مولانا منظور احمد آفاقی
مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں مرزا قادیانی نے ایک ’’فیصلہ کن خط‘‘ بھیجا تاکہ (بزعم خویش) حق اور باطل میں امتیاز ہو جائے، چنانچہ یہ امتیاز ایسا ہوا کہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو گیا، مرزا صاحب کا خط ملاحظہ فرمائیے۔
بخدمت مولوی ثناء اﷲ صاحب۔ السلام علی من اتبع الہدیٰ۔
مدت سے آپ کے پرچہ ’’اہلحدیث‘‘ میں میری تکذیب اور تفسیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ اپنے اس پرچہ میں مردود و کذاب ، دجال، مفسد کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ اور دنیا میں میری نسبت شہرت دیتے ہیں کہ یہ شخص مفتری، کذاب اور دجال ہے اور اس شخص کے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سراسر افترا ہے۔ میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرتا رہا۔ مگر چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ حق پھیلانے کے لیے مامور ہوں۔ اور آپ بہت سے افتراء میرے پر کر کے دنیا کو میری طرف آنے سے روکتے ہیں۔ اور مجھے ان گالیوں اور ان تہمتوں اور ان الفاظ کے ساتھ یاد کرتے ہیں، کہ جن سے بڑھ کر کوئی لفظ سخت نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ایسا ہی کذّاب اور مفتری ہوں، جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفتری اور کذّاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہے، تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کر سکے۔ اور اگر میں کذّاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ آپ سنت اﷲ کے کے موافق مکذّبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں، بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ جیسے طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں،آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں، بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے مالک! بصیر و قدیر جو علیم و خبیر ہے۔ جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے۔ اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افترا ہے تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے آمین۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا! اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے، حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون و ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے روبرو گالیوں اور بدزبانیو ں سے توبہ کرے، جن کو فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین! میں ان کے ہاتھ سے بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی۔ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں، جن کا وجود دنیا کے لیے سخت نقصان رساں ہوتا ہے۔ اور انھوں نے ان تہمتوں اور بد زبانیوں میں آیات ’’ لا تقف ما لیس لک بہ علم ‘‘ پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھے بدتر سمجھ لیا۔ اور دور دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد اور ٹھگ اور دکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بد آدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات حق کے طالبوں پر بداثر نہ ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثنا ء اﷲ انہی تہمتوں کے ں ذریعے سے میرے سلسلے کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے، جو تونے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لیے اب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذّاب ہے، اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے۔ یا کسی اور نہایت سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر۔ اے میرے پیارے مالک! تو ایسا ہی کر، آمین ثم آمین۔ ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین۔ آمین۔
بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
الراقم عبداﷲ الاحد میرزا غلام احمد مسیح موعود، عافاہ اﷲ و ایّدہ
مرقومہ یکم ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ ……۱۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء
٭……٭……٭
بعد ازاں مرزا صاحب نے اس خط کو بصورت اشتہار شائع کرایا تھا۔
اس اشتہار کی تاریخ اشاعت سے ایک سال ایک ماہ اور بارہ دن بعد مرزائے قادیان خود اپنی دعا یا پیشگوئی کے بعد سچے کی زندگی میں بمرض ہیضہ مہلکہ ہلاک ہو گئے تھے۔ اور ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو اپنے کذب کی تکذیب پر مہر تصدیق لگا کر ثابت کر گئے کہ جھوٹے مدعی سچوں کی زندگی میں تباہ ہوا کرتے ہیں۔ حضرت مولانا ثناء اﷲ صاحب ہلاکتِ مرزا کے بعد برابر چالیں سال تک زندہ رہے اور مرزائیوں سے بحثیں اور مناظرے کرتے رہے۔ مگر ان کو اﷲ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ تکذیب مرزا کی وجہ سے ان کوذرا سی بھی آنچ نہ آئی۔ خدائے حفیظ نے انھیں طاعون، ہیضہ وغیرہ امراضِ مہلکہ سے بچایا۔
اور جو شخص اپنے دعاویٔ باطل کے ساتھ میدان میں کودا اور حضرت مولانا کو شکار کرنا چاہا، وہ اپنے دام میں آپ ہی آ گیا۔ مرزائی دوست اس سبز اشتہار کے متعلق اکثر کہا کرتے ہیں، کہ چونکہ مرزا صاحب نے اس میں یہ شرط رکھی تھی، کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب توبہ کر لیں گے تو ان پر عذاب نازل نہ ہو گا اور امراضِ مہلکہ سے محفوظ رہیں گے۔ لہٰذا مولوی ثناء اﷲ صاحب خوف کی وجہ سے تائب ہو گئے اور ہلاکت سے بچے رہے۔ مگر جب مرزائیوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ مولانا کی کوئی ایسی تحریر پیش کریں، جس سے ان کی توبہ ثابت ہو جائے تو ٹامک ٹوئیاں مار کر چپ سادھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مولانا مرحوم ہمیشہ قادیانیوں کو للکارتے رہے کہ ’’ ہاتوا برھانکم ان کنتم صادقین‘‘ اگر تم سچے ہو اور تمھارا پیغمبر بھی سچا ہے، تو میرا ’’توبہ نامہ‘‘ سر اجلاس پیش کرو اور ثبوت دو۔ لیکن مرزائیوں سے کبھی اس کا جواب بن نہ آیا، انھوں نے اندھے کی طرح اندھیرے میں بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور پلے پڑا تو یہی کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو چکا ہے۔
مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ چودھویں صدی آخری زمانہ ہے یعنی مسیح و مہدی کے ظہور کا یہی زمانہ ہے، لوگ جس مسیح و مہدی کا انتظار کر رہے ہیں وہ تو ظاہر نہیں ہوئے، لہٰذا میرے دعویٔ مسیحیت و مہدویت کو تسلیم کر لو، لیکن چودھویں صدی کے اختتام اور پندرھویں صدی کے آغاز نے ان تمام دعوں پر پانی پھیر دیا ہے اور ثابت ہو گیا ہے کہ چودھویں صدی آخری زمانہ نہیں تھا۔ پندرھویں صدی کے بھی چالیس سال گزر چکے ہیں ، ممکن ہے کہ پندرھویں صدی بھی آخری زمانہ نہ ہو، بلکہ اس کے اختتام پر سولہویں صدی شروع ہو جائے۔ آخری زمانہ قیامت کے ساتھ متصل ہو گا۔ اُسی آخری زمانے میں حضرات مسیح و مہدی ظاہر ہوں گے، وہ چالیس سال اس دنیا میں بسر کریں گے اس کے بعد قیامت آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب آخری زمانے میں حقیقی مسیح حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اور حقیقی امام مہدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ظاہر ہوں گے تو اُمتِ مرزائیہ کا ردِّ عمل کیا ہو گا؟ اگر کسی مرزائی میں ہمت ہو تو وہ ’’نقیب ختمِ نبوّت‘‘ کی معرفت راقم الحروف کی طرف اس سوال کا جواب (تحریری طور پر) بھیج دے۔
جواب کا منتظر ، راقم الحروف
منظور احمد آفاقی (خطیب)
۵؍ صفر ۱۴۴۱ھ ……۵؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء
نوتک محمید ضلع ڈیرہ غازی خان
پوسٹ کوڈ: ۳۲۴۰۱