت نفس کا تقاضہ سمجھا، کیونکہ صلح کی ناکامی کے بعد جنگ ناگزیر ہوئی ہے۔
لیڈر لاہور کانگرس میں بھرے ہوئے پہنچے، راوی کنارے کامل آزادی کا علم بلند کیا گیا اور نہرو رپورٹ غرقِ دریا کر کے سول نافرمانی کی تیاریاں شروع کی گئیں، گاندھی جی کی نمکین سول نافرمانی کا شور اٹھا، گھر گھر نمک بنایا جانے لگا، قانون نمک کے خلاف ستیہ گرہ کیسا حقیر ہتھیار ہے، لیکن قوم اقدام پر آمادہ تھی۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملک میں ہیجان برپا ہو گیا۔
اب تمام آزاد خیال مسلمان دو کشتیوں کے سوار تھے۔ یعنی خلافت اور کانگرس دونوں کے ممبر تھے۔ مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی نے جو خلافت تحریک کی جان تھے، پنجاب پارٹی سے ناراض تھے۔ اس میں پنجاب پارٹی کا قصور نہ تھا۔ ہر دو محترم لیڈروں کی طبیعت میں حاکمانہ انداز زیادہ تھا۔ ہم بالکل قرونِ اولیٰ کی طرح ایک دوسرے کے رفیق اور برابر کے بھائی تھے۔ ان محترم بھائیوں کو ہماری ہرگزارش بغاوت نظر آتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ بلا چون و چرا، ان کا حکم قرآن نہیں تو حدیث سے کسی صورت میں بھی کم نہ سمجھا جائے، علاوہ ازیں دونوں بزرگوں کی برہمی کا باعث مولانا ظفر علی خان اور مولانا عبدالقادر قصوری بھی تھے۔ باقی پنجاب پارٹی کو وہ سیدھے سادھے سپاہی سمجھتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان سے مولانا محمد علی کو شکایت تھی کہ وہ کہنی مار کر آگے بڑھ جانے کی کوشش اور تدبیروں میں لگا رہتا ہے اور بلاوجہ ہنگامہ برپا کر کے مسلمان کی قوتِ عمل کو غارت کرتا ہے۔ مولانا عبدالقادر قصوری کو خوشامد پسند اور انتہا درجہ کا پارٹی باز وہابی سمجھتے تھے۔ اس سیاسی اور مذہبی جنگ میں گو موجودہ احرار پارٹی دانستہ شریک نہ تھی، لیکن شریک قیاس کی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی اور شخصی وجوہات کی بنا پر پنجاب خلافت پارٹی مرکزی خلافت کمیٹی کی باغی قرار دی گئی۔
مجلس احرار:
ترک اسلام کی مرکزیت کا کام دیتے تھے۔ گزشتہ جنگ میں جب وہ موت کے منہ سے بمشکل نکلے تو انھوں نے خلافت کو لباس کہنہ کی طرح اتار پھینکا، مسلمانوں میں پورے طور پر سیاسی لا مرکزیت قائم ہو گئی۔ اس وقت اسلامی ممالک میں اخوت اسلامی کا جذبہ ختم ہو کر قومیت اور وطنیت کا جذبہ فروغ پا رہا ہے۔ اسلام کے جذبہ اخوت کو فنا کر کے مسلمان کیا فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ امر میرے نزدیک سخت مشتبہ ہے ۔ بہرحال زمانے کی سپرٹ یہی ہے، کیا وطن کی آزادی اور خوشحالی اسلام کے بھائی چارے کی منافی ہے۔ مسلمان وطن اور اہل وطن کی خدمت بھی جاری رکھے، لیکن ہم مذہب عزیزوں کی سود و بہبود کو بھی نظر انداز نہ کرے، دونوں معاملات میں کیا دقت ہے۔ وطنیت کا جذبہ جس طرح عیسائی یورپ کو برباد کر رہا ہے، اسی طرح آگے چل کر مسلمانوں کو بھی ایشیاء میں مستقبل خانہ جنگی میں مبتلا کر دے گا۔
بہرحال خلافت کا خاتمہ ہوا۔ ہندوستان میں بھی خلافت کمیٹیوں کا وقار کم ہو گیا تھا۔ مرکزی خلافت کمیٹی نے پنجاب خلافت کمیٹی کو معطل کر کے اپنا رہا سہا وقار خطرے میں ڈال لیا، کیونکہ پنجابی کارکن ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں کے کارکنوں سے مخلص، جری اور زبان آور تھے۔ ایسی جماعت کو باغی قرار دے کر کون جماعت فروغ حاصل کر سکتی ہے۔
غرض جب ہم مرکزی خلافت سے علیحدہ ہوئے تو سوائے علیحدہ جماعت بنانے کے کوئی چارہ کار نہ رہا، چنانچہ ہم نے مجلس احرار کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو جو ہندوستان بھر میں بہترین مقرر ہیں، صدر بنانے کے رجحانات زیادہ تھے۔ مولانا ظفر علی خان صدارت پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ لیکن سب دوستوں کے نزدیک مولانا موصوف لیڈری کی قابلیتوں سے محروم متصور ہوتے تھے، کیونکہ وہ پر جوش ہیں، لیکن ان کا جوش ہوش سے چار قدم آگے رہتا ہے۔ جذبات کی مخلوق شخص سپاہی اچھا ہوتا ہے، مگر جرنیل نہیں ہو سکتا۔ جرنیل کو ہمیشہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا پڑتا ہے۔ مولانا بہت قابل اور لائق ہیں، لیکن سب ان کی اس کمزوری سے لرزاں و ترساں تھے۔
ابھی ہم عہدہ داروں کا انتخاب کرنے نہ پائے تھے کہ ہندوستان کے حالات سرعت سے بدلنے شروع ہوئے۔ مہاتما گاندھی کی نمکین سول نافرمانی کا آغاز ہو گیا، طول و عرض ملک میں دار و گیر کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں ممبر کونسل ہونے کی وجہ سے ابھی محفوظ تھا۔ سیاسی قیدیوں سے شکایات سننا اور حکومت کو ان کے ازالہ کے لیے لکھنا میرا کام تھا۔ حکومت کے لیے میری یہ مداخلت ناقابل برداشت تھی۔ لیکن جیل کے معائنہ سے مجھے محروم کرنے کا معقول بہانہ حکومت کے پاس نہ تھا۔
علامہ صاحب:
یادش بخیر علامہ حسین میر نقل مکانی کر کے امرتسر سے لاہور آئے، شامتوں نے جو گھیرا تو ماحول سے متاثر ہو کر لیڈری کا شوق چرایا۔ ہزار کہا، علامہ یہ تیرے بس کا روگ نہیں، مگر اس داڑھی والے کی بال ہٹ نے عقل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ حسین میر زندہ باد کے جاں فزا نعرے میٹھے راگ کی طرح اسے سرمست کرتے تھے۔ مجمع بھی اس کی مزاحیہ تقریر سے زعفران بن جاتا تھا۔ دو ایک تقریروں میں پبلک نے جو حوصلہ افزائی کی، تو راز داری سے فرمانے لگے، یار چودھری مجھے لاہور کے جلسوں کا صدر بنا دو، ان دنوں اکثر کارکن جیل جا چکے تھے، ہر عہدہ خالی تھا۔ میں نے کہا، تمھاری صدارت میں تو دقت نہ ہو گی ، مگر تمھاری جگہ جیل کی مصیبت کون کاٹے گا۔ کہا کہ اوّل تو تقریر میں احتیاط برتوں گا، دھر لیا گیا تو جوں توں کر کے کاٹ آؤں گا۔ میں نے کہا صدر نہ بنو، تقریریں کیا کرو، صدر تو بعض دفعہ آٹے کے ساتھ گھن کی طرح پس جاتا ہے۔ بعض دفعہ دوسروں کی تقریر کے الزام میں اور نہیں تو نقضِ امن ہی میں پکڑا جاتا ہے۔
لیکن علامہ حسین میر کی دو چار تقریریں مقبول ہو چکی تھیں۔ بازار میں جدھر نکلتا، لوگ عقیدت سے اٹھ کر سلام کرتے تھے۔ گدائی میں یہ شاہی بغیر تکلیف کے میسر آ جائے تو کون بے وقوف تیاگ دے۔ میں آئے دن کی سرگرمی سے اسے ازراہِ دوستی باز رکھنا چاہتا تھا، مگر وہ اپنی سیاسی ترقی میں مجھے رکاوٹ سمجھتا تھا۔ آخر میں نے صدارت کا انتظام کر دیا، پھر کیا تھا ہرروز جلسہ اور علامہ صاحب ہر جلسہ کے صدر، اگر کوئی کارکن ازارہِ شرارت کسی اور کی صدارت کی کوشش کرتا یا تجویز کرتا تو شکایت میرے پاس پہنچتی۔ بہرحال صدارت سے وہ ایسے چمٹے کہ کسی حال میں جدا ہونے کو تیار نہ تھے۔
میری تنبیہ کہ صدر کبھی دوسروں کی تقریروں پر بھی دھر لیا جاتا ہے، علامہ صاحب کے کانوں میں گونجتی رہتی تھی۔ اس لیے جب کوئی مقررہ قانون کے حدود سے تجاوز کرتا تو اپنی عافیت کا خیال کر کے اونگھنے لگتے اور جب تقریر ختم ہوتی تو یہ اعلان کر دیتے کہ صاحبو! میں ذرا سو گیا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے ان پر مواخذہ نہ ہو سکے گا۔ ایماندار ڈائری نویس یہ نوٹ ضرور دے گا کہ مقرر کی تقریر کے وقت علامہ صاحب سو رہے تھے۔ ڈائری نویسوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ہر جلسہ کی ابتدا میں ان کو اسٹیج کے قریب اچھی جگہ دے دیتے اور جلسہ کے بعد بھی ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے تھے۔
خیر ان ترکیبوں سے کچھ وقت نکل گیا۔ اب ذرا اور بلندی کی سوجھی، فرمایا کہ مجھے کانفرنسوں کے صدارت بھی دلاؤ، میں نے پھر نے کہا، علامہ تم گہرے پانیوں میں بڑھتے چلے جا رہے ہو، زمانہ نازک ہے۔ ہر قدم پر گرفتاری کا اندیشہ ہے، کہنے لگا کہ نہیں میں بڑی ہوشیاری سے کام کر رہا ہوں۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی کا بڑے گھر کی سیر کرتا نظر آتا۔ بہر حال کانفرنسوں کی صدارت کا انتظام بھی ہو گیا۔ یوں بھی اب علامہ ہی اندھوں میں کانا راجہ رہ گیا تھا۔ ہر طرف اس کی مانگ تھی۔ میں نے آخری بار سمجھایا کہ علامہ ہر سمت جاؤ، لیکن سرحد کے قریب نہ جاؤ، بولے میری تقریر قابل گرفت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا اس دار و گیر میں تقریر کو کوئی نہیں پوچھتا، ہر مقرر بچۂ شتر سمجھ کر دھر لیا جاتا ہے۔
ایک دن صبح مجھے معلوم ہوا کہ علامہ لیڈری کے شوق میں حضرو چلے گئے ہیں، میں نے سمجھ لیا کہ تقدیر لے گئی، دوسری دن اچانک علامہ کا کیمبل پور سے تار ملا: ’’ گرفتار ہو گیا ہوں، مولانا مظہر علی اظہر یا کسی اور وکیل کو جلدی بھیج دو‘‘۔ علامہ صاحب کی بہادری کے متعلق احباب کو اتنا حسن ظن تھا کہ جس نے سنا یہی سمجھا کہ اوّل سول نافرمانی میں وکیل کی کیا ضرورت ہے۔ بھیجا بھی تو وکیل ادھر سے جائے اور اور علامہ ادھر سے معافی مانگ کر آئے گا، دونوں کا وزیر آباد کراس ہو گا۔ مولانا مظہر علی کو کہا، انھوں نے کہا کہ سول نافرمانی کے ایام میں مقدمہ لڑنا کیا مناسب ہے۔ خیر اگر دو چار دن علامہ جیل کاٹ گیا تو دوسری پیشی پر چلا جاؤں گا۔ ورنہ امید تو یہی ہے کہ بازو لٹکاتا منہ بناتا، معافی مانگ کر خود ہی چلا آتا ہو گا۔
ادھر علامہ صاحب حضرو میں رات کے ڈیڑھ بجے سوتے گرفتار ہوئے، صبح کیمبل پور لائے گئے، ۱۲ بجے عدالت میں پیش ہوئے۔ ابھی لیڈری کا نشہ سوار تھا کہ عدالت نے کہا کہ تم ضمانت دے کر رہا ہو سکتے ہو۔ فرمایا کہ وطن عزیز کی عزت اسی میں ہے کہ میں عدالت کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کروں، پھر خیال آیا کہ ’’سال کی قید‘‘ دنیا آنکھوں تلے اندھیر ہو گئی، معاً کہا کہ دوسری پیشی وکیل کا انتظام کروں گا۔ عدالت نے تین دن کی مہلت دی کہ تاریخ ڈال دی، علامہ صاحب واپس جیل میں آئے، نئی اور اداس دنیا میں جہاں قہقہوں کی بجائے محض سرد آہیں تھی۔ علامہ جیسے بے غم اور لا اُبالی کا گزارہ کیسے ہو، جیل میں داخل ہوتے ہی قیادت کے نشے آہستہ آہستہ ہرن ہونے شروع ہوئے۔ ایک کوٹھڑی میں بند کر کے تالا لگا دیا گیا تو دن کو تارے نظر آنے لگے، اﷲ میں کس مصیبت میں مبتلا ہو گیا۔ بروئے انجیل حضرت عیسیٰ کے بے تابی کا خیال آیا تو یہ بھی اپنی مصیبت کے وقت خدا کو پکارنے لگے ، (اے خدا، اے خدا کیا تو مجھے بھول گیا)، لیکن جو جوش و سرمستی میں خدا کو اور اپنی ہستی کو بھول جائے، خدا اس کی پکار کیوں کر سنے۔ علامہ اپنی زاری کی صدائے باز گشت کے سوا کسی اور مددگار کی آواز نہ سن کر گھبرا گئے اور آئندہ پیشی پر ناک رگڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
ایک دن صبح کے وقت ہندو مسلمان کارکن آئندہ پروگرام پر سوچ بچار کرنے کے لیے دفتر میں جمع تھے۔ کانگرس خلاف قانون تھی۔ ہم دروازے بند کر کے مصروفِ مشورہ تھے۔ یک بیک زور زور سے دروازہ کی زنجیر کھٹکٹانا شروع ہو گئی۔ اندیشہ ہوا، کہ پولیس نے مکان کو گھیر لیا، ہم گرفتاری کے لیے ہر وقت تیار تھے۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو علامہ حسین میر صاحب منہ لٹکائے پاپوش در بغل ایستادہ تھے۔ پاجامہ اوپر چڑھا کر منہ بسورتے ہوئے بولے، او چودھری! یار جیل خانہ تو بالکل بک بک ہے۔ میں تو اس پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں۔
استعفیٰ اور جیل:
تمام اعلیٰ طبقے کے سیاسی قیدی گجرات کی نو تعمیر جیل میں مقید تھے۔ میں گاہے بگاہے وہاں جاتا۔ ایک دن جیل کا معائنہ کرنے لگا تو سپرنٹنڈنٹ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کا حکم دکھایا کہ مجھے کسی جیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، دو دن کے بعد مجھے انسپکٹر جنرل کا ذاتی خط آیا کہ آپ کے خلاف کچھ الزامات ہیں۔ ان کی جواب دہی کے لیے آپ مجھے شملہ ملیں۔ میں نے جواب میں لکھا کہ میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں۔ میرے خلاف جو الزامات ہیں، وہ مجھے لکھے جائیں، ان کا جواب میں براہِ راست گورنر کو لکھوں گا، مجھے کامل یقین ہے کہ میرا دامن ہر طرح سے پاک ہے۔ البتہ حکومت میری مداخلت سے محفوظ ہونا چاہتی ہے اور کسی عذر لنگ کی بنا پر مجھے جیل کے معائنہ سے محروم کرنا پسند کرتی ہے۔
آخر طویل خط و کتابت کے بعد انسپکٹر جنرل مجبور ہوا کہ مجھے الزامات کی فہرست روانہ کرے، میرے خلاف الزام یہ تھا کہ میں نے جیل میں ایک خان بہادر ڈپٹی جیلر سے راز داری کے طور پر کہا کہ انگریزوں کو ’’ڈز ڈز‘‘ سے سیدھا کیا جائے۔ یہ مضحکہ خیز الزام اس ملازم جیل کے حلفیہ بیان کی بنا پر تھا۔ حکومت کو یہ بھی خوب معلوم تھا کہ میں اس ملازم کے خلاف مسلسل تین ماہ سے کھلم کھلا مخالف رپورٹیں اس کے رجسٹر پر لکھ رہا تھا۔ اس کے پاس ایسے عذر تراشنے کے سوا چارہ کار نہ تھا۔ میں نے گورنر ان کونسل کو اس مضحکہ خیز الزام کی تردید میں طویل مراسلہ لکھا۔
حکومت کا الزام بہتان سے کم نہ تھا۔ اس لیے میں نے اخبارات میں بھی چیلنج کیا کہ اس مقدمہ کو کسی عدالت میں لے جاؤ، بہرحال پنجاب کونسل نے حکومت کے خلاف ملامت کے ووٹ پاس کر کے اپنی دانش مندی کا ثبوت دیا اور میری مناسب براء ت ہو گئی۔
تمام اسمبلی کے آزاد خیال مسلمان اور ہندو استعفے داخل کر کے جیل جا چکے تھے۔ اس الزام کی جوابدہی کے بعد میں بالکل آزاد ہو گیا اور گورنر کو استعفیٰ بھیج دیا، میں کونسل کا ممبر نہیں رہنا چاہتا۔ ۱۹۳۰ء میں کانگرس ورکنگ کمیٹی خلاف ضابطہ قرار دی گئی۔ مولانا آزاد نے اپنی گرفتاری پر مجھے آل انڈیا کانگرس ورکنگ کمیٹی کا ممبر نامزد کر دیا۔
اب تو بلاتاخیر قید ہونے کا وقت آ گیا۔ اعلان ہوا کہ خلاف قانون ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر انصاری کی صدارت میں ان کی کوٹھی پر ہو گا۔ میں مختصر سا اسباب درست کر کے دہلی پہنچا۔ ابھی ہم اکٹھے ہوئے ہی تھے کہ پولیس نے مکان کا محاصرہ کر لیا اور ہم سب ارکان گرفتار کر لیے گئے اور کاروں پر سوار کر کے جیل پہنچا دیے گئے۔ ورکنگ کمیٹی کا کوئی ممبر غیر حاضر نہ تھا۔ ڈاکٹر انصاری، پریذیڈنٹ پٹیل، پنڈت مالویہ، ڈاکٹر بدخان چند، سردار منگل سنگھ، لالہ دنی چند تمام اصحاب وہاں موجود تھے۔
(جاری ہے)