محمد ایوب اولیا
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتا ب آخر
مبدأ فیاض نے بہت کم لوگوں کو فن تقریر جیسی خوبی سے نوازا ہے۔ یہ ہے بھی بہت بلند مرتبہ اور رفیع الشان مقام۔ اگر ہم تاریخ میں چرچل، سعد زاغلول پاشا اور دوسرے مشاہیر کانام سنتے ہیں تو ان میں سے بیشتر فن تقریر سے آشنا تھے۔ وہ بات کرنا جانتے تھے قیافہ شناسی کی صفت سے متصف تھے۔چنانچہ اسی گفتگو یاتقریر کی ہی بدولت کا میابی ان کے قدم چومتی تھی۔ وہ عوام کی نبض پہچانتے تھے اور عوام ہی کے جذبات کی ترجمانی کرتے تھے او ربالآخر اپنی بے پناہ لسانی طاقت کہ وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ حق تو یہ ہے کہ جس آدمی کو بات کرنا نہیں آتا اس کار گۂ ہستی میں کبھی فائز المرام نہیں ہوسکتا۔ جو شخص اپنا ماضی الضمیراحسن طریق سے واضح نہ کرسکے وہ کیاخاک کامیاب ہوگا۔ دنیا کی تاریخ پڑھ جائیے آپ کو چند ہی ایسے مشاہیر ملیں گے جو اچھا نہ بول سکتے ہوں۔ ان میں سے زیادہ تعداد بہترین مقرروں اورانشاء پر دازوں کی ہوگی۔ اور اپنا مدعا دلنشین پیرائے میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو ں گے۔ ان کے الفاظ محتاط جامع ومانع ہوں گے اور یہی وہ واحد خوبی ہے جو ایک شخصیت کو دوسری شخصیت سے متمیز کرتی ہے۔
برطانیہ کی تاریخ کو لیجئے چرچل بیسویں صدی کی بہت بڑی شخصیت ہے اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ بہترین مقرر،ادیب اور انشاء پر داز ہے۔ وہ اسمبلی میں جب کسی مسئلے پر رائے زنی کرتا تھا تو ایوان میں سکوت طاری ہوجاتا اور اس کی تقریر سے ممبران ایوان سب کے سب متاثر نظر آتے تھے۔ میدا ن جنگ میں اس کی تقریر ’’قرنا‘‘ اور’’رجز‘‘ کا کام دیتی تھی۔ فی الواقعی و ہ دنیا کے بہترین مقرروں کی قبیل میں نمایاں درجہ رکھتا تھا۔ اور یہ صرف زبان دانی اور قوت تقریر کی وجہ سے ہے۔ مصر کے سعدز اغلول پاشا کی تقریروں کے اب تک اقتباس دہرائے جاتے ہیں۔ اس کی خطابت اور زبان دانی میں بین الاقوامی صداقت ہے۔ گاندھی اپنے وقت کا بہترین ادیب اور مقرر تھا۔ نہر و موجودہ بھارت کا بڑا اچھا جذباتی بولنے والا ہے اور مولانا آزاد تو امام المقررین ہیں۔ مگر عوام زیادہ بہتر طورپر ان کی تقریر سمجھ نہیں پاتے۔ وہ متوسط اورتعلیم یافتہ طبقہ کے سب سے بڑے انشاء پر داز اور جادو بیان مقرر ہیں۔ ان کی تقریر سنجیدہ منطقیانہ اور پُراستدلال ہوتی ہے اگرچہ ان کی تقریر میں جذبات بھی رواں دواں ہوتے ہیں مگرعوامی خطیب کہلانے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ بہر کیف وہ اپنی اقلیم تقریر کے واحد اور بلاشرکت غیرے شہنشاہ ہیں اور اپنا اچھوتا اور البیلا اندازرکھتے ہیں۔ ظفر علی خاں جذباتی تقریر میں اپنا جواب آپ تھے۔ لیکن ان کی اردو بھی عربی وفارسی کے راستے ہندوستان میں واردہوتی ہے۔ اس لیے ا ن کی تقریر بھی ا ن پڑھ عوام کلی طور پر متمتع ومستفید نہیں ہوسکتے تھے۔ بہرطوران کی تقریر کی بدیہہ گوئی اور برجستہ گوئی بھی مسلم ہے۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
آج مجھے اپنے ملک کے چرچل، زاغلول پاشا، گاندھی اور ابو الکلام کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ اُن سے ایک ملاقات کاتذہ کرہ مجھے مقصود ہے اور وہ شخصیت اور عوامی خطیب حضرت جناب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ہیں۔ جن کی تقریریں آج بھی زبان زدخلائق ہیں۔ لیکن اب لوگ ان کی تقریر سننے کو ترس گئے ہیں۔ ان کی ہردلعزیزی کاسرِمکتوم یہی ہے کہ و ہ عوام کے دل کی بات کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ خود کہا تھا۔ ’’میں لوگوں کی آنکھوں سے مضامین چنتا ہوں‘‘۔
میڑک کے آخری ایام تھے اور سالانہ امتحان میں صرف دوتین دن رہ گئے تھے ۔اُن دنوں طالبعلموں کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم بھی امتحانی عارضے میں مبتلا تھے۔ معلوم ہوا کہ مولانا محمد علی جالندھری دوسرے احراری زعما اور خودشاہ جی تشریف لارہے ہیں۔ شیدائیان علم وادب کے لیے سنہر ی موقع کہ بہت بڑا عوامی خطیب آرہاہے اور بہت بڑا عذاب (امتحان) بھی ساتھ ہی آرہا تھا۔ پہلا پرچہ بھی تاریخ جغرافیہ کاتھا۔ جس سے اچھے بھلے طالب علمو ں کی بھی جا ن خطا ہوتی ہے۔ عجیب کش مکش اور مخمصے میں پھنس گئے گویا
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
بہرحال یار لوگوں نے عزم صمیم کر لیا کہ اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ کھونا چاہیے۔ رات (۲۷ فروری ۱۹۵۶ء) کو جلسہ تھا۔ لیکن شاہ جی ندار دپوچھنے پر معلوم ہوا کہ شاہ جی آ تو گئے ہیں مگر تھکاوٹ کی وجہ سے صبح تقریر کریں گے۔ ایک دن تو ضائع ہو چکا تھا سخت افسوس ہوا۔ امتحان جائے مگر مہمان نہ جائے والا معاملہ نہ تھا۔ دوسری صبح بھی مشا قان شاہ جی جائے مقررہ پر جاپہنچے۔ ذرا دیر سے پہنچے۔ شاہ صاحب چوکڑی مارے بیٹھے تھے اور اب دیکھئے اندازِ گل افشانی گفتار!
زبان سے پھول جھڑ رہے تھے، دہلوی لہجہ، تلفظ درست، محاورہ پر محاورہ چُست ہو رہا تھا۔ چٹکلیاں، پھبتیاں، علمی نکتے، سنجیدہ مقولے، قرآن پاک کی تلاوت مترنم اشعار گویا دعوت رنگا رنگ تھی، جس میں سب کو بقدرِ شوق وتوفیق مل رہا تھا۔ حاضرین عش عش کر رہے تھے۔ شاہ جی جھوم جھوم کرموتی رول رہے تھے۔ اگرچہ آواز میں پہلاسادم خم باقی نہ رہا تھا لیکن یارانِ سخن کے لیے بہت کچھ تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔ جو بارانِ رحمت کا پیش خیمہ تھے۔ ’’گائیک‘‘ موسم موافق دیکھ کر اپنے گلے کی خوبی دکھارہاتھا۔’’ملہار ‘‘ اپنے جوبن پر پہنچ گیا۔ قریب تھا کہ’’سوزسخن‘‘سے ’’ بہار ‘‘ میں آگ لگ جاتی۔ حفیظ کا مصرع ہے۔ ’’سوزسخن سے آگ لگادو ں بہار میں ‘‘۔ چھا جو ں مینہ برسنا شروع ہوا۔ اس پر مستزاداَولے۔ پہلے تو لوگ موضوع کی دلچسپی اور شاہ جی کی ساحرانہ شخصیت کی وجہ سے دم بخود بیٹھے رہے مگر تابکے۔ ژالہ باری بھی بلائے جان ہوگئی تو لوگ منتشر ہونا شروع ہوگئے ۔نامہ نگار لکھے جارہے تھے۔ میزوں کے نیچے دبکے۔ چھتریو ں کے نیچے لکھے جارہے تھے کہ کہیں کوئی گوہر تابداران سے بچ نہ جائے۔ شاہ جی دونوں ہاتھوں سے لٹا رہے تھے۔ اور سخن فہم’’ تنگی داماں‘‘ کا گلہ کررہے تھے۔ جب زیادہ ہی موسم خراب ہوگیا اور لوگ بے تحاشا بھاگنے لگے تو شاہ جی نے مسکرا کر ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا ’’ اوئے بَے جاؤ! میں کوئی تہاڈے پیودا نوکرآں۔ اپنا سنگ پاڑن لگا ہویا ں آں۔ ‘‘ مگر مجمع بے قابو ہوچکا تھا۔ شاہ جی کی آواز صدا، یصحر ا ثابت ہوئی۔ شاہ جی پانی میں شرابور ہوچکے تھے۔ جلسہ بر خاست کیا اور جامع مسجد اپنی اقامت گاہ میں چلے گئے۔ میں بھی آستانہ عالیہ پرجا پہنچا۔ شاہ جی نے کپڑے بدلے میرے پاس آٹو گراف البم تھا اور مجھے جستجو تھی کہ شاہ جی سے ہجوم کم ہو اور میں ان کے آٹو گراف حاصل کروں۔ میرے ساتھ میرے ایک عزیز دوست بھی تھے۔ باربار جرأت کرتا مگر شاہ جی کا بار عب چہرہ دیکھ کر گھبرا جاتا۔ ایک صاحب کہنے لگے’’ واہ جی! آپ کو شاہ جی کیوں آٹوگراف دینے لگے۔ انہوں نے توشورش کو بھی آٹوگراف نہیں دیے تھے۔‘‘
میں بھی’’ چٹان‘‘ کے سالگرہ نمبر میں بخاری صاحب کے فوٹو گراف کے سامنے استفہامیہ علامت(؟) دیکھ چکاتھا۔ میں نے کہاہاں تم ٹھیک کہتے ہو ۔ اس سے میری جرأت کواور بھی ضعف پہنچا۔ گھر سے نکل چکا تھا۔ گوہرِ مقصود حاصل ہونے ہی والا تھا کہ آنجناب نے آٹانگ اڑائی اور مجھے دل بر داشتہ کردیا۔ میں بھی طے کرچکا تھاکہ اس شعر کے مصداق’’نکو‘‘ نہیں بنوں گا۔
قسمت پہ اس مسافر بیکس کی روئیے
جوتھک کے بیٹھ گیا ہو منزل کے سامنے
شاہ جی کے عقیدت مند پاؤں دبار ہے تھے۔ میں بھی ان کے پاس جاپہنچا اور شاہ جی سے آٹوگراف کے متعلق کہا،کہنے لگے’’ بھئی شعر میں لکھوادیتا ہوں لکھ لو نیچے میں دستخط کردوں گا۔‘‘ میں نے کہا خود ہی شعرلکھیے اوردستخط بھی کیجیے۔ کہنے لگے: ’’تھک گیاہوں، اس لیے معذور ہوں۔‘‘ پاس ہی سائیں حیات اورامین گیلانی بیٹھے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے۔ ’’لائیے ہم لکھ دیتے ہیں۔ شاہ جی سے صرف دستخط کرو الیجیے گا۔‘‘ میں اس پربھی رضامند نہ ہوا۔ ایک صاحب کہنے لگے۔ شاہ جی کے دست مبارک سے شعر اور دستخط لینا چاہتے ہیں۔ میں نے فورا کہا۔ ’’نہیں صاحب!دست مبارک سے نہیں بلکہ دست خاص سے۔‘‘شاہ جی اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے’’سن لیا بھئی!دست خاص سے لکھوانا ہے ان کو۔ ‘‘ اور پھر اس پر مسکرادیے۔ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور اپنے نانا کی تعریف میں ایک شعر لکھ دیا جونذرقارئین ہے۔
یتیمِ مکہ محمد کہ آبروئے خدا است
کسی کہ خاک رہش نیست برسرش خاک است
(عطاء اﷲ شاہ بخاری، ۲۸؍فروری ۱۹۵۶ء۔ گو جرانوالہ)
ہفت اقلیم کی دولت مل چکی تھی، غنچہ دل باغ باغ تھا ،شاہ جی کاشکر یہ اداکیا، ساری کوفت دور ہوگئی۔ ہم نے شاہ جی کے اس فرمان کو امتحان کے لیے بھی تیر بہدف تعویذ سمجھ لیا۔ یہ ہماری ایک خوش اعتقادی ہے یا شاہ جی کرامت کہ اس سال پرچے بھی نسبتاًآسان آئے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
شاہ جی! چراغ سحری ہیں۔ وہ دنیاکے سردو گرم چشیدہ ہیں، انہوں نے بہت سے انقلاب دیکھے اور برپاکئے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ مجسم انقلاب تھے اب آتش بوڑھا ہوگیاہے۔
وہ ہماری متاع عزیز ہیں، مفلوج ہیں اور مختلف عوارض میں مبتلا۔ وہ ہماری بیش بہاپونجی ہیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور سیاسی شعور پیدر کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ آج کل و ہ ساکن زندگی گزار رہے ہیں ۔ ا ن کاکام ختم ہوچکا ہے، ہمیں اور ہماری قوم کوان کی عزت اورخدمت کرنی چاہیے۔
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
(روز نامہ’’ آزاد‘‘ لاہور، ۸؍ جنوری۱۹۵۷ء)___(مشمولہ : نیرنگ نظر۔ محمد ایوب اولیا)