حافظ محمدسفیان( ناگڑیاں)
قرآن کریم اﷲ کی نازل کردہ کتاب ہے اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں، یہ حق اور سچ کتاب ہے۔ قرآن کریم کو اﷲ تعالیٰ نے نازل فرما کر ہم پر احسان فرمایا کہ ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا۔ قرآن زندگی گزارنے کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہمیں ماں باپ بہن بھائی بیٹا بیٹی کا فرق قرآن نے بتلایا ہے، ہمسایوں رشتہ داروں…… حتی کہ جانوروں تک کے حقوق قرآن نے بتائے ہیں۔ آج ہمیں پھر قرآن کو مضبوطی سے پکڑنے کی ضرورت ہے ہمیں لارڈ میکالے کے نصاب کو چھوڑ کر اپنی اولادوں کو قرآن کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔
قرآن کو نازل کرنے والا کائنات کا رب ہے، قرآن کو آسمان سے لے کر آنے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور قرآن کو وصول کرنے والے خود مقصودِ کائنات حضرت خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ آنحضرت علیہ الصلاۃ والسلام کے وصال مبارک کو چودہ سو برس گزر گئے مگر جس طرح اﷲ نے قرآن کو نازل کیا آج تک اسی طرح محفوظ ہے اس میں کسی زیر زبر کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ جن بدبختوں نے قرآن کریم کو مٹانا چاہا آج وہ خود مٹ گئے اور دنیا وآخرت میں عبرت کا نشان بن گئے۔ جبکہ قرآن کریم پوری شان وشوکت کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس کا فیض قیامت تک جاری رہے گا۔ اﷲ تعالی اس کتاب کے خود محافظ ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے۔ قرآن ہی ہماری نجات وشفاعت کا ضامن ہے، مسلمانوں کی تباہی وبربادی قرآن وسنت سے دوری ہے۔ جب تک ہماری زندگی قرآن وسنت کے مطابق نہیں ہوگی اور ہمارے تمام فیصلے قرآن کے مطابق نہیں ہوں گے اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آج بھی مسلمان اور ملک پاکستان کے موجودہ حکمران قرآن کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دیں حضورخاتم النبینﷺ کی سنت پر انہی کے طرز عمل کو اپنانا شروع کر دیں تو دنیا میں انقلاب آ سکتا ہے۔ آج ہم مسلمان کتنے بدنصیب ہیں کہ قرآن جیسا خزانہ گھر میں موجود ہے مگر ہم دوسروں کے محتاج ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس روشنیوں کا منبع ہے اور ہم امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، اور چین سے کرنوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ مغربی جمہوریت کے سامنے تم قرآن کا دامن تھام لو، سارا یورپ تمہارے قدموں میں آکر گرے گا۔ اس وقت پاکستان کا نظام نیا پاکستان ہے اور یہ کسی جدید نئے طرز و طریقے کی تلاش میں ہے۔
اہل ایمان کو جاننا چاہیے کہ آج انگریز کے نظام کے سامنے قرآنی نظام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، ستر برس پہلے اس ملک کو کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا اس وقت سے آج تک نعرہ یہی لگ رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ۔ ستر برس گزر گئے ایک فیصد قانون سازی بھی اس ملک میں کلمہ کے مطابق نہیں ہوئی۔ اور اب تو حال یہ ہے کہ جو بھی حق بات کرتا ہے تو اس کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے نام کلمہ کا لیتے ہو نام ریاست مدینہ کا لیتے ہو اور کام یہود نصاریٰ والے کر رہے ہو، نام ریاست مدینہ کا لیتے ہو اور حضورخاتم النبینﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکا ڈالتے ہو، جس ملک میں نام کلمہ کا لیتے ہو اسی ملک میں توہین صحابہؓ کرنے والوں پر تمہاری زبانیں گونگھ ہو جاتی ہیں۔ حکمرانوں کے دعوے دیکھیں تو آج کا نیا پاکستان مدینہ کی ریاست ہے ریاست مدینہ میں تو مدرسے بنائے جاتے تھے حضور اقدس علیہ الصلاۃ و السلام نے تو خود مدرسہ قائم کیا اور آج اس ریاست میں مدرسوں پر پاپندیاں لگائی جا رہی ہے۔ آج دین کا کام کرنے والوں کو ہر طرح سے تنگ کیا جا رہا ہے دن بہ دن مدارس کو ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہے۔ کچھ توسوچو! کہ کتنے مدارس بند کرو گے جن سینوں میں یہ خدا کا کلام نقش ہوگیا ہے ان کے سینوں سے اس قرآن کو کیسے نکالوں گے؟ کیا خدا کی اتنی خلقت کے سینوں کو چیرو گے؟ غور کرو تمہاری یہ آرزو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتی۔ جب تک دنیا قائم ہے ان مدارس سے قال اﷲ وقال الرسول علیہ الصلاۃ والسلام کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی۔ اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اﷲ۔
موجودہ اہل اقتدار کو چاہیے کہ سابقہ حکومتی ادوار کے کرداروں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے وہ قرآن کریم، منصب و عقیدۂ ختم نبوت، صحابہ کرامؓ واہلبیتؓ ،مدارس اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرتا رہے گا۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کے معاشی نظام کو تباہ کر دیا ہے، مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ غریب سے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے کرنے کے کاموں کی طرف متوجہ ہوں اور علمی و نظریاتی بحثوں میں اپنی جہالت افروزی سے دخل اندازی کرنے سے باز رہیں۔ حکمران اﷲ کے عذاب سے ڈریں اور غریب عوام کا خیال کریں۔ ہماری نئی نسل اپنی تہذیبی و تاریخی شناخت سے بے گانہ ہو کر اپنے عقائد و اعمال سے جاہل رہ کر اجتماعی نفسیاتی خود کشی کی طرف بڑھ رہی ہے وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم سے، حدیث سے، سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ، اہل اﷲ کی صحبت سے اور دین کی باتوں سے غافل ہے۔ اگر ہم صفحۂ عالم پر اپنی بقا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں ان تمام چیزوں کو جاری و ساری کرنا ہو گا۔ آج جگہ جگہ پر مدارس قائم ہیں لیکن ہم اپنے نوجوانوں کو سکول وکالجز کی طرف بھیج رہے ہیں، ہر جگہ پر مسجد قائم ہے لیکن ویران ہے۔ کسی کو دنیا طلبی سے فرصت ملے تو وہ نماز پڑھے، کوئی خواہشات کی پوجا سے فراغت پائے تو قرآن کی تلاوت کرے۔موبائل، انٹرنیٹ، سے خالی وقت ملے تو حضورﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں۔
آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں پر خاص توجہ کریں۔ ان کو حضورﷺ کی ختم نبوت کے عظیم منصب سے روشناس کرائیں اور انہیں اسوہ صحابہؓ سے آگاہ کیا جائے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شہر یا علاقے کے قریبی علمائے کرام سے رابطہ مضبوط کریں۔ ان کے پاس بیٹھنے کے لیے اپنے نظام الاوقات میں خاص وقت متعین کریں۔ ان سے ختم نبوت کی اہمیت دین کی تعلیمات اور قرآن کے حکم کے مطابق ہرہر بات ان سے سیکھ کر اس پر عمل کریں۔
آج ہر شہر ہر علاقے میں ختم نبوت کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہے اور ان کا مقصد صرف اور صرف روز محشر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کا حصول ہے۔ جو لوگ گمراہی کے راستے پر چل نکلے اور امت سے کٹ گئے ان کو امت بنانے کی محنت کرنا، ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کے ایمان کو بچانے کی فکر کرنا ہے کہ ان کو جہنم سے بچا کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرچم ختم نبوت تلے اکھٹا کیا جائے اور نوجوانوں میں ختم نبوت کا جذبہ پیدا کیا جائے ان کو مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوے اور اس کے دجل وفریب سے آگاہ کیا جائے۔ اسی سلسلے میں امسال بھی حسب سابق مجلس احراراسلام کے زیراہتمام 12-11 ربیع الاول کو چناب نگر (سابق ربوہ) میں ایک عظیم الشان 41 ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور دعوت اسلام ریلی کا انعقاد کیا جائے گا جس میں قادیانیوں کو اسلام کی دعوت دی جائے گی۔ احباب اس کانفرنس کی تیاری شروع فرمائیں، اور اپنے اپنے شہروں میں اس میں شرکت اور ختم نبوت فنڈ کی محنت جاری فرمائیں۔ اﷲ پاک حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے اس ملک میں قرآن کا نظام نافذ فرمائے، اور ہمیں قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے، اﷲ اس ملک میں اچھے حاکم عطاء فرمائے اور اس ملک کی حفاظت فرمائے، اﷲ تعالی اس کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں۔آمین