آغا شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ
آخری قسط
شاہ جی اپنے ساتھیوں سمیت پہلے کراچی سنٹرل جیل میں رکھے گئے۔ پھر سکھر جیل میں بھجوا دیا گیا۔جہاں ان سے آخری بیماری چمٹ گئی۔ منیر انکوئری کمیٹی نے کام شروع کیاتو شاہ جی ۲۵ جولائی ۱۹۵۳ء کو لاہور سنٹرل جیل میں منتقل کردئیے گئے۔ میاں محمود علی قصوری نے لاہور ہائیکورٹ میں شاہ جی کی نظر بندی کے خلاف رٹ وائر کردی۔ جسٹس ایس اے رحمن نے قانونی غلطی کافائدہ دے کر۸ جنوری ۱۹۵۴ء کو شاہ جی اور ا ن کے ساتھیو ں کو رہا کردیا۔ شاہ جی نے رہا ہوتے ہی پہلی تقریر میں جسٹس منیر کو آڑے ہاتھوں لیا آپ نے ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ ’’میں آج بھی اور حشر کے دن بھی ان تمام شہیدوں کے خو ن کا ذمہ دار ہو ں جنھیں عشق نبوت کی پاداش میں اسلامی سلطنت کے ہلا کو خاتون نے قتل کیا ہے۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں حضرت ابو بکر صدیقؒ نے بھی اپنے زمانے میں سات ہزار حافظ قرآن صحابہؓ کو ختم نبوت کی خاطر شہید کرایا تھا۔ ’’شاہ جی کو حکومت کے بہیمانہ تشدد غصہ تھا اور تحریک کے سبوتا ژ کیے جانے پر سخت غمزدہ تھے۔ ہمیشہ حکومت پر کڑی تنقید کرتے حکومت نے ۱۹۵۵ء میں انہیں ۶ ماہ کے لیے گھر میں نظر بند کردیا۔ پھر ۱۴ اپریل ۱۹۵۵ء کو خانیوال کی تقریر میں پکڑ لیا کوئی پانچ چھ ماہ مقدمہ چلتارہا اسی دوران میں سکندر مرزانے بطور صدر پاکستان سید مظفرعلی شمسی کی معرفت شاہ جی سے ملاقات کی خواہش کی لیکن شاہ جی ٹال گئے شاہ جی نے مظفرعلی شمسی سے فرمایا:
’’ میں ایک فقیر ہوں اورکٹیا میں رہتا ہو ں۔ سکندر مرزا کے ایوان صد ر میں جاکر اپنی عمر بھرکی کمائی برباد نہیں کر سکتا۔ مجھے ان سے کوئی کام نہیں اگر سکندر مرزا کو مجھ سے کوئی کام ہے تو میری کٹیا میں آجائیں‘‘
۱۹۵۶ء کے آخر میں ان کے جسمانی عوارض عود کر آئے اور وہ ایک طویل بیماری کا شکار ہوگئے پھر ۱۶ مارچ ۱۹۶۱ء کوان پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور ۲۱ اگست کی شام کو ۶ بجکر ۵۵ منٹ پر تحریک ختم نبوت کا سب سے بڑا قائد۶۴ برس کی لازوال جدوجہدکے بعد اس فانی کائنات سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔
احرار اپنے سیاسی عمل سے دستبر دار ہو چکے تھے اور صرف قادنیت ان کی جدوجہدکا محور تھالیکن ۱۹۵۳ کی تحریک ختم نبوت میں قادیانی اور سر کاری دوائر سے ان کے خلاف بے پناہ گولہ باری کی گئی اور قلم فروش دانشورو ں کا ایک طائفہ ان کے متعلق خرافات نگاری میں مشغو ل ہوگیا اس سلسلے میں حکومت نے بے شمار روپیہ صرف کیا اور ا ن تمام بے دین قلمکاروں کو سرکاری خزانے سے نواز اجواس تحریک کی رسوائی کے لیے احرار کو مطعون کرنے کاملکہ رکھتے تھے المختصر قادیانیت کامحاسبہ پاکستان دشمنی قرار دیا گیا۔ سب سے زیادہ افسوس سناک منیر انکوائری رپورٹ تھی۔ جسٹس منیر نے تحقیقات کے دورا ن میں نے صرف علماء کا استہزا کیا بلکہ چیف جسٹس ہونے کے زعم میں سے اسلام کے خلاف ایک ایسی دستاویز مرتب کی جس سے یورپ کے عیسائی حلقوں نے بے لگام ہو کر فائدہ اٹھاناچاہا یہ ایک ایسی رپورٹ تھی کہ اس کے خلاف کئی ایک مسلمان دانشوروں نے جو تحفظ تحریک ختم نبوت میں سے شامل نہ تھے اور جنہیں احرار سے عمر بھر سیاسی اختلافات رہے اس کے خلاف اپنے بعض مقالو ں کئی کتابو ں اور اکثر تقریرو ں میں احتجاج کیا۔ جسٹس منیر نے سب سے زیادہ غصہ احرار کے خلاف نکالا اور ان کے متعلق اس قسم کی لغوزبان استعمال کی کہ اس طرح کی زبان استعمال کرنے کاحوصلہ کبھی بشیر الدین محمود کوبھی نہ ہوا تھا۔
بہرحال تحفظ ختم نبوت کی تحریک احرار کی انتھک جدوجہد تھی انہوں نے اسلام کے ایک بنیادی مسئلے پرتمام مکاتیب فکر کے علماء کو یکجا کیااور ایک ایسی تحریک کی نیو اٹھائی جواس وقت کے لادین وزراء اور عیاش افسرو ں کے ستم کا شکار ہوگئی لیکن مسلمانوں کے دل ودماغ میں ہمیشہ کے لیے قادیانیت سے تنفرراسخ ہو گیافی الجملہ احرار کے اس امتیاز کو سلب کرنا ناممکن ہے کہ وہ اس تحریک کے سرخیل تھے۔
۱۹۷۴ء میں قادنیوں نے پھر سراٹھا یا اور اقتدار پرشب خون مارنے کی سازشیں شروع کیں ۔ ان سازشوں کی بنیاد بھی وہی تھی جو ۱۹۵۲ء میں مرزا بشیرالدین محمود نے بلوچستان کوقادیانی اسٹیٹ بنانے کی صورت میں سوچی تھی۔
مرزا ناصر احمد مسلمانوں میں ہیجان واضطراب کے باوجود اپنی مہرہ بازی میں مشغول تھا۔ کبھی اس کے فر ستادہ ملک کی سیاسی تحریکوں اور تنظیموں میں شامل ہوکر ترپ کھیلنا چاہتے اور کبھی مسلمانوں کی مدافعت ومزاحمت جوش وجواب کو پرکھنے کے لیے مختلف تجربے کرتے۔ جب انہوں نے محسوس کیاکہ مسٹرذوالفقار علی بھٹو کی معرفت ملک کے اسلامی ذہن کوحسب منشاء قل نہیں کراسکے اورنہ ہی سیاسی اصطلاح کے مطابق دایاں بازو پر جھاڑو پھیری ہے بلکہ منبرو محراب کی دینی فضاجوان کی محاسب قوت ہے پہلے سے کہیں تیز ہو رہی ہے حتیٰ کہ اوقاف کی مساجد میں بھی ان کے خلاف وعظ ہوتے ہیں تووہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف ہوگئے خلیفہ ربوہ کی صدارت میں چند سکبدوش مرزائی جرنیلوں نے جمع ہو کر وزیر اعظم بھٹو کے قتل کی سازش کی۔ مرزائیو ں نے اپنی شرار توں کواس حد تک طول دیا کہ ملک غلام مصطفی کھر کی وزارت اعلیٰ سے سبکدوشی کو بھی مرزاناصر احمد کا’’معجزہ‘‘ گردانتے رہے ۔ معلوم نہ ہو سکاکہ ان سے ناراضی کا سبب کیاتھا۔ ملک غلام مصطفی کھر وزارت اعلیٰ سے الگ ہو کرکوٹ لکھپت کی طرف مزدوروں کے ایک مظاہر ہ میں گئے تو راجہ منور احمدایم پی اے(قادیانی) نے اپنی سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھا کرمرزائی نو جوانوں سے ان پر حملہ کرایا اور بری سے زبان استعمال کی۔
مرزائیوں نے ایک بڑا حوصلہ یہ کیا کہ ملک غلام مصطفی کھر ایک دوست کے ہاں شادی میں لائل پور(فیصل آباد) گئے تو ان کے خلاف وہا ں ہنگامہ برپاکر ایا اور ہنگامہ کرنے والے تقریباسبھی نوجوان قادیانی تھے۔ ان نو جوانوں نے کھر کی موٹرپرپتھراؤ کیا۔ غرض ربوہ کی منصوبہ بندی کاخلاصہ یہ تھا کہ مختلف تجربوں کی ترازو میں تول کر مسلمانوں کاوزن معلوم کرلیا جائے کہ اب ان کی طاقت کیا ہے؟ اور وہ کس حد تک مزاحمت و مدافعت کر سکتے ہیں اسی کاحصہ ربوہ ریلوے سٹیشن پر۲۹ مئی ۱۹۷۴ء کا سانحہ تھا۔ مرزاناصر احمد کی شہ پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے لگ بھگ ایک سو طلبہ کو مرزائی غنڈوں نے اس بر ی طرح زدوکوب کیاکہ ڈیڑھ درجن طلبہ ہلکان ہوگئے اور جب گاڑی مرزا قادیانی کے بڑدلوں کی مشق ناز کے بعد لائل پور پہنچی تو غم وغصہ کی ایک طوفانی لہردوڑ گئی دیکھتی آنکھوں شہر سے دس ہزار افراد پلیٹ فارم پرجمع ہوگئے۔ ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی بھاری جمعیت کے ساتھ آگئے انہوں نے نہایت تدبرو فراست سے صورت حالات پر قابو پالیا۔ ورنہ عوام کے جذبات آتشکدہ کے شعلوں کی طرح کھول رہے تھے اس واقعہ کی تفصیلات یہ ہیں کہ ۲۲ مئی کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ایک سوطلبہ سیاحت کی غرض سے پشاور جارہے تھے تو ربوہ اسٹیشن پر انہوں نے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ا ن طلبہ میں ایک دو طلبہ قادیانی تھے۔ انہوں نے ربوہ کے حسب ہدایت پخت وپز کی اور واپسی پران طلبہ کی پٹائی کافیصلہ کیا گیا چنانچہ جب۲۹ مئی کوچناب ایکسپریس پشاور سے چلی توربوہ کے اوباش تیارہوگئے اورگاڑی کی آمد سے پہلے تقریبا پانچ ہزار افراد لاٹھیوں ۔ کلہاڑ یوں ہاکیوں خنجروں تلواروں اورپستولوں سے مسلح ہو کر پلیٹ فارم پرجمع ہوگئے جب گاڑی ربوہ سے پہلے شاہین آباد کے سٹیشن پر پہنچی تو اس کے قادیانی العقیدہ اسٹیشن ماسٹر نے ربوہ کے ہم عقیدہ اسٹیشن ماسڑ کو طلبہ کی بوگی کانشان دیا اور تیاری کو مستعد کرنے کے لیے گاڑی کی روانگی میں تاخیر کی پھر جب گاڑی ربوہ سٹیشن پر پہنچی تو ان ہزار ہاافراد نے طلبہ کی بوگی پر حملہ کر دیا طلبہ نے وحشیانہ ہجوم کو دیکھ کربوگی کے دروازے بند اور کھڑکیاں مقفل کر لیں لیکن مرزائی درندوں نے دروازے اور کھڑکیاں توڑڈالیں۔ اندر گھس گئے اور تمام طلبہ کوبری طرح زدو کوب کیا۔ ۳۰طلبہ سخت زخمی ہوئے نشترمیڈیکل کالج یونیں کے صدرارباب عالم کواس بری طرح پیٹا کہ وہ بے ہوش ہوگئے ربوہ کے اسٹیشن ماسٹر نے سگنل ہونے کے باوجود گاڑی کو چلنے نہ دیا۔ وہ قادیانی غنڈوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ نوائے وقت کے نامہ نگار کی روایت کے مطابق پچاس ساٹھ قادیانی سرگودھا سے سوار ہوئے کہ اس کارخیرمیں حصہ لیں اور طلبہ کی نشاند ہی کریں ا ن حملہ آوروں میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے طلبہ بعض اساتذہ اکثر دکاندار اور کئی ایک قصرخلافت کے معتمدین تھے۔ انہوں نے طلبہ کی پٹائی کے علاوہ ا ن کاسامان چھین لیااورمال غنیمت گردان کرلے گئے۔ دلچسپ پہلویہ تھا کہ مرزائی اپنے ساتھ بازاری فطرت کی تین چار سوعورتیں بھی لائے تھے جو طلبہ کی پٹائی پرتالیا ں پیٹیتں اوررقص کرتی رہیں۔ جب گاڑی لائل پور (فیصل آباد) پہنچی توایک طوفان برپا ہوگیا۔
تمام صوبے میں ۳۰ مئی کو ربوہ کے واقعہ پر زبردست مظاہرے ہوئے اکثر شہروں میں مکمل ہڑتال ہوئی کئی جگہ قادیانیوں کے متعدد مکانوں اور دکانوں کونذر آتش کیاگیا۔ پولیس نے اکثر جگہ لاٹھی چارج کیاآنسو گیس پھینکی اوربعض جگہ فائرنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہوگئے بعض شہرو ں میں اکثر مظاہر ین گرفتار کیے گئے ہرجگہ ربوہ کو کھلا شہر اور مرزائیوں کو علیحدہ اقلیت قرار دینے کامطالبہ کیاگیا۔ حکومت سے کہا گیاکہ اس سانحہ کی عدالت عالیہ کے کسی جج سے تحقیقات کرائی جائے۔ سرگودھا میں تمام کاروبار بند رہا تاجر، طلباء مزدوراورشہری سڑکوں پرنکل آئے۔ مرزائیوں کی دکان پر پتھراؤ کیاگیا۔انہوں نے اپنی دکانوں سے ہجوم پرفائرنگ کی بعض طلبہ کوپکڑکرجس بے جامیں رکھا۔زدوکوب کیا اور شدید زخمی کردیا۔ ڈسڑکٹ بارایسوسی ایشن کے وکلاء نے سانحہ ربوہ کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکالا۔
بعض مرزائیو ں کی طرف سے قبول اسلام کاسلسلہ شروع ہوگیا وہ مختلف اخباروں میں اشتہار دینے لگے۔ سنسرکی شدید پابندیوں کے باوجود صوبہ بھرمیں سانحہ ربوہ کاشدید ردعمل موجود تھا پولیس کواس ردعمل کے تدارک کی خاطر وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کے احکام دیئے جارہے تھے۔ واقعہ یہ کہ سانحہ ربوہ نے قادیانیت کے خلاف دلولہ پیدا کردیا اور تحریک تمام ملک میں احتجاج کی شکل اختیار کرگئی۔
قادیانی مسئلے سے متعلق لوگو ں کے جذبات بے پناہ ہوگئے ہیں۔ حکومت نے مری میں اعلیٰ سطح کانفرنس کے بعد کئی ایک اہم فیصلے کیے جن میں ربوہ کو کھلاشہر قرار دینے کافیصلہ بھی شامل ہے اور ان قادیانیوں کی فہر ستیں تیار کرنے کاحکم دیاگیا ہے ۔ جو کلیدی آسامیو ں پرفائزہیں لائل پور(فیصل آباد) میں ایک قادیانی نے اندھار ھند فائرنگ کرکے مسلمانوں کو زخمی کیاجس سے صورت حال میں تموّج پید اہوگیا۔
اسلام آبادمیں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں قادیانیوں کوخارج ازاسلام اقلیت قرار دینے کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے متفقہ طورپر ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کافیصلہ کیا کہ تمام ارکان قومی اسمبلی کے ممبر ہوں گے۔ ان کی تعداد ۴۰ ہوگی اوران میں ۱۰رکن اپوزیشن کے ہوں گے۔ وزیراعظم بھٹواجلاس میں شریک ہوئے بعض تفصیلات طے کرنے کے لیے اجلاس دوگھنٹہ ملتوی کیاگیااس کے بعد اپوزیشن کی قرار داد اور سرکاری تحریک دونوں متفقہ طورپر منظور کرلی گئیں۔ خصوصی کمیٹی کے اجلاس خفیہ ہوں گے۔ اجلاس شروع ہوگئے۔ طریق کارواضع کرلیاگیا مجلس عمل نے تحریک میں توانائی پیدا کردی کوئی سرکاری یاغیر سرکاری شخص مرزائیت کی بلاواسط کیاحمایت کاتصور بھی نہیں کرسکتا تھا کراچی سے پشاور تک جلسہ ہائے عام منعقد کیے جارہے تھے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃاﷲ علیہ کے فرزند سید عطاء المحسن بخاری بھی اس سلسلہ میں گجرات میں گرفتار کر لیے گئے۔ مجلس احرار اسلام کی ذیلی تنظیم’’تحریک طلباء اسلام‘‘ کے مرکزی صدر ملک ربنواز نے چنیوٹ میں دو گھنٹے تقریرکی۔اس کے بعد سترہزار افراد پر مشتمل جلوس نکالاگیا۔ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں سبھی دینی جماعتیں شامل تھیں۔ محدث العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمۃ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا محمدیوسف بنوری مجلس عمل کے صدر اور تحریک کے قائد تھے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کی داعی جماعت مجلس احرار اسلام کی نمائندگی جانشین امیر شریعت حضرت مولاناسید ابو معاویہ ابوذربخاری کررہے تھے۔ اور قائدین تحریک کی صف اول تھے انہی کی تجویز پر حضرت سیدیوسف بنوری کوقائد چناگیا۔
’’مجلس احرار اسلام کی ترجمانی کیلئے ابن ا میرشریعت سیدعطاء المحسن بخاری سید عطاء المؤمن بخاری، چودھری ثناء اﷲ بھٹہ ہراجلاس میں ہمہ وقت موجودتھے۔’’تحریک طلباء اسلام‘‘ کی نمائندگی ملک ربنواز، محمدعباس نجمی، عبداللطیف خالدچیمہ، سیدمحمدکفیل بخاری، شاہد کاشمیری، حافظ محمد یوسف سیال اورسید محمد ارشد بخاری نے کی۔ ‘‘(مرتب: شاہد کشمیری)
آخر ختم نبوت کے مسئلے پراپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے صوبہ بھر میں طلباء نے ۶ستمبرکوعلامتی ہڑتال کی۔ ۷ ستمبر کامبارک دن آگیاقادیانیوں کو قومی پالیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قراردے دیا۔ اس بے نظیرفتح پرتمام ملک میں مسرت کی لہردوڑگئی لوگوں نے ہر شہر میں مٹھائی بانٹی ہرکیں مسلمانوں نے اپنے مکانوں پرچراغاں کیا۔
قومی اسمبلی نے مرزا ناصراحمد پر اادن تک ۴۲ گھنٹے اورمرزا قادیانی کی لاہوری شاخ کے امیر پرسات گھنٹہ جرح کی۔ اس دوران میں وزیراعظم اور وزیرقانون(عبدالحفیظ) سے اپوزیشن کے متذکرہ رہنماؤں نے کئی ملاقاتوں میں مذاکرات کئے اورچارپانچ دفعہ نازک موڑ بھی آئے۔ آخر تصادم کا اندیشہ لاحق ہوگیا اورمجلس عمل کے رہنما سربکف ہو کرقیدوبندکے لیے تیار ہوگئے لیکن فضل ایزدی سے اتفاق رائے ہوگیا اور وزیراعظم نے الفاظ کا حک وفک چھوڑ کر مجلس عمل کے پارلیمانی نمائندوں کی تجویزپر صاد کیا۔ چنانچہ ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو۴ بجکر۳۵ منٹ پرقادنیوں کی دو شاخوں کو اقلیت قراردے کر دائرہ اسلام سے خارج کردیا گیا۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے قائد ایون کی حیثیت سے ۲۷ منٹ تک وضاحتی تقریرکی ۔ مسٹر عبدلحفیظ پیرزادہ وزیرقانون نے اس سلسلہ میں آئینی ترمیم کاتاریخی بل پیش کیا اور جب بل متفقہ رائے سے پاس ہوگیا تو حزب اقتداروحزب اختلاف کے ارکا ن آپس میں فرط مسرت سے بغل گیرہوگئے۔ ا ن کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے حتیٰ کہ وزیر عظم بھٹو ارکان سے گرمجوشی سے ملے۔ اس کے بعد سینیٹ نے پونے آٹھ بجے اجلاس شروع کر کے آٹھ بج کر ۴ منٹ پرصادکیا۔ پورے ملک میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ لوگ فرط مسرت سے دیوانہ ہوگئے۔ شیرینی تقسیم کی گئی اور جگہ جگہ آتش بازی چھوڑی گئی۔
وزیراعظم بھٹو نے اپنی تقریر میں کہاکہ منکرین ختم نبوت کوغیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ پوری قوم کی خواہشات کاآئینہ دار ہے اس مسئلہ کودبانے کے لیے ۱۹۵۳ء میں ظالمانہ طور پر طاقت استعمال کی گئی تھی۔
اس بل کی متفقہ منظور ی کے بعد نوے سال کاایک قضیہ ختم ہوگیا۔ مسلمانوں کی طویل جدوجہد بفضل تعالیٰ کامیاب ہوئی مرزا قادیانی کی صبیونی امت ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر مشخص ہوگئی اور عرب وعجم میں وحدت ملی کا تصوراس مہلکہ سے محفوظ ہوگیا جوا س کے سیاسی بدن کااستعمال ناسور تھا۔ غرض ۹۰ برس کی تحریک میں یہ پہلا موقع تھا کہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا تمام شہروں اور قصبوں کے علاوہ تحریک ہرگاؤں کی چوپال تک چلی گئی کوئی ٹکڑا نہ رہا ۔ جہاں قادیانیت کے خلاف نعرہ رستخیز نہ گو نجاہو۔ عوام کے مید انوں اور حکومت کے ایوانوں میں تحریک کے شعلے بھڑکتے رہے۔ حتیٰ کہ فوج بھی اس سے سرشار ہوگئی ان آثارومظاہرہی کا نتیجہ تھا۔ کہ مسیلمہ کذاب کی اسرئیلی روح ۷ ستمبر۱۹۷۴ء کوپاکستان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی اور اس کا استعماری وجوداپنے انجام ومقام کوپہنچ گیا۔
’’سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے انگریز کے خود کاشتہ پودے مرزائیت کے خلاف جس عوامی جدوجہد کاآغاز ۱۹۱۲ء میں بندے ماترم ہال امرتسرمیں مرزابشیرالدین کاجلسہ الٹ کرکیا تھا وہ آج کامیابیوں سے ہمکنار ہو گئی۔ مجلس احرار اسلام نے اپنے ہزاروں رضا کاروں کا خون جس مقدس تحریک کی بنیادوں میں دیا تھا و ہ خون رنگ لایا اور شہداء ختم نبوت کی روحیں خوشی سے سرشار ہو گئیں۔ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہی دنوں چترال میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
سید عطاء اﷲ شاہ بخاری بہت بڑے خطیب تھے انہوں نے قادیانی مسئلہ پربڑی تقریریں کیں اورقربانی دی۔ علامہ اقبال نے اس مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ میں نے ۹۰ سالہ مسئلہ حل کر کے اقبال اور عطاء اﷲ شاہ بخاری کا مشن پورا کردیا ہے‘‘۔ (مرتب: شاہد کشمیری)