عبداللطیف خالد چیمہ
بر ٹش ایمپا ئر نے مسلمانوں سے جذبۂ جہاد ختم کرنے اور فرقہ واریت کوپروان چڑھا نے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں فتنۂ اِرتداد ِ مرزائیہ کو کھڑا کیا ،مرزا غلام احمد قادیانی نے مسیلمۂ کذاب کی جانشینی کا حق ادا کیا اور قادیانی جماعت نے اپنے آقاؤں کی تابعداری میں تنسیخ جہاد کے لئے پورا زور لگا دیا ،بہت سے مؤثر سرکاری اداروں میں قادیانیوں نے رسوخ حاصل کرلیا اور بعض سرکاری محکموں میں قادیانی سفارش سے بھر تی ہونے لگے، قادیان میں مرزائیوں نے اپنی اکثریت کے زعم میں انسانیت پر جو ظلم روا ء رکھا ،اس قصبہ کی غیر مرزائی آبادی کو جس طرح پریشان کیا ،قادیان میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کی ذریت نے عالم اسلام کو جس افتراق وانتشار کا نشانہ بنایا تاریخ اس کا جواب مہیا نہیں کرسکتی ،رائج الوقت قانون کی موجودگی میں خلیفہ قادیان کے گھریلو آئین ،دن کی روشنی میں اپنے مخالفوں کا قتل عام مسلمانوں اور غیر مسلموں سے اقتصادی مقاطعہ معصوم عصمتوں کی ہلاکت قصر خلافت میں اخلاق سوز حرکتوں کا ارتکاب یہ تھے ،وہ عوامل جس سے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی سیخ پاء تھے،سلطنت بر طانیہ کے خلاف آزادی کی ہر آواز کو دبانے کے لئے قادیانی مُخبر حق ِ نمک ادا کرنے لگے، قادیانی تحریک کاہرفرد بر طانوی سامراج کے مفادات کا محافظ اور وفا دار بن کر رہ گیا، تمام مکاتب فکر علمی سطح پر تعاقب میں مصروف ہو گئے ، اسی دوران مجلس احرار اسلام جو مسلمانوں کے لیے مسیحاء بن کر اٹھی۔ 1920ء میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے بندے ماترم ھال امر تسر میں مرزا بشیر الدین محمود کو ٹوکا کہ تم حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں تحریف کرکے مرضی کی تشریح کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کو سچا قرار نہ دو بھر ے ھال میں ہنگا مہ کھڑا ہو گیا ،حضرت امیر شریعت نے مرزا بشیر الدین محمود کو للکارا کہ حدیث شریف میں تحریف نہیں کرنے دو نگا، چنانچہ پہلے عوامی معرکے میں مرزا بشیر الدین اسٹیج چھوڑ کر بھاگ نکلا شاہ جی نے حدیث شریف کی روشنی میں حاضرین سے خطاب کیا ،یہی جدوجہد سامراج دشمنی اور قادیانیت کے تعاقب کی راہیں متعین کرنے لگی اور مجلس احرار ِاسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ احرار محدث العصر حضر ت سید محمد انور شاہ کشمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی دعاؤں اور مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اﷲ علیہ کی آرزو کا نتیجہ تھی۔ تو حضرت مفتی کفایت اﷲ، چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہم اﷲ کی مشاورت و تائید سے احرار کا پلیٹ فارم سامنے آیا، جو بہت سے نشیب و فراز اور دشمن کی چیرہ دستیوں کے باوجود آج بھی الحمد اﷲ قافلۂ سخت جاں کے طور پر پھر سے منظم ہو رہا ہے۔ مرزا غلام نبی جانباز رحمتہ اﷲ علیہ ’’حیات امیر شریعت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1857ء کے بعد انگریز ی سامراج نے جن تحریکات کو از خود جنم دے کر پروان چڑھایا، مرزائیت اسی پودے کا اہم بیج تھا۔ احرار رہنماؤں کے تدّبر نے اس سے چشم پوشی کو ہندوستان سے غداری اور اسلام کے بنیادی عقیدۂ ختم ِنبوت سے انحراف سمجھ کر قادیان کے نظام ِ حکومت میں دراڑ ڈالنا ضروری خیال کیا۔
اپریل 1924ء میں محدث العصر حضرت مولانا علامہ انور شاہ کاشمیر ی، حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا بہاؤ الحق قاسمی، مولانا نور احمد، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور دیگر اکابر رحمہم اﷲ کا قادیان آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ یہ سلسلہ بڑی حکمت کے ساتھ چلتا رہا اور آگے بڑھتا رہا تا آنکہ 23,22,21 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں حضرت امیر شریعت کی صدارت میں تبلیغی کانفرنس کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس فیصلے سے مرزائی اور حکومت اپنی اپنی جگہ سوچ میں پڑ گئے، پنجاب میں خصوصاً احرار رضا کاروں نے کانفرنس میں شمولیت کی تیاریاں شروع کر دیں، جہاں مسلمان کانفرنس کی تیاریوں میں مگن ہوگئے ،وہاں قادیانیوں نے بھی رائج الوقت اسلحہ، برچھے، کلہاڑیاں ودیگر سے لیس ہوکر مسلمانوں کو ہر قسم کا جواب دینے کی تیاری شروع کردی۔ مسلمانوں کا شوق دیدنی تھا۔ احرار تبلیغ کانفرنس کے لیے سپیشل ٹرینیں چلائی گئیں۔ لدھیانہ ،لاہور ،امرتسر ،دہلی ،پشاور ،گوجرانوالہ ، کوئٹہ سے کراچی، سری نگرسے سیالکوٹ ہر طرف گہما گہمی تھی، 21 اکتوبر صبح گیارہ بجے چالیس ڈبوں پر مشتمل احرار سپیشل ٹرین جس میں امیرشریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور ہزاروں احرار سرخ پوش رضا کار سوار تھے۔ امرتسر سے قادیان کے لیے روانہ ہونے والی ٹرین کے دونوں جانب انجن تک احرار کے سرخ پرچم لہرا رہے تھے۔ احرار پرچم کی اڑانوں نے قادیانیوں کے چہروں کی رنگت اڑادی تھی، قصر خلافت کے مینار ایڑیوں کے بل اچھل اچھل کر احرار سپیشل ٹرین کا نظارہ کر رہے تھے۔ قادیان کا سومنات احر ار غزنوی کے قدموں میں ڈھیر ہو رہا تھا۔ قادیان کے مسلمان، سکھ اور ہندو اس دن کو یوم نجات کہہ کر خوشی منا رہے تھے۔ کفر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود لرزہ براندام تھا کہ ٹھیک 1:30 بجے یہ قافلہ حریت قادیان ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا عبد الکریم مباہلہ رحمتہ اﷲ علیہ قافلہ ٔسالار کی حیثیت سے افواج ایمان کے ساتھ قادیان کے لات وہبل پر حملہ آور ہوئے۔ جہاں اسلامی دنیا کی عظیم شخصیات شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ، ابوحنیفہ ہند مفتی کفایت اﷲ دہلوی رحمہ اﷲ، ابوالوفا مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اﷲ، ظفر الملت مولانا ظفر علی خان رحمہ اﷲ، امام الاؤلیا مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اﷲ سمیت بے شمار اؤلیا وصلحاء نے اپنی تائیدات کا اظہار فرمایا۔ یوں 21 اکتوبر 1934ء قادیان میں پہلی احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی اور ان عظیم رہنماؤں اور احرار رضاکاروں کو اﷲ کریم نے قادیان میں پہلی فتح عظیم سے سرفراز فرمایا، اِس کانفرنس جس نے پوری دنیا میں قادیانیت کے دجل و فریب کو بے نقاب کیا اِس سے پہلے ایک طویل عرصہ کس طرح سوچ وبچار کرکے اِس کو پلان کیا گیا اور کتنے حضرات کو قربانی دینا پڑی اس کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے حضرت امیر شریعت نے 21 اکتوبر کو رات دس بجے سے سحر تک شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمتہ اﷲ علیہ کی صدارت میں جو تقریر کی اس نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں شاہ جی کی تقریر پر مقدمہ ہوا اور سزا بھی لیکن مسٹر جی، ڈی، کھوسلہ سیشن جج گور داسپور نے فریقین کے وکلاء کی بحث کے بعد جو فیصلہ دیا اِس کو تحریک ِختم ِنبوت کی تاریخ میں ممتاز حیثیت حاصل ہے اور اس فیصلے نے خود ’’فیصلہ‘‘ کردیا۔ اکابر احرار اور قافلۂ ختم ِنبوت نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں انگریزی جبرو استبداد کے باوجود قادیان میں 21 تا 23 اکتوبر 1934ء کو ’’احرار تبلیغ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کرکے پوری دنیا پر فتنۂ قادیانیت اور مرزا غلام احمد قادیانی کی حقیقت کو آشکارا کر دیا تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سیدحسین احمد مدنی، پیر سید مہرعلی شاہ گولڑوی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہم اﷲ اور اِن کے پیر وکار تحریک ختم ِنبوت کی پُشت پر کھڑے تھے۔ مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان رحمہما اﷲ اور یونیوسٹائز طبقہ بھی قادیانیوں کو دین وملت کا غدار قرار دے رہا تھا لیکن دنیا پر قادیانیت کا کفر وارتداد واضح کرنے کے لیے مجلس احرار ِاسلام نے قادیان میں شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت قائم کیا اور پورے ہندوستان میں اس کے دفاتر قائم کیے۔ قادیان میں کفر وارتداد کا تسلط اور غرور توڑ کے رکھ دیا۔ فاتح قادیان مولانا محمد حیات، مولانا عنایت اﷲ چشتی رحمہما اﷲ اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں احرار کارکنوں نے جفا کشی اور سرفروشی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مفکر احرار چودھری افضل حق رحمتہ اﷲ علیہ تاریخ احرار میں لکھتے ہیں کہ ’’جماعت کی ورکنگ کمیٹی میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ قادیان میں پہلے پہل جاکر کے کام کا آغاز کرنے کے لیے کوئی ایسا ساتھی اپنا نام پیش کرے جس کی شادی نہ ہوئی ہو تاکہ اگر وہ قادیانیوں کے ہاتھوں شہید ہوجائے، تو ….. اس پر مولانا عنایت اﷲ چشتی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنا نام پیش کیا اور قادیان میں جا کر اپنا کام شروع کر دیا پھر مولانا محمد حیات رحمتہ اﷲ علیہ قادیان پہنچے اور دارالمبلغین کا قیام عمل میں آیا جبکہ قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، ماسٹر تاج الدین انصاری ، جانباز مرزا ، مولانا لعل حسین اختر مرحومین اور دیگر رہنما قادیان آتے جاتے رہے اور کام منظم ہوتا رہا۔ اکتوبر 1934ء کی اس بنیادی، کلیدی اور تاریخی احرار کانفرنس کی مناسبت سے مجلس احرار اسلام پاکستان کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام 23,22,21 اکتوبر کو ’’یاد ماضی‘‘ کی ورق گردانی کی جاتی ہے اور مختلف اجتماعات میں ان حسین یادوں کو تازہ اور زندہ کرکے لہو کو گرم کر لیا جاتا ہے۔ جس سے ایمان کو حرارت پہنچتی ہے اور بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔ اس دفعہ 21 اکتوبر سوموار کو آ رہاہے اس روز ہم ان شاء اﷲ تعالیٰ ’’یوم فتح قادیان‘‘ منائیں گے۔ چناب نگر (ربوہ) میں قافلۂ احرار 27؍ فروری 1976 ء کو فاتحانہ انداز میں داخل ہوا۔ چھے ضلعوں کی پنجاب پولیس نے لوگوں کا راستہ روکا اور ہر طرف سے ناکہ بندی کرکے قافلوں کو روکا۔ منظر دیدنی تھا ،اس وقت کی پیپلز پارٹی نے فسطائیت کی انتہا کی، تاریخ ربوہ میں پہلے داخلے کے موقع پر قائد احرارسید ابو معاویہ ابوذربخاری اور سید عطاء المحسن بخاری مرحومین کو ربوہ ،مسجد احرار کے سنگ بنیاد کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔ بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمتہ اﷲ علیہ اور ملک رب نواز ایڈووکیٹ نے خطاب کیا، بعد ازاں اِن ناروا پابندیوں کی صدائے بازگشت پنجاب اسمبلی میں بھی سنی گئی۔ دراصل ربوہ میں تاریخ کے پہلے داخلے کو قادیان کے تسلسل سے ہی موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز بھی احرار اور فرزندان امیر شریعت کے حصے میں آیا۔ اب ہرسال 12-11 ربیع الاوّل کو ربوہ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے اختتام پر دعوتی جلوس نکالا جاتا ہے اور ’’ایوان محمود‘‘ کے عین سامنے قادیانیوں کو دعوت اسلام کا فریضہ دہرایا جاتا ہے۔ امسال بھی ان شاء اﷲ تعالیٰ نومبر میں اس عمل مبارک کا اعادہ کیا جائے گا، قافلۂ احرار اس وقت ابن امیر شریعت سید عطا ء المہیمن بخاری مدظلہ العالی، پروفیسر خالد شبیر احمد، سید محمد کفیل بخاری، میاں محمد اویس، مولانا محمد مغیرہ، سید عطاء اﷲ شاہ ثالث، ڈاکٹر عمر فاروق احرار اور قاری محمد یوسف احرار کی پر عزم قیادت میں بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نظر بد سے بچائیں اور ہم سب کو مل جل کر اکا بر کی اِس جماعت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں،آمین یارب العالمین!