مفتی منیب الرحمن
مسلم دنیاپرایک اُفتاد تو عالم سامراجی قوتوں کی جانب سے مسلط ہے اور دوسرا عذاب دین اسلام، شعائر اسلام اور متفق علیہ معاملات میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گذشتہ دنوں جناب جاوید غامدی کی زیر سر پرستی شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق(جون 2019ء ) میں موصوف کے قابل اعتمادرفیق عرفان شہزاد صاحب کا ایک مضمون بعنوان:’’قرآن کے حفظ کی رسم پرنظرثانی کی ضرورت‘‘ پڑھنے اور متبادل بیانیہ جاننے کاموقع ملا۔
مضمون نگار نے حفظ قرآن کریم کی سعادت وفضیلت کو، جس پراُمت کا اجماع رہا ہے۔ اس سعادت کوغیر اہم قرار دیتے ہوئے لکھا: ’’مسلم سماج میں…… عام تاثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اور باعث اجر وسعادت ہے۔ یہ تصور چنددر چند فہمیوں کامرکب ہے‘‘ مزید لکھا: ’’حفظ قرآن کی موجودہ رسم اور اس سے جُڑے اجرو ثواب او رگناہ کے دینی تصورات اسے ایک بدعت بناتے ہیں‘‘ پھر لکھا: ’’[حتیٰ کہ] یہ خیال ایجاد کیا گیاکہ قرآن مجید کاحفظ کرنا معجزہ ہے۔ یہ حقیقتاً درست نہیں‘‘۔ آگے چل کر لکھا: اتنا وقت اتنی ضخامت کی کسی بھی کتاب کوزبانی یاد رکھنے کے لیے کافی ہے، خصوصاً جب الفاظ میں ایک خاص قسم کی موسیقیت اور موزونیت بھی پائی جاتی ہو تو یہ اور بھی سہل ہوجاتا ہے‘‘۔ گویا موصوف کے نزدیک قرآن کریم کے یاد ہونے کا سبب عِیاذاً باللّٰہ! اس کی موزونیت اور موسیقیت ہے۔
موصوف سے سوال ہے: دنیا میں دیگر مذاہب اور ان کی مذہبی کتب بھی ہیں یاعلو م وفنون کی بے شمار کتابیں ہیں، کیا اتنی ضخامت کی کوئی ایک کتاب بھی ایسی ہے، جس کو دنیا میں موجود قرآن کے حفاظ کرام کی کل تعداد کے ایک فی صد یا ایک فی ہزار نے بھی از اول تا آخر لفظ بلفظ یاد کر رکھا ہو؟ یہی مضمون نگار مزید یلغار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حفظ کے دوران رہائشی مدارس میں بچوں کا اپنے گھر سے ذوری کا دُکھ، جنسی ہراسانی کامسئلہ یہ سب بچے کی نفسیات میں غیر صحت مند رویے تشکیل دیتے ہیں‘‘۔ بلاشبہ خود ہماری آرزو ہے کہ کہیں بھی ایسا واقعہ رُونمانہ ہو لیکن خال خال یعنی لاکھوں میں اگر کوئی ایک واقعہ بدقسمتی سے رُونما ہوجائے تو اس کا جواز پیش اور اس کادفاع کوئی سلیم الفطرت انسان نہیں کرسکتا، مگر صرف اسی پر بس کیوں؟ اس طرح کے شاذونادر مگر افسوس ناک واقعات اسکولوں، کالجوں، اور یونی ور سٹیوں میں بھی رُونماہوتے ہیں۔ کیا کبھی ا ن گھناؤ نے واقعات کے سبب ان کی بندش کی ہمارے دانش دروں اور بیانیہ سازو ں نے کبھی کوئی زبانی یاقلمی تحریک بپاکی ہے یاان کابدف صرف حفظ قرآن کریم ہے۔
جدید تعلیمی ادارو ں میں موسیقی ڈراموں جیسی خرافات کے مقابلے ہوتے ہیں۔ مضمون نگار شاید انھیں بچوں میں جوہر قابل کونکھار نے کانفسیاتی عمل قرار دیتے ہوں گے۔ اس لیے موصوف نے ان سلسلو ں کو ہدف ملامت نہیں بنایا لیکن حفظ قرآن کریم کے مقابلوں کو شعبدہ بازی سے تعبیر فرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ قرآن مجید کے حفظ سے شعبدہ بازی کاکام بھی بعض حلقوں میں لیا جاتاہے۔ طلبہ سے متن قرآن کے ساتھ صفحہ نمبر بلکہ آیت نمبر تک یاد کروائے جاتے ہیں۔ پھربین الاقوامی مقابلوں میں یادداشت کے لیے کارنامے پیش کر کے دادتحسین وصول کی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل خطابت یا تحریر میں حوالہ دینے کے لیے سورت کانام آیت نمبر،حدیث کی کتاب اور رقم الحدیث کاجو رواج ہے۔ یہ اُن کے نزدیک شعبدہ بازی ہے۔
مضمون نگار آگے چل کر لکھتے ہیں: ماہ رمضان میں تروایح کی نماز جو درحقیقت نماز تہجد ہی ہے ۔ میں پورے قرآن کی تلاوت اور اس کے سماع کا اہتمام مسلمانوں کااپنا انتخاب ہے۔ اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، جبریل کے ساتھ ماہ رمضان میں قرآن مجید کا دورکیا کرتے تھے نہ کہ نماز تہجد میں‘‘۔
اس بیان سے ایک تویہ معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کااجماع عملی او رامت کاعملی تواتران کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا اورمہاجرین وانصار، جوآپؐ کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں۔ ان کا کوئی متواترعمل بھی کسی درجے کی حجت نہیں ہے۔ بلکہ بدعت ہے۔ یہی صاحب لکھتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں سے جو معیار صحت پر پورا اترتی ہیں ،اُن میں بھی اس تصور کا پایا جاناممکن نہیں کہ آ پ نے لوگوں کو بلاسمجھے قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہو۔ آپ کے مخاطبین قرآن مجید کی زبان سے وقف تھے۔ اُن کے لیے اسے سمجھے بغیر یاد کرلینا متصور ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی عالم عرب کے عام اہل زبان قاعدہ تعلیم کے بغیر قرآن کے معانی ومطالب کوکماحقہ سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو عالم عرب میں علوم عربیہ داسلامیہ کی درس گاہوں کی کوئی ضرورت نہ رہتی۔ پھردیکھے: کیااُن تمام ممالک کے لوگ جن کی مادری زبان انگریزی ہے وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر جدید سائنسی، فنی،ادبی اور سماجی علوم کوجان سکتے ہیں؟ اگرایسا ہوتاتو مغرب میں ہرسطح کے تعلیمی اداروں کاوجودبے معنی ہو کر رہ جاتا ۔ بلاشبہ صحابہ کرام اہل زبان تھے، لیکن اس کے باوجود اُن میں ماہرین تفسیر،ماہرین حدیث اورماہرین فقہ محدود تعداد میں تھے کہ جنھو ں نے باقاعدہ مکتب نبوت سے علم حاصل کیاتھا۔ صَفہّ کی درس گاہ آخرکس لیے تھی؟ انھی ماہرین کو قرآن کریم نے التوبہ ۹:۱۲۲ میں تَفَقُّہْ فِی الدِّیْن سے تعبیر فرمایا ہے۔
اب آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف، سب سے پہلے ہم اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے معانی و مطالب اور احکام الٰہی کو بصورت اوامرو نو اہی جاننا، ان کی تفہیم وتفہُّم اور تعلیم وتعلم مقصوداصلی ہے اور اس سے امت میں کسی کوبھی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ معانی اور مطالب قرآن کی اہمیت کی بنیاد پر الفاظ قرآنی پڑھنے پڑھانے کی اہمیت کم کرنا یا اسے بدعت قرار دینا دیا اسے شعبدہ بازی قرار دینا ہمارے نزدیک یہ بے دردی پرمبنی مہم کااذیت ناک حصہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے تعلیم قرآن اورتعلیم بیان(یعنی اس کے معانی ومطالب کی تفہیم) کو باہم مر بوط کر کے بیان کیاہے۔ اسی طرح یہ بھی بتایا کہ قرآن اﷲ کی طرف سے نازل ہوا، اسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل ودماغ میں محفوظ کرنا اور آپ ؐ کی زبان پرجاری کرنا اﷲ نے اپنے ذمے لیا ہے اور پھر یہ بیان بھی اسی خالق وسماکی طرف سے آیا ہے، ملاحظہ ہو: الرحمن:اتا ۴، القیامہ : ۱۶ تا ۱۹۔ نیز قرآن کا بیان، یعنی معانی ومطالب اُسی ہستی پرنازل ہوئے جس پر قرآن نازل ہوا پس قرآن کوصاحب قرآن سے جد ا کر کے سمجھا نہیں جاسکتا۔
عہد نبوت اور خلافت ِراشدہ میں حافظِ قرآن کو قاریِ قرآن کہا جاتا تھا۔ لیکن اصطلاح کے فرق سے معنویت نہیں بدلتی۔ جھوٹے مدعیِ نبوت مسیلمہ کے ساتھ جنگِ یمامہ میں ۷۰ قراء اکرام شہید ہو گئے تو حضرتِ عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تحریر ی شکل میں جمعِ قرآن کی ضروت کی جانب متوجہ کیا ا س پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اﷲ نے اس حکمت کو سمجھنے کیلئے میرے سینے کو کھول دیا، جس کے لیے عمرکے سینے کو کھول دیا‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفائے راشد ین ضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے نزدیک حفاظت قرآن کا ایک معتمدو مستند ذریعہ اس کو حفظ کرنا تھا ۔
حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ قو م کی امامت وہ شخص کرے، جو سب سے عمدہ قراء ت کرنے والا ہواور اگر حُسن قراء ت میں سب برابر درجے کے ہوں تواُسے ترجیح دی جائے، جوسنت کا زیادہ علم رکھنے والاہو، اور اگر اس میں بھی سب مساوی درجے کے ہوں تو اُسے مقدم کیا جائے جوبڑی عمر والا ہو، (سنن ترمذی: ۲۳۵)‘‘۔ اگر قاری اور عالم کا ذکر الگ الگ آئے تو ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ دونو ں ہم معنی ہیں، لیکن جب ایک ہی عبارت یا مسئلے میں بالمقابل آئیں تو پھر دونوں کے معنی میں تفاوت ہوگا،جیسا کہ سورہ حجرات: اا میں ایمان اور اسلام کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، تو ان میں معنوی فرق ہوگا، ورنہ عام طور پر ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا انتظام اپنے ذمے لیا ہے، فرمایا: ’’بے شک ہم نے ذکر (قرآن) اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (الحجر۱۵: ۹) عالم اسباب میں حفاظت قرآن کریم کے دوذرائع ہیں: تحریری صورت میں محفوظ کرنا یاذہن میں محفوظ کرنا۔ آج کل آڈیو وڈیوریکار ڈنگ بھی اس کا ایک ذریعہ ہے، لیکن یہ ظاہری چیز یں کسی حادثے یا آفت کے نتیجے میں امکانی طور پر تلف ہوسکتی ہیں، لیکن ذہنوں میں جوامانت محفوظ ہے، وہ تلف نہیں ہوتی۔
حفاظت کا یہ وعدہ اﷲ تعالیٰ نے دیگر الہامی کتابو ں اور صُحُفِ انبیاے کرامؑ کے بارے میں نہیں فرمایا۔ شاید اس کی حکمت یہ ہو کہ اُن کتابو ں کی شریعت ایک محدود زما نے کے لیے تھی اورقرآن کریم کی شریعت تاقیامت جاری وساری رہے گی۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے تحریف سے محفوظ رکھا، فرمایا:’’اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے، یہ اُس حکمت والے کی نازل کی ہوئی کتاب ہے جو ہر تعریف کے لائق ہے، (حم سجدہ ۴۱:۴۲)‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حفظ ہو جانے کی آسانی کو سورہ قمر:۱۷ میں وصف کمال کے طورپر بیان فرمایا ہے، اور سورہ اعلیٰ: میں فرمایا: ’’ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے تو آپ نہیں بھولیں گے‘‘۔
اسی طرح فرمایا: ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے، اگر یہ(قرآن) اﷲ کے سواکسی اور کے پاس سے آیاہوتا تو یہ اس میں بہت اختلافات پاتے(النساء ۴:۸۲)‘‘۔ کیا یہ قرآن میں غور فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں(محمد ۴۷: ۲۴)‘‘۔ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور فکر کریں(الحشر ۵۹: ۲۱)‘‘۔ اور ہم لوگوں کے لیے ان مثالوں کو بیان فرماتے ہیں اور ان مثالوں کو صرف علما سمجھتے ہیں(العنکبوت۲۹:۴۳)‘‘۔ قرآن نے واضح طور پر بتایا: بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں اوراگر دش لیل ونہار میں عقل مندو ں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں، جو کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے اﷲ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسما نوں اور زمین کی پیدایش میں(مستور حکمتوں پر ) غور فکر کرتے رہتے ہیں (اور کہتے ہیں:) اے ہمارے پروردگار! تونے یہ (کار خانہ قدرت ) بے مقصد پیدا نہیں کیا تو (ہر عیب سے) پاک ہے سو ہمیں عذاب جہنم سے بچا( ال عمران۳:۱۹۱) پس قرآن کے معانی و مطالب کو سمجھنے میں اپنی عقلی اور فکری صلاحیتوں کو استعمال کرنا مقصد نزول قرآن کا منشاہے اوراس میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں ہے۔
رہا یہ سوال کہ آیا معنی سے ناواقفیت کے باوجود تلاوت قرآن کریم دین کو مطلوب ہے اور یہ سعادت ہے تو قرآن میں تلاوت کا ذکربھی بطور مدح فرمایا: اے چادر او ڑھنے والے! رات کو قیام کیا کیجیے مگر تھوڑا آدھی رات تک یہ اس سے کچھ کم یا(اگر اس سے آپ کی طبیعت سیر نہ ہو تو) اس سے کچھ زیادہ کیجیے اور قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھیے (المزمل۷۳: ۱۔۴) ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ترتیل یعنی ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کا تعلق تلاوت سے ہے نیزفرمایا: (کامل) مومن وہ ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اورجب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں (الانفال ۸ـ:۲)
مضمون نگار عرفان شہزاد صاحب کی فکر کا مطلب یہ ہے کہ: اگر کسی کو قرآن کے معانی اورمطالب نہیں آتے تو محض تلاوت بے سود ہے‘‘، حالانکہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان معانی کو نہیں جانتے لیکن نماز میں تلاوت کرنے کے وہ بھی یکساں طورپر پابند ہیں شاید اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستا ن کے سابق صدر ایوب خان کے دورحکومت( ۶۹۔ ۱۹۵۸ء) میں ایک دانش ور ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا تھا :’’نماز میں معنی جانے بغیر قرآنی آیات کی تلاوت بے سود ہے، اردو میں ترجمہ پڑھا جائے‘‘
اﷲ تعالیٰ نے البقرہ۲:۱۲۹ میں دعائے ابراہیمی کی صورت میں، آل عمران:۱۶۴ میں بطور احسان، اور الجُمُعہ:۲ میں حقیقت واقعی یامظہر شان باری تعالیٰ کی صورت میں فرائض نبوت کو بیان فرمایا اور اس میں تعلیمی کتاب وحکمت کو الگ فریضہ نبوت بتایا اورتلاوت آیات قرآنی کو مستقل بالذات فریضہ نبوت بتایا۔
احادیث مبارکہ میں تلاوت کامقصود بالذات اور باعث اجر عظیم ہونا بہت واضح ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) قاری قرآن سے کہا جائے گا: جس طرح تم دنیا میں ٹھیر ٹھیر کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، اب بھی اُسی ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھو اور جنت کے درجات کو طے کرتے جاؤ، کیونکہ تمھارے درجات کی ترقی کا سلسلہ وہاں جاکر ختم ہوگا، جہاں(دنیامیں کی گئی مقدار) تلاوت کا سلسلہ ختم ہوگا‘‘(سنن ترمذی: ۲۹۱۴)حدیث قدسی میں فرمایا: ’’جسے قرآن میرے ذکراور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھے(یعنی کثرت تلاوت کی وجہ سے ذکرو دعا کاموقع بھی نہ ملے) تو میں اسے (بن مانگے) سوال کرنے والوں سے زیادہ اتا کروں گا‘‘(سنن ترمذی: ۲۹۲۶)رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابی سے فرمایش کر کے تلاوت سنی بھی ہے او ر صحابی کو سنائی بھی ہے تا کہ تلاوت کرنا اور سننا دونوں سنت رسول قرار پائیں۔ حدیث میں ہے:رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودسے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ (وہ بیان کرتے ہیں):میں نے عرض کیا: میں پڑھوں اور آپ سنیں، حالانکہ قرآن آپ پرنازل ہوا ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میں دوسرے سے تلاوت قرآن کو سنوں، پس میں نے آپ کے سامنے سورۃ النساء کو پڑھنا شروع کیا، حتیٰ کہ میں اس آیت [۴۱] پر پہنچا، [ترجمہ:’’اے حبیب مکرم! وہ کیسا منظر ہوگا جب ہم ہر اُمت پر (تبلیغ حق) کے لیے (اُس عہد کے نبی کو)گواہ کے طورپر لائیں گے اور پھر آپ کی گواہیوں کی (توثیق کے لیے) لائیں گے‘‘] تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: رک جاؤ۔ میں نے اچانک)نظریں اٹھا کردیکھا تو) آپ کی آنکھوں سے [بطور تشکر] آنسو بہہ رہے تھے [ کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی شان کو بیان فرمایا]، (بخاری:۴۵۸۳)‘‘۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: ’’نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُبی بن کعبؓ سے فرمایا: اﷲ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں قرآن پڑھ کر سناؤں ‘‘اُبی بن کعبؓ نے عرض کیا: کیا اﷲ تعالیٰ نے آپ کومیر انام لے کر فرمایا ہے؟ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں اﷲ تعالیٰ نے تمھارا نام لیا ہے‘‘۔ اُبی بن کعب ؓ (فرطِ مسرت سے) رونے لگے۔ قتادہ کہتے ہیں: مجھے بتایا گیا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کوسورۃ البینہ پڑھ کر سنائی، (بخاری: ۴۹۶۰)‘‘۔
احادیث مبارکہ میں ہے:’’(۱) حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:قرآن کو اپنی(شیریں) آوازوں سے مزین کرو، (ابوداؤد: ۱۴۶۸)‘‘۔ اسی طرح بیان کرتے ہیں :’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا:اپنی آوازو ں سے قرآن میں حسن پیدا کرو، کیونکہ اچھی آواز سے قرآن کی خوب صورتی کا تعلق نہیں ہے۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ بیان کرتے ہیں:’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کو اہلِ عرب کے لہجے اورآوازو ں میں پڑھو اور یہودو نصارا اور فاسقوں کے لہجے میں نہ پڑھو، کیونکہ میرے بعد عنقریب ایسی قوم ائے گئی، جوگویّوں، راہبوں اور نوحہ خوانوں کے طرز پر قرآن کو باربار لوٹا کر پڑھیں گے، قرآن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، ان کے دلوں کو آزمائش میں ڈال دیاگیا ہے او رجو لوگ انہیں سن کران کی تحسین کرتے ہیں، ان کے دلوں کو بھی آزمائش میں ڈال دیاگیا ہے، (المعجم الاوسط:۷۲۲۳)‘‘۔ یعنی قرآن کریم کی تلاوت خشوع وخضوع سے کرنی چاہیے، اس سے روح کو قرار وسکو ن ملنا چاہیے، اسے محض لذتِ سماع کا ذر یعہ نہیں بنانا چاہیے۔
الغرض، شیریں کلامی ہی قرآن کا مقصود مُدعا نہیں ہے، حدیث میں فرمایا: ’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قراء ت وحفظ قرآن میں ماہر ہے، ا ُس کا انجام معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جوقران پڑھتا ہے اور (زبان میں لکنت کے باعث) اٹک اٹک کردشواری سے پڑھتا ہے، تو اس کے لیے دہر ااجر ہے‘‘ (مسند احمد: ۲۶۲۹۶)۔ یعنی تلاوت قرآن کریم بالذات مقصود بھی ہے اوراﷲ کے ہاں اجر کاباعث ہے۔
اگرقرآن کو صرف مطالب او راحکام کے جاننے تک محدود رکھا جائے، تو یہ قانون کی ایک کتا ب بن کررہ جائے گی۔ حالانکہ کوئی شخص معانی نہ سمجھنے کے باوجود اسے اﷲ کا کلام سمجھ کرپڑھتا یا سنتا ہے تو ا س کادل بھی روحانی کیف وسرور سے معمور ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر اﷲ کی جلالت طاری ہوتی ہے، خود قرآن کے کلمات اس پر شاہدہیں کہ دل پراﷲ کی ہیت طاری ہوتی ہے۔ لہذا، تلاوت کی اہمیت کو کم کرنا، یاکم تر سمجھنا تعظیم وحرمت قرآن کے کم کرنے کا سبب بنے گی اور سعادت تلاوت کے اجر سے محرومی کا باعث بنے گی۔ پھرتولوگ قرآن کریم کے کلمات مبارکہ کو چھوڑ کر اردو تراجم میں محو ہوجائیں گے، جب کہ اس پر امت کا اتفاق ہے کہ اردو ترجمہ قرآن کا معنی ضرور ہے، لیکن یہ اﷲ کاکلام نہیں ہے اور نہ اُن برکات کاحامل ہے جو کلام الٰہی کے لیے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں۔
جوحضرات قرآن کا مقصود صرف اس کے معنی یاترجمہ جاننے تک محدود رکھتے ہیں، اُن کے نزدیک قرآن کو چھونے کے لیے باوضواور پاک ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور وہ سورۃ الواقعہ کی ان آیات کا وہ معنی مراد نہیں لیتے، جو جمہورعلمائے امت نے مراد لیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک یہ بہت عزت والا قرآن ہے، محفوظ کتا ب میں، اسے نہ چھوئیں مگر باوضو(الواقعہ:۷۷۔۷۹)‘‘۔ یعنی قرآن مجید کو چھونے کے لیے حَدَثِ اصغر(بے وضو ہونے) اور حدَثِ اکبر(جنابت) دونو ں سے پاک ہونا چاہیے۔ حدیث پاک میں اس کے معنی یہی بیان کیے گئے ہیں: ’’قرآن کو نہ چھوئیں مگرباطہارت لوگ، (موطاامام مالکــ:۲۳۴)‘‘۔