آغا شورش کاشمیری مرحوم
کل اذان صبح سے پہلے فضائے قدس میں میں نے دیکھا کچھ شناسا صورتیں ہیں ہم نشیں
تھے حکیمِ شرق سے شیخ مجدد ہم کلام گوش بر آواز سب دانشورانِ علم ودیں
بوا لکلام آزاد سے غالب تھے مصروف سخن میر ومومن دورِ حاضر کی غزل پہ نکتہ چیں
اس سے کچھ ہٹ کر گلابی شاخچوں کی چھاؤں میں تھے ولی اﷲ کے فرزند نکتہ آفریں
ایستادہ سرو کے سائے میں تھے مولائے روم جن کے فرمودات میں مضمر ہیں آیات مبیں
سوچ میں ڈوبے ہوے تھے حالی درویش خُو باندھ کر بیٹھے تھے حلقہ شبلی عہد آفریں
میں نے بڑھ کر مرشد اقبال سے یہ عرض کی آپ کو ہم تیرہ بختوں کی خبر ہے یا نہیں
دل شکستہ ہو کہ فرمایا مجھے معلوم ہے بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
سلطنت لے کر خدا و مصطفی کے نام پر اب خدا و مصطفی کی راہ پر کوئی نہیں
ہے ابھی شہباز کی غیرت پہ کرگس خندہ زن ’’ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں‘‘
اس سے بڑھ کر اور کیا فکروعمل کا انقلاب ’’پادشاہوں کی نہیں اﷲ کی ہے یہ زمیں‘‘
کون سمجھائے اندھیری رات کو آئین مہر وائے بدبختی کہ خود مومن ہےجاؤ مشرق کے
خراب آباد کو روشن ک محروم یقیں خون دے کر خانۂ صیاد کو روشن کرو