شیخ راحیل احمد مرحوم
مرزا غلام اے قادیانی، بانی جماعت (احمدیہ) کی زندگی، تحریروں اور اقوال، غرضیکہ ہر پہلو سے تضادات سے بھرپور تھی۔ اس طرح کی اور اتنی متناقض زندگی شاید ہی کسی کی ہو۔ بانی جماعت نے، ایک جگہ جو بات کہی یا لکھی، دوسری جگہ اس کی تردید یا اس کے متناقض بات لکھ دی یا کہہ دی۔ اور اس سلسلے میں نہ تو عام آدمی اور نہ ہی کوئی اُمت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ اور نہ ہی انبیاءِ کرام کو ان ’’سلطان الظلم‘‘ کے قلم کے ظلم سے پناہ ملی۔
ایک طرف امت مسلمہ کے عقائد سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور دوسری طرف انہی عقائد کی جڑوں پر حملہ کرتے ہوئے قرآن و سنت کی تشریح کے نام پر غلط عقائد وضع کرتے ہیں۔
ایک طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت اور ختمِ نبوت کا اقرار کرتے ہیں، دوسری طرف اس کی تشریح میں خاتمیت کو اپنے لیے مخصوص کر لیتے ہیں۔
ایک طرف عصمتِ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہیں، دوسری طرف انھی انبیاء کی عصمت تار تار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایک طرف قرآن کریم کی صحت کا اقرار کرتے ہیں، دوسری طرف اسی قرآن کی آیات میں نہ صرف تحریف کرتے ہیں بلکہ ان کو شکوک میں ڈالتے ہیں۔
ایک طرف احادیث کو مانتے ہیں، دوسری طرف انھی احادیث کو (نعوذ باﷲ) کوڑے کا ڈھیر قرار دیتے ہیں۔
ایک طرف ایک بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، دوسری طرف ساری عمر دوسری بیوی کے حقوق غصب کرتے ہیں۔
ایک طرف اسلام کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف انھی مسلمانوں کے ساتھ تعلقات سے اپنے پیروکاروں کو منع کرتے ہیں۔
ایک طرف اپنے ڈاکٹر سالے کو بوڑھی انگریز عورت سے مصافحہ کرنے سے بھی منع کرتے ہیں، دوسری طرف خود پوری رات تنہائیوں میں ناکتخدا لڑکیوں سے ذاتی خدمت اس طرح کرواتے تھے کہ ان کو سرور میں نہ تھکن ہوتی تھی نہ نیند اور نہ غنودگی۔
اسی طرح ایک طرف دشنام طرازی کو سخت برا کہتے ہیں، دوسری طرف اسی دشنام طرازی سے مخالفو کا سینہ چھلنی کرتے ہیں۔
اس طرح مرزا صاحب کو بلا تکلف اور بلا توقف تضادات کا ابدی شہنشاہ کا خطاب دیا جا سکتا ہے۔
یہ علیحدہ بات کہ مرزا صاحب اپنے ہی دیے ہوئے معیار کے مطابق ہمیں اور ہر سمجھ دار کی نظر میں ایک مخبوط الحواس شخص قرار پائیں۔ کیونکہ مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے‘‘۔ (ضمیمہ حقیقت الوحی، رخ جلد۲۲، صفحہ ۱۹۱)۔ شاید یہ بھی بات ہو کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔
اس آرٹیکل میں ہم آپ کے سامنے ان کی چند گل افشانیاں پیش کریں گے، اگر سب کو اکٹھا کریں تو یہ ایک پورے رسالے کا مواد بن جائے گا، مگر یہاں ہمارا مقصد اپنے مؤقف کی تائید کے لیے صرف مرزا صاحب کی دشنام دہی کے کچھ نمونہ جات کو دکھانا ہے۔ ویسے بھی تو دیگ سے چاول کے چند دانے ہی بتا دیتے ہیں کہ اندر کیا ہے؟
قرآن کریم کے اس حوالے کو پیش کرتے ہوئے ہم مضمون شروع کرتے ہیں۔
’’قُلْ لِعَبَادِیْ یَقُوْلُ الْتِیْ ہِیَ اَحْسَن اِنَّ الْشَیْطَانَ یَنْزِغُ بَیْنَہُمْ اِنَّ الْشَیْطَانَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ ‘‘
یعنی اے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میرے بندوں کو کہہ دیں کہ بات بہت ہی اچھی کیا کریں، سخت کلامی سے شیطان ان میں عداوت ڈلوا دے گا، بے شک شیطان انسان کا کھلا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اس آیت کے پیش کرنے کا مقصد برکت کے علاوہ اس مضمون سے اس کا ہر طرح کا تعلق بھی ہے۔ نیزمرزا صاحب کا دعویٰ عام مسلمان کا نہیں بلکہ ایسی ہستی ہونے کا ہے، جس کو خدا نے ہر ذی روح سے زیادہ قرآن کریم کے معانی سکھائے ہیں۔ اس مضمون سے ان کے اس دعویٰ کا بھی صحیح اندازہ ہو جائے گا۔
حدیث شریف چونکہ قرآن کریم کی تشریح ہے، اس لیے بہتر سمجھا گیا کہ اس کو بھی پیش کر دیا جائے۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ ’’جب کسی سے اس کا جھگڑا ہو جائے تو گالیاں دینے لگتا ہے‘‘۔ آئندہ سطور سے ان شاء اﷲ یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کیا مرزا صاحب حدیث کے مطابق مومن بھی دور کی بات لگتی ہے، منافق تو نہیں؟
دشنام دہی……؟ نہ نہ:
مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ تو سخت زبان استعمال کرتے ہیں اور ان کے منہ یا قلم سے کبھی بھی کوئی دشنام دہی نہیں ہوئی۔
مرزا صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’ میں سچ سچ کہتا ہوں، جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا، جس کو دشنام دہی کہا جائے‘‘ ۔ (ازالہ اوہام، رخ جلد۳، صفحہ ۱۰۹)
ایک دوسری جگہ اپنے اس عمل کی توجیح یا تشریح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں ’’قوت اخلاق، چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلو ں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو۔ اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہو سکے۔ اور جو امام الزمان کہلا کر ایسی کچھ طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتا ہے، آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں، وہ کسی طرح بھی امام الزمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت انک لعلیٰ خلق عظم کا پورے طور پر مصداق آجانا ضروری ہے‘‘۔ (ضرورت الام، رخ جلد ۱۳، صفحہ ۴۷۸)
آئیے ہم مرزا صاحب کے افکار کی روشنی میں مختصر جائزہ لیں کہ وہ کہاں تک اپنے ہی تسلیم اور بیان کیے ہوئے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہوگی کہ ہم بجائے فیصلہ دینے کے حقائق پیش کریں اور فیصلہ آپ پر چھوڑ دیں۔ کہیں کہیں آپ کو ہماری رائے اور رد عمل بھی ملے گا، مگر ہم نے حتی الامکان فیصلہ اور نتیجہ پڑھنے والے پر چھوڑا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ یہ سلطان القلم ہیں یا شیطان القلم؟
اظہارِ ندامت یا دھمکی:
مرزا صاحب کی اپنے ہم مکتب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے بڑی گاڑھی چھنتی تھی، بعد میں چپقلش ایک لمبا عرصہ چلتی رہی۔ یہ وہی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں جنھوں نے چینیاں والی مسجد لاہور کی اپنی امامت، اپنے حلقہ احباب اور اپنے رسالہ اشاعت السنہ نیز اشتہاروں کے ذریعے بے پناہ پروپیگنڈہ کر کے مرزا اور اس کے منصوبوں کو پبلک میں رگیدا۔ مقابلہ بازی کے دوران بٹالوی صاحب کے مقابلہ میں کسی قدر درشت زبان بھی استعمال ہوتی تھی۔ کسی موقع پر زیادہ ہی سخت زبان استعمال کر کے احساس ہوا کہ، طے شدہ حدود سے تجاوز ہو گیا، اس تجاوز پر اب کیسی ندامت کا اظہار ہو رہا ہے کہ ساتھ ہی حشر نشر کی دھمکی بھی ہے۔ ’’میں نادم ہوں کہ نااہل حریف کے مقابلے نے کسی قدر مجھے درشت الفاظ پر مجبور کیا، ورنہ میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔ مگر بٹالوی اور اس کے استاد نے مجھے بلایا۔ اب بھی بٹالوی کے لیے بہتر ہے کہ اپنی پالیسی بدل لیوے اور منہ کو لگام دیوے ورنہ ان دنوں کو رو رو کے یاد کرے گا‘‘۔
(آسمانی فیصلہ، رخ جلد، صفحہ ۳۲۰)
اب آپ دیکھیں کہ یہ ایک ایسے شخص کا اظہار ندامت ہے، جو سلطان القلم ہی نہیں بلکہ ساتھ میں امام الزمان ہونے کا دعوے دار ہے اور جس کے منہ میں ذرا سی بھی جھاگ نہیں آنی چاہیے۔
کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر انسان حقیقی ندامت محسوس کر رہا ہو تو آئندہ کے لیے پھر یہی فعل دہرانے کی دھمکی بھی ہو اور دھمکی بھی ایسی کہ مخالف کو روتے بن نے پڑے گی۔ اس کو کیا کہا جائے گا، اظہارِ ندامت یا آئندہ کے لیے دھمکی؟
یہ تو ایک عام آدمی کے لیے بھی کوئی باعث فخر نہیں اور کجا وہ شخص ایسی بات کرے جس کادعویٰ یہ ہو، وہ نبی ہے اور نبی بھی ایسا جس کی خبر تمام صحیفے دے رہے ہیں؟
بات صرف دھمکی تک ہی نہیں رہتی بلکہ انھی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے متعلق لکھتے ہوئے کیسے اپنی دھمکی کو پہناتے ہیں۔ ’’کذاب، متکبر، سربراہِ گمراہان، جاہل، شیخِ احمقاں، عقل کا دشمن، بدبخت، طالع منحوس، لاف زن، شیطان گمراہ، مفتری‘‘۔ (انجام آتھم، رخ جلد ۱۱، صفحہ ۲۴۱۔ ۲۴۲)۔ ویسے مرزا صاحب عدالت میں بھی اقرار نامہ پر دستخط کر کے آئے تھے کہ میں محمد حسین بٹالوی کی آئندہ ہجو نہیں کروں گا۔
لعنت بازی:
مرزا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’لعنت بازی صدیقوں کا کام نہیں ہوتا، مومن لعان (لعنت کرنے والا) نہیں ہوتا‘‘۔ (ازالہ اوہام، رخ جلد ۳، ص ۶۶۰)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ علاوہ اپنی کتابوں میں کئی جگہ دوسروں پر لعنت ڈالنے، کہ ایک کتاب میں چار صفحے صرف ایک ہی لفظ لعنت سے بھرے ہوئے ہیں۔ ۱۔ لعنت، ۲۔ لعنت، ۳۔ لعنت (اسی طرح لکھتے ہوئے، ناقل) لعنت ۵۰۵ لعنت، ۹۷۰ غرضیکہ مکمل ایک ہزار تک گنتی پورے کرتے ہوئے ۱۰۰۰ پر جا کر قلم روکتے ہیں‘‘۔ جہالت کی انتہا دیکھنے کے لیے دیکھیے یہ حوالہ: (نور الحق، رخ جلد۸، ص ۱۵۸ تا ۱۶۲)
دوسری مثال بھی حاضر ہے ’’مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں۔ خاص کر رئیس الدجالین عبدالحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ، علیہم نعال لعن اﷲ الف الف مرۃ ‘‘(انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص ۳۳۰)
ایسے شخص کو نبی ماننے والو! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤں کہ کوئی نارمل شخص بھی اس طرح لکھتا ہے ، کجا وہ شخص جو کہ امام الزماں ہونے کا دعوے دار ہو اور کیا اس طرح لعنت ڈال کر خود اپنے کہنے کے مطابق صدیق تو دور کی بات مومن بھی رہ گیا ہے؟
اور جلد ۱۸ میں لکھتے ہیں ’’ محمد رسول اﷲ سے مراد میں ہوں‘‘۔ (استغفر اﷲ)، کیا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اس طرح عقل و خرد سے عاری ہو کر لعنتیں ڈالی تھیں؟
حدیث شریف میں آیا ہے ’’حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لعنت کرنے والوں سے نہ تو قیامت کے دن شہادت لی جائے گی اور نہ وہ کسی کے شفیع ہو سکیں گے۔ بحوالہ صحیح مسلم۔
اب آپ بتائیں کہ کیا یہ ممکن ہے کسی کو نبی کے درجہ پر فائز کر کے اﷲ تعالیٰ اس سے دوسروں پر بے جواز لعنتیں بھی ڈلوائے اور وہ بھی پاگلوں کی طرح گنتی کر کر کے ، اور کیا یہ ممکن ہے کہ نبی سے قیامت والے دن اس کی اُمت یا ماننے والوں کے بارے میں شہادت نہ لی جائے۔ اب یا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول غلط ہے (نعوذ باﷲ) یا پھر (یقیناً) مرزا صاحب اور ان کا دعویٰ نبوت غلط ہے، کیونکہ نبی لعّان نہیں ہو سکتا۔ بلکہ شریف آدمی بھی لعان نہیں ہو سکتا۔
دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت:
مرزا صاحب کی کتابوں کو پڑھیں تو ہر تقدس اور عظمت ان کی ذات پر ختم ہوتی نظر آتی ہے، اور جب سیرت مرزا پر نظر ڈالو تو غلاظتوں، ادنی خواہشوں، لالچ، دجل، تحریف، تضاد اور جھوٹ کے گوہ میں لتپڑا ہوا وجود ملتا ہے۔ ان کی تیار جماعت پر نظر ڈالو تو منافقت، تاویلات، جھوٹ کے بادبانوں سے مزین کشتی چندہ میں گہری تاریکیوں میں غوطے کھاتا ہوا انجام سے بے خبر گرو، جس میں کسی سوار کو یقین نہیں کہ کسی اندھیری منزل تک بھی پہنچے گا یا نہیں، کیونکہ جب ناخدا کا مزاج چاہے کسی کو بھی کشتی سے باہر پھنکوا دے۔ اس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ مرزا صاحب اور ان کا تیار کردہ گروہ ایک ہی کام کر سکتا ہے اور وہ ہے منافقت یعنی دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔
٭ مرزا صاحب نصیحت کرتے ہیں کہ ’’کسی کو گالی مت دو، گو وہ گالی دیتا ہو‘‘۔ (کشتی نوح، رخ جلد ۱۹، صفحہ ۶۱)
اور اس نصیحت پر عمل درآمد کرنے کے لیے اپنی ذاتی مثال دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں ’’میں نے جوابی طور پر بھی کسی کو گالی نہیں دی‘‘۔ ( مواہب الرحمن، رخ جلد ۱۹، ص ۲۳۶) ۔
دیکھتے ہیں کہ جس بات سے دوسروں کو منع کر رہے ہیں اور اتنے دھڑلے سے دعویٰ کر رہے ہیں، اس پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے؟ کچھ مثالیں حاضر ہیں، فرماتے ہیں:
’’اے بدذات فرقہ مولویاں! تم کب تک حق کو چھپاؤ گے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت چھوڑ دو گے۔ اے ظالم مولویو! تم پر افسوس! تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا‘‘۔ (انجام آتھم، رخ جلد ۱۱، صفحہ۲۱)
’’مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں‘‘۔
(انجام آتھم، ضمیمہ، رخ جلد ۱۱، صفحہ ۳۰۹)
ٰؒ ’’تو کیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہو جائیں گے، ان بے وقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی۔ اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی۔ اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے‘‘۔
(انجام آتھم، رخ جلد ۱۱، ص ۳۳۷)
’’ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ اے بد ذات یہودی صفت پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا، اور ساتھ ہی تیرا بھی۔ اور پادریوں پر ایک آسمانی لعنت پڑی اور ساتھ ہی وہ لعنت تجھ کو کھا گئی۔ اگر تو سچا ہے تو اب ہمیں دکھلا کہ آتھم کہاں ہے۔ اے خبیث کب تک تو جئے گا‘‘۔ ( انجام آتھم، رخ جلد۱۱، ص ۳۲۹) ۔
(جاری ہے)