سید محمد کفیل بخاری
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان اور حالیہ دورۂ امریکہ میں مختلف مواقع پر اُن کی گفتگو کے بہت چرچے ہیں۔ انہوں نے اسلام فوبیا، توہین رسالت اور مسئلہ کشمیر پر بہترین تقریر کی جوپاکستا نی عوام کے دینی وقومی جذبات کی ترجمانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہانت پرہمارے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
مغربی ممالک نہیں جانتے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہمارے دلوں میں کیا مقام ہے
اسلام ایک ہی ہے جو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیش کیا، باقی سب دو نمبرہے۔
اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا غلط ہے۔
اس بیانیے سے ہرمسلمان اتفاق کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمرانی حکومت کے عملی اقدمات کی اس تقریر سے کوئی مطابقت بھی ہے۔ کیا صرف جذباتی تقریروں سے پاکستا ن کودرپیش مسائل حل ہوجائیں گے؟
مسئلہ کشمیر پر بہتّر برسوں سے بڑی جذباتی ہیجان انگیز اور شعلہ بار تقریریں ہورہی ہیں۔ سابق وزیر خارجہ مسٹر ظفر اﷲ خان قادیانی نے اقوام متحدمیں طویل ترین تقریرکی تھی لیکن تقسیم ہند کے موقعے پر کشمیر کا زمینی راستہ بھی پٹھان کوٹ کے ذریعے اسی قادیانی نے بھارت کو فراہم کیا تھا۔ خان صاحب کی جذباتی تقریر بجا لیکن اُن کی حکومت کے عملی اقدمات اور ناکام ترین سفارتی پالیسیاں محلِ نظر ہیں۔ گزشتہ دورۂ امریکہ کے موقع پرصدر ٹرمپ کی طر ف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش اور وزیر اعظم عمران خان کے پاکستا ن پہنچنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر ہڑپ کر کے بھارت میں ضم کردیا۔ اب عمران خان نے امریکہ میں فرمایا کہ:
’’صدرٹرمپ نے مجھے سعو دیہ وایران میں ثالثی کے لیے نہیں کہا‘‘
حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں پاکستا ن کو 16ووٹ بھی نہ ملے جبکہ بھارت 58ووٹ لے گیا۔ ہمارے جگری دوست سعودی عر ب اور امارات نے بھی بھارت کو ووٹ دیا، سعودی شہزادے نے ہمارے شہزادے کو امریکہ جانے کے لیے جہاز تو دے دیا مگر ووٹ نہیں دیا۔ شہزادہ عمران کو ادراک ہوجانا چاہیے کہ اقوام متحدہ پاکستا ن کی سینٹ نہیں اگر تقریروں سے ہی کشمیر یادیگر مسائل حل ہونے ہوتے تو کب کے ہوچکے ہوتے مگر یہاں تو تقریریں کرتے بہتّر سال گزرگئے۔ ہماری تقریروں اور ناقص ترین خارجہ پالیسیوں سے کشمیریوں کی تکالیف میں اضافہ تو ہو اکمی نہیں ہوئی اور نوبت بایں جارسیدکہ آزاد کشمیر کی حکومت اور کشمیری عوام بھی ہم سے نالاں اور مایوس ہیں۔
ہمیں عمران خان سے کوئی ذاتی عناد نہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام سے جس محبت کا اظہار کیا وہ اُن کے دل کی آواز بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اُن کے اقدامات پالیسیاں اور یوٹرن قول و فعل میں تضاد کی عکاسی کرتے ہیں۔ اپنے طویل ترین دھرنے میں انہوں نے بڑی مؤثر تقریریں کیں لیکن……
کہاں ہے انصاف؟
سانحۂ ساہیوال کے سفاک مجرم دندنار ہے ہیں اور مظلوم بچوں کی سسکیاں انصاف کو آوازدے رہی ہیں۔ توہین رسالت پر یقینا آپ کے دل میں درد ہوتا ہے لیکن توہین کی مرتکب سزا یافتہ ملعونہ آسیہ کو رہا کرکے امریکہ میں اس کا کریڈیٹ بھی آپ نے لیا۔
ختم نبوت پرایمان کا اظہار اور مریکہ میں غدّارانِ ختم نبوت قادیانیوں کے منعقدہ اجتماع میں تقریر بھی آپ ہی کارنامہ ہے۔ آ پ کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی برطانیہ میں قادیانی لارڈ طارق سے ملاقات اور وزیر ریلوے ’’مجاہد ختم نبوت‘‘ شیخ رشیداحمد کی قادیانی ایونٹ میں شرکت کوکیا نام دیاجائے؟
چناب نگر کے معروف قادیانی کتب فروش عبدالشکور چشمے والا ایک سزایافتہ مجرم تھا۔ اسے رہاکرکے امریکہ بھجوا نے کا کریڈیٹ بھی تو آپ ہی کو جاتا ہے۔ شکورے کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ تک پہنچانے اور پاکستا ن کی شکایت لگانے کا کریڈیٹ بھی آپ ہی کو جاتا ہے۔ اور اب……ماتحت عدالتوں سے 1999ء میں توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار ہائی کورٹ تک سزائے موت پانے والا مجرم وجیہ الحسن بھی رہا کر دیا گیا ہے۔
عمران خان صاحب! آپ مذہبی کارڈ بھی کھیل رہے ہیں اور مذیب کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین پڑھ کر مذہب کا استیصال اوردین داروں کا استحصال، یہ آپ ہی کا کریڈیٹ ہے۔
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
خدارا ملکِ عزیز اور اس کے عوام کے حال پر رحم فرمائیں۔
’’وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت‘‘
اقتدار آزمائش ہے۔ جو آپ نے شدیدخواہش پر مانگ کر لیا ہے۔ گرم توے پر بیٹھنے سے پہلے آپ کو سوچنا چاہیے تھا۔ کوئی اچھا کرسکتے ہیں تو کیجیے ورنہ قوم کی جان چھوڑ دیجیے۔
حیات امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ …… ضروری وضاحت
6 ستمبر 2019ء کی شام ایک دوست نے مطلع کیا کہ ’’حیات امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ، مصنفہ جانبا زمرزا مرحوم‘‘ کے موجودہ ایڈیشن شائع شدہ مارچ 2018ء کے حوالے سے فیس بک پر بعض دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ راقم (سید محمد کفیل بخاری) نے یزید کے بارے میں حضرت امیر شریعت کے دو جملے حذف کر دیے ہیں۔ میں نے کتاب دیکھی تو واقعتا صفحہ 268 پر دو جملے حذف تھے۔ جو 1939ء کے مشہور مقدمۂ بغاوت معروف بہ لدھارام کیس کی کارروائی کا حصہ ہیں اور کتاب کے پرانے ایڈیشن کے صفحہ 262 – 263 پر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں مقدمات امیر شریعت مرتبہ مولانا سید ابو معاویہ ابوذ بخاری رحمہ اﷲ میں بھی موجود ہیں۔
میں اس کتاب کی پرانی کتابت کے تقریبا چھے ایڈیشن شائع کر چکا ہوں ان میں بھی مذکورہ جملے بعینہ موجود ہیں۔ اصولی طور پر کتاب کے متن کو تبدیل کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
موجودہ ایڈیشن کمپیوٹر کتابت میں پہلا ایڈیشن ہے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ جملے پروف ریڈر نے اپنی رائے سے بذات خود خاموشی سے حذف کیے ہیں۔ کتابت مارکیٹ سے ہوئی ، سہولت کے لیے پروف ریڈر بھی مارکیٹ سے اجرت پر حاصل کیا اور اعتماد کی بنیاد پر تصحیح شدہ مسودہ دوبارہ نہ دیکھا جا سکا۔ چونکہ کتاب ہمارے ادارے سے شائع ہوئی اس لیے اس غلطی کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی آتی ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر میں نے پروف ریڈر کی سخت سرزنش کی۔ علاوہ ازیں بے توجہی سے پروف پڑھنے کی وجہ سے بعض دیگر کتابتی اغلاط بھی رہ گئی ہیں۔
میں نے فیس بک پر تو اسی وقت وضاحت کردی تھی لیکن بعد میں مختلف احباب نے فون کے ذریعے اور ملاقات پر زبانی اس فاش غلطی پر متوجہ کیا۔ خصوصاً عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا اﷲ وسایا نے ذاتی طور پر متوجہ کیا۔ میں ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس نامناسب ترمیم و حذف کی بر وقت نشان دہی کی اور انہیں جو تکلیف ہوئی اس پر معذرت خواہ ہوں۔
فوری طور پر مذکورہ صفحہ تصحیح کے بعد دوباہ شائع کیا جا رہا ہے۔ کتاب کا جتنا سٹاک ہمارے پاس یا جس ادارے کے پاس موجود ہے تمام نسخوں میں اسے چسپاں کر دیا جائے گا۔ اصل کمپوزنگ میں بھی تصحیح کردی ہے تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس غلطی کا اعادہ نہ ہو۔ امید ہے کہ اس تفصیلی وضاحت کے بعد احباب و قارئین کو اطمینان ہو جائے گا