تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

نور العیون فی سیرت الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم

علامہ ابن سیّد الناس رحمہ اﷲ تعالیٰ / ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الحق قمرؔ
نزول قرآن کریم کے ساتھ ہی نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی مبارک زندگی کے حالات محفوظ ہونا شروع ہوگئے تھے اور (ورفعنالک ذکرک) سے تا ابد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر خیر کی قدر ومنزلت کی بھی خبر دے دی گئی ۔پھر اصحاب رسول نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے افعال واقوال جمع کرنے شروع کردیئے ۔آنے والے دور میں کتب مغازی کی صورت میں حیات طیبہ کا ذکرخیر چلا۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت پر مستقل کتب تصنیف کی گئیں جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد مختصرات سیرت کا آغاز ہوا ان میں کئی کتابیں تو مختصراً ہی تالیف کی گئیں جبکہ کئی مختصرات بڑی کتب کی تلخیص کی صورت میں منظر عام پر آئیں ۔ ایسی ہی کتب میں ایک نمایاں نام علامہ ابن سید الناس کی کتاب (نورالعیون فی سیرت الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم)ہے جوکہ ان کی ضخیم کتاب (عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر)کی تلخیص ہے۔
امام ابن سید النا س کا پورانام محمد بن محمد بن محمد ہے ان کے اجداد میں سے ایک بزرگ کا نام سید الناس تھا ان کی نسبت سے ابن سید الناس کے نام سے شہرت پائی ۔آپ اندلسی الاصل ہیں۔671ھ میں قاہرہ میں پیداہوئے، قاہر ہ اور دمشق سے تعلیم حاصل کی ۔آپ بڑی جامع العلوم والفنون شخصیت تھے ،نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ازحدمحبت رکھتے تھے(بشریٰ اللبیب فی ذکریٰ الحبیب ) کے نام سے نعتیہ قصائد کا مجموعہ بھی لکھا۔ انہوں نے سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فن میں ( عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر)کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی اور پھر طلبہ اور عوام الناس کے استفادہ کے لیے (نورالعیون فی سیرۃ الامین المامون صلی اﷲ علیہ وسلم)کے نام سے اس کی تلخیص کی ۔ آپ نے اپنی کتاب میں اندلسی اور مصری اسالیب کا حسین امتزاج پیش کیاہے ۔ آپ ایک بھرپور علمی وعملی زندگی گزار کر734ھ میں خالق حقیقی سے جاملے ۔
نورالعیون نامی اس با برکت کتاب کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اﷲ نے (سرورالمحزون) کے نام سے اس کا کسی بھی زبان میں پہلا ترجمہ کیا جوکہ فارسی زبان میں ہے ۔ مجلس احراراسلام کے سابق امیر حضرت مولاناعبدالحق چوہان رحمہ اﷲ نے بھی اس کا اردوترجمہ کیا جو1996ء میں منظرعام پر آیا۔ 2011ء میں ریاض احمد سعیدی صاحب کا ترجمہ چھپا۔اب مجلس احراراسلام ضلع لاہور کے سیکرٹری نشرواشاعت ڈاکٹر ضیاء الحق قمر (پی ایچ ڈی عربی) نے اس کا رواں اور سلیس ترجمہ کیاہے ۔ قارئین کے استفادے کے لیے اسے قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمہ : جب میں نے اپنی کتاب ’’عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر ‘‘ لکھی، جو کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ضمن میں انتہائی مفید ہے اور جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے جاننے کی خواہش رکھنے والوں کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے، تو میں نے مناسب جانا کہ میں چند اوراق میں اس کتاب کا خلاصہ کر دوں، جو اس کے ماخذوں کے قریب ہو اور اس سے استفادہ کرنا بھی آسان ہو، تاکہ وہ مبتدی کے لیے تبصرہ اور منتہی کے لیے تذکرہ ہو۔ اور میں نے ا س کتاب کا نام ’’ نور العیون فی تلخیص سیرۃ الامین المأمون ﷺ ‘‘ رکھا ہے۔ پس ہم اﷲ تعالیٰ سے ہی مدد و توفیق چاہتے ہیں اور اسی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے بھلائی کی طرف جانے والا ہر راستہ آسان فرما دے۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسب مبارک کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پدری نسب نامہ یہ ہے:
محمد بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب من مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔۔۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نسب نامہ پر یہاں تک تو علمائے انساب کا اتفاق ہے، عدنان کے بعد سے حضرت آدم علیہ السلام تک بہت اختلاف ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مادری نسب نامہ یہ ہے:
آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرۃ بن کلاب (۱) بن مرۃ بن کعب بن لؤی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم واقعہ فیل والے سال ربیع الاوّل کے مہینے میں پیر کے دن پیدا ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق اس دن ۲ ؍ربیع الاوّل تھی، دوسری کے مطابق ۳؍ ربیع الاوّل، اور کچھ نے کہا کہ اس دن ۱۲؍ ربیع الاوّل تھی۔ اور بعض نے ان کے علاوہ تاریخیں بھی لکھی ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایامِ تشریق میں جمرۃ الوسطیٰ کے قریب رحم مادر میں تشریف لائے اور بعض نے اس کے علاوہ لکھا ہے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کی رات کسریٰ کے محل میں اتنا شدید بھونچال آیا کہ اس کی آواز (دور دور تک) سنی گئی اور اس کے محل کے چودہ کنگرے گر گئے اور فارس کا ایک ہزار برس سے روشن آتش کدہ بجھ گیا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں بجھا تھا۔ اور اسی رات بحیرہ ساوہ کا پانی خشک ہو گیا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضاعت کا بیان:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ بنت ابی ذؤیب الہذلیہ نے دودھ پلایا۔ (۲)
اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم انھی کے پاس کے تھے جب شق صدر کا واقعہ پیش آیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب اطہر سے وہ نقطہ، جہاں شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے، نکال کر اسے ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا۔ (۳)
ابو لہب کی باندی ثُویبہ الاسلمیہ نے بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔(۴)
اور اُم ایمن برکۃ حبشیہ رضی اﷲ عنہا، جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے والد ماجد سے ورثہ میں ملی تھیں، نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش کی۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جوان ہوئے تو انھیں آزاد کر کے (اپنے آزاد کردہ غلام) زید بن حارثہ رضی اﷲ عنہ سے ان کی شادی کروا دی۔ (۵)
والدین کریمین کی وفات اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش کا بیان:
ابھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد ماجد کی وفات ہو گئی۔ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے دو ماہ بعد ان کی وفات ہوئی۔ اور ایک روایت کے مطابق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے سات ماہ بعد اور بعض کے مطابق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے اٹھارہ ماہ بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد ماجد کی وفات ہوئی۔
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کی وفات ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر چار برس تھی اور ایک قول کے مطابق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر چھے برس تھی۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے داد ا حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کفالت کی۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر آٹھ برس دو مہینے اور دس دن ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب وفات پا گئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متولی ہوئے۔
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم عمر بارہ برس دو مہینے اور دس دن ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ ملک شام کی طرف تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بصریٰ پہنچے، بحیرا راہب نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفات کی بدولت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ یہ رب العالمین کے رسول ہیں، اﷲ ان کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ آپ لوگ جب گھاٹی سے آ رہے تھے تو کوئی پتھر یا درخت ایسا نہ تھا جس نے آپ کو سجدہ نہ کیا ہو۔ اور یہ دونوں (پتھر اور درخت) نبی کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ اور ہم نے آپ کی صفات کو اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پایا ہے، جس وقت یہ ہمارے سامنے آئے تو ہم نے انھیں پہچان لیا۔ پھر اس نے ابو طالب سے کہا کہ اگر آپ انھیں ملک شام لے کر گئے تو (مجھے اندیشہ ہے کہ) کہیں یہود ان کو قتل نہ کر دیں۔ تو ابو طالب نے اس خوف کی بنا پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو واپس بھیج دیا۔ (۶)
دوسری مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ملک شام کا سفر اس وقت کیا جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر گئے، یہ تب کی بات ہے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان سے شادی نہیں ہوئی تھی۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ملک شام پہنے تو ایک راہب کی عبادت گاہ کے پاس درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے تو اس راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبیوں کے سوا کوئی بندہ نہیں ٹھہرا۔
اور میسرہ کہتے ہیں کہ جب دوپہر کا وقت ہوتا اور گرمی بڑھ جاتی تو میں دیکھتا کہ آسمان سے دو فرشتے اتر کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر سایہ کرتے۔ اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سفر سے لوٹے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے شادی ہو گئی، اس وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس دو مہینے اور دس دن تھی۔ شادی کے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے متعلق اور بھی اقوال ہیں۔
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک پینتیس برس ہوئی تو کعبہ کی تعمیر (نَو) ہوئی، جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے حجرِ اسود نصب فرمایا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کا بیان:
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس برس اور ایک دن ہوئی تو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب جہانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضرت جبریل علیہ السلام رب العالمین کی وحی لے کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس غارِ حرا میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’ اِقْرَأْ ‘‘ ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل نے مجھے اپنی آغوش میں لے کر زور سے بھینچا یہاں تک مجھے تکلیف پہنچی، پھر مجھے چھوڑا اور کہا پڑھیے، تو میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ انھوں نے پھر بھینچا اور تیسری بار کہا: اِقْرَأْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانِ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔(۷)
اور نبوت کا آغاز ۸ ربیع الاوّل بروز پیر ہوا۔
پھر اہل مکہ نے دعوت اسلام کی مخالفت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گھاٹی (شعب بنی ہاشم) میں محصور کر دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے خاندان سمیت تین برس سے کچھ مدت کم وہاں محصور رہے اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم محاصرہ سے نکلے تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک انچاس برس تھی۔
اس واقعہ کے آٹھ ماہ اکیس دن بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب فوت ہو گئے اور ان کے تین دن بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا نے وفات پائی۔
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچاس برس اور تین ماہ ہوئی تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نصیبین (ترکی کا ایک قدیم شہر) کے جن آئے اور انھوں نے اسلام قبول کیا۔ (۸)
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک اکاون برس اور نو ماہ ہوئی تو واقعہ اسراء پیش آیا۔ تب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بئرِ زمزم اور مقامِ ابراہیم کے درمیان آرام فرما تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو رات کے وقت بیت المقدس لے جایا گیا، پھر براق لایا گیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس پر سوار ہو کر آسمان کی طرف تشریف لے گئے اور سفر معراج میں ہی نماز فرض ہوئی۔ (۹)
اور جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر مبارک ترپن برس ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیر کے دن ۸ ربیع الاوّل کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن مدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایا۔ وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دس برس قیام فرما رہے اور وہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا۔
ان واقعات کی تاریخ (کے تعین) میں علماء کا اختلاف ہے، ہم نے انھیں تواریخ کا ذکر کیا ہے، جن کو ہم نے اپنی کتاب ’’عیون الاثر‘‘ میں بیان کیا ہے۔
٭……٭……٭
حواشی: (۱): یہاں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مادری اور پدری نسب ایک ہو جاتا ہے۔(۲):اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ابن الاثیر: ۲۵۱/۵۔۵۲۔ (۳):صحیح مسلم ،حدیث نمبر ۱۶۲۔ (۴):اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ابن الاثیر:۲۳۵/۵۔ (۵):اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ، ابن الاثیر: ۲۲۷/۵۔ (۶):سنن ترمذی، حدیث نمبر ۳۶۲۰۔ (۷):صحیح بخاری، حدیث نمبر۳۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۶۰۔ (۸):صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۸۶۰۔ (۹): صحیح بخاری، حدیث نمبر ۳۸۸۷۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۶۲۔۱۶۴
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.