منصور اصغرر اجہ
تقسیم ہند سے قبل بھی ریاست حیدر آباد دکن میں ماہ ِ ربیع الاول خوب دھوم دھام سے منانے کی روایت موجود تھی جو کہ خاتم الانبیا ﷺ کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہے۔ اس موقع پر سیرت پاک کے جلسوں میں علما و مشائخ علم و عقیدت کے موتی لُٹاتے۔ نعت گو شعرا بارگاہِ رسالت میں منظوم گلہائے عقیدت پیش کرتے۔ اس سلسلے میں ہر سال ایک بڑا جلسہ مفتی نور ضیا الدین نواب ضیا یار جنگ بہادر کی زیر صدارت بادشاہی عاشور خانہ میں انعقاد پذیر ہوتا جس میں علما ومشائخ اور عشاق کی کثیر تعداد شریک ہوتی۔ 20 ربیع الاول 1352ہجری کو بادشاہی عاشور خانہ میں منعقد ہونے والے اس جلسہ سیرت النبیؐ میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے صدر شعبہ معاشیات پروفیسر الیاس برنی بھی شریک ہوئے جنہیں منتظمین جلسہ کی طرف سے ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ اگرچہ پروفیسر صاحب نے کسی فرقے یا جماعت کو خصوصیت کے ساتھ ہدفِ تنقید بنائے بغیر صرف ختم نبوت کے موضوع پر ہی خالص عالمانہ گفتگو فرمائی لیکن چور کی ڈاڑھی میں تنکا کے مصداق اس تقریر پر قادیانی جماعت کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ وہ تقریر اُن کے خلاف تھی۔چنانچہ انہوں نے جوابی طور پرنا صرف ’’ختم نبوت اور پروفیسر الیاس برنی صاحب‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ فی الفور شائع کیا، بلکہ دیگر علاقوں سے مشہور قادیانی مبلغین کو حیدر آباد دکن بلا کر ان کی تقریریں بھی کرائیں اور قادیان سے کچھ رسالے بھی منگوا کر تقسیم کیے، حتیٰ کہ قادیانی جماعت کے ایک نمائندے نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کرکے انہیں تبادلہ خیالات کے نام پر مناظرے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ لیکن پروفیسر صاحب نے جواب میں فرمایا کہ یہ ان کا منصب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں علمائے کرام سے رجوع کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔اسی اثنا میں قادیانی رسائل و تقاریر کا جواب دینے کے لیے علمائے کرام بھی میدان میں آگئے۔ چنانچہ انہی ایام میں مسئلہ اثباتِ ختم نبوت پر متعدد علما نے رسائل تحریر فرمائے جن میں پروفیسر الیاس برنیؒ کے بقول سب سے مدلل اور جامع رسالہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے استاد مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ کا ’’آ وازِ حق‘‘ تھا جو مولانا فخر الدین رازی ؒ نے حیدر آباد دکن سے شائع کرایا۔ جب تحقیق کا شوق پھیلا تو پروفیسر صاحب کو بھی خیال آیا کہ کیوں نہ قادیانی مذہب کے بارے میں علمی تحقیقات کی جائیں اور عوام الناس کے سامنے اس جماعت کا دوسرا رخ پیش کیا جائے جو وہ بالعموم عوام کی نظروں سے مخفی رکھتے ہیں کیونکہ پروفیسر صاحب کے بقول ’’قادیانی مذہب کا ایک بڑا اُصول ہے جس سے عام تو کیا، خاص لوگ بھی بے خبر ہیں۔ وہ یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی مذہبی زندگی کے دو دور ہیں۔ پہلے دور میں تو وہ انکسار جتاتے ہیں۔ خوب خوش اعتقاد اور عقیدت مند نظر آتے ہیں۔ انبیا، اولیا سب کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ سب کی عظمت کرتے ہیں،اتباع کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن دوسرے دور میں حالت بالکل برعکس ہے۔ اول تو علانیہ نبی بن جاتے ہیں۔ پھر بڑھتے بڑھتے قریباً تمام انبیا و مرسلین سے صراحتاً یا کنایتاً بڑھ جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑے دعوے زبان پر لاتے ہیں۔ اچھے اچھوں کو نظروں سے گراتے ہیں اور اپنے واسطے انتہائی عقیدت کے طالب نظر آتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قادیانی صاحبان تمام تر دورِ اول کی خوش عقیدگیاں پیش کرتے ہیں اور ان میں کافی تراوٹ ہے۔ ناواقف اور روادار مسلمان ان کی خوش عقیدگیوں سے خوش ہو کر خود اُن کی عقیدت میں پھنس جاتے ہیں اور جب اچھی طرح متاثر ہو کر قابو میں آ جاتے ہیں تو وہ ان کو دور ِدوم کے اعتقادات پر لاتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں، منواتے ہیں۔ ایمان کی خوب گت بناتے ہیں۔ قادیانی تبلیغ کا یہ بڑا گُر ہے۔ اچھے اچھے بے خبر ہیں۔ تحقیق کیجیے تو پتا چلتا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں، دکھانے کے اور۔‘‘ (قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ:39)
پروفیسر الیاس برنیؒ نے قادیانی حلقوں کی تنقید پر چیں بجبیں ہونے کے بجائے ان کے لڑیچر کا مطالعہ شروع کردیا اور جب حاصلِ مطالعہ کو ترتیب دیا تو ’’قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ نامی شاندار تاریخی کتاب منصہ شہود پر آگئی۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف اور صرف مرزا قادیانی،ان کے صاحبزادوں مرزا بشیر الدین محمود، میاں بشیر احمد ایم اے، مولوی محمد علی امیر لاہور ی گروپ اور دیگر اکابرین ِ جماعت کی کتب اور قادیانی جرائد و رسائل سے حاصل کیے گئے اقتباسات پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صاحب صرف ان اقتباسات پر عنوانات قائم کرنے کے سزاوار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس کتاب میں اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں لکھا۔
اس کتاب کے حصہ دوم کی پہلی چار فصول میں قادیانی جماعت کے سیاسی عزائم، اہداف اور خدمات کو اِن کی اپنی ہی ’’امہات کتب‘‘ کی روشنی میں بے نقاب کیا گیا ہے۔ سیاسیات، دورِ اول، دورِ دوم، دورِ ثالث اور قادیانی صاحبان اور مسلمان سیاست و مملکت کے عنوانات کے تحت مرتب کی گئی ان چاروں فصول کا مطالعہ ہم جیسے طالب علم کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا یہ سیاسی گروہ مسلم امہ کو ضعف پہنچانے اور عالمی استعمار کی خدمت گزاری میں اچھے اچھوں کے کان کتر رہا ہے۔ ’’مظلوم‘‘ قادیانی جماعت کے بانی اور دیگر اکابرین کی نجی زندگی اور مشاغل، قادیانی مذہبی عقائد، مسلمانوں کے بارے میں ان کے خیالات، غیر مذہبی اہداف و عزائم اور عالمی استعمار کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی بابت جاننے کے لیے پروفیسر الیاس برنیؒ کی کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ واضح رہے کہ خاص طور پر عالمی استعمار کی خدمت قادیانی جماعت کا طرہِ امتیاز ہے جس کا ذکر قادیانی کتب میں بھی جا بجا ملتا ہے۔اول روز سے ہی قادیانی جماعت کے بانی نے عالمی استعمار کو یہ یقین دلانا شروع کردیا تھا کہ وہ اور ان کے پیروکار انہی کے مطلب کی کہہ رہے ہیں اور انہی کے مطلب کی کہتے رہیں گے۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کا جذبہ جہاد باطل قوتوں کے لیے ہمیشہ پریشانی کا سبب رہا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی نے قادیانی جماعت کی بنیاد رکھتے ہی جہاد کی مخالفت شروع کردی۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:
’’میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیا کے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں، گورنمنٹ کے لیے ہر گز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگ جوئی اور فساد کا نہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔
(کتاب البریہ، روحانی خزائن:346/13۔)
دوسرے مقام پر وہ لکھتے ہیں:
’’یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا، ایک بڑا امتیازی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کا انتظار ہے بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور، جہاد کی تعلیم کو ہر گز جائز نہیں سمجھتا، اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا ہے۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن،:517/15۔)
جن دنوں جماعتِ احمدیہ وجود میں آئی، اُس وقت عالمی استعمار کا سرخیل برطانیہ عظمیٰ تھا جو برصغیر پاک و ہند پر بھی قابض تھا۔ بانی جماعت احمدیہ اور ان کا گھرانہ ہمیشہ برطانوی گورنمنٹ کا ہی خیر خواہ اور دعا گو رہا۔ بانی جماعتِ احمدیہ کی کتب اس پر گواہ ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد میرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا جن کو دربارِ گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسانِ پنجاب میں ہے اور 1857عیسوی میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ ِ غدر کے وقت سرکار انگریزی کی امداد میں دئیے تھے۔ ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیاتِ خوشنودی ِ حکام ان کو ملی تھیں، مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین چٹھیاں جو مدت سے چھپ چکی ہیں، ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غلام قادر خدماتِ سرکاری میں مصروف رہا اور جب تموں کی گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔‘‘ (کتاب البریہ، روحانی خزائن: 4/13)
والد اور بھائی کے بعد وہ اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں بذاتِ خود سترہ برس سے سرکار انگریزی کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیوں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہر گز جہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرفِ زرِ کثیر چھاپ کر بلادِ اسلام کو پہنچائی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں،وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبا لب ہیں۔ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لیے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لیے دلی جانثار۔‘‘
(عریضہ بعالی خدمت گورنمنٹ عالیہ انگریزی منجانب مرزا غلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات:366/2)
بانی جماعت احمدیہ سلطنت ِ برطانیہ اور اس کے حکمرانوں کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتے،ان کی مدح سرائی میں کتابیں تصنیف فرماتے اور ان کے لیے دعائیہ تقریبات منعقد کرتے۔اس کی ایک مثال برطانوی حکمران ملکہ وکٹوریہ کے عہد اقتدار کا جشن ِ جوبلی ہے۔ قادیان میں منعقد کی جانے والی جشن جوبلی کی تقریب کا احوال خود مرزا قادیانی کی زبانی سنیے:
’’ہم بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام ظلہا کے جشن جوبلی کی خوشی اور شکریہ کے ادا کرنے کے لیے میری جماعت کے اکثر احباب دور دور کی مسافت قطع کرکے 19 جون 1897 عیسوی کو ہی قادیان میں تشریف لائے اور یہ سب 225آدمی تھے اور اس جگہ کے ہمارے مرید اور مخلص بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے جن میں ایک گروہ کثیر ہو گیا اور وہ سب 20جون 1897عیسوی کو اس مبارک تقریب میں باہم مل کر دعا اور شکر باری تعالیٰ میں مصروف ہوئے۔ اس تقریب پر ایک کتاب شکرگزاری جناب قیصرہِ ہند کے لیے تالیف کرکے اور چھاپ کر اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھا گیااور چند جلدیں اس کی نہایت خوبصورت مجلد کرا کے ان میں سے ایک حضرت قیصرہِ ہند کے حضور میں بھیجنے کے لیے بخدمت صاحب ڈپٹی کمشنر بھیجی گئی اور ایک کتاب بحضور وائسرائے گورنر جنرل کشور ہند روانہ ہوئی اور ایک بحضور جناب نواب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب بھیج دی گئی۔ اب وہ دعائیں جو چھ زبانوں میں کی گئی ذیل میں لکھی جاتی ہیں اور بعد اس کے ان تمام دوستوں کے نام درج کیے جائیں گے جو تکالیفِ سفر اٹھا کر اس جلسہ کے لیے قادیان میں تشریف لائے۔‘‘
(اعلان مرزا غلام احمد قادیانی،مجموعہ اشتہارات: 425/2)
بانی جماعتِ احمدیہ نے 7مئی 1907عیسوی میں اپنی جماعت کو خاص طور پر تاکیدی نصیحت کی کہ وہ ظالموں کے پنجہ سے محفوظ رہنے کے لیے برطانوی حکومت کی پوری پوری اطاعت کریں۔ ملاحظہ فرمائیں ان کا خصوصی اعلان:
’’چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان دنوں میں بعض جاہل اور شریر لوگ اکثر ہندووں میں سے اور کچھ مسلمانوں میں سے گورنمنٹ کے مقابل پر ایسی ایسی حرکتیں ظاہر کرتے ہیں جن سے بغاوت کی بُو آتی ہے۔ بلکہ مجھے شک ہوتا ہے کہ کسی وقت باغیانہ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے میں اپنی جماعت کے لوگوں کو جو مختلف مقامات پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہیں جو بفضلہٖ تعالیٰ کئی لاکھ تک ان کا شمار پہنچ گیا ہے۔ نہایت تاکید سے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ میری اس تعلیم کو خوب یاد رکھیں جو قریباً 26برس سے تقریری اور تحریری طور پر ان کے ذہن نشین کراتا آیا ہوں۔ یعنی یہ کہ اس گورنمنٹ انگریزی کی پوری اطاعت کریں کیونکہ وہ ہماری محسن گورنمنٹ ہے۔ اس کی ظلِ حمایت میں ہمارا فرقہ احمدیہ چند سال میں لاکھوں تک پہنچ گیا ہے اور اس گورنمنٹ کا احسان ہے کہ اس زیر سایہ ہم ظالموں کے پنجہ سے محفوظ ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات: 582/3)
بانی جماعتِ احمدیہ کی اس نصیحت کو ان کے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود نے پلے باندھ لیا۔ جب وہ اپنے ابا کی گدی پر بیٹھے، اُس وقت ایک طرف ’’الہلال‘‘، ’’زمیندار‘‘، ’’ہمدرد‘‘ اور ’’کامریڈ‘‘ جیسے اخبارات ہندوستانیوں کے قلب و ذہن میں برصغیر پر قابض انگریزی سرکار کے خلاف بغاوت کے جذبات ابھار رہے تھے اور دوسری طرف جنگ عظیم اول دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے جا رہی تھی۔ مرزا محمود نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ ان کے ابا حضور تو صرف کتابیں لکھ کر اور اشتہارات چھاپ کر ہی انگریز سرکار کی خدمت کرتے رہے، لیکن میاں صاحبزادے نے دو قدم آگے بڑھ کر انگریز سرکار کے لیے اندرون و بیرون ہند اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کردیں جن میں انگریز کے لیے فوجی بھرتی، جاسوسی، اندرونِ ہند آزادی پسند تحریکوں کی مخالفت وغیرہ شامل تھیں۔ مرزا محمود اکثر اپنے خطبات میں ان خدمات کا فخریہ طور پر ذکر کیا کرتے تھے جبکہ کبھی کبھار خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کے مصداق انگریز سرکار کے روبرو شکایتی انداز بھی اختیار کرتے جو حکیم الامت علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے بقول ان کا خاص حربہ اور انگریز سرکار کے لیے پیغام ہوتا تھا کہ مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ مرزا محمود جنگِ عظیم اول میں انگریز سرکار کے لیے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات کیسے گنواتے ہیں:
’’لارڈ چیمسفورڈ نے میرے نام اپنی چٹھی میں اس کا ذکر کیا کہ حکومت نے ایک کمیونک شائع کیا ہے کہ آپ کی جماعت نے بہت مدد دی ہے۔پھر کابل میں لڑائی ہوئی اور اس موقع پر بھی میں نے فوراً حکومت کی مدد کی، اپنے چھوٹے بھائی کو فوج میں بھیجا جہاں انہوں نے بغیر تنخواہ کے چھ ماہ کام کیا‘‘۔(خطباتِ محمود:54/16)
’’ہم حکومت کی ایسی خدمت کرتے ہیں کہ اس کے پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے ملازم بھی کیا کریں گے۔‘‘ (خطباتِ محمود:341/12)
’’ہم نے ابتدائے سلسلہ سے گورنمنٹ کی وفاداری کی۔ہم ہمیشہ یہ فخر کرتے رہے کہ ہم ملک معظم کی وفادار رعایا ہیں۔ کئی ٹوکرے خطوط کے ہمارے پاس ایسے ہیں جو میرے نام یا میری جماعت کے سیکرٹریوں یا افرادِ جماعت کے نام ہیں جن میں گورنمنٹ نے ہماری جماعت کی وفاداری کی تعریف کی۔اسی طرح ہماری جماعت کے پاس کئی ٹوکرے تمغوں کے ہوں گے۔ ان لوگوں کے تمغوں کے جنہوں نے اپنی جانیں گورنمنٹ کے لیے فدا کیں۔ یہ اتنے ٹوکرے ہیں کہ افسر کے وزن سے بھی ان کا وزن زیادہ ہے‘‘۔ (خطباتِ محمود:314/15)
قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ جماعتِ احمدیہ کے اربابِ بست و کشاد کو خود بھی یہ احساس تھا کہ وہ جن گمراہ کن عقائد و نظریات کے ساتھ مسلم امہ میں نقب لگانے کی سعی کررہے ہیں،اس پر اسلامیانِ ہند میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ انگریز سرکار کی سرپرستی کو اپنی سلامتی و آزادی کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ اس سلسلے میں جماعت ِ احمدیہ کا ترجمان اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان اپنی 13 ستمبر 1914عیسوی کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’ایرانی گورنمنٹ نے جو سلوک مرزا علی محمد باب،بانی فرقہ بابیہ اور اس کے بے کس مریدوں کے ساتھ محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا اور جو ستم اس فرقہ پر توڑے گئے،وہ ان دانشمند لوگوں پر مخفی نہیں ہیں جو قوموں کی تاریخ پڑھنے کے عادی ہیں اور پھر سلطنتِ ٹرکی نے جو ایک یورپ کی سلطنت کہلاتی ہے، جو برتاو بہااﷲ،بانی فرقہ بابیہ بہائیہ اور اس کے جلاوطن پیرووں سے 1863 عیسوی سے لے کر 1892 عیسوی تک پہلے قسطنطنیہ پھر ایڈریانوپل اور بعد ازاں اکہ کے جیل خانہ میں کیا،وہ بھی دنیا کے اہم واقعات پر اطلاع رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔دنیا میں تین ہی بڑی اسلامی سلطنتیں کہلاتی ہیں اور تینوں نے جو تنگ دلی اور تعصب کا نمونہ اس شائستگی کے زمانہ میں دکھایا،وہ احمدی قوم کو یہ یقین دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کی آزادی تاج برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے او ر چونکہ خدا نے برٹش راج میں سلامتی کا شہزادہ (مرزا قادیانی)کو دنیا کی رہنمائی کے لیے بھیجا گویا خدا نے تمام دنیا کی حکومتوں پر بلحاظ فیاضی،فراغ دلی اور بے تعصبی کے برٹش گورنمنٹ کو ترجیح دی۔لہٰذا تمام سچے احمدی جو حضرت مرزا صاحب کو مامور من اﷲ اور ایک مقدس انسان تصور کرتے ہیں،بدوں کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے فضلِ ایزدی اور سایہ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں‘‘۔
جنگِ عظیم اول میں برطانیہ عظمیٰ کی فتح پر جماعتِ احمدیہ کی خوشی دیدنی تھی۔اس کے موقع پر قادیان میں جو چراغاں کیا گیا،اس کی رپورٹ ’’الفضل‘‘ قادیان بابت 3 دسمبر 1918 عیسوی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مذکورہ اخبار لکھتا ہے:
’’گورنمنٹ برطانیہ کی شاندار فتح کی خوشی میں نماز مغرب کے بعد دارالعلوم اور اندرون قصبہ میں روشنی اور چراغاں کیا گیا جو بہت خوبصورت اور دل کش تھا۔ اندرون قصبہ میں احمدیہ بازار کے دونوں طرف مدرسہ احمدیہ اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کی عمارتوں پر بے شمار چراغ جلائے گئے اور منارۃ المسیح پر گیس کی روشنی کی گئی جس کا نظارہ بہت دلفریب تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی اور خاندانِ مسیح موعود کے مکانات پر بھی چراغ روشن کیے گئے۔اس کے علاوہ تمام احمدی احباب نے اپنے اپنے مکانات پر خوب روشنی کی جس سے محلوں میں خاص رونق اور خوشنمائی پیدا ہوگئی۔دارالعلوم میں بورڈنگ ہاوس اور ہائی سکول کی شاندار عمارت کے بلند ترین طاق کو چراغوں سے نہایت عمدگی سے سجایا گیا اور ساری عمارت کے طول اور عرض کو بہت خوبی کے ساتھ روشن کیا گیا۔دوسرے مکانات پر بھی روشنی کا عمدہ انتظام تھا۔غرض کہ احمدیوں کا کوئی مکان اور کوئی عمارت ایسی نہ تھی جس پر روشنی نہ کی گئی۔یہ پُرلطف اور مسرت انگیز نظارہ بہت موثر اور خوشنما تھا اور اس سے احمدیہ پبلک کی اس عقیدت پر خوب روشنی پڑتی تھی جو اسے گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ہے‘‘۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روبرو شکور چشمے والے کی فریاد پر حیرت زدہ حلقوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ قادیانی امت اول روز سے ہی استعماری قوتوں کو اپنے لیے ڈھال قرار دیتی آئی ہے کہ ماضی میں جن کا سرخیل برطانیہ تھا اور اب امریکہ ہے۔اس سلسلے میں قادیانی اخبار ’’الفضل‘‘ اپنی 19 اکتوبر 1915عیسوی کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’یہ بات روز ِ روشن کی طر ح ظاہر ہوتی جاتی ہے کہ فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے جس کے نیچے احمدی جماعت آگے ہی آگے بڑھتی جاتی ہے۔اس ڈھال کو ذرہ ایک طرف کر دو اور دیکھو کہ زہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمہارے سروں پر ہوتی ہے۔ہمارے مخالف اس بات کے انتظار میں رہتے ہیں کہ ذرہ ان کو موقع ملے اور وہ زمین سے ہماری جڑ اکھاڑ کر پھینک دیں۔ پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزار نہ ہوں۔ ہمارے فوائد اس گورنمنٹ سے متحد ہوگئے ہیں اور اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی۔ جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی ترقی پھیلتی جاتی ہے، ہمارے لیے تبلیغ کا ایک اور میدان نکلتا آتا ہے۔ پس کسی مخالف کا اعتراض ہم کو اس گورنمنٹ کی وفاداری سے نہیں پھیر سکتا کہ نادان سے نادان انسان بھی ااپنی جان کا آپ دشمن نہیں ہوتا‘‘۔
1918عیسوی میں مرزا محمود نے بھی اپنے ایک خصوصی اعلان کے ذریعے اپنی جماعت کو کچھ ایسی ہی نصیحت فرمائی تھی۔ مذکورہ اعلان کو ’’الفضل‘‘ قادیان نے اپنی 27جولائی 1918عیسوی کی اشاعت میں شامل کیا جس کے مندرجات یہ ہیں:
’’ایک بات جس کا فوراً آپ لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے،اس وقت کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ سلسلہ احمدیہ کا گورنمنٹ برطانیہ سے جو تعلق ہے،وہ باقی تمام جماعتوں سے نرالا ہے۔ہمارے حالات ہی اس قسم کے ہیں کہ گورنمنٹ اور ہمارے فوائد ایک ہوئے ہوئے ہیں۔گورنمنٹ برطانیہ کی ترقی کے ساتھ ہمیں بھی قدم آگے بڑھانے کا موقع ہے اور اس کو خدانخواستہ اگر کوئی نقصان پہنچے تو اس صدمے سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے شریعتِ اسلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کے ماتحت اور خود اپنے فوائد کی حفاظت کے لیے اس وقت جب کہ جنگ و جدال کی گرم بازاری ہے۔ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر ممکن طریق سے گورنمنٹ کی مدد کرے‘‘۔
مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے والد کی گدی سنبھالتے ہی گورے حاکم سے ذاتی روابط بڑھانے شروع کر دئیے۔ اس سلسلے میں وہ اعلیٰ انگریز حکام کی خدمت میں گاہے گاہے حاضری بھی دیتے۔فریقین کے مابین خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔علاوہ ازیں جماعت ِ احمدیہ کے وفود بھی اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہتے۔ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش ہیں۔
1919 عیسوی کے اواخر میں جماعتِ احمدیہ کے وفد نے پنجاب کے نئے لیفٹیننٹ گورنر سر ایڈورڈ میکلیگن سے ملاقات کے موقع پر جو عرضداشت پیش کی،اُس میں صوبے کے نئے حاکمِ اعلیٰ کو اپنی وفاداری کا یوں یقین دلایا گیا:
’’آئندہ مشکلات اور آنے والے واقعات کی نسبت سوائے خدائے تعالیٰ کے اور کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور ہم نہیں جانتے کہ جناب کے عرصہ کارگزاری میں واقعات کس رنگ میں ظہور پذیر ہوں گے مگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو،جناب جماعتِ احمدیہ کو ملکِ معظم کا نہایت وفادار اور سچا خادم پائیں گے کیونکہ وفاداریِ گورنمنٹ جماعتِ احمدیہ کی شرائطِ بیعت میں سے ایک شرط رکھی گئی ہے اور بانی سلسلہ (مرزا قادیانی) نے اپنی جماعت کو وفاداریِ حکومت کی اس طرح باربار تاکید ہے کہ اس کی اسّی کتابوں میں کوئی کتاب بھی نہیں جس میں اس کا ذکر نہ کیا گیا ہو اور اس کی وفات کے بعد اس کے اول جانشین (حکیم نور الدین) نے اپنے زمانہ میں اور دوسرے جانشین ہمارے موجودہ امام (مرزا محمود) نے بھی بانی سلسلہ کی تعلیم کی اتباع میں جماعت کو تعلیم دیتے وقت اس امر کو خاص طور پر مد نظر رکھا ہے۔ پس جناب اور جناب کی گورنمنٹ ہر وقت ہماری جماعت کی عملی ہمدردی پر بھروسہ رکھ سکتی ہے اور انشا اﷲ تعالیٰ اس کا یہ بھروسہ خطا نہیں کرے گا‘‘۔ (’’الفضل‘‘ قادیان بابت 22دسمبر 1919عیسوی)
اسی طرح گاہے گاہے وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ، پرنس آف ویلز، وائسرائے ہند لارڈ ارون اور دیگر اعلیٰ انگریز حکام سے بھی سر ظفر اﷲ خان قادیانی کی قیادت میں جماعتِ احمدیہ کے وفود ملتے رہتے جو دورانِ ملاقات انگریز حاکم کو صرف ایک ہی بات کی یقین دہانی کراتے کہ جماعتِ احمدیہ برطانیہ عظمیٰ کی خدمت گار ہے اور رہے گی۔ دورانِ ملاقات مذکورہ بالا شخصیات کی خدمت میں پیش کی گئی عرضداشتیں اس پر گواہ ہیں۔ چنانچہ اس اظہار وفاداری کے جواب میں انگریز حکام کی طرف سے بھی جماعتِ احمدیہ کے لیے نیک تمناوں کا اظہار کیا جاتا۔ ایسا ہی ایک خط ملاحظہ فرمائیں جو لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے جماعت احمدیہ کو لکھا گیا جسے بعد ازاں ’’الفضل‘‘ نے ’’افادہِ عام‘‘ کے لیے شائع کر دیا:
’’پرائیویٹ سیکرٹری نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر تحریر فرماتے ہیں:
جناب ِمن! آپ نے جو خط ہز آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب کے نام ارسال فرمایا تھا،اس کے متعلق مجھے یہ کہنے کی ہدایت ہوئی ہے کہ نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر نے آپ کی تحریر کو بڑی توجہ سے ملاحظہ فرمایا اور آپ کے اظہارِ وفاداری نیز اس نازک موقع پر اپنے پیرووں کو ملک ِ معظم اور ملک کے ساتھ دینے کی گراں بہا نصیحت کو استحسان اور قدر کی نظر سے دیکھا ہے۔ چند ہفتہ قبل ضلع گورداسپور کا دورہ کرتے وقت ہز آنر احمدی جماعت کے ایک وفد سے مل کر خوش ہوئے اور جو کچھ حضور نے اس وقت فرمایا تھا، اب پھر اس کا اعادہ فرماتے ہیں، وہ یہ کہ گورنمنٹ عالیہ نے جو وسیع مذہبی آزادی اپنی رعایا کو دے رکھی ہے اس کی بنا پر احمدی جماعت گورنمنٹ کی حفاظت پر بھروسہ کر سکتی ہے اور گورنمنٹ عالیہ کو بھی احمدی جماعت اور اس کے امام کی طرف سے نہ صرف وفادارانہ امداد کی امید بلکہ یقین ہے‘‘۔ (’’الفضل‘‘ قادیان بابت 29نومبر 1914 عیسوی)
چونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اس لیے اگر جماعتِ احمدیہ اور اس کی قیادت انگریز سرکار کی خدمت کو اپنے ایمان کا حصہ خیال کرتی تھی تو دوسری طرف سرکار بھی اندرون و بیرونِ ہند اُن کے حقوق کی پوری حفاظت کرتی تھی۔ 1927 عیسوی میں قادیانی وفد نے وائسرائے ہند لارڈ ارون سے ملاقات کے دوران ایسی ہی ایک ’’سرکاری مہربانی‘‘ کا شکریہ یوں ادا کیا تھا:
’’ہم اس موقع پر گورنمنٹ برطانیہ کا شکریہ ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس نے ہر حالت میں ہماری حفاظت کی ہے اور پچھلے دنوں میں ہی جناب کے زمانہ وائسرائلٹی میں ہمارے ایک مبلغ مولوی ظہور حسین صاحب کو جنہیں روسی گورنمنٹ نے قید کر لیاہوا تھا، جناب کی گورنمنٹ نے نہایت سخت قید سے جس کا گہرا اثر ان کی صحت پر پڑا ہے،نکال کر بحفاظت تمام مرکز سلسلہ (قادیان) میں پہنچایا ہے جس کا ہم ایک دفعہ پھر اس موقع پر بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
(’’الفضل‘‘ قادیان بابت 8مارچ 1927 عیسوی)
مرزا محمود نے خود حکومت برطانیہ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا:
’’گورنمنٹ برطانیہ کے ہم پر بڑے احسان ہیں اور ہم بڑے آرام اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے اور اپنے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ اور اگر دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لیے جائیں تو وہاں بھی برٹش گورنمنٹ ہماری مدد کرتی ہے‘‘۔
(برکاتِ خلافت،انوار العلوم:202/2)
جماعتِ احمدیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے انگریز سرکار کس حد تک ایکشن لیتی تھی،اس کا اندازہ قیامِ پاکستان سے پہلے مالابار کے علاقے میں ہونے والے ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے جس کا ذکر مرزا محمود نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے:
’’چند دنوں کا ہی ذکر ہے کہ ہمارے مالابار کے احمدیوں کی حالت بہت تشویش ناک ہو گئی تھی۔ان کے لڑکوں کو سکولوں میں آنے سے بند کردیا گیا۔ان کے مردے دفن کرنے سے روک دئیے گئے۔چنانچہ ایک مردہ کئی دن تک پڑا رہا۔مسجدوں سے روک دیا گیا۔گورنمنٹ نے احمدیوں کی تکلیف دیکھ کر اپنے پاس سے زمین دی ہے کہ اس میں مسجد اور قبرستان بنا لو۔ڈپٹی کمشنر نے یہ حکم دیا کہ اگر اب احمدیوں کو کوئی تکلیف ہوئی تو مسلمانوں کے جتنے لیڈر ہیں،ان سب کو نئے قانون کے ماتحت ملک بدر کر دیا جائے گا‘‘۔(انوار خلافت،انوار العلوم:152/3)
مرزا محمود نے اپنے عہد میں ہی یہ کوششیں شروع کردی تھیں کہ ان کے پیروکار زیادہ سے زیادہ سرکاری عہدوں پر براجمان ہو سکیں تاکہ جماعتِ احمدیہ سرکاری و غیر سرکاری حکومت مخالف عناصر پر نظر رکھ کر اپنے آقائے ولی نعمت کی زیادہ بہتر طریقے سے خدمت کر سکے۔ اس سلسلے میں خود مرزا محمود کا یہ کہنا تھا:
’’ایک دفعہ گورنمنٹ کے ایک سیکرٹری شملہ میں چائے پر میرے پاس آئے۔میں نے انہیں کہا کہ آپ کی ہر بات کانگریس کے پاس پہنچتی رہتی ہے۔آپ کو بھی کوئی ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ ان کی باتیں آپ کو پہنچتی رہیں۔یہ حالت اس لیے ہوتی ہے کہ گورنمنٹ خیال نہیں رکھتی کہ وفادار جماعتوں کو اعلیٰ عہدوں پر پہنچائے۔اگر اعلیٰ عہدوں پر اس کی وفادار جماعت کے ارکان ہوں تو اس کے راز مخفی رہیں اور کبھی وہ حالت نہ ہو جو آج ہے‘‘۔(خطباتِ محمود:380/15)
انگریز حکام جماعتِ احمدیہ کا کتنا خیال رکھتے تھے،یہ کہانی اگر مرزا محمود کی زبانی سنی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا:
’’پھر اسی پنجاب میں سر ایڈوائر جیسا آدمی بھی گزرا ہے۔ان کے زمانہ میں ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے میرے ساتھ سخت لہجہ میں گفتگو کی اور سر موصوف کو اس کی اطلاع ہوئی توآپ نے اسے پہلے بدل دیا اور پھر اس کا تنزل کر دیا اور آخر اسے ریٹائر ہو کر واپس جانا پڑا۔وہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے ایک ہندوستانی کے مقابل پر ایک انگریز افسر کو سزا دی۔پھر اسی صوبہ میں سر جیفری ڈی مونٹ مورنسی جیسے انسان بھی گزرے ہیں ۔آج بھی یہ لوگ ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔مسٹر تھامسن چیف کمشنر دہلی کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ ہم نے انہیں کوئی پیغام بھیجا ہو اور انہوں نے فوراً خنداں پیشانی سے ہمارا کام نہ کر دیا ہو۔ حالانکہ بعض اوقات ان کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔ پھر اسی ضلع میں منصف افسر رہے ہیں۔ (اخبار) ’’مباہلہ‘‘ والوں کی شورش کے ایام میں بھی انگریز ڈپٹی کمشنر تھے جو اچھی طرح انصاف کرتے رہے۔ان سے پہلے یہاں ایک ڈپٹی کمشنر مسٹر واٹسن گزرے ہیں۔میں جب انگلستان گیا تو وہ لندن میں مجھ سے ملنے آئے،حالانکہ وہ کہیں باہر رہتے تھے۔میں سر ہادل کا نام پہلے لے چکا ہوں۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ وہ اول درجہ کے نیک اور شریف افسر تھے۔میرے ساتھ ان کو جیسی عقیدت تھی،وہ اس سے ظاہر ہے کہ میرے ایک عزیز کے خلاف ان کے انگریز افسر نے بالا افسروں کے پاس شکایت کی۔مجھے پہلے تو علم نہ ہوا مگر جب علم ہوا تو میں نے سر ہادل کو کہلا بھیجا کہ درست واقعات یوں ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا تعلق تو نہیں لیکن میں کوشش کروں گا۔اس کے متعلق انہوں نے اس صیغہ کے افسر کو جو چٹھی لکھی،اس کی ایک نقل مجھے بھی مل گئی۔انہوں نے اس میں لکھا کہ شکایت کرنے والا انگریز ہے مگر مجھے جماعت احمدیہ کے امام کی طرف سے ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ واقعات یوں ہیں اور اگرچہ واقعات ان کے چشم دید نہیں لیکن مجھے ان پر اس قدر یقین ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کوئی بات بغیر تصدیق کے پیش نہیں کر سکتے۔اس لیے ان کی بات ضرور سچی ہے۔پس آپ اس معاملے کی بذاتِ خود تحقیق کرلیں۔صرف رپورٹ پر انحصار نہ کریں‘‘۔(خطبات ِ محمود: 16/453) یاد رہے کہ جس سر مائیکل ایڈوائر نے ایک ہندوستانی (مرزا محمود)کے مقابلے میں ایک انگریز افسر کو سزا دی اور جس کی مدح میں بانی جماعت احمدیہ کا جانشین رطب اللسان ہے،وہ ہندوستانیوں کا اتنا بڑا ’’ خیر خواہ‘‘ تھا کہ اس کے اشارے پر جنرل ڈائر نے 13 اپریل 1919 عیسوی کو جلیانوالہ باغ امرتسر میں سینکڑوں ہزاروں بے گناہ ہندوستانیوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔
یہ ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ جماعت ِ احمدیہ پر اول روز سے ہی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ انگریز کی پٹھو جماعت ہے۔اس سلسلے میں پہلی لنکا تو گھر کے ایک بھیدی نے یہ کہہ کر ڈھائی کہ جماعتِ احمدیہ کو انگریز سرکار نے برصغیر کی آزادی پسند تحریکوں پر نظر رکھنے کی ڈیوٹی سونپ رکھی ہے۔یہ الزام قادیانی جماعت کے لاہوری گروپ کے ترجمان اخبار ’’پیغام صلح‘‘ لاہور نے لگایا تھا جسے ایک شرمناک الزام قرار دیتے ہوئے ’’الفضل‘‘ نے بھی شائع کیا۔ ’’الفضل‘‘ قادیان نے اپنی 22جولائی 1930عیسوی کی اشاعت میں لکھا:
’’پیغام صلح نے جماعت احمدیہ پر یہ شرمناک الزام لگایا تھا کہ وہ کارِ خاص پر متعین ہے اور اس کے ثبوت میں ناظر صاحب امور خارجہ قادیان کی ایک چٹھی کا اقتباس شائع کیا تھا جو انہوں نے بیرونی جماعتوں کو ارسال کی تھی۔اس چٹھی کے خاص فقرا ت یہ ہیں۔اپنے علاقہ کی سیاسی تحریکات سے پوری طرح واقف رہنا چاہیے اور کانگرس کے اثر کے بڑھنے اور گھٹنے سے مرکز کو اطلاع دیتے رہیں۔اگر کوئی سرکاری افسر سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتا ہو یا کانگرسی خیالات رکھتا ہو تو اس کا بھی خیال رکھیں اور یہاں (قادیان)اطلاع دیں‘‘۔
ممکن ہے کہ جماعتِ احمدیہ (مرزا محمود گروپ)کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے حلقے متذکرہ بالا اقتباس پڑھ کر کہیں کہ اس میں کون سی نئی بات ہے۔لوگ اپنے مخالفین پر ایسے الزامات لگاتے ہی رہتے ہیں۔لیکن اگر یہی لنکا مرزا محمود خود اپنی زبانی ڈھائیں تو کیسا رہے گا۔لیجئے! اسی سلسلے میں مرزا محمود کے خطبات میں سے دو اقتباس حاضر ہیں:
’’ہماری جماعت وہ جماعت ہے جسے شروع سے ہی لوگ یہ کہتے چلے آئے کہ یہ خوشامدی اور گورنمنٹ کی پٹھو ہے۔بعض لوگ ہم پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے جاسوس ہیں۔پنجابی محاورہ کے مطابق ہمیں جھولی چک اور نئے ’’زمینداری‘‘محاورہ کے مطابق ہمیں ٹوڈی کہا جاتا ہے‘‘۔(خطباتِ محمود:314/15)
’’دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے۔چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جو انگریزوں کی ایجنٹ ہے‘‘۔(خطباتِ محمود:310/15)
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ عالمی استعماری قوتیں اپنے خدمتگاروں اور ٹاؤٹوں کی خدمات کو کبھی نہیں بھُولتیں، اور پھر جو پودا اپنے ہاتھوں سے لگایا ہوا ہو،اس کی حفاظت کرنا فرض اولین سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ ہو یا امریکہ،یہودی لابی ہو یا یورپی یونین،ان کا دستِ شفقت ہمیشہ جماعتِ احمدیہ کے سر پر رہتا ہے۔دیگر خدمات کے علاوہ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے جس کا ذکر عشروں پہلے خواجہ حسن نظامی ؒ نے اپنے اخبار ’’منادی‘‘ میں کیا تھا۔ ’’الفضل‘‘ قادیان اپنی 20مئی 1930عیسوی کی اشاعت میں خواجہ صاحب کے مضمون کا اقتباس نقل کرتا ہے:
’’جناب خواجہ (حسن نظامی) صاحب اپنے روزنامچہ مندرجہ ’’منادی‘‘ مورخہ 4اپریل کے صفحہ 18پر تحریر فرماتے ہیں:چند قادیانی اصحاب ملنے آئے۔ میں نے پوچھا آپ لوگ غیر قادیانیوں سے رشتہ داری کیوں نہیں کرتے اور ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے۔انہوں نے کہا اس لیے کہ غیر قادیانی لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں۔میں نے کہا میں قادیانیوں کو کافر نہیں کہتا بلکہ ان کے تبلیغی کاموں کی بہت تعریف کرتا ہوں تو کیا آپ میرے پیچھے نماز پڑھ لیں گے۔انہوں نے انکار کیا میں نے کہا یہی دو چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے میرے دل پر یہ اثر ہوتا ہے کہ قادیانی فرقہ مسلمانوں کی اخوت میں تفریق پیدا کرنے والا ہے اور جو شخص مسلمانوں کی تفریق کا باعث ہو میں اس کو سیاسی اور مذہبی مجرم سمجھتا ہوں‘‘۔
کیا اب بھی یہ سمجھنا مشکل ہے کہ چناب نگر کے ایک معمولی کتب فروش کی سزائے قید معاف کرانے کے بعد اسے جیل سے نکلوا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بارگاہ میں کیسے اور کیونکر پہنچایا گیا۔اس لیے کہ مسلم امہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر اول روز سے باطل قوتوں کی آنکھ کا تارہ ہیں۔آج بھی مسلم امہ کو ترکِ جہاد کی تلقین کرنے والے اور قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سعی میں مصروف نام نہاد ’’دانشوروں‘‘ اور ’’علمائے دین‘‘ کو عالمی استعماری قوتیں سر آنکھوں پہ بٹھاتی ہیں۔علاوہ ازیں شکور چشمے والے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے روبرو جس طرح اپنی مظلومیت کا رونا رویا،یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس بڑے میاں نے تو محض اپنے ’’باوا‘‘ کی سنت زندہ کی ہے کہ مشکل وقت میں بانی جماعت ِ احمدیہ بھی اپنے غیر ملکی آقائے ولی نعمت کے روبرو ایسے ہی اپنی فریاد پیش کیا کرتے تھے۔نمونہ کے طور پر ان کی ایک ’’عرضی‘‘ملاحظہ فرمائیں:
’’اب میں اس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں۔صرف ایک رنج اور دردو غم ہر وقت مجھے لاحق حال ہے جس کا استغاثہ پیش کرنے کے لیے اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس ملک کے مولوی مسلمان اور ان کی جماعتوں کے لوگ حد سے زیادہ مجھے ستاتے اور دکھ دیتے ہیں۔میرے قتل کے لیے ان لوگوں نے فتوے دئیے ہیں۔مجھے کافر اور بے ایمان ٹھہرایا ہے اور بعض ان میں سے حیا اورشرم کو تر ک کرکے اس قسم کے اشتہار میرے مقابل پر شائع کرتے ہیں کہ یہ شخص اس وجہ سے بھی کافر ہے کہ اس نے سلطنت ِ انگریزی کو سلطنت روم پر ترجیح دی ہے اور ہمیشہ سلطنت انگریزی کی تعریف کرتا ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات:3/143)۔مسلمانوں اور قادیانیوں میں یہی بنیادی فرق ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ کے امتی پر کوئی مشکل وقت آئے تو وہ بارگاہِ رالہٰی میں فریاد کرتا ہے۔قادیانی جماعت پر کوئی مشکل گھڑی آئے تو وہ بارگاہ ِ استعمار میں فریاد کرتی ہے۔ ایک کی آنکھوں کا سُرمہ خاک ِ مدینہ و نجف اور دوسری کا مرکز ِ نگاہ تل ابیب و واشنگٹن ہیں۔
اگرچہ تحریک ختم نبوت 1974کی تاریخی کامیابی کے بعد سے ہی عالمی استعماری قوتیں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم اور قانون توہین رسالت کے خاتمے کے لیے مسلسل سازشوں میں مصروف رہتی ہیں،لیکن چند مذہبی بہروپیوں کے ذریعے نواز شریف کے خلاف ختم نبوت کے مسئلے کو ہوا دے کر 2018 کا جنرل الیکشن چرانے والی تحریک انصاف کے دور میں یہ سازشیں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ عامر لیاقت حسین اور شیخ رشید جیسے ’’محافظانِ ختم نبوت‘‘ بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے سابق رکن پارلیمنٹ محترم حافظ حسین احمد صاحب نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں جب بھی سیاسی سطح پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہو تو جماعتِ احمدیہ کی سرپرست عالمی استعماری قوتیں قانون توہینِ رسالت اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کے خلاف سرگرم ہو جاتی ہیں کیونکہ ایسے حالات میں کمزور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت اور مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کی خواہش مند سیاسی قوتوں سے سودے بازی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
چھ سات ماہ پہلے ایک سینئر رکن پارلیمنٹ نے ہمیں آف دی ریکارڈ بتایا کہ پی ٹی آئی کو اقتدار تو سونپ دیا گیا لیکن وہ قومی اسمبلی میں اتنی اکثریت حاصل نہیں کر سکی جس کے ذریعے اپنی مرضی کی قانون سازی کرسکے،لہٰذا واقفانِ حال امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ اگلے چند مہینوں کے دوران اپوزیشن جماعتوں کی صف اول کی قیادت کو مختلف الزامات کے تحت حوالہِ زنداں کرکے 2019کے اواخر تک مڈٹرم الیکشن کرایا جائے گا تاکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے اور پھر اپنی من مرضی کی قانون سازی کی جائے۔اُس وقت تو ہم نییہ سوچ کر اس بات پر زیادہ توجہ نہ دی کہ یہ اپوزیشن کے ایک رکن پارلیمنٹ کا محض حکومت مخالف پروپیگنڈا بھی ہو سکتا ہے۔لیکن جب سے رانا ثنااﷲ کو منشیات فروشی کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا، جب کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دیگر کئی بڑے رہنماوں کے گرد بھی نیب گھیرا تنگ کر رہا ہے، علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمان کو بھی نیب کی طرف سے عنقریب طلب کیے جانے کا امکان ہے،تب سے مذکورہ بالا گفتگو ہمیں بہت یاد آرہی ہے۔ اور اب جب سے وزیر اعظم امریکہ کا دورہ کرکے آئے ہیں اور وہاں ان کے پہنچنے سے پہلے ہی شکور چشمے والے کا ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس پہنچ جانا، امریکہ میں عمران خان کی پذیرائی کے لیے منعقد کیا گیا بڑا جلسہ جس کے متعلق خلقِ خدا کہہ رہی ہے کہ اس کا انتظام جماعتِ احمدیہ نے کیا تھا، یہ سب باتیں کسی بڑی انہونی کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ایوان ِ اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والے واقفانِ حال کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والوں کے لیے الیکشن لڑنے کی پابندی ختم کرنے کی تجویز بھی اسی لیے زیرغور ہے تاکہ جماعت احمدیہ کے وفادار وں کوفائدہ پہنچ سکے۔ یہ وہ امکانات ہیں جن پر باخبر محبِ وطن حلقوں کو سخت تشویش ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ 1970 کے عام انتخابات میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جماعت پیپلز پارٹی پر جماعتِ احمدیہ نے خاصی سرمایہ کاری کی تھی تاکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کریں۔ ’’قادیان سے اسرائیل تک‘‘ نامی کتاب کے مولف نے روزنامہ ندائے ملت لاہور بابت 29 دسمبر 1970 کے حوالے سے لکھا ہے: ’’1970 کے عام انتخابات میں قادیانیوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرکے ان کی مالی اور افرادی مدد کی۔ انہوں نے اس پارٹی کو تمام قادیانیوں کے ووٹ دلوائے‘‘۔ (صفحہ:223) لیکن ربِ کائنات نے جماعتِ احمدیہ کے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے لیے اسی شہید بھٹو کا انتخاب فرمایا اور بے شک وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ اِ س بار بھی جماعتِ احمدیہ کی سرپرست استعماری قوتوں کی سازشیں انشااﷲ ناکام ہوں گی،البتہ قادیانیوں کے سہولت کار بننے والے پاکستانی اربابِ اقتدار کو اپنے انجام کی ضرور فکر کرنی چاہیے۔ مرحوم جنرل حمید گل فرمایا کرتے تھے کہ تاریخ یہ بتاتی ہے اور میرا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ ناموسِ رسالت کے معاملے میں جس شخص سے کوئی جرم سرزد ہوا، یا جس شخص نے توہینِ رسالت کے مجرم کا ساتھ دیا، یا پھر اس معاملے میں غفلت برتی،وہ شخص مرنے سے پہلے رسوا ضرور ہو گا۔