ابن امیر شریعت، مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
وہ شخص جواپنے آپ کومسلمان کہتاہے اسے کسی صورت میں یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ مسلمان کہلاتے ہوئے صرف دنیاکی زندگی کے لیے وقف ہوکے رہ جائے۔ صرف دنیاکی زندگی کے لئے جدوجہد تو کافروں اور مشرکوں کا مطمح نظر ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی حیات طیبہ پر ان کا عقیدہ ویقین نہیں ہے اور مسلمان کہلانے والوں کا تو یقین ہی یہ ہے کہ
اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِن ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔‘‘(الحدیث)
اَلدُّنْیَامِزْرَعَۃُ الْاَخِرَۃ ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ (الحدیث)
مؤمن کے لیے دنیا کی زندگی قید کی طرح ہے جو سعی وجہد اور محنت ومشقت سے عبارت ہے اور آخرت کی زندگی ‘اصل زندگی ،دائمی آزادی اور انعامات سے بھرپور نتائج والی زندگی ہے۔یعنی کاشت دنیامیں کرنی ہے اورکٹائی موت کے بعد۔ مسلمانوں کی ساری جدوجہدکاخلاصہ ہی یہ ہے کہ دنیامیں زندگی کے تمام شعبوں میں جہد ِ ِللبقاء ،اورارتقاء کے نام پرجتنی محاذآرائی کی جارہی ہے ‘اس محاذآرائی کارخ موڑدیاجائے اوراس جہدِللبقاء اورارتقاء انسانی کامرکزی فکرجہدِللعقبیٰ بنادیاجائے ……مگرہم دیکھتے ہیں کہ آج کاانسان ایک مرتبہ پھرترقی ،ارتقاء ،اکتشافات ،اورعلم کے زَعم میں تنزل ،رجعت ،گم گشتگی اورجہالت کے لق ودق صحرااوروادیٔ فنامیں اترجانے کے لیے سرپٹ دوڑرہاہے۔
ان حالات میں مجلس احراراسلام کی دعوت یہ ہے کہ عام مسلمان جوغفلت و خواہشات کی ابلیسی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ‘انھیں جھنجھوڑا ،جگایااورآزاد کرایا جائے۔ محض دنیاکی جھوٹی تمناؤں میں گھری ہوئی امت کی کشتی کوساحل ِ مرادتک پہنچایاجائے۔ تاکہ امت کودنیاوی سلامتی واخروی فلاح ونجات مل سکے ۔دنیامیں سلامتی اورآخرت میں نجات صرف اسی صورت میں ممکن ہے‘ جب ہم مل کرایک مـضبوط طریقہ کارسے اپنے آپ کوانبیاء، صدیقین، شہداء اورصالحین کی روشن راہ پرڈالیں۔کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس پرچل کرمنزل مرادحاصل کی جاسکتی ہے ۔یہی وہ راستہ ہے جسے قرآن کریم نے واضح اوردوٹوک الفاظ میں بزبان حضور خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم یوں بیان فرمایا:
وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(الانعام:۱۵۳)
’’تحقیق بے شک وشبہ یہ میراراستہ ہی سیدھاراستہ ہے(صراطِ مستقیم ہے)تم اسی راہ پرچلواوردوسرے راستوں پرمت چلو(دیگرنظامِ زندگی مت اپناؤ)پس وہ تمہیں اس سیدھے راستے سے جدا کر دیں گے۔ اسی کی تاکیدہے تمہیں تاکہ تم دوسرے راستوں سے بچو۔‘‘
اس راستے کے تمام راہ نوردوں کویہ بات ہروقت پیشِ نظررکھنی چاہیے کہ اس راستے پرچلتے ہوئے قربانی وایثارکی بلندصفتیں اپنے اندرپیداکرنابہت ضروری ہیں۔کیوں کہ انبیاء،صدیقین ،شہداء اورصالحین کی دیگرصفاتِ عالیہ کے ساتھ ساتھ ایثاروقربانی ان کی بنیادی خصوصیت اورصفت قراردی گئی ہے۔
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر:۹)
’’اوروہ اپنی جانوں کاایثارکرتے ہیں اگرچہ خودفاقہ سے ہوں۔‘‘
ہم نے جب اس راستہ پرچلنے کاقصدکیاہے اورمنزل تک پہنچنے کاعزم کیاہے توپھرہمیں بھی ایثارکرناہے ،کس چیزکاایثار؟
وقت ،مال اورجان کاایثار
ہمت،توانائی اورعزم کاایثار
ذہانت ،دیانت اورشعورکاایثار
غرض یہ کہ وہ تمام توانائیاں جوانسانی معاشرہ کے باطنی حسن وجمال کواجاگرکریں
اورسماج کے ظاہری نظام کورعنائیاں بخشیں اورامت کوصراطِ مستقیم پرلے آئیں۔اس راہ میں بغیر کسی دنیاوی لالچ کے قربان کردی جائیں۔کیوں کہ امت کوصراطِ مستقیم پرلانے کا کام ایسا خوبصورت، حسین وجمیل ،پرکشش ،سہانااورمن بھاوناہے کہ اس پرمال وجان نثار کردئیے جائیں تو یہ سودا سستا ہے مہنگانہیں۔
لیکن ا س کایہ مطلب بھی نہیں کہ جاوبے جا اپنی توانائیاں ضائع کی جائیں بلکہ حالات کا جائزہ لے کرمستقبل کے نتائج پرغوروفکرکرکے پھرعملی قدم اٹھایاجائے تاکہ بے تدبیری کاخمیازہ نہ بھگتناپڑے ۔
بہ قول حضرت سعدی شیرازی رحمہ اﷲ :
زمینِ شور سنبل برنیارد
در و تخم عمل ضائع مگر دان
شور،کلراورسیم زدہ زمین پھول نہیں اُگاتی۔ اس میں عمل کابیج ڈال ڈال کے بیج بربادنہ کر۔
اورحضوررحمت اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کواﷲ پاک نے فرمایا:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعراء:۳)
’’شایدآپ ان کے ایمان نہ لانے کے غم میں رنج کرتے کرتے جان دے دیں گے۔ ‘‘
یعنی ان کی پروااورفکرچھوڑیں۔آپ کے ذمہ صرف بلاغ وابلاغ ہے ۔اس راہ کی مشکل گھاٹی بھی یہی ہے کہ صراطِ مستقیم پرامت کولاتے لاتے آدمی تھک جاتاہے اورحالت کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ چہرہ پژمردہ، اعصاب شکستہ، دل گرفتہ، تھکا تھکا سا، اندر سے ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا آدمی، کھویاکھویاسانظرآتاہے مگراس کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ اورکسی کومنواناہمارے ذمہ نہیں بلکہ پکارنا، بلانا، صدا لگانا ہمارے ذمہ ہے اور بس، دلوں کی دنیا بدلنے والاصرف اﷲ ہے اوروہی ہے جوخزاں کوبہارمیں بدلتاہے۔ پس اپنی ظاہری محنت کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سربسجود ہو کر ہدایت کی بھیک مانگنایہ بھی فرض ہے۔ گویاہدایت عامہ کے لیے اجتماعی دعا ودرخواست انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کاشیوہ ہے۔ ظاہری وسائل کی فراوانی اس وقت تک ہدایت پیدا نہیں کرتی‘ جب تک آہِ نیم شبی اوردعا سحرگاہی کاآمیزہ ان وسائل کی روح نہ بن جائے اوریہی وہ دعوت ہے جورنگ لائے بغیرنہیں رہتی۔پھرہماری دعوت تورہبانیت سے پاک ہے۔ ہم تو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کا رخ موڑناچاہتے ہیں مگرایسے کہ آدمی نہ تودنیااوراس کی لذتوں کابھکاری بن کر رہ جائے اور نہ ہی لبادۂ مکراوڑھ کرلوگوں کی آرزؤں کاقتل کیاجائے اورنہ ہی کارکنوں کومعاشی مصیبتوں میں گرفتار کر دیا جائے بلکہ صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی معیارحق حیا تِ طیبہ کی اتباع کرتے ہوئے یہ دعوت عام کرنی ہے۔
ہماری تمام گزارشات آپ نے پڑھ لیں۔ان پردل کی گہرائی میں ڈوب کر غور و فکر کریں۔ پھر قلزمِ دل سے اٹھنے والی صداء لاہوتی پرلبیک کہتے ہوئے ایک جذبۂ صادقہ سے مرصع ہو کر آئیں اور ہمیں اپنی رفاقت کا شرف بخشیں۔تاکہ ہم آپ کی رفاقت میں اپنی بڑھتی ہوئی طاقت سے حوادث کا رخ موڑیں،ثقافت کے طوفان کو روکیں، عداوتوں کا منھ توڑیں اور بغاوتوں کے عفریت کو موت کی وادی میں دھکیل دیں۔آپ کی رفاقت ہماری حوصلہ افزائی کرے گی، دل بڑھائے گی اوران شاء اﷲ دین کے ارتقائی عمل کوجاری وساری رکھنے کاموجب ہوگی۔پھرہم بھر پور قوت سے منزلِ مراد پاکے رہیں گے اور……اگر……خدانخواستہ……ہم اپنی محنت کاپھل نہ کھا سکے، اپنے جانکاہ عمل کانتیجہ نہ پاسکے اورصراطِ مستقیم پراپنی طاقت کے مطابق چل کربھی دنیا میں منزل مقصود حاصل نہ کرسکے تویقین کیجئے کہ مرنے کے بعدکی زندگی میں جوحیاتِ طیبہ کہلاتی ہے ‘ مجھ سے یا آپ سے ہرگزیہ سوال نہیں ہوگاکہ تم کتنے کامیاب ہوئے ،تمہاری محنت کاحاصل کیا نکلا، تمہاری بے پناہ جدوجہدکاانجام کیاہوا؟بلکہ پوچھاجائے گا توصرف یہ کہ تمہیں جس قدر نعتمیں اور جتنی توانائیاں بخشی گئیں تھیں‘تم نے میری مخلوق کی دنیاوآخرت کی بھلائی کے لیے کس قدرصرف کیں؟ کہاں کہاں یہ قوتیں استعمال کیں؟کن مقاصدکوتم نے فکر وشعور کامرکز بنایا،بینائی وتوانائی، دولت وطاقت، جانِ نازک اور عزت وآبرو غرض تم نے کہاں پر ساری نعمتیں کھپا دیں اور امت کو صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے یہ سب کچھ اگر کھپادیا اور لگا دیا تو قبرو حشر میں ان شاء اﷲ جواب دے سکیں گے کہ اے اﷲ ہم عاجز وں نے آپ کی بخشی ہوئی تمام نعمتیں،قوتیں اورتمام توانائیاں آپ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے بے دریغ لٹادیں۔کیوں کہ آپ کے نبی گرامی خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشادروح کی گہرائی میں رچ بس گیاتھا:
اَلْخَلْقُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحْسَنُ الْخَلْقِ اِلٰی اللّٰہِ اَحْسَنُہُمْ خُلُقاًاِلَیْہِمْ
’’ساری مخلوق اﷲ کاکنبہ ہے پس مخلوق میں سے اﷲ کووہ بھاتا ہے جومخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرتاہے۔‘‘
اور اﷲ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک یہی ہے کہ مالی طور پر ناداروں پر مال نثار کیا جائے اور دینی طور پر ناداروں، محتاجوں اور بے کسوں پر اپنی ظاہری وباطنی توانائیاں نثار کر کے انھیں شیطان کے چنگل سے نجات دلائی جائے۔
الیس منکم رجل رشید
کوئی ہے جوبڑھ کے امت کی آبروبچالے۔
انسانیت کی خدمت:
= انسانیت کی خدمت اسلام کی بنیادی تعلیم ہے ۔کتاب ِ مبین قرآنِ حکیم کائنات کے تمام انسانوں کے لیے منبع و مرکز ِ رشد وہدایت اور انسانیت کا دستور ِ حیات ہے ۔اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری اور انسانی غلامی سے نجات اسلام کابنیادی مقصد ہے ۔قرآن کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں انسانیت کی جو خدمت سرانجام دے جائے گی‘ وہی معتبر ہے ۔مخلوط تعلیم اور مخلوط سوسائٹی نے قوم میں دینی شعور کاقحط پیدا کردیا ہے ۔حالات روز بہ روز ابتر ہوتے جارہے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ دین ِ اسلام سے عملی انحراف و بغاوت ہے۔اسی بغاوت کو قرآن حکیم نے نقصان کہا ہے :
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْر(العصر) ’’بے شک انسان خسارے میں ہے۔‘‘
اسلام کی دعوت:
= دعوت ِ اسلام ‘انبیاء کاورثہ وسنت اور اﷲ کی نعمت ہے۔دعوت کالازمی نتیجہ قوت ہے اور جب قوت حاصل ہوجائے تو پھر صحابۂ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غلبۂ حق کا قیام امن اور باطل کے خاتمے کے لیے پر امن جدوجہد ہم سب مسلمانوں کافریضہ ہے۔ دعوتِ دین کے کام کو تمام امور پر فوقیت دیں اور قوت پیدا کر کے بدی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔
اسلام کانفاذ:
= قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں نفاذ ِ اسلام کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ۔مقتدر طائفوں،فوجی آمروں،کرپٹ سیاست دانوں ،مذہبی ڈیرے داروں، سرمایہ پرستوں اور جاگیر داروں نے مل کر قوم کا استحصال کیا ہے ۔حکومتیں لادینیت کو فروغ دینے والے اداروں کاتحفظ اور دینی اداروں کاگلا گھونٹنے کی پالیسی پر کاربند رہی ہیں اور ہنوز یہ عمل جاری ہے۔ حکومت ِ الہٰیہ کاقیام ،عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور دفاع ناموسِ ازواج و اصحاب ِرسول (علیہم الرضوان )مجلس احراراسلام کانصب العین ہے۔ایسے عظیم الشان مقصد میں کامیابی تب ہی ممکن ہوسکتی ہے کہ لادین طبقات سے مفاہمت کی بجائے ہر محاذ پر ان کی مزاحمت کی جائے ۔دعوت وتبلیغ اور جہاد کے ذریعے نفاذِ اسلام کی منزل تک پہنچا جائے۔
مجلس احراراسلام کی دعوت ‘قرآنی دعوتِ انقلاب کے سوا کچھ نہیں۔اس دعوت انقلاب کے تمام طریقے وہی معتبر ،مؤثر اور ابدی ہیں جو قرآنِ ناطق سیدنا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسد ِاطہر سے نورِ ہدایت اور اسوۂ حسنہ کی کرنیں بن کر پھوٹے ……
آئیے!ہمارے قافلۂ سخت کوشاں میں شامل ہوکر دینی انقلاب کی منزل کوقریب کریں۔