مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo ِاَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُھَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌم بِیْضٌ وَّ حُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُھَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌo وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌo (سورۃ الفاطر ۲۷،۲۸)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اسی ایک پانی سے قسم قسم کے پھل نکالے، جن کی رنگتیں مختلف ہیں اور ہر ایک کا مز ا اور خوشبو دوسرے سے جدا ہے۔ بہ اعتبار کمیت اور بہ اعتبار کیفیت کے اور باعتبار صورت کے اور بہ اعتبار لذت کے، ہر پھل دوسرے پھل سے مختلف ہے، حالانکہ مادہ سب کا ایک ہے۔ اور اسی طرح پہاڑوں میں مختلف قسم کی اور مختلف رنگتوں کی راہیں اور گھاٹیاں ہیں، بعضی سفید اور بعضی سرخ اور طرح طرح ان کے رنگ ہیں اور بعضے بہت سخت سیاہ ہیں اور ہر ٹکڑے کی تاثیر مختلف ہے۔ اسی طرح دلوں کے رنگ بھی مختلف ہیں اور اسی طرح لوگوں میں سے اور حیوانات میں سے اور چوپایوں میں سے مختلف رنگ والے ہیں۔
جس طرح لوگوں کی السنہ اور الوان یعنی ان کی زبانیں اور رنگتیں مختلف ہیں، اسی طرح دوابّ اور انعام کی ایک جنس بلکہ ایک نوع کی رنگتیں مختلف ہیں، یہ سب خدا کی قدرت کے کرشمے ہیں کہ مادہ سب کا ایک ہے اور کیفیات مختلف ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اختلافات خود بخود تو پیدا نہیں ہو گئے، حالانکہ مادہ سب کا ایک ہے، تو یہ بو قلمونی کہاں سے آئی اور علیٰ ہٰذا زمین کے ٹکڑوں میں اختلاف کہ کسی زمین سے زعفران پیدا ہوتا ہے اور کسی سے انار اور انگور اور جھڑ بیر۔ یہ اختلاف بھی اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے ورنہ طبیعت اور مادہ میں سب یکساں ہیں اور علّتِ فاعلیہ بھی سب کی ایک ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ رنگ برنگ کا اختلاف اس کی قدرت کی گل کاری ہے۔
اسی طرح بندوں کے احوال مختلف ہیں۔ کوئی خدا سے ڈرتا ہے اور کوئی نہیں ڈرتا۔ جز ایں نیست کہ اﷲ کے بندوں میں سے بن دیکھے اﷲ سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم اور صاحبِ فہم ہیں، جو اﷲ کی شانِ عظمت کو جانتے اور پہچانتے ہیں، وہی خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ جس درجہ کا علم اور معرفت ہے اسی درجہ کی خشیت ہے۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ۔
پس عنداﷲ کرامت اور فضیلت بقدرِ تقویٰ ہے اور تقویٰ بقدرِ علم ہوتا ہے، نہ بقدرِ عمل۔ پس جس کا علم اور اس کی معرفت زیادہ ہو گی اسی کو اﷲ کا خوف زیادہ ہو گا۔ اور جس کا علم کم تر ہو گا، اس کا خوف بھی کم تر ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں تم سب سے بڑھ کر اﷲ کا علم رکھتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کا خوف رکھتا ہوں۔ (رواہ البخاری) اور جو عالم اپنے علم پر عمل نہ کرے تو اس کا علم بھی کم ہو جاتا ہے۔
علم چند آں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل در تو نیست نادانی
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ علم کثرتِ روایت کا نام نہیں، بلکہ علم تو ایک نور ہے جس کو اﷲ تعالیٰ بندہ کے قلب پر ڈال دیتا ہے۔ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ کی ’’نور‘‘ سے مراد ’’نورِفہم اور نورِ معرفت‘‘ ہے۔ کما قال تعالیٰ:
وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَ مَا یَعْقِلُہَا اِلَّا الْعَالِمُوْنَ ۔
معلوم ہوا کہ عالم وہ ہے جو عاقل اور فاہم ہو۔ بغیر عقل و فہم کے محض الفاظِ قرآنی اور الفاظِ نبوی کو یاد کر لینے کا نام علم نہیں۔ اﷲ کے نزدیک عالم وہ ہے جو اﷲ کی عظمتِ شان اور جلالتِ قدر کو جانتا ہو اور اس سے ڈرتا ہو اور اس کے احکام پر چلتا ہو۔ باقی جو شخص رسمی طور پر عالم اور فاضل کہلاتا ہو، مگر خدا سے نہ ڈرتا ہو تو وہ اﷲ کے نزدیک عالم کہلانے کا مستحق نہیں۔ آیت میں ’’خشیت‘‘ سے خوفِ تعظیم مراد ہے، یعنی دل پر خدا کی عظمت اور جلال کا خوف اس قدر غالب ہو کہ ہر وقت اس بات سے ڈرتا رہتا ہو کہ حقوقِ ربوبیت میں کوئی تقصیر نہ ہو جائے اور کوئی بات خلافِ ادب نہ سرزد ہو جائے اور حدود و فرائض سے قدم باہر نہ ہو جائے۔
بے شک اﷲ بڑی عزت والا ہے۔ جو اس سے نہ ڈرے اسے پکڑنے والا ہے اور جو بندہ اس سے ڈرے اور اپنی تقصیر پر توبہ کرے تو اُسے معاف کرنے والا ہے۔ پس جس ذات کی یہ شان ہے، اس سے خوف اور خشیت فرض اور لازم ہے۔
لطائف و معارف:
قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ ۔ جزایں نیست (حقیقت محض اتنی ہے) کہ خدا کے بندوں میں سے صرف علماء اﷲ سے ڈرتے ہیں۔ اس آیت میں علماء سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو اﷲ کی عظمت و جلال کا اور اس کے احکام و اوامر و نواہی کا علم ہو۔ اور پھر وہ اﷲ کے حکموں پر چلتے ہوں، جس درجہ کا علم ہو اُسی درجہ کا اس کو خوف ہو گا۔ خشیتِ خداوندی علم اور معرفت پر موقوف ہے۔ علم خشیت کے لیے شرط ہے مگر علت تامہ نہیں۔ جیسے طہارت نماز کے لیے شرط ہے، مگر نماز کے لیے علت تامہ نہیں۔ اور جس علم کے بعد خوفِ خداوندی حاصل نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ علم اﷲ کے نزدیک معتبر نہیں اور ایسے عالم جو خدا سے نہ ڈرتے ہو وہ اﷲ کے نزدیک عالم نہیں، اگرچہ دنیا ان کو علامہ کہتی ہو۔
علم چند آں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل در تو نیست نادانی
نیز علم سے وہ علم مراد نہیں جو محض قال کے درجہ میں ہو بلکہ وہ علم مراد ہے جو حال کے درجہ میں ہو اور ظاہر و باطن اس کے رنگ میں رنگین ہو گیا ہو۔ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہُ صِبْغۃً ، علمے کہ راہِ حق نہ نماید جہالت ست
علم را بر دل زنی یارے بود
علم را بر تن زنی مارے بود
جان جملہ علمہا این است ایں
کہ بدانی من کیستم در یومِ دیں
علمِ دین سے مقصود تزکیۂ نفس اور اصلاحِ عمل ہے، ورنہ ہیچ ہے۔ جیسے علمِ طب سے مقصود جسمانی صحت کی حفاظت ہے، محض دواؤں کے نام اور ان کے خواص یاد کر لینا مقصود نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ واقع میں کوئی شراب پیے اور اس کو نشہ نہ ہو، اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ کوئی حقیقتاً علمِ دین کا ایک جام پیے اور اس پر دین کا نشہ اور سکر نہ آئے۔ عالمِ دین خدا کے نزدیک وہ ہے کہ علمِ دین اس کے دل میں گھر کر گیا ہو، محض باتیں بنانے اور لمبی تقریر کرنے سے اﷲ کے نزدیک عالم نہیں ہو جاتا ۔اگر واقع میں دل میں خشیت اور خوفِ خداوندی ہوتا تو معاصی پر جرأت نہ کرتا۔ حدیث میں آتا ہے: اَللّٰہُمَّ اِنّی اَسْاَلُکَ مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُوْلُ بَیْنِی وَ بَیْنَ مَعَاصِیْکَ ۔معلوم ہوا کہ خشیت اس خوف کو کہتے ہیں جس سے بندہ اور معصیت کے درمیان حیلولت واقع ہو جائے اور اگر اسے یہ خشیت حاصل نہیں کہ جو عاصی اور معاصی کے درمیان حائل ہو تو سمجھ لو کہ اسے صحیح علم بھی حاصل نہیں۔ عالم کو چاہیے کہ رسمی طور پر تحصیلِ علم کو مقصود نہ جانے بلکہ خشیت کو مقصود جانے اور تحصیلِ خشیت کا اہتمام کرے اور خشیتِ مقصودہ اور مطلوبہ وہ ہے ، جو نفس اور شیطان اور معصیت سے حجاب بن جائے۔
(معارف القرآن از مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اﷲ تعالیٰ، جلد۶، ص ۴۰۸،۴۱۲)