محمد عرفان الحق (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
آپؓ کا اسم گرامی ـ’’عمر‘‘، لقب ’’فاروق‘‘ اور کنیت ’’ابو حفص‘‘ ہے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کا نسب مبارک نویں پشت پر سیدنا محمدﷺ سے جاملتا ہے۔ آپؓ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔چونکہ نبی کریمﷺ سیدنا عمررضی اﷲ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے پر نبیﷺ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ: اﷲ ان کے سینہ سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کروانی ہو وہ آکر مجھے روک لے، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کے آپؓ کے مقابل آتا۔
ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ تمام غزوات میں رسول اﷲﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے با وجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا ،جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہو گئی۔غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ، مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرمﷺ کی وجہ سے سرِ تسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورت سنائی کیونکہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انہی کے لیے ہے۔ غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیرالمؤمنین عمر رضی اﷲ عنہ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی علیہ السلام نے اجازت کے ساتھ فرمایا: ’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا‘‘۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ: نبی ﷺ کے اس مبارک جملہ کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواج مطہراتؓ کے پردہ ، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت،تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی رائے، مشورہ اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 27 آیات قرآنیہ ایسی ہیں جو براہ راست فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی تائید میں نازل ہوئیں۔
جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ: میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر بر سرعام ٹوک دیا جائے۔ ’’امیرالمؤمنین‘‘ کا لفظ سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا،کیونکہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کو ’’خلیفۃالرسول‘‘کہہ کر پکارا جاتاتھا ۔آپ ؓاپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ اپنے دور خلافت میں اپنے بیٹے عبداﷲؓ بن عمرؓ کا وظیفہ3 ہزار مقرر کیا جبکہ حضرات ِحسنؓ و حسینؓ کا 5،5ہزار اور سیدنا اسامہؓ بن زیدؓ کا 4 ہزار وظیفہ مقرر کیا۔آپؓ نے 17ہجری میں سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمہؓ کی صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ سے نکاح فرمایا اور 40 ہزار درہم مہر ادا فرمایا۔
آپؓ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھاتھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازہ پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے، جس پر فاروق اعظمؓ نے سکوت فرمایا۔
اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1ہزار 36شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپ کے زمانہ میں 4ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقد س بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آ پ کے حوالہ کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔ انہی سیدنا عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ نے فتح مصر کے بعد ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ دریائے نیل ہر سال خشک ہو جاتا ہے اور لوگ ہر سال ایک خوب رو دوشیزہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو دریا میں پانی اتر آتا ہے۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے جواباً ایک خط تحریر فرماکر روانہ کیا کہ یہ خط دریاکی ریت میں دبا دیا جائے۔ جیسے ہی خط دبایا گیا تو دریائے نیل میں پانی چڑھ آیا بلکہ پہلے سے چھ گنا زیادہ پانی ہو گیا۔ آپ رضی اﷲ عنہ کے خط کا مضمون یہ تھا کہ اے دریا! اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو ہمیں تیری کوئی حاجت نہیں اور اگر تو اﷲ کی مرضی سے بہتا ہے تو بہتا رہ۔ کئی قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کیلئے سیدنا معاذ ؓبن جبل، سیدنا عبادہؓ بن صامت، سیدنا ابیؓ ابن کعب، سیدنا ابوالدرداءؓ، سیدنا سعدؓ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ وغیرہ جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی حیات مبارکہ پر اگر تفصیلاً تحریر کیا جائے تو انتہائی وقت و جگہ کی ضرورت ہے۔
نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ انتہائی معاملہ فہم، دانشمند، زیرک، ذہین اور دور اندیش و مصلحت بیں خلیفہ تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں انہی ارشادات میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔ اپنے تمام عمال کو یہ فرمان بھیجا ’’ میرے لیے تمہارے کاموں میں سب سے زیادہ اہتمام کے قابل بات، نماز ہے۔ جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے اپنا دین محفوظ کر لیا اور جس نے نماز کو ضائع کر دیا وہ دوسری چیزوں کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کر دے گا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ دعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے یہاں تک کہ نبیﷺ پر درود پڑھا جائے۔ فرمایا کہ سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے اور منہیات سے اجتناب کرے اور اﷲ کے ساتھ اپنی نیت درست رکھے۔ فرمایاکہ جو شخص اپنے کو مقام تہمت سے نہ بچائے وہ اپنی بدظنی کرنے والے کو ملامت نہ کرے۔ جو شخص اپنا راز پوشیدہ رکھے گا اس کا کام اسی کے اختیار میں رہے گا۔ ایک بار فرمایا کہ جب کسی عالم کو دیکھو کو دنیا سے محبت رکھتا ہے تو دین کی بات میں اس کا اعتبار نہ کرو۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو بیدار رہ کر گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات و واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔ امیرالمؤمنین عمررضی اﷲ عنہ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکمرانی و خلافت کی بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔ انہی گشت کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو کہ اپنے خیمہ کے باہر بیٹھا ہو ا تھا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفتگو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمہ کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِ زہ ہے۔ یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ سیدہ ام کلثومؓ بنت علیؓ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمہ میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمہ سے سیدہ ام کلثوم رضی اﷲ عنہا نے پکار کر کہا کہ امیرا لمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوشخبری دیں۔ اس اعرابی نے جو ’’امیرالمؤمنین‘‘ کا لفظ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے با ادب ہو گیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔ اسی طرح رات کو ایک گھر کے پاس سے گزرے تو اندر سے چند بچوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو وہاں موجود خاتون سے استفسار پر معلوم ہوا کہ بچے بھوکے ہیں اور گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، جبکہ خاتون نے خالی دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا رکھی ہے کہ بچے اسی طرح کھانا پکنے کا انتظار کرتے کرتے سو جائیں۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر ؓ یہ سن کر بہت آزردہ و رنجیدہ ہو کر رونے لگے اور الٹے پیروں بیت المال میں آکر وہاں سے کچھ آٹا، چربی، چھوہارے، کپڑے اور کچھ نقدی لی اور اپنے غلام اسلم سے فرمایا کہ یہ سب میرے پیٹھ پر لاد دے۔ اسلم کہنے لگے کہ امیرالمؤمنین میں لے چلوں گا مگر نہ مانے کہ روز قیامت تو پوچھ مجھ سے ہی ہونی ہے۔ الغرض سیدنا عمرؓ نے سب سامان اپنی پیٹھ پر لادا اور اس خاتون کے گھر جاپہنچے اور خود ہی دیگچی میں اشیاء خورد ڈال کر پکایا کہ آگ کا دھواں آپؓ کی ریش مبارک میں بھر گیا۔ کھانا تیار کر کے بچوں کو اپنے سامنے کھلوا کر کچھ دیر مزید وہیں رکے رہے کہ بچوں کو بھوک سے روتے دیکھا تو اب بھرے پیٹ کے ساتھ کھیلتے بھی دیکھ لیں۔
الغرض آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ غرضیکہ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27ذی الحجہ بروز بدھ ایرانی مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے نماز فجر ادائیگی کے دوران سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔ اور یکم محرم الحرام بروز اتوار اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعاء، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63سال کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔روضہ نبوی میں نبی مکرمﷺ اور خلیفۂ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی قبروں کے ساتھ سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی قبر مبارک بنائی گئی اور وہیں مدفون ہوئے۔اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے،آمین!