قسط:۳
شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ
جب تک قائد اعظم زندہ رہے، چودھری ظفر اﷲ خاں چوکنا رہے۔ خاں لیاقت علی خاں کی شہادت تک اس نے زیادہ پاؤں نہ پھیلائے لیکن خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم ہو گئے۔ تو اس نے تمام حدود پھاند ڈالے اور بلا جھجک قادیانیت کے پھیلاؤ میں منہمک ہو گیا۔ میرزا بشیر الدین محمود نے اپنے خطبات میں زور دینا شروع کیا کہ ان کے پیرو تمام محکموں میں بھرتی ہوں اور اس طرح فوج، پولیس، ایڈمنسٹریشن، ریلوے، فنانس، اکاؤنٹس، کسٹمز اور انجینئرنگ پر چھاجائیں۔
(ملاحظہ ہو: الفضل ۱۱؍ جنوری ۱۹۵۲ء)
اسی سال مرزا بشیر الدین نے خطبہ دیا کہ :
’’۱۹۵۲ء گزرنے نہ پائے کہ دشمنوں پر احمدیت کا رعب غالب آ جائے اور وہ مجبور ہو کر احمدیت کی آغوش میں آگریں‘‘۔
اس سے پہلے مرزا بشیر الدین نے دسمبر ۱۹۵۱ء کو اپنے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وقت آنے والا ہے، جب یہ لوگ (مخالفین و منکرین) مجرموں کی حیثیت میں میرے سامنے پیش ہوں گے۔
مرزا محمود نے ۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء کے خطبہ میں کہا:
’’اپنا یا بیگانہ کوئی اعتراض کرے، کوئی پرواہ نہیں۔ ہونا وہی ہے جو میں نے کہا ہے اور وہی ایک دن ہم کر کے رہیں گے‘‘۔ (الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۵۲ء)
مرزا محمود نے ۲۳ جولائی ۱۹۴۸ء کو کہا کہ وہ بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانا چاہتا ہے، منیر انکوائری رپورٹ میں مرزا محمود کے اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے ججوں نے لکھا کہ ان کی تقریر نہ صرف نامناسب بلکہ غیر مآل اندیشانہ اور اشتعال انگیز تھی۔ (رپورٹ اردو، ص: ۲۸۰)
مرزا محمود نے بلوچستان کو قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان اس کے آخری انگریز ایجنٹ مسٹر چیفر سے ملی بھگت سے کیا اور مسٹر ڈی۔ وائی فل اور مسٹر ہنڈرسن سے پخت و پز کرنے کے بعد اس خوش فہمی کا شکار ہو گیا کہ بلوچستان ان کی ریاست ہو گا، اس نے اعلان کیا کہ اب صوبہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہماری شکار گاہ ہوگا۔ دنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔
مرزا محمود کا یہی اصل روپ تھا جب تک انگریز رہا۔ وہ مذہب کی کمین گاہ میں بیٹھ کر انگریز کی سیاسی خدمت انجام دیتا رہا۔ انگریز چلا گیا تو سیاسی شاطر کی حیثیت سے سامنے آ گیا اور قادیانیت کو برسر اقتدار لانے کی جدوجہد میں سرگرم ہو گیا، مرزا اس خیال سے مطمئن تھا کہ احرار جیسی فعال جماعت مسلم لیگ سے ٹکراؤ کے باعث متروک ہو چکی ہے۔ دوسرے علماء ان سے ٹکر لینے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور نہ انھیں مسلم لیگ کی تن آسان لیڈر شپ سے کسی مزاحمت یا مدافعت کا خطرہ ہے، خود علماء مرزا محمود کی سیاسی عیاریوں سے بے خبر تھے۔ ان کے نزدیک مرزائیت صرف ایک مذہبی مسئلہ تھا اور وہ زیادہ سے زیادہ ختمِ نبوت کے مسئلہ پر کلام کرتے تھے۔ مرزا محمود ان حالات میں بطور ایک سیاسی شاطر کے حصول اقتدار کے لیے بے جھجک ہوتا گیا۔ اس کی خود سری کا یہ حال تھا کہ کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور اس گھمنڈ سے باتیں کرتا تھا، گویا ملک کی حکومت اس کے ہاتھ میں ہے، چودھری ظفر اﷲ خاں عالمی سامراج کی شہ پر کام کرتا اور ملک میں جہاں کہیں جس عہدے پر کوئی مرزائی افسر تھا، وہ علی الاعلان اپنے فرقہ کی خدمت کرتا اور اپنے عقیدے کی تبلیغ میں بے باک تھا۔ احرار کا تبلیغی عنصر اس سے غافل نہ تھا، لیکن قادیانی سیاسی مسلمانوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب تھے کہ ان کے خلاف جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ مختلف اسلامی فرقوں کے تنازعات کی پرانی آویزش اور منبر و محراب کی باہمی خصومت کا پرانا ورثہ ہے۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر دسمبر ۱۹۴۸ء تک خانہ نشین رہے، لیکن اواخر دسمبر میں پاکستانی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل نے اپنے ایک سی ایس پی دوست کے ہمراہ شاہ جی سے ملاقات کی اور بیان کیا کہ ہم پاکستان سے پہلے قادیانیت سے متعلق علماء کے تعاقب کو فی الواقعہ ایک فضول مذہبی جھگڑا سمجھتے تھے۔ آپ لوگ جب قادیانیت کے متعلق لمبے لمبے وعظ کرتے تو خیال ہوتا کہ یہ جھمیلے ملائیت کی خصوصیت ہیں یا احرار کی افتاد طبیعت کہ وہ ذہنی طور پر مشغول رہنا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان بن جانے کے بعد جو حقائق ہمارے مشاہدے میں آئے اور جن تجربوں سے ہم گزر رہے ہیں، وہ اتنے سنگین ہیں کہ پاکستان درجہ اوّل لیڈر شپ کے بعد
(۱) اپنی موجودہ ہیئت کھو بیٹھے گا اور اس کا کوئی دوسرا نقشہ ہو گا
(۲) یا ہندوستان کی طرف کسی نہ کسی شکل میں پلٹ جائے گا
(۳) یا اس کی حیثیت ایک مرزائی ریاست کی سی ہو گی
ان تینوں میں جو شکل جس طرح قائم ہو گی، اس کے پس منظر میں مرزائی ہوں گے اس غرض سے وہ اندر خانہ اپنے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ شاہ جی نے ان سے کہا کہ آپ یہ سب باتیں ملک کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خاں کے نوٹس میں لائیں اور ان سے کہیں کہ اپنی کسی معتمد ایجنسی کی معرفت جملہ معلومات حاصل کریں۔ کرنل نے کہا:
’’شاہ جی ہماری اصل مصیبت یہ ہے کہ حکمران جماعت دین سے معاشرتی دلچسپی رکھتی ہے مذہبی نہیں۔ وہ اوّلاً اپنی ذات، ثانیاً اپنی جماعت پھر اس کے حدود میں اپنے مقاصد و مصالح دیکھتی ہے، اسے اسلام اور اس کی دعوت کے مضمرات مقتضیات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کو بتائیں کہ مرزائی کیا ہیں؟ آپ نے اس داستان کا نوٹس لیا اور اس طرح کوئی تحریک بن گئی تو لازماً حکمران جماعت آگاہ ہو گی، نتیجتاً مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی بیداری سے قادیانی امت کو بھی احتساب کا اندیشہ ہو گا اور اس طرح وہ خطرہ جو ہم محسوس کرتے ہیں، ٹل جائے گا۔ اس وقت سوال مسلمان عوام اور مسلمان حکام کو اس فتنہ کے عمومی برگ و بار اور اس کی مخفی تگ و دو کے نقش و نگار سے مطلع کرنے کا ہے، میرے ساتھ یہ سی۔ ایس۔ پی افسر ہیں اور وزارت خارجہ میں اہم عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چودھری ظفر اﷲ خاں پاکستان کا وزیر خارجہ ہے، لیکن اس کے منصب کا فائدہ مرزائیت کو پہنچ رہا ہے، وہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کے بجائے اپنی جماعت کی نمائندگی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس نے بیرونی ملکوں میں قادیانی اُمّت کے لیے سیاسی و معاشی رابطے مہیا کیے ہیں، اگر مرزائی یہاں کامیاب ہو گئے تو بین الاقوامی ناطوں کی معرفت قادیانیت کو اندرون ملک تحفظ ملے گا‘‘۔
شاہ جی ان باتوں سے کسی قدر آزردہ ہو گئے۔ کہنے لگے: ’’کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کس سے کہوں؟ اور کن سے لڑوں؟ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب ہمت نہیں رہی‘‘۔کرنل صاحب بولے! شاہ جی پاکستان کو اس خطرہ سے آپ نکال سکتے ہیں آپ کی چند تقریریں موجودہ حکمرانوں کے کان کھول دیں گے اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ ملک فی الواقعہ کس قدر مہلکہ میں ہے۔ شاہ جی کچھ دیر گم سم رہے، یکایک دو چار ہچکیاں آئیں اور چہرہ اشکبار ہو گیا، پھر اس سلسلے میں دو تین ماہ غور کرتے رہے اور جنوری ۱۹۴۹ء کو لاہور میں احرار کانفرنس منعقد کی۔ اس کے بعد کانفرنس کی مجلس عاملہ میں مرزائیت کے مسئلہ پر غور کیا گیا، آخر یہ طے پایا کہ مجلس احرار کو سیاست سے سبکدوش کر دیا جائے، اس کا مشن صرف تبلیغی اور اصلاحی سرگرمیوں تک محدود رہے اور یہی ایک طریق ہے، جس سے مرزائیت کا بھرپور احتساب ہو سکتا ہے۔ شاہ جی کا خیال تھا کہ احرار نے اپنا سیاسی وجود باقی رکھا تو مرزا بشیر الدین محمود کو وار کرنے میں آسانی ہو گی اور مسلم لیگ کی لیڈر شپ کسی حالت میں بھی احرار کے سیاسی وجود کو برداشت نہیں کرے گی، احرار کے اس فیصلے سے مرزا بشیر الدین محمود چوکنا ہو گیا، لیکن اس نے اپنی عیارانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا اور اس امر کی مطلقاً پروا نہ کی کہ عامۃ المسلمین اس سے آگاہ ہو چکے ہیں، میرزا بشیر الدین محمود، سرظفر اﷲ خاں کی معرفت عالمی سامراج سے اس امر کا یقین حاصل کر چکا تھا کہ مرزائیوں کے لیے پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں اور پاکستان ان کے مستقبل کا نام ہے۔
احرار نے سیاسی حیثیت ختم کرنے کے بعد قادیانیت کے احتساب پر کمر باندھ لی اور جگہ جگہ کانفرنسیں شروع کیں۔ منیر انکوائری رپورٹ میں ان کی تفصیلات موجود ہیں۔ احرار نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا اپنے ہر جلسہ اور ہر کانفرنس میں مطالبہ کیا۔ چودھری ظفر اﷲ خاں کو بھی اس کی پس پردہ سرگرمیوں پر آڑے ہاتھوں لیا، وزارت خارجہ سے اس کی سبکدوشی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ مرزا محمود نے احرار کے خلاف اپنے حربے استعمال کرنا شروع کیے۔ وہ اس خیال میں تھا کہ احرار مر چکے ہیں اور قادیانیت کی راہ میں کوئی مزاحم نہ ہو گا۔ لیکن احرار نے اس شدت سے احتساب کیا کہ مرزا محمود تھرا گیا۔ اس نے کئی واسطوں سے فائدہ اٹھانا چاہا، اکثر سرکاری مسلمان پہلے ہی اس کے ساتھ تھے اور سیاسی مسلمان قادیانیت کے متعلق علماء کے احتساب کو ملائیت گردان کر غیر جانبدار تھے۔ مرزا محمود نے سیاسی مسلمانوں کو ساتھ ملا کے رکھا۔ بعض کو ہاتھ میں لینا شروع کیا، کئی ایک خود فروش صحافی خرید کیے، جو احرار کے سیاسی ماضی پر پاکستان دشمنی کا الزام اچھالتے۔ ان کے خلاف کہانیاں وضع کرتے اور ان کی بعض تقریروں کو اپنے ڈھلے ہوئے فقروں سے داغدار کرتے، مرزا محمود کا شعار تھا کہ بعض افسروں کی نفسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا۔ اپنے مریدوں کی معرفت ان کے لیے ناؤ نوش اور لہو و لعب کی محفلیں رچاتا اور احرار کے متعلق ان کی ذہنی فضا کو مسموم کرتا، اس طرح کے افسر پہلے ہی انگریزی استبداد کی ذریت تھے، ان کا ذہن احرار کے متعلق وہی تھا، جو انگریز نے تیار کیا تھا، اس سلسلہ میں پنجاب سی آئی ڈی کا رویہ حد درجہ مذموم رہا، کیونکہ اس کے اعضاء و جوارح میں ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً سبھی برطانوی استبداد کے ذلہ خور اور اب مرزا بشیر الدین کی مختلف الاصل تحریصات و ترغیبات کا شکار تھے، مرزا بدستور اس خیال میں تھا کہ عالمی سامراج ان کی مدد کرے گا اور وہ بلوچستان کو اپنی ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، انھوں نے اپنی سیاسی مہرہ بازی کے لیے ۱۹۴۸ء میں کوئٹہ جا کر بعض پتے لگانا شروع کیے، لیکن انھیں اندازہ و احساس ہی نہ تھا کہ بلوچستان کا مسلمان دین کے بارے میں کس قدر ذکی الحس ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک مرزائی میجر محمود کو جو کوئٹہ میں قادیانیت کے خلاف ایک جلسہ گاہ کا جائزہ لے رہا تھا، کئی ایک شرکاء نے پکڑ کر ہلاک کر دیا، اس سے حکومت پاکستان کے انٹیلی جنس بیورو کو بڑی سخت تکلیف ہوئی، اس نے احرار کے خلاف پنجاب سی آئی ڈی کو لکھا کہ احرار کی سرگرمیاں پاکستان کے لیے مضرت رساں ہیں۔
مسٹر ایم ایم احمد منٹگمری (ساہیوال) میں ڈپٹی کمشنر تھا، اس کی بدولت میرزائیوں کو حوصلہ ہوا کہ مختلف گاؤں میں جا کر تبلیغ کریں، اس سے مسلمانوں کا برافروختہ ہونا قدرتی امر تھا۔ نتیجتاً اوکاڑہ میں ایک مرزائی مدرس غلام محمد قتل ہو گیا، اسی مہینہ راولپنڈی میں بدر دین نام کے ایک قادیانی کو ولایت خاں نام کے ایک مسلمان نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مرزا بشیر الدین اندرون خانہ ہراساں ہوا، لیکن ربوہ میں بیٹھ کر کئی طرز کی سیاسی و مذہبی سازشوں میں مشغول رہا، اس کو یقین تھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گا، کیونکہ ظفر اﷲ خاں کی معرفت سامراجی طاقتوں کے سفارت خانے اس سے رابطے قائم کیے ہوئے تھے، ادھر مرزا محمود نے اپنے خطبات میں احرار رہنماؤں کے متعلق جارحانہ کلمات روز مرہ بنا رکھے تھے۔ وہ بعض مرزائی عناصر سے پخت و پز کر کے احرار رہنماؤں کو قتل کروانا چاہتا تھا، لیکن اسے کوئی ایسا معتمد نہیں مل رہا تھا، جو یہ کام کر سکے، وہ مسلمانوں کے ردعمل سے بھی ڈرتا تھا، لیکن اس نے احرار کے اینٹی لیگ ماضی میں پناہ لے رکھی تھی اور اسی برتے پر اشتعال انگیز تقریریں کر رہا تھا۔ اس نے ۱۵؍ جنوری ۱۹۵۲ء کو (مطبوعہ الفضل) اعلان کیا کہ علمائے ذیل سے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔
(۱) سید عطاء اﷲ شاہ بخاری (۲) ملا عبدالحامد بدایونی (۳) ملا احتشام الحق تھانوی (۴) ملا مفتی محمد شفیع (۵) ملا مودودی
ان علماء کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے احرار کی دعوت پر مرزائیت کے عزائم کا عمیق مطالعہ کیا اور قادیانیت سے متعلق مشترک لائحہ عمل میں ہم آواز ہو گئے۔
سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مرزائی سیاست کے اتار چڑھاؤ کا عمیق مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے رفقاء کو ہدایت کی کہ ہر مکتبہ خیال کے علماء سے مل کر انھیں قادیانی اُمت کے عزائم سے آگاہ کریں۔ پھر اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے جو رائے سب کی ہو، ا س کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس غرض سے شاہ جی نے ۱۳ جولائی ۱۹۵۲ء ہی کو لاہور میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں صوبہ بھر کے علماء و مشائخ نے شرکت کی۔ اس غرض سے جو دعوت نامہ جاری کیا گیا۔ اس پر مولانا غلام محمد ترنم، مفتی محمد حسن، مولانا احمد علی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا سید نور الحسن بخاری اور سید مظفر علی شمسی کے دستخط تھے۔ اس کانفرنس میں سیدنا مہر علی شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت سید غلام محی الدین شاہ تشریف لائے۔ اس کانفرنس میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دیے جانے، سر ظفر اﷲ کو وزارت خارجہ سے ہٹائے جانے اور قادیانی افسروں کو کلیدی آسامیوں سے الگ کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا، ادھر کراچی میں ۱۳ جولائی ہی کو اس امر کا فیصلہ کیا گیا کہ مسئلہ قادیانیت پر آخری غور و خو ض کرنے کے لیے ۱۶، ۱۷، ۱۸ جنوری ۱۹۵۳ء کو کراچی میں تمام مکاتب فکر کی کنونش منعقد کی جائے، اس ابتدائی اجتماع میں شرکت کے لیے مولانا ابوالحسنات قادری، شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری اور مولانا مرتضیٰ احمد میکش لاہور سے کراچی گئے اور کنونش کی تیاریوں کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ یہ کوئی معمولی چیز نہ تھی، بلکہ مرزائیت کے شدید احتساب کی طرف ایک فیصلہ کن اقدام تھا، چونکہ یہ سب کچھ احرار رہنماؤں کی مساعی سے ہو رہا تھا۔ لہٰذا مرزا بشیر الدین محمود احرار کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے تھا اور اس کی ملی بھگت سے احرار کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے تھے۔ چنانچہ شیخ حسام الدین اور ماسٹر تاج الدین انصاری گرفتار کر لیے گئے اس افسر شاہی کا خمیازہ ۱۸ جولائی ۱۹۵۲ء کو اہل ملتان نے بھگتا کہ تھانہ کُپ کے باہر پولیس نے احتجاجی جلوس پر فائرنگ کی، جس سے تین آدمی شہید اور تیرہ زخمی ہو گئے۔ ان زخمیوں میں سے بھی تین ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کو انکوائری پر مامور کیا گیا، اس نے پولیس فائرنگ کی حمایت کی، لیکن ان شہیدوں کا خون رنگ لایا، تمام صوبے میں مرزائیوں کے خلاف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ حتیٰ کہ پنجاب مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے بھی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا ریزولیوشن پاس کیا، اس سلسلے میں عوام کے جذبات کا یہ حال تھا کہ منیر انکوائری رپورٹ کے مطابق ۶ مارچ ۱۹۵۳ء سے پہلے صوبہ بھر میں ۳۹۰ جلسے منعقد ہوئے تھے، جن میں سے ۱۶۷ کا اہتمام مجلس احرار کی مختلف شاخوں نے کیا اور ان محولہ بالا مطالبات کی تائید کی گئی۔
(۱) اس کانفرنس میں خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان کے رویہ کو منفی قرار دے کر راست اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔
(۲) قادیانی فرقے کے کامل مقاطعہ کی تجویز پاس کی گئی۔
(۳) چونکہ خواجہ ناظم الدین سرظفر اﷲ خاں کو برطرف کرنے پر راضی نہ تھے، اس لیے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔
(۴) کئی ایک مقتدر مسلمانوں اور مختلف مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کی ایک جنرل کونسل بنائی گئی، اس میں سے پندرہ ممبروں کو مجلس عمل کا رکن قرار دیا گیا۔ پہلے آٹھ اور پھر سات ممبر منتخب کیے گئے جو حسب ذیل تھے۔
(۱) سید عطاء اﷲ شاہ بخاری (۲) مولانا ابوالحسنات قادری
(۳) سید ابو الاعلیٰ مودودی (۴) مولانا عبدالحامد بدایونی
(۵) حافظ کفایت حسین (۶) پیر صاحب سرسینہ شریف، مشرقی پاکستان
(۷) مولانا محمد یوسف کلکتوی (۸) مولانا احتشام الحق تھانوی
(۹) پیر غلام مجدد سرہندی (۱۰) مولانا نور الحسن
(۱۱) ماسٹر تاج الدین انصاری (۱۲) مولانا اختر علی خاں
(۱۳) مولانا محمد اسماعیل، گوجرانوالہ (۱۴) سید مظفر علی شمسی
(۱۵) حاجی محمد امین سرحدی
خواجہ ناظم الدین سے ملاقات کے لیے پیر صاحب سرسینہ شریف، مولانا عبدالحامد بدایونی اور ماسٹر تاج الدین انصاری پر مشتمل ایک وفد مرتب کیا گیا، اس کی خواجہ صاحب سے ۲۱ جنوری ۱۹۵۳ء کو ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مطالبات پر ہمدردی کا اظہار کیا، لیکن فرمایا کہ ’’وہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔ خواجہ صاحب ۱۶ فروری ۱۹۵۳ء کو لاہور آئے تو مولانا اختر علی خاں، مولانا ابوالحسنات قادری، سید مظفر علی شمسی اور ماسٹر تاج الدین انصاری پر مشتمل ایک دوسرے وفد نے ان سے ملاقات کی، لیکن خواجہ صاحب نے وہی عذر کیا کہ ’’بعض مشکلات کے پیش نظر وہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘‘۔ ادھر کراچی میں علماء کا ایک وفد جس میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا اختر علی خاں شامل تھے، خواجہ صاحب سے ملا۔ اس وفد کو بھی خواجہ صاحب نے وہی جواب دیا۔ اس سے اگلے روز ماسٹر تاج الدین انصاری، مولانا ابوالحسنات اور سید مظفر علی شمسی نے سردار عبدالرب نشتر کی موجودگی میں خواجہ صاحب سے ملاقات کی اور اتمام حجت کیا کہ ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن خواجہ صاحب اپنے جواب پر قائم رہے، فرمایا کہ ’’مرزائیوں کو چھیڑنے سے امریکہ ہمیں گندم نہیں دے گا اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں ہماری مدد کرے گا‘‘۔ جب خواجہ کے دو ٹوک جواب سے مجلس عمل کے راہ نما مایوس ہو گئے تو ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو اس پر غور و خوض کرنے کے لیے کراچی میں اجلاس بلایا گیا۔
اس اجلاس میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، ماسٹر تاج الدین انصاری (مجلس احرار اسلام)، صاحبزادہ فیض الحسن، سید نور الحسن بخاری، مولانا سلطان احمد (امیر جماعت اسلامی، سندھ)، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد یوسف کلکتوی اور سید مظفر علی شمسی شریک ہوئے۔ مولانا ابوالحسنات نے صدارت کی اور فیصلہ کیا کہ راست اقدام کی شکل کیا؟ پانچ رضاکار مطالبات کے جھنڈے اٹھا کر وزیر اعظم کی کوٹھی پر جائیں اور پُرامن رہ کر لگاتار مظاہر ہ کریں، اسی قسم کا مظاہرہ گورنر جنرل کی کوٹھی پر جاری رہے۔ مولانا ابوالحسنات کو پہلا ڈکٹیٹر مقرر کیا گیا اور عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ رضاکاروں کے ساتھ مطلقاً نہ جائیں، حکومت نے ۲۶، ۲۷ فروری کی درمیانی رات کو سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر لیا، جن میں ماسٹر تاج الدین انصاری، سید مظفر علی شمسی، مولانا لال حسین اختر، مولانا ابوالحسنات قادری اور مولانا عبدالحامد بدایونی وغیرہم بھی تھے۔ اس سے اگلے روز پنجاب میں احرار کے تمام متعلقین پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ جس سے صوبہ بھر میں برہمی کی ایک لہر دوڑ گئی، اسی سلسلہ میں لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور لائل پور (فیصل آباد) میں پکڑ دھکڑ کا طوفان آ گیا، یہی فضا راولپنڈی اور منٹگمری(ساہیوال) میں پیدا ہوئی۔ ہر جگہ حکومت سے ٹکراؤ ہونے لگا۔
مختصر یہ کہ پنجاب پولیس کے اوسان خطا ہو گئے، کئی شہروں میں ڈپٹی کمشنروں کو ان کے تشدد کے باعث عوام نے گدھوں پر سوار کرایا اور پھرایا۔ سیالکوٹ میں ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ صفدر کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔ جب صوبائی نظم و نسق بالکل معطل ہو گیا تو مرکزی حکومت کے رنگارنگ وزیر اور اعلیٰ حکام لاہور آ گئے۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل کا دماغ بے ٹھکانہ ہو گیا۔ اس زمانے میں اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری تھے۔ ان سب کی ملی بھگت سے ۲۶ مارچ ۱۹۵۳ء کو لاہور میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ (جنرل اعظم خان جیسا سفاک اور ظالم مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا)۔ سارا شہر فوج کے انتظام میں آ گیا، غرض قادیانیت کے خلاف ی سب سے بڑی تحریک تھی جو پاکستان میں چلی اور حکومت نے اپنے بہیمانہ تشدد کا پورا پورا مظاہرہ کیا۔ (جاری ہے)