قسط: ۱۲
چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
ہماری کمزوریاں:
میرے مزاج کا عجب عالم ہے کہ حسن پرست کی طرح بے باک، پرتپاک اور عوام میں محبوب اور شرمسار ہوں، تاہم دوست اور دشمن کو نگاہ میں چھانتا ہوں اور ان کے عیب و ثواب کو جانتا ہوں۔ میری نکتہ چینی موجب دل شکنی نہ ہو تو بتاؤں کہ طلب صادق تھی۔ جیل کو کھیل سمجھ کر اندر آنا آسان ہے، بہادروں کی طرح خود داری سے بسر اوقات کرنا مشکل ہے۔ اگر باہر حکام کے سامنے گردن فرازی کا ثبوت دے کر جیل میں سرفگندہ ہونا ہو تو اس شوق قید و بند سے گھر کا آرام ملک کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ان خیالات پراگندہ کو منضبط کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ ہمیں کمزوریوں کا صاف اظہار کر کے آئندہ محتاط رہنا چاہیے۔ تاکہ دشمن کی نظر میں ذلیل و حقیر نہ ہوں۔ سیاسی قیدیوں کے عزم صمیم کی تفصیل تو عرض ہو چکی ہے، اب ان کے قلب عمیم کا ذکر خیر کرتا ہوں۔
ملک کی خاطر گھر کی راحت جب جیل کی مصیبت کے عوض فروخت کر دی تو کسی چشم کرم کا کوئی منتظر کیوں نہ ہو۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ بعض احباب کی ضروریات اور خواہشات ان کی غیرت قومی سے کہیں زیادہ تھیں۔ اس لیے حکام جیل کی خوشنودی مزاج کو اسی طرح حاصل کرتے تھے، جس طرح باہر کے خوشامد پسند، بعض کو بھوک جیل کی مجوزہ خوراک سے زیادہ تھی۔ انھیں جیل کی آنکھ سے شرمانا اور لانگری قیدی سے گڑگڑانا پڑتا۔ تب کہیں دو کی بجائے تین روٹیاں ملتیں۔ ہر وقت یہی ڈر کھاتا کہ کہیں کوئی ملازم ناراض نہ ہو جائے۔ کچھ لوگوں کو بازاری چیزوں کا چسکا ایسا تھا کہ مزیدار چیز نہ ملنے سے منہ تو کیا زندگی کا مزا پھیکا ہو جاتا تھا۔ بعض بتیس دانت کی چکی ہر وقت چلانے کے عادی تھے، وہ خوشامد سے باہر کی اشیاء منگواتے، دربان کی منتیں کر کے اندر لاتے۔ تلاشی کے خوف سے جمعدار داروغہ کی بات بات پر ہاں سے ہاں ملاتے۔ وہ ذرا مسکراتے ہیں، تو یہ بھی دانت نکال دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے دیدہ دلیر ہوتے ہیں کہ جب تک چیز پاس پڑی رہے اور تلاشی کا خوف دامن گیر ہے، تب تک کان دبائے بیٹھے رہتے ہیں، جب حلق سے نیچے اتری تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور خوامخواہ ملازمین سے الجھتے۔ جب کھانے کی مرض کا دورہ ہوتا تو گربہ مسکین بن کر الو سیدھا کرنا چاہتے، اس دو رنگی سے ہمارے وقار کو بہت صدمہ پہنچتا تھا۔ جب روٹی کے ساتھ سالن تقسیم ہوتا تو بعض بھوکی طبیعت کے ایسے عجز کی صورت بنا کر لب ڈھیلے کر کے اپنے حق سے زیادہ مانگتے کہ پاس کھڑے بیٹھے کو شرم آتی، جب دَلیا، لایا جاتا تو جو بیمار کمزور نہیں، وہ بھی اٹھ اٹھ کر دوڑتے، اندر آنے سے پہلے ہی ٹوٹھا خیرات کے لیے بڑھاتے ہیں۔ محبت کا ہوا تو تھوڑا بہت دوسروں کا پیٹ کاٹ کر شرم شرماتے قیدی نے دے دیا۔ ورنہ اکثر شرمندہ کرتے ہیں کہ تم بھی ناحق لیڈر کہلاتے ہو۔ مگر ان کی ڈھٹائی کی یہ کیفیت ہے کہ دوسرے دن پھر دلیا کے انتظار میں ’’باٹی‘‘ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں، سالن اور چنے کے لیے اور ڈال اور ڈال کا تقاضا عام ہے۔ یہ چھوٹا سا اصرار تو بڑے بڑے بھی بے تکلف کر دیتے ہیں۔ لیڈر کے متبرک اور پُرعظمت نام کو جس طرح جیل میں بدنام کیا جاتا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے، کیونکہ قیدی ہر چھوٹے بڑے سیاسی قیدی کو لیڈر کہہ کر پکارتے ہیں۔ حالانکہ ہم خود گم کردہ رہبری کند کے مصداق بن رہے ہیں۔
جن کی جیب خرید اشیاء منگوانے کی متحمل نہیں ہوتی، وہ بھلے چنگے بیمار بن کر ہسپتال داخل ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ بایں ہمہ امید کہ ڈبل روٹی اڑائیں گے، یا دودھ چاول کھائیں گے۔ مگر ڈاکٹر ان کی اصل مرض کو پاتا ہے اور کسٹر آئل پلاتا ہے۔ پانی میں ساگودانہ پکا کر کھلاتا ہے۔ روزے بخشوانے جاتے ہیں، نمازیں گلے ڈلواتے ہیں۔ اسہال سے جان نڈھال ہوتی ہے، جھوٹ کا سچ ہو جاتا ہے، ڈاکٹر تنگ کرنے کے لیے کہتا ہے کہ ایک ماہ متواتر تمھیں زیر علاج رہنا پڑے گا۔وہ وقتوں پر آجاتا ہے کہ چھوڑو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا ہے۔ غرض اب ڈاکٹر بیماری پر اصرار کرتا ہے اور قیدی بیمار ہونے سے انکار کرتا ہے۔ آخر ناک رگڑ کر ہسپتال سے نکلتا ہے۔
سگریٹ نوشی:
واعظ کا خرابات سے خراب حال ہو کر نکلنا ایک شاعرانہ خیال تصور ہوتا تھا، مگر جیل نے اس خیال کو حقیقت کا جامہ پہنایا۔ وہ جو نشوں کی مذمت بیان کرتے اور شراب کی دکان پر پہرہ دینے کے جرم میں ماخوذ ہوئے تھے، یہاں سگریٹ نوشی کے جرم میں متواتر سزا پاتے ہیں۔ جیل میں اکثر اوقات نگرانی ایسی سخت ہو جاتی ہے کہ کوئی ملازم اشیاء اندر لانے کی جرأت نہیں کرتا۔ ان دنوں ان جیل جاتریوں کی بدحالی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ چہرہ ڈراؤنا اور طبیعت بے چین ہو جاتی ہے۔ ہر ایک قیدی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ ایک سگریٹ دلاؤ۔ یا یہ نہیں تو دو دوم ہی لگوا ؤ۔ جب جواب نفی میں پاتے ہیں تو اور گھبراتے ہیں۔ بچے کھچے سگریٹ کے ٹکڑیں کے لیے کونے کونے میں ٹکریں مارتے ہیں۔ کوڑے کرکٹ میں ٹٹولتے ہیں کہ شاید کہیں گرا پڑا یا کوئی جلا بجھا سگریٹ مل جائے، تو جان میں جان آئے۔ اس وقت بھنگی مشکل کشائی کرتا ہے۔ وہ ایسے آڑے وقت کے لیے سگریٹ پاخانہ کے پتھروں کے نیچے یا اینٹوں میں مٹی کے ڈھیر میں دبا رکھتا ہے۔ دو آنہ کے دو دو بیچتا ہے۔ حالانکہ یہ پیسہ کے چار چار بکتے تھے، مگر قیدی اس گرانی کو ارزانی سمجھ کر سجدہ شکر ادا کرتا ہے۔ بڑی شان سے منہ اونچا کر کے دھواں چھوڑتا ہے۔
جیل میں لواطت کی عادت ہے، بچے بازی تو ہوئی، باریش بابا ہم بازی کی نوبت سننے میں آئی ہے۔ دس دس برس کے قیدی جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے یہ بدکاری کرتے ہیں۔ جو اس سیاہ کاری پر قدرت نہیں پاتے، وہ دستکاری کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس قسم کے شبہات ہمارے سیاسی قیدیوں پر بھی ہوئے، مگر شرافت و تہذیب اس کی تفصیل کی متحمل نہیں اور مصلحت دقت زبان پکڑتی ہے۔
جہاں ادنیٰ اخلاق کے آدمی ہمارے اندر موجود تھے۔ وہاں ایسے نیک بھی تھے۔ جن کے دامن پر فرشتے نمازیں پڑھیں۔ اس لیے دل برداشتہ ہونے کی کوئی بات نہ تھی، تمام تحریکوں میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ مسجد مندر میں بعض خدا کی عبادت کے لیے آتے اور بعض آ کر جوتے چراتے ہیں۔ مومن کے ساتھ منافق۔ گل کے ساتھ خارکا ہونا بھی ضرور ہے۔
قیدی کی عید:
جب ماہِ رمضان جیل میں مسلمانوں نے شَکر سے مِسّی کھا کر اور صبر کا ٹھنڈا گھونٹ پی کر گزارا، تو اسیری میں عید بھی آئی۔ ہلال کو دیکھ کر حسرتیں خون ہو گئیں۔ صبح عید پر شام غربت سے زیادہ اداسی چھائی۔ پانی کی بجائے پسینہ سے نہا کر خدمت ایمان میں خلعت جیل پہن پہنا کر اور حب وطن کی خوشبو لگا کر تیار ہوئے۔ سَوَیّوں کی بجائے چنے چبائے، مجبوری نے بڑھ کر صدقہ اتارا۔ ہم سب آہستہ آہستہ تکبیر کہتے ہوئے کارخانہ میں داخل ہوئے۔ اکثر کے گلے میں ہسلیاں بعض کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھی۔ آج جو بے کسی میں سرسجدے میں گئے، روٹھے معبود کو منا کر اٹھے۔ سمرنا کی فتح یونان کی شکست تقدیر ہوئی، دوگانہ ادا کر کے واپس بارک میں آئے اور میر غلام بھیک نیرنگ نے اس عید کو یوں موزوں کیا ہے۔ مورخہ ۳ جون ۱۹۲۲ء اخبار زمیندار میں شائع ہوا:
تہنیت عید اسیران زندان انبالہ کو
اے اسیرانِ جفا عید مبارک تم کو بادۂ نوش بلا! عید مبارک تم کو
حق ماہ رمضان بے سروسامانی میں کر دیا تم نے ادا عید مبارک تم کو
وقت افطار و سحر کھا کے چنے کی روٹی صبر اور شکر کیا عید مبارک تم کو
اگر افطار میسر تو سحر غائب ہے کبھی ایسا بھی ہوا عید مبارک تم کو
گرم پانی کی بھی قلت رہی ٹھنڈا تو کہاں اس پہ یہ شان رضا عید مبارک تم کو
یہ تپش جیٹھ کی اور کوٹھڑیاں بند رہیں شب کو در تک نہ کھلا عید مبارک تم کو
ساز و ساماں نہ سہی! دیار عزیزاں نہ سہی تم سے راضی ہے خدا عید مبارک تم کو
کون قاصد بنے مہجور کا! تو ہی جا کر کہہ دے اے باد صبا! عید مبارک تم کو
مر مٹے دین کی الفت میں کہ تم ہی ہو مرد تم ہو ملت پہ فدا عید مبارک تم کو
تم نے خوداری و ایماں کو نہ چھوڑا تم ہو پیکر صدق و صفا عید مبارک تم کو
ناز ہے تم پر وطن کو کہ تمھارے دم سے زندہ ہے رسم وفا! عید مبارک تم کو
بن پڑا کچھ بھی نہ نیرنگ سے ناکاروں سے تم نے تو کام کیا! عید مبارک
مراجعت:
عید کی خوشی میں روٹی میں ریت اتنی زیادہ تھی کہ دانت سے دانت نہ لگتا تھا۔ سب کی یہی صلاح تھی کہ صاحب سپرنٹنڈنٹ کی توجہ دلائی جائے۔ اگلے روز باادب ان سے گزارش کی گئی۔ اس وقت تو کسی غصہ کا اظہار نہ ہوا۔ شام کو سپرنٹنڈنٹ بھبوکا بن کر آئے۔ روٹی منگوا کر مجھے کھانے کو کہا اور خود بھی کھانے لگے۔ ریت کی آمیزش کا مجھے اب بھی اصرار اور میجر چارٹر کو انکار تھا۔ اتنے میں ڈاکٹر صاحب بولے کہ تمھارے اصرار کے یہ معنی ہوئے کہ صاحب بہادر جھوٹ بولتے ہیں، پھر کیا تھا صاحب بہادر کو کپکپی چڑھ گئی۔ غصہ میں بھرا کر چلے گئے۔ صبح آئے مجھے بلایا۔ بقیہ مدت قید کے لیے قید تنہائی کا حکم سنایا۔ میں اس وقت بالکل خاموش تھا کیونکہ مجھے افسوس تھا کہ ایسا شریف شخص بھی مجھ سے ناراض ہوا۔
میری سزا کے اگلے ہی روز انھوں نے میری صداقت کو تسلیم کر کے تمام پکی پکائی روٹیاں یہ کہہ کر پھنکوا دیں کہ واقعی اس آٹے میں ریت ہے اور بالکل ناقابل خوردنی ہیں اور خود ہی مجھے آ کر بتایا کہ آپ برسر حق تھے۔ میں نے اس روز سجدہ شکر ادا کیا کہ شرم رہی جھوٹ کی تہمت سے بچے۔
کوٹھڑی میں دوبارہ واپسی پر بندش اور نگرانی زیادہ بڑھ گئی۔ اس میں چیف وارڈر کا زیادہ ہاتھ تھا۔ داروغہ اور سپرنٹنڈنٹ کو کانوں کان خبر نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے معہ دوسرے ساتھیوں کے چیف وارڈر مذکورہ کو مار پیٹ سے باز رکھنے کی جرأت کی تھی۔ ایک دن سپرنٹنڈنٹ داروغہ دونوں آئے کہ ضابطہ کی بندش کے علاوہ آپ کی سختی کے متعلق اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے۔ آپ کو کیا تکلیف ہے، میں نے کچھ جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ چیف وارڈر کھڑا خوف سے سن رہا تھا۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ سپرنٹنڈنٹ شاید معاملہ کو سمجھ گیا۔ یہ پابندی کم ہو گی، پھر وارڈر مجھ سے ڈر ڈر کر بات کرتا رہا۔ میجر چارٹر مجھے بارک میں پھر لے جانا چاہتا تھا کہ کس منہ سے کہوں کہ بارک چلو۔
تنہائی میں کیسے گزری:
اس کوٹھڑی میں جہاں ماہ ضیا پاش کی نورانی کرنیں اکثر مداخلت سے محروم تھیں۔ افسران جیل کا شکار ہو کر پورے پانچ ماہ کاٹنے پڑے۔ چاند جب چاندنی کی چادر روئے زمین پر ڈالتا تو بے اختیار باہر نکل کر نگاہ شوق سے حسنِ کائنات کو دیکھنے کو جی چاہتا، مگر ہوا بن کر کس طرح سلاخوں سے نکل جاتا۔ وہاں آسمان کے ایک گوشہ کوٹھڑی کے مختصر صحن کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ کوٹھڑی کی اونچی دیواریں خواہشِ نظارہ کو مسترد کر دیتیں۔ کئی قسم کے درخت میری کوٹھڑی کے آگے تھے۔ شبنم ان کے پتوں پر پڑتی تو چاندنی میں ایسی رو پہلی جھلک مارتے کہ جنت الفردوس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھچ جاتا۔ سخت گرمی کا موسم اور کوٹھڑی میں بسر اوقات کے تصور سے بدن کانپ اٹھتا ہے۔ مگر میں اسی طرح خارستان کو گلستان بناتا رہا۔ خوش فکری سے فکر کو پاس نہ آنے دیتا۔ جیل کے نزدیک سڑک تھی۔ شب کی مہر خاموشی کو راہگیروں کی آپس میں بلند باتیں توڑا کرتیں۔ رات ۱۱ بجے اکثر ایک چرواہا بھینسوں کو چرتا چھوڑ کر جیل کے قریب آ کر بنسری بجا بجا کر اپنا دل بہلاتا، ’’شام بھی گھر شام نہ آئے‘‘ کا دل گداز نغمہ مجھ کو مبہوت و مدہوش بناتا اور میں پہروں دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا سنا کرتا۔
ہر رات جس وقت پہرہ بدلا کرتا تو نیا پہرہ دار تالے کو زور زور سے کھٹکھٹاتا اور بول جوان کہہ کر قیدی کو جگاتا۔ اس لیے رات کو کئی کئی بار جاگنا پڑتا۔ اوّل اوّل تو راتیں بار بار جگانے سے بے خوابی میں گزریں، پھر آہستہ آہستہ عادت ہو گئی۔ جاگ کر جلدی نیند آجایا کرتی۔ تاہم یہ رات کو بار بار جگانے کا رواج دن کی مشقت سے چور قیدی کی صحت پر نہایت برا اثر رکھتا ہے۔ بے خوابی ایک ایسی اذیت و تشدد ہے کہ پولیس بھی عام طور سے عمل میں لانے کی جرأت نہیں کرتی، مگر یہاں ہر رات کا معمول ہے۔ اس غیر معمولی رواج کی غالباً وجہ یہ ہے کہ اکثر قیدی جیل خانہ کی زندگی اور ملازمین کے تشدد سے تنگ آتے ہیں۔ فراری یاں جاں سپاری دونوں راہوں کے علاوہ تیسری راہ نہیں ہوتی کہ جان چھوٹے، بھاگنے کے موقعے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس لیے خود کشی کی اکثر کوشش کی جاتی ہے۔ صبح کو لاش پڑی پائی جاتی ہے۔ اس لیے پہرہ دار جگا جگا کر اطمینان کرتے ہیں کہ قیدی مردہ ہے یا زندہ۔
یہ پہرہ دار گرمیوں کی خوشگوار رات میں جوش و مسرت میں آ کر گاتے ہیں۔ ساری قید کی کلفت دور ہو جاتی ہے۔ رات کو جیل میں دو پہرے ہوتے ہیں۔ ایک قیدیوں کی کوٹھڑی اور بارکوں پر اور دوسرا جیل دیوار کے ساتھ۔ آخر الذکر پترہ والے کہلاتے ہیں، جو پیتل کے پترے ایک پہرہ دار سے لیتے دوسرے کو جا کر دیتے ہیں۔ رات بھر یہی دور رہتا ہے۔ اس انتظام سے کوئی پہرہ دار غافل نہیں ہوتا۔ جہاں کہیں سویا، پہرے کا تسلسل رک جاتا ہے اور غافل مارا جاتا ہے۔ اس سے رات کو نکل بھاگنے کا احتمال نہیں رہتا۔
ایک رات پہرہ بدلنے پر پہرہ دار نے مجھے جگایا، پھر رات دیر تک نیند نہ آئی۔ ایک پہرہ والے نے تاثیر میں ڈوبی ہوئی سُر میں گانا شروع کیا۔
نال رانجھن دے اکھاں میریاں لگ نے رہیاں
دوتی نہ دہرا دشمن ماپے میں ایہہ کس نوں دساں
نال جوگی دے اکھاں میریاں لگ نے رہیاں
کسے ویری مینوں آن سنایا، تیرے رانجھے دا پنڈ تتا
نال ماہی دے اکھاں میریاں لگ نے رہیاں
خیال نہایت سادہ تھا مگر بات دل کی گہرائیوں سے نکل رہی تھی۔ در و دیوار پر وجد طاری تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گانے والا ہمہ تن تاثیر تھا۔ اس کی روح میں عجیب تڑپ تھی اور وہ دوسروں کو بے تاب کر رہا تھا۔ مجھے اس شخص کے متعلق ایک عجیب واقعہ معلوم ہوا، جس کا بیان اس کتاب کے اغراض کے منافی ہے۔ مگر اب تک وہ وقت اور اس کا غصہ پتھر پر لکیر کی طرح میرے لوح دل پر تحریر ہے۔
(جاری ہے)