ایم طفیل
’’سید مخدوم شاہ بنوری مرحوم کا تعلق کوہاٹ سے تھا وہ مجلس احرار اسلام کے رہنما تھے۔ قیام پاکستان سے قبل اُن کا خاندان مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوا۔ سید مخدوم شاہ نبوری مرحوم ایک طویل عرصہ مجلس احرار اسلام کے مرکزی دفتر بیرون دہلی دروازہ لاہور میں مقیم رہے اور مجلس کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ کوہاٹ میں انتقال ہوا اور اپنے آبائی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور خدمات قبول فرمائے۔ ذیل میں ان کی یادداشتیں قارئین کی نذر کی جارہی ہیں جو روزنامہ ’’کوہاستان‘‘لاہور میں شائع ہوئیں۔ ’’کوہستان‘‘ کا خصوصی ایڈیشن عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا اﷲ وسایا مدظلہٗ کی عنایت ہے۔ مولانا اکثر ایسی عنایات کرتے رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کو جزاء خیر عطاء فرمائے۔ آمین‘‘ (ادارہ)
۱۹۴۶ء میں صوبہ بہار میں ہندؤوں کی فرقہ پرست اور شرپسند جماعت جن سنگھ نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر رکھا تھا۔ بہار کے سر زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زاربنی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی بستیوں کو نذرآتش کیا جارہا تھاْ۔ مسلمانوں کا زیادہ تر قتل عام دیہاتی علاقوں میں ہوا۔ شہر ی آبادی کسی حد تک محفوظ تھی لیکن دیہاتوں میں قتل وغارت لوٹ مار اور ہندؤوں کی غنڈہ گردی نے جو طوفان اٹھایااسے خاکسار تحریک کے بانی اور قائد علامہ عنایت اﷲ المشرقی مرحوم نے بہار کی قیامت صغری کے نام سے موسوم کیا۔ کم وبیش ساٹھ ہزا رمسلمانوں کو تہ تیغ کیاگیا۔
عسکری تنظیم:
مسلمانوں میں صرف خاکسار تحریک ایک ایسی جماعت تھی جسے عسکری خطوط پر منظم کیا گیا تھا ۔چنانچہ مسلمانوں کے اس قتل عام اور جن سنگھ کی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر علامہ مشرقی نے اعلان کیا کہ پٹنہ میں ۱۰ مئی ۱۹۴۶ء کو یوم بہادرشاہ ظفر منایا جائے گا اور خاکسار فوجی پریڈ کا مظاہرہ کریں گے۔ ادھر حکومت نے امن بحال کرنے اور جن سنگھ کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے دفعہ ۱۴۴ نافذ کررکھی تھی ،بعض سیاسی راہنماؤں نے علامہ المشرقی کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر خاکساروں کا اجتماع قانون شکنی کے مترادف ہے نیز اس سے جن سنگھ کو دوبارہ اپنی سرگرمیوں شروع کرنے کا بہانہ مل جائے گا لیکن علامہ مرحوم جن کا واحد مقصد انگریزی او رہندو استبداد سے ٹکرلینا تھا ان وقتی مصلحتوں کو خاطر میں نہ لائے اور خاکسار جوق در جوق پٹنہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے آخر حکومت نے دفع۱۴۴ختم کردی۔ علامہ مرحوم نے برصغیر پاک وہند کے کونے کونے سے آئے ہوئے خاکساروں کی معیت میں پریڈ کا مظاہرہ کیا اور یوم بہاور شاہ ظفر پورے احترام سے منایا۔ در حقیقت علامہ یہ چاہتے تھے کہ اس علاقے میں ہندؤوں پر مسلمانوں کارعب بٹھایا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام سے باز رہیں اس مقصد کے لیے وہ صوبہ بہار میں اپنی سرگرمیوں کا ایک مستقل سلسلہ قائم رکھنا چاہتے تھے چناچہ انہوں نے اعلان کیا کہ۱۰؍جون کو دوبارہ اسی جگہ یوم بہادر شاہ ظفر منانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ لوگ اس بات پر حیران تھے کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے ؟یوم بہادر شاہ ظفر مناسب تاریخ پرمنایا جاچکاہے۔ دوبارہ اسی جگہ اس تقریب کااہتمام علت سے خالی نہیں تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔انھی دنوں کرپس مشن دہلی آیاہوا تھا۔ اور وہ مسلم لیگی اور کانگریس رہنماوں سے گفت وشنیدمیں مصروف تھاتاکہ جلد سے جلد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کردیاجائے، دونوں جماعتوں یعنی کانگریس اور مسلم لیگ کے سیاسی رہنمادہلی میں موجود تھے۔ علامہ مرحوم خود بھی ان سیاسی سرگرمیوں میں شریک رہناضروری سمجھتے تھے۔چناچہ انہوں نے پٹنہ کی اس تقریب کا انتظام وانصرام عبدالمجید افغانی مرحوم کے سپرد کیا اور خود دہلی تشریف لے گئے۔ انہی دنوں پٹنہ میں لٹے پٹے مسلمانوں کی آباد کاری کے لئے احراری کار کنوں کے کیمپ نصب تھے۔ سید مخدوم شاہ بنوری جوتحریک احرار کے ممتاز راہنماؤں میں سے تھے ان کیمپوں کے انچارج تھے میری اس تحریرکا بیش تر مواد سید مخدوم شاہ بنوری کی یاد داشتوں پر مشتمل ہے۔
۱۰؍جون کادن:
۱۰؍جون کادن آن پہنچا خاکسار اپنے کیمپ میں نزد برلامندرجمع ہوئے اور ۵ بجے شام کے قریب اپنے کیمپ سے گاندھی پارک کی طرف روانہ ہوئے۔جہاں فوجی پریڈ کے مظاہرے کا پروگرام تھا۔حکومت کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ علامہ مرحوم اس علاقے کو اپنی مستقل سرگرمیوں کا مرکز بنانے پر تلے ہوئے ہیں، چناچہ فوج اور پولیس کی ایک بڑی جمعیت ڈپٹی کمشنر پٹنہ، ڈی۔ایس ۔پی اور دیگر سرکاری افسران کی معیت میں خاکساروں کو روکنے کے لئے راستے میں کھڑی تھی لیکن ان مٹھی بھر جانبازوں کے سامنے اپنے قائد کا حکم تھا جسے صرف موت ہی ٹال سکتی تھی، پولیس اور فوج نے گھیرا ڈالا، مزاحمت کی لیکن ان مردانِ حر کے قدم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے تحریک خاکسار کے قائد نے ان مجاہدوں کی تربیت اس نہج پر کی تھی کہ وہ مردانہ وار موت سے آنکھیں ملاناجانتے تھے ،جب پولیس کی مزاحمت اور فوج کا تشدد اپنی انتہا کو پہنچا اور خاکساروں کے لیے آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود کردیے گئے تو خاکسار جیش کے علمبردار عبد المجید افغانی مرحوم کی زبان سے ’’بزن‘‘کے الفاظ فضا میں گونجے۔
حق و باطل کامعرکہ:
ادھر جیش کے سالار کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ادھر خاکسار مجاہدوں کے بیلچے تن گئے۔ حق وباطل کامعرکہ گرم ہوا ۔پولیس او رفوج نے گولیوں کی بوجھاڑ شروع کردی چشم فلک نے حق و باطل سے متعلق ایسے کئی تعجب خیز واقعات دیکھے ہیں جن میں مٹھی بھر جانباز باطل کی بڑی بڑی قوتوں سے ٹکراگئے، اور فتح وشکست سے بے نیاز ہو کر صرف ایک تصور ان کے پیش نظر رہا کہ اس دنیا میں کامیابی یاناکامی کو فتح وشکست کے پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس مقصد کی خاطر وہ باطل کی قوتوں سے ٹکرائے وہ مقصد زندہ و پائندہ رہا یا نہیں پولیس اور فوج کی بھاری جمعیت گولیوں کی بوچھاڑ کر رہی تھی اور خاکسار اپنے بیلچوں سے مخالفین پر وار کر رہے تھے ۔عجیب افراتفری کا عالم تھا بازار بند ہوگئے تھے اور سارا شہر موت کے سناٹے میں لپٹا ہوا تھا۔ صرف برلا مند راور گاندھی پارک کو ملانے والی سڑک پران مٹھی بھر مجاہدوں نے زندگی کے آثار پیدا کررکھے تھے ۔تقریبا پون گھنٹے کے اس تصادم کے بعد جب فضا صاف ہوئی تو معلوم ہوا کہ سولہ خاکسار مجاہد بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ اس افراتفری میں باون کے قریب خاکسار پناہ کی تلاش میں احرارکیمپ میں پہنچ گئے۔ اور ۳۲ خاکساروں کا جیش اپنے کیمپ واقع برلامند کی طرف لوٹ گیا۔ پولیس اور فوج کے جو سپاہی خاکساروں کے بیلچوں سے مجروح ہوئے انہیں فوجی گاڑیوں میں ڈال کر فوراً فوجی ہسپتال پہنچادیا گیا۔ آخر دم تک ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔
سنسان محلے:
سید مخدوم شاہ بنوری اور امریکی ریڈ کراس سوسائٹی کے دفتر کے قائد مسڑراجر، احرار ی رضاکاروں کی معیت میں پٹنہ کے نواحی علاقہ باڑھ سے مسلمانوں کی آبادکاری کے سلسلے میں جب شام کے قریب واپس آئے ۔ تو شہر کے محلے سنسان تھے۔ تمام بازار بند تھے ہرطر ف ہُو کا عالم تھا۔ مخدوم شاہ نے بتایاکہ ہمیں کیمپ میں پہنچ کر سارے معاملات کا علم ہوا اور حقیقت حال کا پتہ چلابا ون خاکسار جو ہمارے کیمپ میں موجود تھے۔ انہوں نے دہلی پہنچنے کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ تحریک کے قائد کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا جاسکے۔ چنانچہ فوج اور پولیس کی نظروں سے بچا کر انہیں بسوں کے ذریعے دہلی پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ اس دوران فوج اور پولیس نے احرار کیمپ کو محصور کرلیا اور اصرار کیا کہ خاکساروں کو پولیس کے حوالے کیا جائے لیکن وہ اپنے مقصد میں بے نیل ومر ام لوٹ گئے۔ مخدوم شاہ صاحب نے بتایا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود ہم نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ہسپتال پہنچنے کا ارادہ کیا تا کہ ان زخمی خاکساروں کی تیمارداری کی جاسکے۔ اس مقصد کی خاطر امریکن ریڈ کراس سوسائٹی کے قائد مسڑراجر کو ساتھ لیا اور اسی کی گاڑی میں ہم ہسپتال پہنچے۔
ہسپتال میں عجیب افراتفری کاعالم تھا۔ ہندو ڈاکٹر مسلمان زخمیوں کو تڑپتا دیکھ کر منہ پھیر لیتے۔ ہم نے مس مردولا سارا بائی (جنرل سیکرٹری آل انڈیا نیشنل کانگریس، رکن سینٹرل ورکنگ کمیٹی) کو بذریعہ تار صورت حال سے آگاہ کیا ۔ وہ خود پٹنہ پہنچیں اور ہندو ڈاکٹر کو انسانیت کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ مسلمان زخمیوں کی تیمارداری کریں ڈاکٹروں نے ان کے روبرو اقرار کیا، لیکن ان کے جانے کے بعد وہی بے گانگی، وہی بے نیازی اور وہی اسلام دُشمنی ان کا وطیرہ تھی۔ صورت حال انتہائی مایوس کُن تھی۔ مسڑ راجر نے پٹنہ کے پرائیوٹ عیسائی ڈاکٹر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ہسپتال میں مسلمان مریضوں کا علاج کریں۔ چنانچہ بازار سے ادویات خریدی گئیں۔ عیسائی ڈاکٹروں نے رضا کارانہ طورپر مسلمان مریضوں کا علاج کیا۔ بعض زخمیوں کیلئے خون کی ضرورت پیش آئی۔ ہندو ڈاکٹروں نے خون مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان سسکتی ہوئی زندگیوں کو بچانے کیلئے سید مخدوم شاہ بنوری پہلے انسان تھے جنہوں نے زخمی خاکساروں کیلئے اپنا خون پیش کیا اور یکے بعد دیگرے تمام احراری کارکن اسلامی جذبہ اخوت سے سر شار آگے بڑھے اور اس طرح چند لمحوں میں ان غریب الوطن مجاہدوں کے لیے وافر مقدار میں خون فراہم کر دیا گیا۔ ان میں جیش کے علم بردار عبدالمجید افغانی مرحوم کوئی دم کے مہمان تھے۔ اس مجاہد کو گولیوں کے علاوہ سنگینوں کے بائیس زخم آئے تھے۔ ان کی زندگی بچانے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ وہ چراغ آخرِ شب تھے جو کوئی دم میں بجھنا چاہتا تھا۔ ان کا سر سید مخدوم شاہ بنوری کی گود میں تھا۔ باقی احراری کا رکن عیسائی ڈاکٹروں کی مدد سے زخمی خاکساروں کی تیمارداری میں مصروف تھے۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ رات کے بارہ بجے تو عبد المجید افغانی نے ذرا سنبھالا لیا۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا لیکن افسوس کہ یہ افاقہ، افاقۂ مرگ تھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں، غریب الوطنی کی موت پر اس کی معصوم آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ اپنے وطن سے دور، بہت دُور اپنے قائد کا حکم بجالا تے ہوئے اس کا سینہ دشمن کی گولیوں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں تشکر آمیزجذبات کی ایک ایسی مقدس جھلک تھی جس نے میرے جذبات کو بھی بے قابو کر دیا۔ وہ صرف اتنا کہہ سکا کہ ’’آپ کو ہا ٹ کے رہنے والے ہیں ۔یہاں سے فرصت ملے تو میرے متعلق میرے گھروالوں کو اطلاع دے دیجیے ‘‘۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ پائے۔ کلمہ شہادت پڑھا،آ خری ہچکی لی اورجان جان آفریں کے سپرد کردی۔
سید مخدوم شاہ کہہ رہے تھے کہ میں ان کی یاد کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ تصور کرتا ہوں۔ غریب الوطن میں ایک مرد حُر جس نے باطل کی قوتوں سے ٹکر لی۔ اس نے میری گود میں دم توڑا اورمیں نے شہادت کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بلاشبہ یہ چیز کسی بھی مسلمان کے لیے باعث صد افتخارہوسکتی ہے۔
باقی چند زخمیوں کی حالت بھی انتہائی مخدوش تھی۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد ایک دوسرامجاہد واصلِ حق ہوا اور صبح جب قریبی مسجد سے اﷲ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو چوتھے مجاہد کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ابھی یہاں سے فرا غت نصیب نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور روح فرسا خبر سننے میں آئی۔ وہ یہ کہ وہ خاکسار جو تصادم سے بچ کرواپس اپنے کیمپ نزد برلا مندر پہنچ گئے تھے، انہیں فوج نے محصور کرلیا تھااور یہ افواہ گرم تھی کہ انہیں کسی بھی وقت گولی کانشانہ بنادیاجائے گا۔ہسپتال کے باقی زخمیوں کی حالت خون کی بدولت کافی سنبھل چکی تھی، اورانہیں کوئی مہلک زخم بھی نہیں آیاتھا۔ اب ان محصور خاکساروں کا معاملہ ہمارے لیے انتہائی تشویش ناک تھا ہم نے زخمیوں کو عیسائی ڈاکٹروں کی نگرانی میں چھوڑا۔ مسٹر راجر اور ان کی بیوی سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ فور اپنی گاڑی لے کر ہسپتال پہنچے انہیں محصور خاکساروں کی صورت حال سے آگاہ کیا مسٹر راجر فوراً وہاں چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ مسڑر اجرکی بیوی نے بھی ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ چناچہ ریڈ کراس کی گاڑی میں ہم خاکسارکیمپ کی طرف روانہ ہوئے۔
راستے میں تمام بازاربند تھے۔ البتہ سڑکوں کے دونوں کناروں پر بے گناہ مسلمانوں کی لاشوں کے انبار ضرور دیکھنے میں آتے تھے۔ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کی مسنح شدہ لاشیں تھیں، جنہیں کتے اور گدھ بھی قبول نہ کرتے تھے۔ ان لاشوں کے تعفن سے دماغ پھٹے جاتے تھے۔ جب گاڑی خاکسار کیمپ کے قریب پہنچی تو وہاں پولیس اور فوج کی بھاری جمعیت کے علاوہ ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر مسٹر پو ری پشاور کا باشندہ تھا اور مجھے خوب جانتا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا اور پولیس کو حکم دیا کہ مجھے فوراً حراست میں لے لیا جائے۔ پولیس کے سپاہیوں نے سنگینیں میرے سینے پر رکھ دیں۔ عین اسی لمحہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسٹر جھا سامنے آگئے، وہ مجھے جانتے تھے۔ ان کی بروقت مداخلت سے میری جان بچ گئی۔ یہاں کا نقشہ بھی عجیب تھا۔ پو لیس اور فوج کے سپاہی مشین گنیں سنبھالے بیٹھے تھے۔ اورخاکساروں کو باڑ مارنے کے لئے صرف ایک اشارے کے منتظر تھے۔ تمام معاملات طے ہوچکے تھے۔ لیکن ہماری آمد نے ان کے پروگرام میں تعطل پیدا کردیا۔ میں نے مسٹر پوری کو دھمکی دی کہ اگر ایک بھی مسلمان کا خون ناحق بہایا گیا تو پشاور میں تمہاری پوری نسل ختم کردی جائے گی۔ دھمکی کار گرثابت ہوئی۔ میں نے مسٹر پوری سے یہ بھی کہاکہ تم اس خون ناحق کو چھپا نہیں سکو گے، یہ میرے ساتھ امریکن ریڈ کراس سوسائٹی کا قائد مسٹر راجر موجود ہے، یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ تمہاری اس حرکت کی تشہیر ساری دنیا میں ہوگی اور تم اس پر کسی قسم کا پردہ نہیں ڈال سکو گے۔ ساتھ ہی ہم نے مس مردولا سارابائی، مہاتما گاندھی اور چیف سیکرٹری کو بذریعہ تار صورت حال سے آگاہ کیا ۔مجھے حیرت ان مٹھی بھر خاکساروں پر تھی جو مشین گنوں کے مقابلے میں محصور ہونے کے باوجو د بیلچے تانے بیٹھے تھے۔ موت ان کے سامنے کھڑی تھی زندگی اور موت کے درمیان صرف ایک اشارے کا فاصلہ تھا بلکہ زند گی اور موت کے ڈانڈ ے آپس میں مل چکے تھے لیکن ان خدا کے بندوں کو ا س حال میں پایا کہ کسی کے چہرے پر نہ گھبرہٹ تھی نہ ملال، بلکہ وہ سکون اور اطمینان خاطر سے جمے بیٹھے تھے۔
آخر فیصلہ یہ ہو ا کہ مجھے ان خاکساروں سے گفتگو کرنے دی جائے۔ مسٹر جھا، مسٹر راجر اور بعض دوسرے امن دوست افراد کی کوششوں سے یہ مرحلہ طے ہوا۔ میں خاکساروں کے پاس پہنچا اور ان سے گفتگو شروع کی بعد مشکل میں نے انھیں پرامن گرفتاری پر رضامند کرلیا۔ ان کے کیمپ کے سامان کو سر بمہرکر دیا گیا۔ اور پولیس کی گاڑیاں ان خاکساروں کو لے کر جیل کی طرف روانہ ہوئیں۔ میں نے ڈپٹی کمشنر سے گرفتار شدگان کی تعداد اور ان کے سامان کی باقاعدہ رسید حاصل کی اور مسٹر راجر کی معیت میں واپس ہسپتال پہنچے۔
وہ چار خاکسار جو ہسپتال میں دم توڑگئے تھے ان کاپوسٹ مارٹم کیا جا چکا تھا۔ لیکن ہندو ڈاکٹروں کے تعصب کا یہ عالم تھا کہ وہ ا ن کی لاشیں ہمارے حوالے کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ ان کی لاشوں کو کھلے آسمان تلے دھوپ میں رکھ دیا گیا تھا اور کسی کو ان کے قریب جانے کی اجازت نہ تھی۔ ہم بے بس اور مجبور تھے۔ ہندو غنڈے قریب سے گزرتے اور ان لاشوں پر پتھر اور گندے انڈے پھینکتے۔ ان کے شیطانی قہقہے ہمارے سینوں میں تیر کی طرح پیوست ہوتے جاتے تھے اور ہم دانت پیس کر رہ جاتے۔ لاشوں میں تعفن پیدا ہو چکا تھا او رپھول گئی تھیں۔ تین دن کے دلخراش انتظار کے بعد ہمارا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ آخر ہم نے فیصلہ کیا کہ یا تو لاشیں حاصل کریں گے یاہم بھی ان سے ٹکر لے کر ختم ہو جائیں گے۔ احتیاطاً ہم نے مس مردولا سارا بائی گاندھی جی پنڈت نہرو مولاناابوالکلام آزاد کو تاریں دیں اور انہیں تمام صورت حال سے آگاہ کیا چوتھے دن ایک بجے کے قریب حکم ملاکہ لاشیں ہمارے حوالے کردی جائیں۔ شہر میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ تھا ہم ان لاشوں کو اپنے کیمپ میں لے آئے۔ تجہیز وتکفین کا بندو بست کیا،لاشوں کو غسل دیا اور جنازے کی تیاری کی۔ جونہی مسلمانوں کو علم ہو اکہ شہیدوں کی لاشیں قبرستان کی طرف تدفین کے لیے لے جائی جا رہی ہیں وہ جوق اور جوق ہمارے ساتھ شامل ہونے لگے۔ اور تقریبا پانچ سو افراد کے ایک جلوس کی شکل میں ان شہداء کاجنازہ پورے تزک واحتشام سے اٹھایا گیا۔ شہر پٹنہ کے سرکردہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ اسمبلی کے ممبران بھی شریک جنازہ تھے۔ میجر جنرل شاہ نواز ڈیڑھ سو میل دور تھے وہ مجلس جنازہ میں شریک ہونے کیلئے پٹنہ پہنچے۔ سیدشاہ عذیرمنعمی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ یہ نظارہ بڑارقت انگیز تھا۔ ہر طرف ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ نہ جانے یہ شہداء کن ماؤں کے بیٹے، کن بہنوں کے بھائی او رکن دلہنوں کا سہاگ تھے جو غریب الوطنی کے عالم میں اپنے قائد کے ادنیٰ اشارے پر خاک و خون میں لوٹ گئے۔ ہم نے انہیں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ان کی آخری آرام گا ہوں میں اتارا۔ اشکوں کے نذرانے ان شہداء کے حضور پیش کیے۔ بظاہر یہ مردان حُر منوں مٹی تلے دبا دیے گئے۔ لیکن قرآن مجید کے یہ الفاظ ہمارے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ لوگ جوراہ خدا میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھ پاتے ۔
یہ مرحلہ طے ہو چکا تو اب گرفتار ہونے والے خاکساروں کی رہائی کا مسئلہ ہمارے سامنے تھا۔ حالات روز بروز مخدوش ہوتے جارہے تھے۔ ہر طرف مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا۔ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔ ان کی زندگی ہر وقت خطرے میں تھی۔ ہندو غنڈوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آچکی تھی۔ سکھوں کی درندگی ہماری تاریخ آزادی کے متعدد المیہ باب مرتب کررہی تھی۔ بعض ہندو لیڈروں، خاص کر گاندھی جی کی انسانیت کے نام پر امن کی تمام اپیلیں ہندووں اور سکھوں نے پائے حقارت سے ٹھکرادیں۔
ابھی ان بتیس خاکساروں کا فیصلہ نہیں ہونے پایا تھا کہ ۱۴ء اگست آن پہنچا۔ ملک کو تقسیم کردیا گیا۔ مسلمانوں نے جد وجہد آزادی کی جو تحریک ہلالی پرچم کے سائے میں ٹیپو سلطان شہید کی قیادت میں شروع کی تھی وہ لاکھو ں مسلمانوں کے خون، ہزاروں مسلمان خواتین کی عصمت ریزی کے بعد منزل مقصود پر پہنچی۔ ان خاکساروں پر جو مقدمہ قائم کیا گیا تھا تقسیم ملک کے بعد اس کی اہمیت ختم ہوگئی۔ انہیں اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ پٹنہ سے چلے جائیں اور آئندہ کوئی ایسا اجتماع نہ کریں۔ اب اجتماع کا سوال ہی پید انہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ ۱۴؍ اگست کو ان ۳۲ جانبازوں کی رہائی کا حکم صادر ہوا۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’کوہستان‘‘۔ ۱۲؍ جون ۱۹۶۴ء)